جب گھر میں قرار پکڑنے کے اور حجاب کے احکام آ گئے اور عورت کا اصل (۱) اس ضمن میں کتب احادیث میں جو روایات آئی ہیں کہ آنحضور  نے عورتوں کو حالت ِ احرام میں چہرے پر نقاب ڈالنے اور دستانے پہننے سے منع فرمایا تھا تو ان کے الفاظ یہ ہیں: 

لَا تَنْقِبِ الْمَرْأَۃُ الْمُحْرِمَۃُ وَلَا تَلْبَسِ الْقُفَّازَیْنِ (صحیح البخاری، کتاب الحج، باب ما ینھی من الطیب للمحرم والمحرمۃ) وَنَھَی النِّسَاءَ فِیْ اِحْرَامِھِنَّ عَنِ الْقُفَّازَیْنِ وَالنِّقَابِ (سنن ابی داوٗد، کتاب المناسک، باب ما یلبس المحرم) . 
اس حدیث میں بھی لفظ نقاب موجود ہے.(مرتب) 
(۲) سنن ابی داوٗد، کتاب المناسک، باب فی المحرمۃ تغطی وجھھا. دائرۂ کار گھر متعین ہو گیا تو یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کسی تمدنی ضرورت سے گھر سے باہر نکلنا ہو تو کیا کیا جائے! یہ بڑا اہم اور بنیادی سوال ہے. اس کے حل کے لیے آیت ۵۹ میں احکام دیے جا رہے ہیں. فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۵۹﴾ 

’’اے نبیؐ ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں. یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں. اور اللہ غفور ورحیم ہے‘‘. (۲)

اس آیت میں نبی اکرم  سے خطاب کر کے بشمول ازواج وبنات النبی (صلی اللہ علیہ وسلم ورضی اللہ عنھن) تمام اہل ایمان کی خواتین کے لیے باہر نکلنے کی صورت میں حجاب (پردے) کے لیے واضح طور پر ہدایات دی جا رہی ہیں. یعنی اس سورۂ مبارکہ کی آیات ۳۲۳۳ میں نبی اکرم  کی ازواج ِمطہرات کو براہِ راست خطاب کر کے جو احکام دیے گئے تھے ان کے خصوص کو القرآن یفسّر بعضُہٗ بعضًا کے اصول کے مطابق عمومیت دے دی گئی اور اس طرح واضح کر دیا گیا کہ یہ احکام تمام مسلمان خواتین کے لیے ہیں.

اب یہاں ’’جلباب‘‘ کے لفظ کو اچھی طرح سمجھ لیجیے. عربی میں جِلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو پورے جسم کو ڈھانپ لے اور چھپا لے. ظہورِ اسلام سے قبل عرب کے اعلیٰ اور شریف خاندانوں کی خواتین عموماً جب باہر نکلتیں تو اس طرح کی چادر لپیٹ کر نکلتی تھیں. یہ جلباب شریف خاندانوں کی خواتین کے لباس کا جزو ایامِ جاہلیت میں بھی تھا. قرآن مجید میں اس میں یہ اضافہ کیا گیا کہ اس کا ایک حصہ بطورِ گھونگھٹ چہرے پر لٹکا لیا جایا کرے. اس طرح چہرے کا پردہ شروع ہوا‘جس کی تفصیل احادیث میں آئی ہے کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد ازواج ِمطہرات‘ (۲) اس آیت کی روسے ستر وحجاب کا اہتمام لازم و واجب ہو گیا. (مرتب) بنات النبیؐ اور تمام مؤمن خواتین باہر نکلتے وقت چادر کو اس طرح اوڑھا کرتی تھیں کہ پورا سر‘ پیشانی اور پورا چہرہ چھپ جاتا تھا‘ اور صرف آنکھیں کھلی رہ جاتی تھی. 

