مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی کتاب ’’نقوشِ اقبال‘‘ سے ماخوذ

علامہ اقبال مرحوم کے ان منتخب اشعار کے بحیثیت مجموعی مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ علامہ کے نزدیک شرعی پردے کا اہتمام مسلمان خاتون کے لیے از حد ضروری ہے اور اسی پردے کے باعث عورت یکسو ہو کر اپنی صلاحیتوں کو اپنے گھر اور خاندان کی تعمیر میں لگا کر بہتر کار گزاری کر سکتی ہے. تاہم ضرورت کے تحت پردے کے اہتمام کے ساتھ وہ زندگی کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے. اس ضمن میں فاطمہ (طرابلس کی مجاہدہ) علامہ کے نزدیک ایک مثالی کردار ہے. نیز ان اشعار کے مطالعہ سے یہ بات مبرہن ہو کر سامنے آتی ہے کہ علامہ کے نزدیک عورت کی مقدس ترین حیثیت وہ ہے جو ماں اور مامتا کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے. اسی لیے علامہ معاشرتی اور عائلی زندگی میں ماں کے مقام کو مرکزی مقام قرار دیتے ہیں.

جدید اردو شاعری میں غالباً حالی اور اقبال ہی دو ایسے شاعر ہیں جن کے یہاں غزلوں میں صنفی آلودگی‘ عریانیت اور سطحیت نہیں ملتی‘ بلکہ اس کے برخلاف عورت کے مقام واحترام اور اس کی حیثیت ِعرفی کو بحال کرنے میں ان دونوں کا بڑا ہاتھ نظر آتا ہے. 

اقبال عورتوں کے لیے وہی طرزِ حیات پسند کرتے تھے جو صدرِ اسلام میں پایا جاتا تھا‘ جس میں عورتیں مروّجہ برقع کے نہ ہوتے ہوئے بھی شرم وحیا اور احساسِ عفت وعصمت میں آج سے کہیں زیادہ آگے تھیں‘ اور شرعی پردے کے اہتمام کے 
ساتھ ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں. 

۱۹۱۲ء میں طرابلس کی جنگ میں جب ان کو اس کا ایک نمونہ دیکھنے کو ملا‘ یعنی ایک عرب لڑکی فاطمہ بنت ِ عبد اللہ غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوئی تو انہوں نے اس کا زور دار ماتم کیا: 

فاطمہ! تو آبروئے اُمت مرحوم ہے ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت حورِ صحرائی تری قسمت میں تھی غازیانِ دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی!
اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں
فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے نغمہ عشرت بھی اپنے نالہ ٔ ماتم میں ہے!
رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے ذرّہ ذرّہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے
ہے کوئی ہنگامہ تیری تربت خاموش میں پل رہی ہے ایک قوم تازہ اس آغوش میں


انہیں ہنرورا نِ ہند اور ایسے تمام فن کاروں سے شکایت تھی جو عورت کے نام کا غلط استعمال کر کے ادب کی پاکیزگی‘ بلندی اور مقصدیت کو صدمہ پہنچاتے ہیں. وہ اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں:

چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقاماتِ بلند کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس آہ بیچاروں کے اَعصاب پہ عورت ہے سوار 


وہ ’’دخترانِ ملت‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمان خاتون کے لیے دلبری اور بناؤ سنگار ایک معنی ٰمیں کفر ہے‘ بلکہ انہیں تو اپنی شخصیت‘ انقلابی فطرت اور پاکیزہ نگاہی سے باطل کی امیدوں پر پانی پھیر دینا چاہیے.

بہل اے دخترک ایں دلبری ہا مسلماں را نہ زیبد کافری ہا
مَنہِ دل بر جمالِ غازہ پرور بیاموز از نگہ غارت گری ہا 

وہ کہتے ہیں کہ مسلمان عورت کو پردہ کے اہتمام کے ساتھ بھی معاشرہ اور زندگی میں اس طرح رہنا چاہیے کہ اس کے نیک اثرات معاشرہ پر مرتب ہوں اور اس کے پرتو سے حریمِ کائنات اس طرح روشن رہے جس طرح ذاتِ باری کی تجلی حجاب کے باوجود کائنات پر پڑ رہی ہے. ؎

ضمیر عصر حاضر بے نقاب است کشادش در نمودِ رنگ ِ آب است
جہاں تابی ز نورِ حق بیاموز کہ او با صد تجلی در حجاب است 

وہ دنیا کی سرگرمیوں کی اصل ماؤں کی ذات کو قرار دیتے ہیں‘ اورکہتے ہیں کہ ان کی ذات امین ِ ممکنات اور انقلاب انگیز مضمرات کی حامل ہے. جو قومیں ماؤ ں کی قدر نہیں کرتیں ان کا نظامِ زندگی سنبھل نہیں سکتا. ؎ 

