غزوات اور جنگوں میں خواتین کی شرکت

ہماری چند بہنیں ان واقعات سے جو سیرت اور تاریخ کی کتب میں غزوات اور اسلام کے غلبے کے لیے جنگوں میں شرکت سے متعلق آئے ہیں‘ یہ استدلال کرتی ہیں کہ عورتوں کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی اجازت ہے. یہ استدلال سرے سے ہی غلط ہے. کسی استثنائی صورت حال کو عام معمولات پر منطبق کرنا کسی منطق اور دلیل سے صحیح نہیں ہے. اس کی حیثیت محض ریت کے ٹیلے کی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں. پھر اس مغالطے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حجاب کے احکام تدریجاً آئے ہیں‘ اس لیے ان احکام کے نزول سے قبل غزوات میں عورتوں کی شرکت کا ثبوت ملتا ہے.

پہلا غزوۂ بدر ہوا تو اس سلسلے میں سنن ابی داؤد میں روایت آئی ہے کہ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا بنت نوفل نے بدر میں شرکت کی اجازت مانگی تھی لیکن نبی اکرم نے ان کو اجازت نہیں دی تھی. اس کے بعد غزوۂ اُحد کا معرکہ ہوا‘ جس میں ایک غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کا کافی جانی نقصان ہوا. خود نبی اکرم  زخمی ہوئے. یہ غزوہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مسلمانوں کے لیے انتہائی صدمے کا باعث تھا. یہ بڑی ہنگامی صورت حال تھی. اس میں چند صحابیات رضی اللہ عنھن کی شرکت ثابت ہے جن میں سے کچھ نے باقاعدہ جنگ میں حصہ لیا اوراللہ کی راہ میں شہید بھی ہوئیں‘ جبکہ بعض عورتوں نے زخمیوں کو پانی پلایا‘ ان کی مرہم پٹی کی اور تیر اُٹھا اُٹھا کر مجاہدین کو دیے. پھر غزوۂ اَحزاب (خندق) ہے. 

جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ان تینوں غزوات کے بعد سورۃ الاحزا ب اور سورۃ النور کا نزول ہوا جن میں حجاب اور ستر کے تفصیلی احکام آئے ہیں. لہذا ان سورتوں کے نزول سے قبل کے واقعات تو دلیل نہیں بنیں گے‘ کیونکہ ابھی پردے کے احکام آئے ہی نہیں تھے اس کے بعد نبی اکرم  نے غزوات میں عورتوں کی شرکت کی حوصلہ شکنی فرمائی ہے. اس کے متعلق چند احادیث میں آپ کو سنا دیتا ہوں. مسند احمد اور صحیح بخاری کی روایت ہے: 

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا اَنَّھَا قَالَتْ : یَارَسُوْلَ اللہِ نَرَی الْجِھَادَ اَفْضَلَ الْعَمَلِ، اَفَـلَا نُجَاھِدُ؟ قَالَ : لَا، لٰکِنَّ اَفْضَلَ الْجِھَادِ حَجٌّ مَبْرُوْرٌ (۱)

’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے دریافت کیا: یارسول اللہ !ہم جہاد کو سب سے افضل نیکی سمجھتی ہیں‘ تو کیا ہم جہاد نہ کریں؟ نبی اکرم نے فرمایا: نہیں‘ بلکہ تمہارے لیے سب سے افضل نیکی حج مبرور ہے.‘‘
صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں: 
جِھَادُکُنَّ الْحَجُّ ’’تمہارا جہاد حج ہے.‘‘

