ہمارے ہاں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو چہرے کے پردے کا قائل نہیں ہے‘ اور ان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں نقاب کا کہیں ذکر نہیں ہے اور حج و عمرہ کے احرام میں عورت کا چہرہ کھلا رہتا ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ نقاب کا لفظ قرآن میں نہیں آیا‘ لیکن حدیث میں یہ لفظ موجود ہے. یہ روایت سنن ابی داؤد کی ہے جو صحاح ستہ میں شامل ہے. حدیث ملاحظہ کیجیے: 

جَاءَ تِ امْرَاَۃٌ اِلَی النَّبِیِّ یُقَالُ لَھَا اُمُّ خَلَّادٍ وَھِیَ مُنْتَقِبَۃٌ تَسْاَلُ عَنِ ابْنِھَا وَھُوَ مَقْتُوْلٌ‘ فَقَالَ لَھَا بَعْضُ (۱) مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اپنی لا جواب تالیف ’’پاکستانی عورت دو راہے پر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’غزوۂ خیبر کے سلسلے میں جب صحابہؓ میں یہ سوال پیدا ہوا کہ حضرت صفیہؓ کو آنحضرت  ایک لونڈی کی حیثیت سے رکھیں گے یا ایک منکوحہ بیوی کی حیثیت سے‘ تو اس بارے میں اس فیصلہ کن اصول کو سب نے تسلیم کیا کہ: ’’اگر ان کو وہ ؐ پردہ کرائیں تو سمجھنا چاہیے کہ وہ امہات المؤمنین میں سے ایک ہیں اور اگر پردہ نہ کرائیں تو ان کی حیثیت لونڈی کی ہو گی. تو جب آپنے کوچ کا ارادہ فرمایا تو اپنے پیچھے ان کے لیے بیٹھنے کا سامان کیا اور پردہ تانا‘‘. (صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب البناء فی السفر) مولانا موصوف نے اس حدیث کے جس متن کا حوالہ تحریر فرمایا ہے اس میں ’’مدَّ الحِجاب‘‘ کا لفظ آیا ہے. (مرتب) اَصْحَابِ النَّبِیِّ  جِئْتِ تَسْاَلِیْنَ عَنِ ابْنِکِ وَاَنْتِ مُنْتَقِبَۃٌ؟ فَقَالَتْ: اِنْ اُرْزَأَ ابْنِیْ فَلَنْ اُرْزَأَ حَیَائِیْ‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ  : اِبْنُکِ لَہٗ اَجْرُ شَھِیْدَیْنِ قَالَتْ: وَلِمَ ذَاکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ ؟ قَالَ: لِاَنَّـہٗ قَتَلَہٗ اَھْلُ الْکِتَابِ (۱

’’ایک خاتون‘ جس کا نام اُمّ خلاد تھا‘ نبی اکرم  کے پاس اپنے بیٹے کا‘ جو مقتول ہو چکا تھا‘ انجام دریافت کرنے آئیں اور وہ نقاب پہنے ہوئے تھیں. نبی اکرم  کے ایک صحابی ؓ نے (ان کی اس استقامت پر تعجب کرتے ہوئے) کہا: نقاب پہن کر آپ اپنے بیٹے کا حال دریافت کرنے آئی ہیں؟ انہوں نے اس کے جواب میں فرمایا: اگر میں نے اپنا بیٹا کھویا ہے تو اپنی حیا تو نہیں کھودی. اس کے بعدرسول اللہ نے ان کو تسلی دی کہ تمہارے بیٹے کو دو شہیدوں کا اجر ملے گا. انہوں نے پوچھا: ایسا کیوں ہو گا یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا: اس لیے کہ اس کو اہل کتاب نے قتل کیا ہے. ‘‘ 

اس حدیث میں وارد لفظ مُنْتَقِبَۃٌ کا مادّہ ’’نقب‘‘ ہے. اسی سے نقاب مصدر ہے. دیکھ لیجیے یہ لفظ حدیث میں موجود ہے اور یہ خاتون اس حال میں نقاب ڈالے ہوئے تھیں کہ ایسے سانحہ پر تو اچھے خاصے دین دار گھرانوں کی خواتین کو بھی غم واندوہ کی کیفیت میں حجاب کا خیال نہیں رہتا. یہ تو عموماً گریبان چاک کرنے اور سر پیٹنے کا موقع ہوتا ہے. اسی لیے ایک صحابی ؓ نے تعجب سے کہا تھا: جِئْتِ تَسْاَلِیْنَ عَنِ ابْنِکِ وَاَنْتِ مُنْتَقِبَۃٌ؟ اس مؤمنہ خاتون نے جو جواب دیا وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ اِنْ اُرْزَاَ ابْنِیْ فَلَنْ اُرْزَاَ حَیَائِیْ کہ اگر میرا بیٹا مرا ہے تو میری حیا تو نہیں مرگئی واقعہ اِفک کے سلسلے میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے جو طویل حدیث مروی ہے اس میں انہوں نے صراحت سے ذکر کیا ہے کہ جب وہ قافلے سے بچھڑ گئی تھیں اور اسی جگہ لیٹ گئی تھیں جہاں سے قافلے نے کوچ کیا تھا اور ان کی آنکھ لگ (۱) سنن ابی داوٗد، کتاب الجہاد، باب فضل قتال الروم علی غیرھم من الامم. گئی تھی تو اس حالت میں ان کے چہرے سے چادر کھسک گئی تھی اور صفوانؓ نے ان کو اس لیے پہچان لیا کہ انہوں نے قبل حجاب انہیں (حضرت عائشہؓ ، کو) دیکھا ہوا تھا. (۱

ان دونوں حدیثوں سے چہرے کے پردے کے بارے میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا. اس ضمن میں اگر کسی کے دل میں کوئی شک وشبہ ہے تو میں اس کو مخلصانہ مشورہ دوں گا کہ وہ اس کو اپنے دل ے نکال دے.