جہاں را محکمی از اُمہات است نہادِ شاں امینِ ممکنات است
اگر ایں نکتہ را قومے نداند نظامِ کاروبارش بے ثبات است

وہ اپنی صلاحیتوں اور کارناموں کو اپنی والدۂ محترمہ کا فیض نظر بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آداب واَخلاق تعلیم گاہوں سے نہیں‘ ماؤں کی گود سے حاصل ہوتے ہیں. ؎ 

مرا داد ایں خرد پرور جنونے نگاہِ مادرِ پاک اندرونے
ز مکتب چشم و دل نتواں گرفتن کہ مکتب نیست جز سحر و فسونے 

وہ قوموں کی تاریخ اور ان کے ماضی وحال کو ان کی ماؤں کا فیض قرار دیتے ہیں‘ اور کہتے ہیں کہ ماؤں کی پیشانیوں پر جو لکھا ہوتا ہے وہی قوم کی تقدیر ہوتی ہے. ؎ 

خنک آں ملتے کز وارداتش قیامت ہا بہ بیند کائناتش
چہ پیش آید چہ پیش اُفتادِ او را تواں دید از جبین امّہاتش 

وہ ملت کی خواتین کو دعوت دیتے ہیں کہ ملت کی تقدیر سازی کا کام کریں‘ اور ملت کی شامِ الم کو صبح بہار سے بدل دیں‘ اور وہ اس طرح کہ گھروں میں قرآن کا فیض عام کریں‘ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ نے اپنی قرآن خوانی سے ان کی تقدیر بدل دی اور اپنے لحن ولہجہ کے سوز وساز سے ان کے دل کو گداز کر دیا تھا. ؎

ز شامِ ما بروں آور سحر را بہ قرآں باز خواں اہل نظر را
تو می دانی کہ سوزِ قرأتِ تو دگرگوں کرد تقدیرِ عمرؓ را 

اقبال معاشرتی اور عائلی زندگی میں ماں کے مرکزی مقام کے قائل ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ خاندانی نظام میں جذبۂ امومت اصل کا حکم رکھتا ہے اور اسی کے فیض سے نسل انسانیت کا باغ لہلہاتا رہتا ہے. ان کا خیال ہے کہ جس طرح گھر سے باہر کی زندگی میں مردوں کو فوقیت حاصل ہے‘ اسی طرح گھر کے اندر کی سرگرمیوں میں عورت اور خصوصاً ماں کی اہمیت ہے‘ اس لیے کہ اس کے ذمہ نئی نسل کی داشت وپرداخت اور دیکھ بھال ہوتی ہے. انسان کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہوتی ہے. ماں جتنی مہذب‘ شائستہ اور بلندخیال ہو گی‘ بچے پر بھی اتنی ہی جلدی یہ اثرات مرتب ہوں گے اور ایک اچھی اور قابل فخر نسل تربیت پا سکے گی. ؎

وہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی! 

اقبال کی نظر میں عورت کا شرف وامتیاز اُس کے ماں ہونے کی وجہ سے ہے. جو قومیں اُمومت (حق ِ مادری) کے آداب نہیں بجا لاتیں ان کا نظام نا پائیدار اور بے اساس ہوتا ہے‘ اور خاندانی امن وسکون درہم برہم ہو جاتا ہے‘ اَ فرادِ خاندان کا باہمی اتحاد واعتماد ختم ہو جاتا ہے‘ چھوٹے بڑے کی تمیز اُٹھ جاتی ہے اور بالآخر اَقدارِ عالیہ اور اَخلاقی خوبیاں دم توڑ دیتی ہیں. ان کے خیال میں مغرب کا اخلاقی بحران اسی لیے رونما ہوا ہے کہ وہاں ماں کا احترام اور صنفی پاکیزگی ختم ہو گئی ہے. 

وہ آزادیٔ نسواں کی تحریک کے اسی لیے حامی نہیں کہ اس کا نتیجہ دوسرے انداز میں عورتوں کی غلامی ہے. اس سے ان کی مشکلات آسان نہیں‘ اور پیچیدہ ہو جائیں گی‘ جبکہ انسانیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ جذبہ ٔ امومت ختم ہو جائے گا‘ ماں کی مامتا کی روایت کمزور پڑ جائے گی. اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ جس علم سے 
عورت اپنی خصوصیات کھودیتی ہے‘ وہ علم نہیں بلکہ موت ہے‘ اور فرنگی تہذیب قوموں کو اسی موت کی دعوت دے رہی ہے. ؎ 

تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگِ اُمومت ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن ہے عشق ومحبت کے لیے علم وہنر موت

ــ 
علم او بارِ امومت بر نتافت برسر شاخش یکے اختر نتافت
ایں گل از بستانِ ما نارستہ بہ داغش از دامانِ ملت شستہ بہ 

اقبال کے خیال میں آزادیٔ نسواں ہو یا آزادیٔ رجال یہ دونوں کوئی معنی ٰ نہیں رکھتے‘ بلکہ مرد وزن کا ربط ِ باہمی‘ ایثار اور تعاون ایک دوسرے کے لیے ضروری ہے. زندگی کا بوجھ ان دونوں کو مل کر اُٹھانا اور زندگی کو آگے بڑھانا ہے. ایک دوسرے سے عدم تعاون کے سبب زندگی کا کام ادھورا اور اس کی رونق پھیکی ہو جائے گی اور بالآخر یہ نوعِ انسانی کا نقصان ہو گا.