میں نے اس کی عملی تصویر خود دیکھی ہے. اسلامی شعائر کی پابند تمام ایرانی خواتین میں اس دور میں بھی یہ چیز بتمام وکمال موجود ہے. وہ ایک بڑی سی چادر اوڑھتی ہیں جو ان کے ٹخنوں تک آئی ہوتی ہے یا اس سے تھوڑی سی اونچی‘ جو اُن کے جسم کو پوری طرح ڈھانپے ہوئے ہوتی ہے. کیا مجال ہے کہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی نظر آ جائے. اور چہرے پر بھی وہ چادر کو اس طریقے سے پکڑتی ہیں کہ ایک آنکھ کھلی رہ جاتی ہے جس سے وہ راستہ دیکھ لیں‘ باقی سارا چہرہ پوشیدہ رہتا ہے. مجھے سعودی عرب کے دیہاتوں اور بدوی زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع بھی ملا ہے‘ وہاں میں نے دیکھا ہے کہ عرب بدوؤں کی خواتین اس حال میں ہیں کہ از سر تا پیر مستور‘ ہاتھ میں ڈنڈا لیے اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ چرا رہی ہیں. ہاتھوں میں دستانے اور پیروں میں موزے ہیں‘ صرف آنکھیں کھلی ہوئی ہیں (۱. میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح منشا ہے ان الفاظ کا :

یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ 

’’وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے چہروں پر لٹکا لیا کریں.‘‘
یہ ضرورت پڑنے پر گھر سے باہر نکلنے کے لیے پردے (حجاب) کا پہلا حکم ہوا. یہاں میں نے گھر سے نکلنے کے لیے ’’ضرورت‘‘ کی جو قید لگائی ہے وہ اپنی طرف سے نہیں لگائی‘ بلکہ اس کی پابندی رسول اللہ  نے لگائی ہے. 
(۱) اسی لفظ مستور سے (جو ستر سے بنا ہے‘ جس کے معنی کسی چیز کو چھپانے یا اوٹ میں کرنے کے ہیں) اردو میں خواتین کے لیے ’’مستورات‘‘ کا لفظ مستعمل ہے. غالباً یہ اصطلاح سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۴۵ ’’حِجَابًا مَّسۡتُوۡرًا ‘‘ سے اخذ کی گئی ہے جس میں حجاب کا لفظ بھی موجود ہے اور ستر کا بھی. لیکن ہماری جو بہنیں مغربی تہذیب سے مرعوب ہو کر ستر وحجاب کو خیر باد کہہ رہی ہیں ان کے لیے تو اب ’’مستورات‘‘ کی بجائے ’’مکشوفات‘‘ کا لفظ موزوں ترین ہو گا. (مرتب) چنانچہ صحیح بخاری میں روایت موجود ہے:

قَدْ اَذِنَ اللہُ لَکُنَّ اَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائِجِکُنَّ (۱
’’اللہ تعالیٰ نے تم (عورتوں) کو اجازت دی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لیے گھر سے نکل سکتی ہو.‘‘

ضرورت کا تعین اسلامی تعلیمات کے مجموعی مزاج کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے. ہوسکتا ہے کسی خاتون کے گھر میں کوئی کمائی کرنے والا مرد موجود نہ ہو. اس کا بھی امکان ہے کہ عیال داری اور قلت ِمعاش کی وجہ سے صرف مرد کی محنت ومزدوری گھر کی کفالت کے لیے کفایت نہ کرے‘ یا محافظ ِخاندان کی بیماری یا کسی معذوری کی وجہ سے عورت باہر کام کرنے کے لیے مجبور ہو جائے‘ تو شریعت نے اس کی گنجائش رکھی ہے‘ جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے جو ابھی میں نے آپ کو سنائی. لیکن باہر نکلنے کے لیے ان تمام پابندیوں کو ملحوظ رکھنا ہو گا جو شریعت نے عائد کی ہیں. ویسے ایک حقیقی اسلامی ریاست میں ایسی صورت حال میں ایسے خاندان کی پوری کفالت بیت المال کے ذمہ ہوتی ہے. لیکن اگر ملک کی معیشت اس بات کی مقتضی ہو کہ عورتیں بھی اس میں ہاتھ بٹائیں تو ریاست کی طرف سے ایسے اقدامات کیے جانے چاہئیں کہ گھروں پر ہی cottage industries کی طرز پر صنعت وحرفت کا نظام قائم ہو. بہت سے ترقی یافتہ ممالک بالخصوص جاپان اور سوئٹزر لینڈ میں یہ تجربہ کافی کامیاب رہا ہے. اگر عورت کو معاش کے لیے گھر سے نکلنا ہی پڑے تو وہ ستر وحجاب کے تمام اَحکام کی پابندی کرے. گھر سے باہر جلباب یا برقعے میں نکلے (۲اور ایسے اداروں میں کام کرے جہاں عورتیں ہی کارکن اور (۱) صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب خروج النساء لحوائجھن. 

