’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ کے عنوان سے محترم ڈاکٹر اسرار احمد کے دو خطابات کو یکجا کر کے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے. وقت کی کمی کی وجہ سے ان خطابات میں جن نکات کا اجمالاً یا کنایتاً ذکر ہو سکا یا جن کا تذکرہ رہ گیا‘ فاضل مضمون نگار نے اس مضمون میں ان کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے. واضح رہے کہ یہ مضمون ۱۹۸۳ء کا تحریر کردہ ہے.

نحمدہٗ ونصلی علٰی رسولہ الکریم

ایک ایسی ریاست میں جس کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے‘ جس کے قیام کا مقصد ہی لا اِلٰـہَ اِلاَّ اللہ تھا‘ جس کے دستور کی قرار دادِ مقاصد میں حاکمیت ِالٰہیہ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ کا اصول طے شدہ ہے اور جس میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ اس ملک میں ’’کوئی قانون سازی قرآن وسنت کے خلاف نہیں کی جا سکے گی‘‘ مزید جس ملک کے سربراہ اور حاکم وقت تقریباً پانچ سال سے اپنی تقاریر‘ بیانات اور انٹرویوز میں مسلسل اس بات کا اعلان فرماتے رہتے ہیں کہ انہوں نے اقتدار ہی اس عزم بالجزم کے ساتھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے کہ وہ اس ملک میں اسلامی نظام قائم کریں گے اور چادر اور چار دیواری کے احترام وتقدس کو بحال کریں گے‘ یہ بات انتہائی افسوس ناک اور دردناک ہے کہ ستر وحجاب اور عورت کے اصل مقام یعنی قرار فی البیوت کے اوامر واحکام اور عورت کے تبرجِ جاہلیہ یعنی بے حجابانہ طور پر سج دھج‘ بناؤ سنگار اور غیر ساتر لباس کے ساتھ مخلوط اداروں میں کام کرنے اور بلا ضرورت مٹر گشت کرنے کے لیے شریعت میں ممانعت اور جو نواہی آئے ہیں ان کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ اس کو عین اسلام قرار دیا جا رہا ہے. 

ایک معصیت اور برائی وہ ہوتی ہے جس پر ایک مسلمان کا ضمیر اُسے ملامت کرتا رہتا ہے. وہ شعوری طور پر جانتا ہے کہ وہ غلط کام کر رہا ہے‘ لیکن ایک برائی اور معصیت وہ ہوتی ہے جس کو وہ گناہ خیال ہی نہیں کرتا‘ بلکہ مسلمان کہلاتے ہوئے بھی وہ اسے صحیح سمجھتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے‘ تو اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے دین سے بغاوت کر رہا ہے‘ اس لیے کہ اسلامی معاشرت‘ سماج اور عائلی نظام کے متعلق قرآن حکیم میں سب سے زیادہ تفصیلی احکام آئے ہیں. اس کی حکمت بھی بادنی ٰ تامل سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ایک معاشرے اور ریاست کی بنیادی اکائی خاندان ہوتا ہے. ان ہی کے مجموعے سے اجتماعیت‘ معاشرہ اور ریاست وجود میں آتی ہے. لہذا اسلامی شریعت خاندان کے ادارے کو مستحکم بنیادوں پر صالح بنانا چاہتی ہے تاکہ ایک حقیقی اسلامی معاشرہ اور نظام مملکت صحیح خطوط پر قائم ہو سکے اور ترقی وارتقاء کی منازل طے کرتا چلا جائے. چادر اور چہار دیواری کے احترام وتقدس کی بحالی کا جو واضح مقصد سمجھ میں آتا تھا وہ یہی تھا کہ پاکستان میں اسلامی معاشرت کے تقاضے پورے کیے جائیں گے‘ لیکن معاملہ بالکل برعکس نظر آ رہا ہے. 

