اربابِ اقتدار سے گزارش


اب مجھے اربابِ اقتدارِ وقت سے کچھ باتیں عرض کرنی ہیں. اگر واقعتا خلوص کے ساتھ ان کے پیش نظر اس ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ہے تو انہیں سنجیدگی کے 
(۱) یہ تو بالکل ایسی ہی جسارت ہو گی کہ جیسے قرآن نے جان بچانے کے لیے مضطر کو مردار اور ایسی ہی حرام چیزوں کے غَیْرَبَاغ ٍوَلَا عَادٍ کی شرط کے ساتھ کھانے کی اجازت دی ہے. اب اضطرار کی اس اجازت کو کوئی مستقل اجازت بنانے کی حرکت کرے تو یہ معاملہ جسارت سے آگے بڑھ کر بغاوت اور طغیان کے زمرے میں آ جائے گا. (مرتب) ساتھ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مناسب ومؤثر اقدامات کرنے چاہئیں. سرکاری دفاتر کی ملازمتوں‘ ذرائع اِبلاغ اور دوسرے سرکاری یا نیم سرکاری اداروں میں عورتوں کو کھپانے سے ایک طرف مردوں کی حق تلفی ہو رہی ہے‘ دوسری طرف معاشرے میں بے راہ روی کے راہ پانے کے مواقع وسیع ہو رہے ہیں. پھر عورت کو اشتہارات کی زینت کے لیے جو ایک ارزاں جنس بنا لیا گیا ہے اس پر قدغن لگائی جائے. یہ نہ صرف عورت کی عظمت کی تذلیل و توہین ہے بلکہ سراسر اسلام کے خلاف ہے. خدا را ان مسائل کا صحیح اسلامی حل نکالیے. اگر واقعی عورت کی خدمات ملک کی معیشت کے لیے ضروری ہیں تو حکومت اپنی نگرانی میں ایسے انتظامات کر سکتی ہے کہ گھروں میں چھوٹی انڈسٹریاں لگائے‘ کاٹیج انڈسٹری کے محلہ وار مراکز قائم کرے‘ صنعت وحرفت کے تمام بڑے بڑے اداروں کو پابند کرے کہ وہ خواتین کے کام کے بالکل علیحدہ شعبے قائم کریں. اگر عورت کو مجبوراً اپنی معاش کے لیے کام پر نکلنا ہی پڑے تو وہ ستر وحجاب کی پابندی کرے اور مخلوط اداروں میں کام سے پرہیز کرے. قرآن نے ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داری یہ متعین کی ہے :

اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ (الحج: ۴۱)
’’ان مؤمنوں کو جب ہم زمین پر تمکن و حکومت عطا کریں گے تو یہ اقامت ِصلوٰۃ‘ ایتائے زکو ٰۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض انجام دیں گے.‘‘

لہذا اسلامی تعلیمات کے مطابق خواتین کی معاش کا انتظام کرنا معروف کے درجے میں آئے گا‘ جبکہ عورتوں اور مردوں کا مخلوط اداروں میں کام کرنا‘ عورت کا بطور اشتہار استعمال ہونا‘ اس کا ٹی وی پر آنا اور اسی قسم کے دوسرے تمام نمائشی کاموں میں حصہ لینا‘ یہ اور ایسے دوسرے تمام کام منکرات میں شامل ہیں جن کا استیصال حکومت کی ذمہ داری ہے. لہذا ضروری ہے کہ حکمت اور جامع منصوبہ بندی کے 
ساتھ ان کا سد باب کرنے کے لیے حکومت جلد مؤثر عملی اقدامات کرے. اسی طرح خواتین کے لیے علیحدہ یونیورسٹی اور ساتھ ہی خواتین کے فرائض سے تعلق رکھنے والے مضامین کا نصاب اور علیحدہ کالجوں کا قیام بھی جلد ہونا چاہیے. یہ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ کام معروف کے ذیل میں آئیں گے. نبی اکرم  کا ارشاد ہے کہ ’’اگر کسی سر زمین پر اللہ کی قائم کردہ حدود میں سے ایک حد بھی نافذ ہو جائے تو اس سے جو برکت نازل ہو گی وہ چالیس شبانہ روز کی بارش کی برکت سے زیادہ ہو گی‘‘. یہ بات ذہن میں رہے کہ نبی اکرم  کا یہ ارشاد اس سر زمین یعنی عرب کے پس منظر میں تھا جہاں لوگ بارش کے لیے ترستے تھے اور بارش ان کے لیے بہت ہی بڑی نعمت تھی. اس حدیث کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی قائم کردہ حدود میں سے ایک حد (یا احکام میں سے کوئی حکم) بھی صحیح طور پر نافذ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا برکات کا نزول وظہور ہوتا ہے.