اس سے آگے فرمایا:

وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ 
’’اور وہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں‘‘

اس کے بعد اِلَّا سے مستثنیات (محرموں) کی ایک فہرست عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ تک چلی گئی ہے. غور طلب بات یہ ہے کہ اس سے کون سی زینت مراد ہے جس کی مستثنیات (محرموں) کے سامنے اظہار کی اجازت دی جا رہی ہے. اس کو یوں سمجھئے کہ عورت گھر میں ہے‘ اُس نے لباس پورا پہنا ہوا ہے‘ پھر بھی اُس کا چہرہ ہے‘ اُس کے ہاتھ پاؤں ہیں‘ اُس نے اوڑھنی اوڑھی ہوئی ہے. پھر اُس کا ایک نسوانی (گزشتہ صفحے سے) ایسا نہ تھا جس میں عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑ کر اپنے موٹے موٹے کپڑے چھانٹ کر ان کے دوپٹے نہ بنا لیے ہوں (سنن ابی داؤد). اسی سنن ابی داؤد میں دِحیہ کلبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم  نے مصر کی بنی ہوئی باریک ململ کی ایک چادر سے ایک بڑا ٹکڑا ان کو دیا اور فرمایا کہ اس کے ایک حصے سے اپنا کرتہ بنا لینا اور ایک حصہ اپنی بیوی کو دوپٹہ بنانے کے لیے دے دینا‘ لیکن اس کو تاکید کر دینا کہ ’’تجعل تحتَہٗ ثوبًا لا یصفھا‘‘ یعنی اس کے نیچے ایک کپڑا اور لگا لے تاکہ جسم اندر سے نہ جھلکے. (مرتب)
(۱) جس دوپٹے کا کچھ رواج ’’روشن خیال‘‘ طبقے کی خواتین میں باقی نظر آتا ہے‘ اس کی حیثیت محض فیشن اور زیب وزینت کے ایک جزو کی ہے. (مرتب) 
وجود ہے. یہ تمام چیزیں زینت اور رعنائی کی حامل ہیں. ان میں جو زینت از خود ظاہر ہو رہی ہے‘ یا تیز ہوا یا کسی اور وجہ سے جلباب یا نقاب یا خمار (دوپٹہ) اُ ڑ جائے‘ یا چادر اور اوڑھنی کے باوجود بھی عورت کی نسوانیت کی کشش تو ختم نہیں ہو سکتی‘اس کو آخر عورت کیسے چھپائے گی؟ عورت اپنے باپ‘ بھائی‘ بیٹے‘ چچا‘ ماموں اور دوسرے محرموں کے سامنے آئے گی. چنانچہ اسی آیت میں پہلے ہی فرما دیا گیا تھا :

وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا 
’’وہ اپنی زینت نہ دکھائیں اس کے سوا جو از خود ظاہر ہو جائے.‘‘ 

ظاہر کرنے اور ظاہر ہونے کے فرق کو ملحوظ رکھا جائے تو جو بات یہاں فرمائی جا رہی ہے وہ بآسانی سمجھ میں آ جائے گی. اس تصریح کو سامنے رکھیے اور آیت کا متعلقہ حصہ اور اس کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے. فرمایا:

وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪ (النور: ۳۱
’’اور (عورتیں) اپنی زینت نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے: شوہر‘ باپ‘ شوہروں کے باپ‘ اپنے بیٹے‘ شوہروں کے بیٹے‘ بھائی‘ بھائیوں کے بیٹے‘ بہنوں کے بیٹے‘ اپنے میل جول کی عورتیں‘ اپنے لونڈی غلام‘ وہ زیر دست مرد جو کسی قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں‘ اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں.‘‘

آگے فرمایا:

وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ 
’’اور وہ (عورتیں) اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی زینت جو انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہو جائے.‘‘ اس کی تشریح میں پہلے ہی کر چکا ہوں. اب آیت کا اختتام ہوتا ہے اس پر کہ:

وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۳۱
’’اللہ کی طرف رجوع کرو تم سب کے سب اے ایمان والو‘ تاکہ تم کامیابی حاصل کرو.‘‘

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں اب تک جو لغزش‘ غلطی اور کوتاہی ہوتی رہی ہے اس سے توبہ کرو اور اپنے طرزِ عمل کی اللہ اور اُس کے رسول کی ہدایات کے مطابق اصلاح کر لو.