جو لوگ اسلام کے نظامِ معاشرت کو موجودہ دور کے ’’تقاضوں‘‘ کے مطابق نہیں سمجھتے اور اس کو تبدیل کرنے پر مصر ہیں‘ اپنی حقیقت اور روح دونوں اعتبارات سے یہ رویہ اسلام کے خلاف اظہارِ عدمِ اعتماد ہے. ہم بڑی درد مندی‘ دل سوزی اور نصح و خیرخواہی کے ساتھ اس طبقے سے التجا کرتے ہیں کہ خدا را اپنی آخرت کی ابدی زندگی کو دنیا کی عارضی چمک دمک اور نمود ونمائش کے لیے برباد نہ کریں. ایسے لوگوں کے لیے قرآن حکیم میں بڑی وعیدیں آئی ہیں‘ جن میں سے دو کا حوالہ کافی ہو گا. پہلی آیت سورۃ البقرۃ کی ہے‘ فرمایا: 

بَلٰی مَنۡ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّ اَحَاطَتۡ بِہٖ خَطِیۡٓــَٔتُہٗ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۸۱﴾ (آیت ۸۱
’’کیوں نہیں‘ جو ایک بدی کمائے گا اور اپنی اسی خطا کاری کے چکر میں پڑا رہے گا تو وہ دوزخی ہے‘ اور وہ ہمیشہ اس میں رہے گا.‘‘

یعنی ایک مدعی ایمان کسی برائی کا ارتکاب کرے‘ پھر اس پر ڈیرہ ڈال کر بیٹھ جائے‘ اس کو برائی سمجھنا ہی چھوڑ دے اور اسے عین صواب سمجھنے لگے‘ اسی پر مصر ہو تو وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں رہے گا. 
دوسری سورۃ الصف کی آیات ۲۳ ہیں. فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳﴾ 
’’اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ نہایت نا پسندیدہ اور انتہائی بیزاری کی حرکت ہے کہ تم وہ بات کہو جو تم کرتے نہیں ہو!‘‘

یعنی ایک طرف یہ دعویٰ کہ ہم مؤمن ہیں‘ ہمارا دستور حیات قرآن ہے‘ ہمارے لیے مشعل اور دلیل ِراہ سنت ہے‘ ہم اسلامی نظام کو ایک مکمل و اکمل نظام سمجھتے ہیں‘ اسی کا نفاذ واستحکام ہمارا نصب العین ہے‘ لیکن ہمارا انفرادی واجتماعی طرزِ عمل‘ دستورِ زندگی‘ بشمول نظام ہائے حکومت وسیاست‘ معیشت ومعاشرت تمام کی تمام قرآن وسنت کے خلاف ہے‘ تو قول وعمل کا یہ تضاد اللہ کے غصے کو اتنا بھڑکاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے سخت بیزار ہو جاتا ہے. 
اسلام میں عورت کے لیے ستر وحجاب اور اس کے اصل دائرہ کار کے متعلق جو احکام آئے ہیں ان پر ہر مکتب فکر کے ائمہ مجتہدین کا اجماع رہا ہے. صرف ایک مسئلہ میں اختلاف ہے کہ چہرے کی ٹکیہ بھی گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں ستر میں شامل ہے یا نہیں. جو اس کو ستر میں شامل نہیں کرتے وہ بھی سر کو ستر میں شامل کرتے ہیں اور چہرے کی زیب وزیبائش یا میک اپ کی صورت میں اس کے اظہار کو نا جائز 
قرار دیتے ہیں. ایسے متفق علیہ مسئلے کے خلاف ہمارے ملک کے اخبارات وجرائد میں مسلسل مضامین‘ مراسلات اور بیانات کا آنا انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے‘ خصوصاً اس حکومت کے دور میں جو اس ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کیے جانے کی دعوے دار ہے. فَاعْتَبِرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارِ . ان تمہیدی کلمات کے بعد مرد وعورت کے متعلق اسلامی تعلیمات پیش ہیں. 

