آیت ۳۰ میں تمام اہل ایمان مردوں کو اور آیت ۳۱ کی ابتدا میں پہلا حکم مسلمان خواتین کو غض بصر کا دیا جا رہا ہے. فرمایا
:
قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ ﴿۳۰﴾ (النور) ’’(اے نبی !) مؤمن مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں. یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے. جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے خوب باخبر ہے.‘‘

وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ (النور: ۳۱)
’’اور (اے نبی !) مؤمن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اِس کے جو خود ظاہر ہو جائے‘ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں.‘‘ 

ان آیات میں غض بصر کا جو حکم آیا ہے اس کو جن لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ یہ سڑک پر چلنے سے متعلق ہے وہ بہت بڑے مغالطے میں پڑ گئے ہیں. سڑک پر چلنے کے متعلق تو وہ حکم ہے کہ عورتیں اپنی جلباب میں لپٹ کر اور اس کا ایک پلو چہرے پر ڈال کر نکلیں. راستہ دیکھنے کے لیے ان کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی. باہر نکلنے کے ضمن میں ایک حکم اسی آیت کے اختتام سے متصلاً قبل وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ کی تشریح میں‘ میں پہلے بیان کر چکا ہوں. ان آیات میں غض بصر سے مراد نگاہ بھر کر نہ دیکھنا ہے. یعنی مرد بیوی کے علاوہ کسی محرم خاتون کو اور عورت شوہر کے علاوہ کسی محرم مرد کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھے‘ مبادا شیطان کو کسی غلط جذبے کی اکساہٹ کا موقع مل جائے. جب محرموں کے نگاہ بھر کر دیکھنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے تو غیر محرموں کے لیے تو خود بخود اس پابندی کا وزن بہت بڑھ جائے گا. چنانچہ اس قسم کی دیدہ بازی کو آنکھ کے زنا سے تعبیر فرمایا گیا ہے. 

آگے جو 
یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ یعنی اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘ کا حکم ہے تو اس سے متعدد ضمنی احکام مراد ہیں. چنانچہ اس میں نا جائز شہوت رانی سے پرہیز ہی نہیں بلکہ ایسے تمام محرکات سے اجتناب بھی شامل ہے جو اس جذبے کی تحریک کا سبب بنیں. اس سے ستر پوشی کا حکم بھی مراد ہے کہ کوئی بھی ایک دوسرے کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے. مرد کے ستر کے حدود نبی اکرم  نے ناف سے گھٹنے تک مقرر فرمائے ہیں. اس حصے کو (جس میں ناف اور گھٹنے دونوں شامل ہیں) بیوی کے سوا کسی اور کے سامنے قصداً کھولنا شریعت نے حرام کیا ہے. نبی اکرم  نے عورت کا ستر ہاتھ اور چہرے کے سوا اُس کے پورے جسم کو قرار دیا ہے. چہرہ نا محرم مردوں کے لیے بھی ستر میں شامل ہے. چہرے اور ہاتھ کے سوا عورت کے جسم کا کوئی حصہ شوہر کے علاوہ کسی اور مرد حتیٰ کہ باپ‘ بھائی اور بیٹے کے سامنے بھی نہیں کھلنا چاہیے. البتہ مرد اور عورت دونوں کے لیے اشد طبی ضرورت کے پیش نظر طبیب اور جراح مستثنیٰ کیے گئے ہیں. ایسا لباس پہننے والی عورتوں کو جن کا بدن کپڑوں میں سے جھلکتا ہو‘ نبی اکرم  نے ’’کَاسِیَاتٍ عَارِیَاتٍ‘‘ یعنی ’’کپڑے پہننے کے باوجود عریاں‘‘ قرار دیا ہے. 

