البتہ عیدین میں عورتوں کو لانے کی احادیث میں تاکید ملتی ہے. اس کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ عیدین میں خطبہ ہوتا تھا جس میں تعلیم ہوتی ہے‘ اس لیے ان میں عورتوں کی شرکت کی تاکید ہے. البتہ عورتوں کے اجتماع کے لیے بالکل علیحدہ خیموں میں پورے پردے کے ساتھ اہتمام ہوتا تھا. پھر چونکہ اُس وقت لاؤڈ سپیکر تو تھا نہیں‘ لہذا آنحضور  ایک خطبہ مردوں کو ان کے اجتماع میں ارشاد فرماتے اور پھر خواتین کے خیمے کے پاس جا کر دوسرا خطبہ ان خواتین کے لیے ارشاد فرمایا کرتے تھے (۲. جمعہ کی نماز میں عورتوں کی شرکت گو فرض نہیں‘ نہ اس کے لیے تاکید ہے اور نہ ممانعت ہے‘ لیکن چونکہ خطبہ جمعہ میں تعلیم وتذکیر اور تلقین ہوتی ہے تو ایسی مساجد میں جہاں مادری زبان میں اس کا انتظام ہو‘ خواتین بالکل (۱) سنن ابی داوٗد، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ للملوک والمرأۃ.

(۲) صحاح ستہ میں شامل سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ رسول اللہ  اپنی خواتین کو عیدین کی نماز کے لیے لے جایا کرتے تھے. اسی طرح جامع ترمذی میں اُمّ عطیہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  کنواری اور جوان لڑکیوں اور گھر گھرستنوں اور ایام والی عورتوں کو عیدین میں لے جاتے تھے. جو عورتیں نماز کے قابل نہ ہوتیں وہ جماعت سے الگ رہتیں‘ خطبہ سنتیں اور دعا میں شریک ہوتیں. ایک اور روایت میں آنحضور  نے عیدین میں خواتین کو لانے کی تاکید کی ہے‘ لیکن دورِ حاضر کے علماءِ اَحناف اس کے بالکل قائل نہیں ہیں. (مرتب)علیحدہ مقام پر ان شرائط کے ساتھ جو مسجد میں آنے کے لیے اسلام نے خواتین پر عائد کی ہیں‘ جمع ہو کر خطبہ سن سکتی اور نماز با جماعت ادا کرسکتی ہیں. عام فرض نمازوں میں عورتوں کا شریک ہونا پسندیدہ نہیں ہے‘ کیونکہ ان میں تذکیر وتعلیم اور وعظ ونصیحت کا کوئی پہلو نہیں ہے. یہ ہے ہمارے دین کا مجموعی مزاج!