دینی اور اَخلاقی حیثیت سے مرد وعورت مساوی ہیں


اس ضمن میں مزید تفہیم کے لیے حسب ذیل تین آیات پیش ہیں:

(۱وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ نَقِیۡرًا (النساء) 
’’اور جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ ہو وہ مؤمن‘ تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی.‘‘

(۲مَنۡ عَمِلَ سَیِّئَۃً فَلَا یُجۡزٰۤی اِلَّا مِثۡلَہَا ۚ وَ مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ یُرۡزَقُوۡنَ فِیۡہَا بِغَیۡرِ حِسَابٍ (المؤمن) 
’’جو برائی کرے گا اس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اس نے برائی کی ہوگی‘ اور جو نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ وہ مؤمن ہو‘ تو ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے‘ جہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا.‘‘ 

(۳سورۃ الزلزال میں وہ اصول بیان فرما دیا جو پوری نوع انسانی کے لیے ہے جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں. فرمایا:

فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃ شَرًّا یَّرَہ (آیت ۷،۸)
’’پس جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہو گی وہ (آخرت میں) اس کو دیکھ لے گا‘ اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہو گی وہ بھی اس کو (آخرت میں) دیکھ لے گا.‘‘ 

اب چند وہ امور پیش ہیں جن میں مرد وعورت کے علیحدہ علیحدہ دائرہ کار دین نے مقرر کیے ہیں.

عورت اور جنازے میں شرکت

مسلمانوں کے لیے جنازے میں شرکت کرنا شریعت نے فرضِ کفایہ قرار دیا ہے. اس کے متعلق احادیث میں جو تاکید آئی ہے وہ سب مردوں کے لیے ہے‘ عورتوں کو اس میں شرکت سے منع کیا گیا ہے. اگرچہ اس میں سختی نہیں کی گئی ہے‘ لیکن اس بات کو واضح کر دیا گیا ہے کہ عورت کی شرکت میں کراہت ہے. بخاری میں اُمّ عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

نُھِیْنَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَلَمْ یُعْزَمْ عَلَیْنَا
’’ہم کو جنازوں کی متابعت سے منع کیا گیا‘ مگر سختی کے ساتھ نہیں.‘‘

فقہ حنفی کا مستقل موقف یہ ہے کہ نماز جنازہ میں شرکت مردوں کے لیے فرضِ کفایہ ہے لیکن عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں. ان کی شرکت مکروہ تحریمی ہے.

زیارتِ قبور اور عورت

قبور کی زیارت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے. عورت رقیق القلب اور جذباتی ہوتی ہے‘ اس لیے اپنے قریبی عزیزوں کی قبروں پر اس کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ جانے کا شدید احتمال ہے. لہذا ان کو کثرت سے زیارتِ قبور کے لیے سختی سے منع کیا گیا ہے. ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :

لَعَنَ رَسُوْلُ اللہِ  زَوَّارَاتِ الْقُبُوْرِ
’’نبی اکرم  نے قبروں پر بکثرت جانے والیوں کو ملعون ٹھہرایا.‘‘

مجلس نکاح اور عورت

عقد ِ نکاح ہی سے ایک مرد کے لیے عورت سے تمتع جائز ہوتا ہے. اسی سے ایک نئے خاندان کی داغ بیل پڑتی ہے. لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ مجلس نکاح میں دلہن خود نہیں آتی. کنواری عورت سے ولی یا اس کا وکیل اجازت لیتا ہے. اس کے لیے دو گواہ ہونے ضروری ہیں. وکیل اور گواہوں کا محرم ہونا بھی مستحسن ہے. عورت نہ وکیل بن سکتی ہے نہ گواہ‘ خواہ وہ ماں اور بہنیں ہی کیوں نہ ہوں. 

نکاح کے لیے ولی کی اجازت

نکاح کے معاملے میں مرد بالکل آزاد ہے. وہ اپنے بزرگوں کی اجازت کا پابند نہیں. وہ صرف مشرک عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتا: وَ لَا تَنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکٰتِ لیکن باکرہ عورت کے نکاح کے لیے اس کے ولی کی اجازت ضروری ہے‘ البتہ بیوہ پر ایسی پابندی نہیں ہے. ارشادِ نبوی ہے: 

اَلْاَیِّمُ اَحَقُّ بِنَفْسِھَا مِنْ وَلِـیِّھَا
’’بیوہ اپنے معاملے میں فیصلہ کرنے کا حق اپنے ولی سے زیادہ رکھتی ہے.‘‘

تاہم احناف کے نزدیک باکرہ عورت اپنی مرضی سے اپنا نکاح کر سکتی ہے. ولی کو بھی چاہیے کہ وہ باکرہ عورت کا نکاح بھی اس کی مرضی کے بغیر نہ کرے‘ جیسا کہ فرمایا گیا:

لَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتّٰی تُسْتَأْذَنَ 
’’باکرہ لڑکی کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لے لی جائے.‘‘

عورت کا نکاح ِثانی اور دیگر مذاہب

ہندو مت میں طلاق کا تصور ہی موجود نہیں‘ تو عورت کے لیے نکاح ِثانی کا کیا سوال! بیوہ ہونے کی صورت میں ان کے اصل دھرم کا حکم تو یہ ہے کہ اس کو ستی کر دیا جائے‘ یعنی شوہر کے ساتھ اسے بھی زندہ جلا دیا جائے. رہا دنیا کے ایک اور بڑے مذہب عیسائیت کا معاملہ تو مرد عورت کو صرف بد چلنی کا واضح ثبوت ملنے کی صورت میں طلاق دے سکتا ہے. ان کے مذہب میں اس مطلقہ عورت سے کسی کو شادی کی اجازت نہیں ہے. بیوہ اگرچہ دوسرا نکاح کر سکتی ہے لیکن اس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا. لیکن اسلام نے ان تمام عورتوں کو نکاح ثانی کا غیر مشروط حق دیا ہے جن کے نکاح از روئے شریعت فسخ کیے گئے ہوں‘ یا جن کو حکم تفریق کے ذریعے جدا کیا گیا ہو‘ یا ان کے شوہروں نے طلاق دے دی ہو‘ یا جو بیوہ ہو گئی ہوں. ایسی تمام عورتوں کے نکاح ثانی میں رکاوٹ بننے کا حق نہ سابق شوہر کو حاصل ہے نہ اس کے کسی رشتہ دار کو. یہ وہ حق ہے جو اسلام نے آج سے چودہ سو سال قبل عورتوں کو دیا تھا. ترقی وتمدن کے بلند بانگ دعاوی کے باوجود یہ حق آج تک یورپ کے متعدد ملکوں اور امریکہ کی ریاستوں میں بھی عورتوں کو نہیں ملا ہے.

عورتوں کے گھر سے نکلنے کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات

مرد اپنے اختیار سے جہاں چاہے جا سکتا ہے‘ لیکن عورت خواہ کنواری ہو یا شادی شدہ ہو‘ یا بیوہ ومطلقہ ہو‘ سفر میں محرم کے بغیر نہیں نکل سکتی. سفر کی مدت میں البتہ اختلاف ہے. ایک روایت میں تین دن اور اکثر روایات میں ایک دن رات کی مدت مقرر ہے. ان ہدایات کا اصل مفاد یہ ہے کہ عورت کو تنہا سفر کے لیے نقل وحرکت کی آزادی نہ دی جائے. حد یہ ہے کہ حج کے لیے جو ایک فرض عبادت ہے‘ عورت محرم کے بغیر نہیں جا سکتی چاہے وہ مالی حیثیت سے ذاتی طور پر استطاعت رکھتی ہو‘ اس کے ساتھ محرم ہونا ضروری ہے. اگر محرم خود صاحب استطاعت نہ ہو تو عورت اس کا زادِ راہ برداشت کرے. محرم کے بغیر استطاعت کے باوجود یہ فرض عبادت عورت سے ساقط ہو جائے گی.

شوہر کی اجازت کے بغیر عام ضروریات وحوائج کے علاوہ عورت کو گھر سے نکلنے کی آنحضور  نے نہایت سخت انداز سے ممانعت فرمائی ہے. چنانچہ حدیث میں 
ہے کہ حضور اکرم  نے فرمایا:

اِذَا خَرَجَتِ الْمَرْاَۃُ مِنْ بَیْتِھَا وَزَوْجُھَا کَارِہٌ لَـعَنَھَا کُلُّ مَلَکٍ فِی السَّمَآئِ وَکُلُّ شَیْئٍ مَرَّتْ عَلَیْہِ غَیْرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ حَتّٰی تَرْجِعَ 
’’جب عورت اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف گھر سے نکلتی ہے تو آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت بھیجتا ہے اور جن واِنس کے سوا ہر وہ چیز جس پر سے وہ گزرتی ہے اس پر پھٹکار بھیجتی ہے‘ تا وقتیکہ وہ واپس لوٹ آئے.‘‘

