اگر جہاد و قتال فی سبیل اللہ کا کوئی ایسا مرحلہ پیش آ جائے کہ خواتین کی خدمات بھی نا گزیر ہو جائیں تو ایسی صورت میں مسلمان خواتین حسب ضرورت اس جہاد وقتال میں حصہ لے سکتی ہیں. یہ ایک استثنائی (exceptional) معاملہ ہوگا. لیکن یہ کون سی معقول دلیل ہے کہ استثنائی اور ہنگامی یا اضطراری صورتِ حال کے لیے شریعت میں جو گنجائش رکھی گئی ہے اس کو معمولات پر بھی منطبق(apply) کیا جائے اور اس استثناء کو ایک قاعدہ کلیہ بنا کر اس سے خواتین کے لیے دفتروں‘ کارخانوں‘ ریڈیو اور ٹی وی پر کام کرنے کے لیے جواز پیدا کیا جائے؟ (۱اسلام موم کی ناک نہیں ہے کہ حسب خواہش اسے جس طرف چاہیں موڑ لیا جائے. یہ فعل دین کے ساتھ تلعُّب کے زمرے میں آئے گا‘ جس پر قرآن میں بڑی وعید آئی ہے. ہمارا دین‘ دین ِفطرت ہے‘ اس میں تنگی نہیں رکھی گئی. نبی اکرم  کا قول ہے کہ اَلدِّیْنُ یُسْرٌ ’’دین میں آسانی ہے‘‘. اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضور  نے فرمایا: یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا ’’آسانی پیدا کرو‘ تنگی پیدا نہ کرو‘‘. خانگی حالات ایسے ہوں کہ واقعی کوئی عورت ملازمت پر مجبور ہوجائے اور اسے گھر سے نکلنے کے سوا چارہ نہ ہو تو وہ ایسا کر سکتی ہے. لیکن اسے ستر وحجاب کی تمام پابندیوں پر عمل کرتے ہوئے معاشی جدو جہد میں حصہ لینا ہو گا. یہ ممنوع نہیں ہے. لیکن جہاں بے پردگی اور مردوں کے ساتھ اختلاط کا معاملہ ہو تو ہمارا دین اس میں حصہ لینے کی قطعاً اجازت نہیں دیتا. دیگر مستثنیات بھی ہیں. مثلاً یہ کہ کوئی خاتون ڈوب رہی ہو‘ آگ میں گھر گئی ہو‘ سڑک پر چلتے ہوئے کسی حادثے سے دوچار ہوگئی ہو تو ان میں یا اسی قسم کے دیگر حادثات کی صورت میں ستر وحجاب کی قیود اور نامحرموں کے لمس کی پابندی عارضی طور پر ساقط ہو جائے گی. یہ حالات حقیقی اور واقعی طور پر اضطراری حالات کہلائیں گے اور اس کی شریعت نے گنجائش رکھی ہے.