صحیح بخاری میں حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہاسے ایک طویل روایت کے آخری الفاظ ہیں:

رُبَّ کَاسِیَۃٍ فِی الدُّنْیَا عَارِیَـۃٌ فِی الآخِرَۃِ (۱
’’دنیا میں اکثر کپڑے پہننے والیاں آخرت میں ننگی ہوں گی.‘‘ 

یہاں ایسے باریک اور چست کپڑے پہننے مراد ہیں جن سے جسم جھلکے یا عورت کی رعنائی کی چیزیں نمایاں ہوں. 
زیر نظر آیت میں آگے خواتین کے گھر کے پردے کے لیے ایک اور حکم آ رہا ہے. فرمایا: 

وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ 
’’اور (عورتیں) اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈال لیا کریں (یا بکل مار لیا کریں). ‘‘ (۱)

صحیح البخاری، کتاب العلم، باب العلم والعظۃ باللیل ودیگر ابواب. ’’خمر‘‘ کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں. اسی سے لفظ خمار بنا ہے. امام راغب اصفہانی (عربی لغت کے مشہور امام) نے ’’مفردات القرآن‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ لفظ (خمار) عورت کی اوڑھنی کے لیے بولا جاتا ہے‘ اس کی جمع خُمُر آتی ہے. اس سے وہ اوڑھنیاں مراد ہیں جسے اوڑھ کر سر‘ کمر‘ سینہ سب اچھی طرح ڈھانپ لیے جائیں. اسی کو ہمارے ہاں دوپٹہ کہا جاتا ہے. یہ دوپٹہ باریک کپڑے کا نہیں ہونا چاہیے. آج کل کی فیشن زدہ نوجوان لڑکیاں جس قسم کا دوپٹہ استعمال کرتی ہیں وہ اس حکم کے منشاء کو پورا نہیں کرتا بلکہ اس کے بالکل خلاف ہے. 

یہ بات سمجھ لیجیے کہ گھر میں رہتے ہوئے بھی یہ چیز پسندیدہ نہیں ہے کہ نوجوان لڑکی کا سینہ بغیر دوپٹے کے ہو‘ سر کھلا ہو اور وہ گھر میں گھوم رہی ہو. کرتے یا قمیص کا گریبان پوری طرح ساتر نہ ہو تو باپ اور بھائی کے سامنے بھی اس طرح آنے کی شریعت میں بالکل اجازت نہیں ہے. اس لیے کہ عورت کے جسم میں سب سے زیادہ جاذبِ نظر اُس کا سینہ ہوتا ہے. لہذا ایک طرف مردوں کو غض بصر کا حکم ہے تو دوسری طرف عورتوں کو اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھنے کا گھر میں محرموں کے لیے عورت کے چہرے‘ ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ پورا جسم ستر ہے‘ وہ بہرحال ڈھکا رہے گا.

جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ کسی باپ اور کسی بھائی کے لیے ان تین چیزوں کے سوا کسی اور حصے کا کھلا دیکھنا جائز نہیں ہے. عورت کی رعنائی ودلربائی اور اس کی کشش کو کون نہیں جانتا. اس لیے گھر کے ادارے میں پاکیزہ ماحول قائم رکھنا ضروری ہے. اس کے لیے یہ تمام احکام دیے گئے ہیں. کپڑے تنگ نہ ہوں‘ باریک نہ ہوں. کپڑوں کی تراش خراش ایسی نہ ہو کہ عورت کے نشیب وفراز ابھریں اور نہ ہی ان سے بدن جھلکے. عورت کے جسم میں سینے کا اُبھار وہ شے ہے کہ اس پر اگر صرف کرتہ پہن لیا جائے تو بھی وہ پوری طرح نہیں چھپے گا. لہذا اس کے لیے خاص طور پر حکم دیا گیا کہ وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ (۱لہذا نوٹ کر لیجیے کہ عورت (۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد مدینہ کا کوئی گھر (اگلے صفحے پر) کے گھر کے لیے ستر اور حجاب کے یہ آداب وشرائط اور اَحکام ہیں. ایک طرف ان ہدایات کو دیکھئے‘ دوسری طرف اس نقشے پر نظر ڈالیے جو عام طور پر ہمیں اپنے معاشرے کے خوش حال اور تعلیم یافتہ گھرانوں میں نظر آتا ہے جو اِن تعلیمات کی سراسر ضد ہے. اسی پر اس کو بھی قیاس کر لیجیے کہ بلا جلباب یا نقاب اور دوپٹہ (۱اور بناؤ سنگھار کے ساتھ عورت کا گھر سے نکلنا شریعت کے نزدیک کس درجے کی معصیت ہو سکتی ہے!