سنن ابی داؤد میں ایک طویل روایت ہے جس میں بیان ہے کہ آنحضور  نے دیکھا کہ مسجد سے نکلتے وقت مرد اور عورتیں مل جاتے ہیں تو آپ نے عورتوں کو ہدایت فرمائی:

اِسْتَاْخِرْنَ فَاِنَّـہٗ لَـیْسَ لَـکُنَّ اَنْ تَحَقَّقْنَ الطَّرِیْقَ، عَلَیْکُنَّ بِحَافَاتِ الطَّرِیْقِ فَـکَانَتِ الْمَرْاَۃُ تَلْصِقُ بِالْجِدَارِ حَتّٰی اَنَّ ثَـوْبَھَا یَتَعَلَّقُ بِالْجِدَارِ مِنْ لُصُوْقِھَا 

’’تم پیچھے ہو جاؤ‘ تمہارے لیے راستہ کے بیچ میں چلنا ٹھیک نہیں ہے. تم راستے کے کنارے چلو‘‘. چنانچہ اس حکم کے بعد عورتیں بالکل دیوار سے لگ جاتیں‘ یہاں تک کہ ان کی چادریں دیوار سے الجھتی تھیں.‘‘ 

ایک روایت میں آتا ہے کہ نماز کے بعد آنحضرت  مسجد میں اتنی دیر ٹھہرتے کہ عورتیں پہلے نکل جائیں تاکہ راستے میں مردوں سے خلط ملط نہ ہوں. ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی اکرم نے بعد میں مسجد نبوی کا ایک دروازہ عورتوں کے لیے مختص فرما دیا تھا. ایک اور روایت میں ہے کہ نبی اکرم  نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی مرد دو عورتوں کے درمیان سے چلے. 

عورت ایسا زیور پہن کر باہر نہیں نکل سکتی جس میں جھنکار ہو. اس کی ممانعت کا حکم قرآن مجید میں موجود ہے (جس کا حوالہ ڈاکٹر صاحب اپنی تقریر میں دے چکے 
ہیں). عطر لگا کر گھر سے نکلنے کی آنحضور  نے سختی سے ممانعت فرمائی ہے. جامع ترمذی میں روایت ہے:

قَالَ النَّبِیُّ : اَلْمَرْاَۃُ اِذَا اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْمَجْلِسِ فَھِیَ کَذَا (ای زانیۃ). 

نبی اکرم نے فرمایا: ’’جو عورت عطر لگا کر لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہے وہ آوارہ قسم کی عورت ہے.‘‘ 
باہر جانے کی صورت میں عورت کو ایسی خوشبو لگانے کی اجازت ہے جس کا چاہے رنگ ہو مگر وہ پھیلنے والی خوشبو نہ ہو. 
وَطِیْبُ النِّسَاءِ لَـوْنٌ وَلَا رِیْحَ لَـہٗ ایک روایت میں ہے کہ ایک عورت پھیلنے والی خوشبو لگا کر مسجد نبوی سے آ رہی تھی‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کو ہدایت کی کہ گھر جا کر اس طرح غسل کرے جیسے غسل جنابت کیا جاتا ہے.

نکاح اور اہل کتاب

مرد جس طرح کسی مسلمان عورت سے نکاح کرنے میں آزاد ہے اسی طرح وہ اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) کی عورتوں سے بھی نکاح کرنے میں آزاد ہے. وہ لونڈی سے بھی تمتع کر سکتا ہے. لیکن عورت کو اس معاملے میں قطعی پابند کیا گیا ہے. اس کے لیے اہل کتاب مرد سے نکاح حرام ہے. اسی طرح مرد اپنی لونڈی سے تمتع میں ا ٓزاد ہے‘ لیکن عورت کے لیے یہ حرام ہے. خلافت ِفاروقی میں ایک عورت نے مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ سے غلط تاویل کر کے اپنے غلام سے تمتع کر لیا تھا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اصحابِ شوریٰ سے مشورہ کیا‘ جن کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ’’اس عورت نے کتاب اللہ کو غلط معنی پہنائے‘‘. چنانچہ اُس عورت کو سزا دی گئی.