غزوات میں خواتین کی شرکت کی نبی اکرم  نے جو حوصلہ شکنی فرمائی ہے اس کی واضح دلیل اور اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے جو غزوۂ خیبر کے دوران پیش آیا. یہ غزوہ ۷ھ میں ہوا تھا. اس واقعہ کو امام احمدؒ نے اپنی مسند اور امام ابو داؤد نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے‘ جو صحاح ِ ستہ میں شامل ہے. آپ حضرات اور بہنیں اس کو توجہ سے سنیں اور خدا کے لیے غور کریں کہ جو دلیلیں وہ لے آتی ہیں وہ کس قدر غلط اور بے محل ہیں اور ان کو صحیح طور پر نہ سمجھنے سے کیا کیا مغالطے پیدا ہو رہے ہیں. فرمایا: 
(۱) صحیح البخاری، کتاب الحج، باب فضل الحج المبرور. عَنْ حَشْرَجَ بْنِ زِیَادٍ عَنْ جَدَّتِہٖ اُمِّ اَبِیْہِ اَنَّھَا خَرَجَتْ مَعَ النَّبِیِّ  فِیْ غَزْوَۃِ خَیْبَرَ سَادِسَ سِتِّ نِسْوَۃٍ، فَبَلَغَ رَسُوْلَ اللہِ  فَبَعَثَ اِلَیْنَا فَجِئْنَا فَرَاَیْنَا فِیْہِ الْغَضَبَ، فَقَالَ: مَعَ مَنْ خَرَجْتُنَّ وَبِاِذْنِ مَنْ خَرَجْتُنَّ؟ قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللہِ خَرَجْنَا نَغْزِلُ الشَّعْرَ وَنُعِیْنُ بِہٖ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَمَعَنَا دَوَاءُ الْجَرْحٰی وَنُـنَاوِلُ السِّھَامَ وَنَسْقِی السَّوِیْقَ، قَالَ: قُمْنَ فَانْصَرِفْنَ حَتّٰی اِذَا فَتَحَ اللہُ عَلَیْہِ خَیْبَرَ اَسْھَمَ لَنَا کَمَا اَسْھَمَ لِلرِّجَالِ، فَقُلْتُ لَھَا: یَا جَدَّۃُ وَمَا کَانَ ذٰلِکَ؟ قَالَتْ تَمْرًا (۱)

’’حشرج بن زیاد اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ غزوۂ خیبر کے موقع پر آنحضرت  کے ساتھ نکلیں. پانچ عورتوں کے ساتھ چھٹی وہ تھیں. کہتی ہیں کہ جب حضور اکرم  کو ہمارے نکلنے کی اطلاع ہوئی تو آپؐ نے ہمیں بلوایا. ہم حاضر ہوئیں تو ہم نے آپؐ کو غضب ناک پایا. آپؐ نے پوچھا: ’’تم کس کے ساتھ نکلیں اور کس کی اجازت سے نکلیں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ہم چلی آئی ہیں‘ ہم اون کاتیں گی اور اس کے ذریعے اللہ کی راہ میں مدد کریں گی. ہماے ساتھ کچھ مرہم پٹی کا سامان بھی ہے‘ ہم تیر پکڑا دیں گی‘ ستو گھول کر پلا دیں گی. آپؐ نے فرمایا: ’’چلو‘ واپس جاؤ‘‘. پھر جب اللہ نے خیبر کو فتح کرا دیا تو حضور اکرم  نے ہم کو مردوں کی طرح حصہ دیا. میں نے پوچھا: دادی کیا چیز ملی تھی؟ دادی نے کہا: کھجوریں!‘‘ 

اس حدیث میں رسولِ اکرم  کے تیور پہچانئے. راویہ رضی اللہ عنہابتا رہی ہیں کہ ان کے نکلنے اور لشکر میں شامل ہونے پر آنحضور  غضب ناک ہوئے. آپؐ کے سوال سے کہ 
مَعَ مَنْ خَرَجْتُنَّ وَبِاِذْنِ مَنْ خَرَجْتُنَّ؟ اور پھر اس حکم سے بھی کہ (۱) سنن ابی داؤد‘ کتاب الجھاد‘ باب فی المرأۃ والعبد یحذیان من الغنیمۃ، ومسند احمد . قُمْنَ فَانْصَرِفْنَ آپ کی ناراضگی اور برا فروختگی ظاہر ہو رہی ہے. آپ نے ان خواتین کو جو کھجوریں عطا کی تھیں وہ اس لیے کہ بہر حال یہ غزوے کے لیے نکلی تو تھیں. 

اب اس سے قبل کے غزوات سے استدلال کیا جائے تو ان کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ قرآن مجید میں جب تک شراب کی حرمت نہیں آئی تھی‘ مسلمان شراب پیتے رہے. کیا اس سے شراب کے حلال ہونے پر دلیل لانا صحیح ہو گا؟ اسی طرح جب تک سود کی حرمت کا حکم نہیں آیا‘ سود لیا اور دیا جاتا رہا. تو کیا اس سے سود کے حلال ہونے پر دلیل لائی جائے گی؟ لہذا ہم کو یہ بات پیش نظر رکھنی ہو گی کہ احکام تدریجاً آئے ہیں اور جب دین مکمل ہوا تو دو ٹوک انداز میں فرما دیا گیا: 
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ (المائدۃ: ۳یہ آیت آنحضور  کی حیاتِ طیبہ کے آخری زمانے میں نازل ہوئی ہے‘ لہذا ہمیں اب بحیثیت کل شریعت‘ قانونِ اسلامی اور دین کے مجموعی مزاج کو ہر مسئلے میں اپنے سامنے رکھنا ہو گا اور اس کا اتباع کرنا ہو گا.