(۲) جلباب ہی تمدنی ترقی کے ساتھ مختلف قسم کے برقعوں اور نقابوں کی شکل اختیار کر گئی ہے. برقع اگر واقعی ساتر ہو اور اسے فیشن کا جزو نہ بنا لیا جائے، وہ کسا ہوا نہ ہو اور جسم کے خدو خال کو نمایاں کرنے والا نہ ہو تو یہ جلباب کی ضرورت پوری کر سکتا ہے. (مرتب) منتظم ہوں. عورتوں کا مخلوط اداروں میں کام کرنے یا ٹی وی اور ریڈیو میں اناؤنسر‘ یااخبارات اور ٹی وی میں اشتہارات کا ماڈل‘ یا ایئر ہوسٹس بننے یا اسی نوع کے دوسرے ایسے پیشے اختیار کرنے کا معاملہ جن میں مردوں سے براہِ راست سابقہ آتا ہو اور وہ ان کے لیے فردوسِ نظر بنتی ہوں‘ از روئے اسلام مسلم خواتین کے لیے قطعی نا جائز بلکہ حرام کے درجے میں ہے. نبی اکرم  کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ:

اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ وَزِنَا ھُمَا النَّظْرُ (۱)
’’ آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا نظر ہے.‘‘ 

میں اپنے اندازے کے مطابق عرض کرتا ہوں کہ ان پیشوں سے متعلق خواتین میں حصولِ معاش کی مجبوری کم اور جذبہ نمائش زیادہ ہے. آپ خود غور کیجیے کہ ہماری جو بہنیں ان پیشوں سے متعلق ہیں ان میں سے اکثر کو اپنے گھروں کی نگہداشت‘ گھریلو کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ملازمین رکھنے پڑتے ہوں گے‘ پھر ان پیشوں کے تقاضوں کے پیش نظر ان کو میک اپ‘ بناؤ سنگھار اور مخصوص ملبوسات پر کافی خرچ کرنا ہوتا ہوگا. سواری کے لیے بھی اچھی خاصی رقم صرف ہوتی ہو گی. لہذا ان کی اپنی یافت میں سے ایک چوتھائی یا ایک تہائی سے زیادہ بچت بمشکل ہوتی ہو گی. اس متاعِ قلیل سے شاید اُن کو معمولی ریلیف ملتی ہو. میرے بھائی اور بہنیں ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ کیا یہ نفع کا سودا ہے یا سراسر خسارے کا! اس لیے کہ یہ طرزِ عمل اسلامی تعلیمات سے بغاوت اور اپنی عاقبت کی بربادی اور اپنے خاندان کی روایات‘ شرافت اور عزت سے سرکشی کا موجب ہے. اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے. میں پوری درد مندی سے اپنی ان بیٹیوں اور بہنوں سے التجا کروں گا کہ خدا را ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ وہ کیا پا رہی ہیں اور کیا کھو رہی ہیں !! البتہ لڑکیوں کے اسکولوں اور کالجوں میں درس وتدریس کے لیے ملازمت کرنے (۱) مسند احمد ‘ ح ۸۳۲۱میں کوئی مضائقہ نہیں ہے. یہ صرف پیشہ ہی نہیں قومی خدمت بھی ہے. اسی طرح صرف عورتوں کے علاج معالجہ کے لیے طب کے پیشے کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے. میں ایک بات اور اپنی بہنوں سے عرض کروں گا کہ بن ٹھن کر بازاروں میں شاپنگ کے لیے جانا‘ سیر سپاٹے کے لیے تفریح گاہوں میں جانا‘ مخلوط تقریبات میں شریک ہونا اور مردوں کے سامنے پریڈ کرنا یا کھیلوں میں حصہ لینا از روئے اسلام معصیت کے کام ہیں. ان امور میں کتاب وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں دو رائیں ممکن ہی نہیں.