تعددِ اَزواج

سورۃ النساء میں مرد کو عدل و قسط کی شرط کے ساتھ بیک وقت چار بیویاں اپنے نکاح میں رکھنے کی اجازت ہے‘ لیکن عورت کے لیے ایک سے زائد خاوند قطعی حرام ہے.

عورت کا لباس

لباس ایک تمدنی ضرورت ہے. اس کی ایک غایت موسمی اثرات سے حفاظت ہے اور زینت بھی‘ جبکہ اس کی اصل غایت اور سب سے اہم مقصد ستر ہے. عورت کے لیے ایسا لباس پہننا جس سے ستر وحجاب کے حدود ٹوٹتے ہوں‘ جائز نہیں. ’’رُبَّ کاسِیَۃٍ‘‘ اور ’’کَاسِیَاتٍ عَارِیَاتٍ‘‘ جیسی احادیث کا حوالہ ڈاکٹر صاحب کے خطاب میں آ چکا ہے. سنن ابی داؤد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ’’اسماء بنت ابی بکر( رضی اللہ عنہما) آنحضرت  کے پاس آئیں اور وہ نہایت باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں. آپؐ نے ان کو دیکھا تو منہ پھیر لیا اور فرمایا: ’’اے اسماء! جب عورت بالغ ہو جائے تو بجز اس کے اور اس کے‘ اُس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہیے‘‘. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ ارشاد فرما کر آنحضور  نے چہرہ اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ کیا خیال رہے کہ یہ ستر وحجاب کے احکام کے نزول سے قبل کا واقعہ ہے.

عورت اور سیاست

کسی ریاست کا سب سے اہم اجتماعی شعبہ نظامِ مملکت ہے. اس دائرۂ کار میں عورت کا کوئی حق نہیں رکھا گیا‘ یہ شعبہ بالکلیہ مرد کے سپرد ہے. اس مسئلے میں قرآن مجید کی واضح نصوص اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ ‘ وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ اور وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ ؕ ہیں. اس ضمن میں نبی اکرم  کی واضح ہدایات وتعلیمات یہ ہیں : 

(۱عَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ قَالَ لَمَّا بَلَغَ رَسُوْلَ اللہِ  اَنَّ اَھْلَ فَارَسَ مَلَکُوْا عَلَیْھِمْ بِنْتَ کَسْرٰی قَالَ: لَنْ یُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّــوْ اَمْرَھُمْ اِمْرَاَۃً (بخاری‘ ترمذی‘ نسائی) 
’’حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ  کو معلوم ہوا کہ ایرانیوں نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا بادشاہ بنایا ہے تو آپؐ نے فرمایا: ’’وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتی جس نے اپنی زمامِ کار ایک عورت کے حوالے کر دی ہے.‘‘ 

(۲عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ  : اِذَا کَانَتْ اُمَرَآءُ کُمْ خِیَارَکُمْ وَاَغْنِیَآءُ کُمْ سُمَحَاءَ کُمْ وَاُمُوْرُکُمْ شُوْرٰی بَیْنَکُمْ فَظَھْرُ الْاَرْضِ خَیْرٌ لَّــکُمْ مِنْ بَطْنِھَا، وَاِذَا کَانَتْ اُمَرَاءُ کُمْ شِرَارَکُمْ وَاَغْنِیَاءُ کُمْ بُخَلَاءَ کُمْ وَاُمُوْرُکُمْ اِلٰی نِسَاءِ کُمْ فَبَطْنُ الْاَرْضِ خَیْرٌ لَّـکُمْ مِّنْ ظَھْرِھَا (ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم  نے ارشاد فرمایا: ’’جب تمہارے حاکم اچھے لوگ ہوں اور تمہارے مال دار تم میں زیادہ سخی ہوں اور تمہارے معاملات مشورے سے طے پائیں تو زمین کی پیٹھ تمہارے لیے اس کے پیٹ سے بہتر ہے‘ اور جب تمہارے حاکم شریر لوگ ہو جائیں اور تمہارے مال دار بخیل ہو جائیں اور تمہارے معاملات تمہاری عورتوں کے سپرد ہو جائیں تو زمین کا پیٹ تمہارے لیے اس کی پیٹھ سے بہتر ہے.‘‘

