خواتین کا اِحرام اور چہرے کا پردہ

حج وعمرہ کے اِحرام میں عورت کا چہرہ کھلا ہونے سے جو دلیل پکڑی جاتی ہے اس کے بارے میں ایسے حضرات وخواتین کو ایک اصول جان لینا چاہیے کہ استثنائی حالات کے اَحکام کو کلیات پر منطبق نہیں کیا جا سکتا. احرام کی حالت میں چہرہ کھلا رکھنے کی ایک استثنائی اجازت یا چہرہ ڈھانپنے یا دستانے پہننے کی ممانعت حدیث میں وارد (۱) اس طویل حدیث کا متعلقہ متن اور ترجمہ یہ ہے:

فَبَیْنَا اَنَا جَالِسَۃٌ فِیْ مَنْزِلِیْ غَلَبَتْنِیْ عَیْنِیْ فَنِمْتُ ، وَکَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلَ السُّلَمِیَّ ثُمَّ الذَّکْوَانِیُّ مِنْ وَرَاءِ الْجَیْشِ ، فَاَصْبَحَ عِنْدَ مِنْزِلِیْ فَرَآی سَوَادَ اِنْسَانٍ نَائِمٍ ، فَعَرَفَنِیْ حِیْنَ رَآنِیْ ، وَکَانَ رَآنِیْ قَبْلَ الْحِجَابِ ، فَاسْتَیْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِہٖ حِیْنَ عَرَفَنِیْ فَخَمَّرْتُ وَجْھِیْ بِجِلْبَابِیْ. (صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک) 

’’اِسی اثنا میں کہ میں اپنی جگہ پر بیٹھی ہوئی تھی کہ میری آنکھیں بوجھل ہو گئیں اور میں سوگئی‘ اور صفوان بن معطل سلمی ذکوانی لشکر کے پیچھے تھے‘ وہ میری نشست کے پاس آئے تو ایک سوئے ہوئے انسان کو دیکھا تو انہوں نے مجھے پہچان لیا جب انہوں نے مجھے دیکھا‘ کیونکہ پردہ کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے. مجھے پہچاننے پر اُن کے اِنّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُون پڑھنے سے میں جاگ گئی اور اپنی چادر سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا.‘‘ (مرتب) ضرور ہوئی ہے (۱لیکن اس سے چہرے کے پردے کا بالکلیہ انکار کر دینا انتہائی غیر معقول طرزِ فکر ہے. حجاب کا حکم آنے کے بعد روز مرہ کی عادت کا اثر تو یہ تھا کہ دورِ رسالت میں خواتین غیر اختیاری طور پر بھی حالت ِاحرام میں چہرے کے پردے کا اہتمام کیا کرتی تھیں. چنانچہ حجۃ الوداع کے سفر کے متعلق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَا وَنَحْنُ مُحْرِمَاتٌ مَعَ رَسُوْلِ اللہِ  ‘ فَاِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ اِحْدَانَا جِلْبَابَھَا مِنْ رَاْسِھَا عَلٰی وَجْھِھَا‘ فَاِذَا جَاوَزُوْنَا رَفَعْنَاہُ (۲

’’قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے اور ہم رسول اللہ  کے ساتھ احرام باندھے ہوئے ہوتی تھیں. جب قافلے ہمارے سامنے آتے تو ہم بڑی چادر سر کی طرف سے چہرے پر لٹکا لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو ہم اس کو اٹھا دیتیں!‘‘ (ایک روایت میں آخری لفظ ’’کَشَفْنَاہُ ‘‘ آیا ہے.)
اس حدیث میں جو لفظ جلباب (بڑی چادر) آیا ہے اس کی تشریح وتوضیح اسی سورۃ کی آیت ۵۹ میں آپ کے سامنے آئے گی‘جس کا بیان میں اب شروع کر رہا ہوں.