صدرِ اوّل کی تاریخ میں خواتین کے عملی سیاست میں حصہ لینے کی صرف ایک مثال ملتی ہے. وہ یہ کہ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خونِ ناحق کا مطالبہ لے کر اٹھیں‘ جس کے نتیجے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی فوجوں میں جنگ ہوئی‘ جس کا نام جنگ ِجمل ہے. اس بات سے قطع نظر کہ کس فریق سے اجتہادی غلطی ہوئی‘ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی رائے‘ جو ایک غیر جانب دار شخصیت تھے اور جن کے علم و تقویٰ پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا‘ یہ تھی کہ : 

اِنَّ بَیْتَ عَائِشَۃَ خَیْرٌ لَّھَا مِنْ ھَوْدَجِھَا. 

’’حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہا) کا گھر اُن کے ہودج سے بہتر تھا.‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہاکو پیغام بھجوایا تھا کہ ’’عورتوں کو جنگ اورمردوں کے معاملات میں پڑنے سے کیا تعلق ہے!‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعد میں اپنے اس عمل پر اظہارِ پشیمانی کرتی رہیں اور اس پر استغفار کرتی رہیں. اس مثال میں قابل غور امور یہ ہیں:
اوّل یہ کہ یہ ایک ہنگامی نوعیت کا معاملہ تھا. اس کو باقاعدہ ملک کی سیاسیات اور حکومت کے معاملات میں حصہ لینے کے لیے دلیل بنایا ہی نہیں جا سکتا. دوسرے یہ کہ اپنے اس اقدام پر اُمّ المومنین رضی اللہ عنہا تمام عمر پشیمان بھی رہیں اور استغفار کرتی رہیں. تیسرے یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر اصحابِ رسول  نے اس عمل کو عورت ہونے کے ناطے سے ان کے دائرۂ عمل سے باہر کا اقدام قرار دیا.

غزوات میں عورتوں کی شرکت

اس موضوع پر مولانا امین احسن اصلاحی کی معرکۃ الآرا تالیف ’’پاکستانی عورت دوراہے پر‘‘ سے ایک اقتباس درج ذیل ہے جو مولانا نے ’’الاستیعاب‘‘ کے حوالے سے نقل فرمایا:

’’اس حقیقت کی ایک بہت بڑی شہادت آنحضرت  کے زمانے کے ایک واقعہ سے بھی ملتی ہے. اَسماء بنت زید انصاریہ رضی اللہ عنہا ایک مشہور دین دار اور عقل مند صحابیہ اور مشہور صحابی معاذ ؓ بن جبل کی پھوپھی زاد بہن ہیں. ان کے متعلق روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی  کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ مجھے عورتوں کی ایک جماعت نے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے. سب کی سب وہی کہتی ہیں جو میں عرض کرنے آئی ہوں اور وہی رائے رکھتی ہیں جو میں گزارش کر رہی ہوں. عرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے. چنانچہ ہم آپؐ پر ایمان لائیں اور ہم نے آپؐ کی پیروی کی. لیکن ہم عورتوں کا حال یہ ہے 
کہ ہم پردوں کے اندر رہنے والی اور گھروں کے اندر بیٹھنے والی ہیں. ہمارا کام یہ ہے کہ مرد ہم سے اپنی خواہش ِنفس پوری کر لیں اور ہم ان کے بچے لادے لادے پھریں. مرد جمعہ وجماعت‘ جنازہ وجہاد ہر چیز کی حاضری میں ہم سے سبقت لے گئے. وہ جب جہاد میں جاتے ہیں تو ہم ان کے گھر بار کی حفاظت کرتی اور ان کے بچوں کو سنبھالتی ہیں‘ تو کیا اجر میں بھی ان کے ساتھ ہم کو حصہ ملے گا؟ 

آنحضرت  ان کی یہ فصیح وبلیغ تقریر سننے کے بعد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’کیا تم نے ان سے زیادہ بھی کسی عورت کی عمدہ تقریر سنی ہے جس نے اپنے دین کی بابت سوال کیا ہو؟‘‘ تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قسم کھا کر اقرار کیا کہ ’’نہیں یا رسولؐ اللہ‘‘. اس کے بعد آنحضرت  اسماءؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اے اسماء! میری مدد کرو اور جن عورتوں نے تم کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے ان کو میرا یہ جواب پہنچا دو کہ تمہارا اچھی طرح خانہ داری کرنا‘ اپنے شوہروں کو خوش رکھنا اور ان کے ساتھ سازگاری کرنا مردوں کے ان سارے کاموں کے برابر ہے جو تم نے بیان کیے ہیں‘‘ حضرت اسماءؓ رسول اللہ  کی یہ بات سن کر خوش خوش اللہ کا شکر ادا کرتی ہوئی واپس چلی گئیں.‘‘ 

اس کے بعد مولانا اصلاحی رقم طراز ہیں:
’’حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے صرف اپنے زمانے ہی کی خواتین کی نمائندگی نہیں فرمائی بلکہ بعض پہلوؤں سے ہمارے زمانے کی خواتین کی بھی پوری پوری نمائندگی کردی ہے. اس زمانہ میں آ زادیٔ نسواں کی علم بردار عورتیں جو کچھ کہتی ہیں اس کی ایک بڑی اہم وجہ تو یہی ہے کہ وہ فرائض ان کو حقیر نظر آتے ہیں جو قدرت نے ان کے سر ڈالے ہیں اور وہ فرائض ان کو معزز ومحترم نظر آتے ہیں جو مردوں سے متعلق ہیں. اس وجہ سے وہ کہتی ہیں کہ یہ کیا نا انصافی ہے کہ ہم عورتیں تو زندگی بھر بچے لادے لادے پھریں اور چولہے چکی کی نذر ہو کے رہ جائیں اور مرد ملکوں اور قوموں کی قسمتوں کے فیصلے کرتے پھریں! اور پھر وہ مطالبہ کرتی ہیں کہ ان کو بھی مردوں کے دوش بدوش ہر میدان میں جدو جہد کرنے کا موقع ملنا چاہیے. حالانکہ وہ غور کریں تو اس بات کے سمجھنے میں ذرا بھی دشواری نہیں ہے کہ ایک مردِ مجاہد جو میدانِ جنگ میں جہاد کر رہا ہے اس کا یہ جہاد ہو نہیں سکتا جب تک اس کے پیچھے ایک مجاہدہ بچوں کے سنبھالنے اور گھر کی دیکھ بھال میں اپنی پوری قوتیں صرف نہ کرے!! میدانِ جنگ کا یہ جہاد گھر کے جہاد ہی کا ایک پرتو اور مرد کی یہ یکسوئی عورت کی قربانیوں کا ایک ثمر ہے. اس لیے مردِ خدا اگر خدا کی راہ میں لڑ رہا ہے تو تنہا مرد ہی نہیں لڑ رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ خدا کی وہ بندی بھی مصروفِ پیکار ہے جس نے مرد کو زندگی کے دوسرے محاذوں پر لڑنے سے سبک دوش کر کے اس میدانِ جنگ کے لیے فارغ کیا ہے اور گھر کے مورچہ کو اُس نے خود سنبھال رکھا ہے. جذبات سے الگ ہو کر صحیح صحیح موازنہ کر کے اگر دیکھا جائے تو کون کہہ سکتا ہے کہ ان دونوں جہادوں میں سے کوئی بھی کم ضروری ہے یا غیرضروری ہے؟ انصاف یہ ہے کہ دونوں یکساں ضروری ہیں‘ اس لیے خدا کی نگاہوں میں دونوں کا اجر وثواب بھی یکساں ہے.‘‘

جو خواتین وحضرات غزوات میں صحابیات کی شرکت کی بعض استثنائی نظیروں سے عورتوں کو مردوں کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں کام کرنے کے لیے استدلال کرتے ہیں وہ اگر نیک نیتی سے کسی مغالطے میں مبتلا ہیں تو صرف یہی حدیث ان کا مغالطہ دور کرنے کے لیے کافی ہے. 

وآخر دعوانا أن الحَمد للّٰہ ربّ العالمین