مرد و زن وابستۂ یک دیگر اند کائناتِ شوق را صورت گر اند
زن نگہ دارندۂ نارِ حیات فطرتِ او لوحِ اَسرارِ حیات
آتشِ ما را بجانِ خود زند جوہر اُو خاک را آدم کند
در ضمیرش ممکناتِ زندگی از تب و تابش ثباتِ زندگی
ارجِ ما از ارجمندی ہائے او با ہمہ از نقشبندی ہائے او 

اقبال فرماتے ہیں کہ عورت اگر علم وادب کی کوئی بڑی خدمت انجام نہ دے سکے تب بھی صرف اس کی مامتا ہی قابل قدر ہے جس کے طفیل مشاہیر عالم پروان چڑھتے ہیں‘ اور دنیا کا کوئی انسان نہیں جو اس کا ممنونِ احسان نہیں. ؎ 
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے ُمشتِ خاک اس کی کہ ہر شرف ہے اسی درج کا دُرِ مکنوں

مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن ا سی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں! 
آزادیٔ نسواں کی تحریک سے مرد وزن کا رشتہ جس طرح کٹا اور اس کے جو برے نتائج سامنے آئے‘ اقبال کی نظر میں اس کی ذمہ دار مغربی تہذیب ہے. ’’مردِ فرنگ‘‘ کے عنوان سے کہتے ہیں:

ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا مگر یہ مسئلہ ٔ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں


کوئی پوچھے حکیم یورپ سے ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال؟ مرد بے کار و زن تہی آغوش! 

اقبال پردے کی حمایت میں کہتے ہیں کہ پردہ عورت کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں‘ وہ پردے میں رہ کر تمام جائز سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے اور اپنے فرائض کی انجام دہی کر سکتی ہے‘ کیونکہ خالق ِکائنات پس ِپردہ ہی کار گاہِ عالم کو چلا رہا ہے. اُس کی ذات گو حجابِ قدس میں ہے‘ لیکن اس کی صفات کی پرچھائیاں بحر وبر پر پھیلی ہوئی ہیں. مولانا آسی نے خوب کہا ہے ؎ 

بے حجابی یہ کہ ہر شے سے ہے جلوہ آشکار
اس پہ پردہ یہ کہ صورت آج تک نا دیدہ ہے! 

اقبال عورت کو خطاب کرتے ہیں کہ ؎

جہاں تابی ز نورِ حق بیاموز
کہ او با صد تجلی در حجاب است
وہ پردے کے مخالفوں کے جواب میں کہتے ہیں کہ پردہ جسم کا حجاب ہے‘ لیکن اسے عورت کی بلند صفات اور پنہاں امکانات کے لیے رکاوٹ کیسے کہا جا سکتا ہے. اصل سوال یہ نہیں ہے کہ چہرے پر پردہ ہو یا نہ ہو‘ بلکہ یہ ہے کہ شخصیت اور حقیقت ِذات پر پردے نہ پڑے ہوں‘ اور انسان کی خودی بیدار اور آشکار ہو چکی ہو. ؎

بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے خدایا یہ دنیا جہاں تھی وہیں ہے
تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں مَیں نے وہ خلوت نشیں ہے‘ یہ جلوت نشیں ہے
ابھی تک ہے پردے میں اولادِ آدم کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے

پردے کی حمایت وتائید میں اقبال نے ’’خلوت‘‘ کے عنوان سے ایک نظم کہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پردہ کی وجہ سے عورت کو یکسو ہو کر اپنی صلاحیتوں کو نسلوں کی تربیت پر صرف کرنے اور اپنی ذات کے امکانات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے. اس کے ساتھ ہی اسے سماجی خرابیوں سے الگ رہ کر اپنے گھر اور خاندان کی تعمیر کا سامان میسر آتا ہے. گھر کے پر سکون ماحول کے اندر اسے زندگی کے مسائل اور معاشرتی موضوعات کو سوچنے سمجھنے کی آسانیاں ملتی ہیں اور اس طرح وہ اپنے اور دوسروں کے لیے بہتر کارگزاری کرسکتی ہے. ؎ 

رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے روشن ہے نگہ آئینۂ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے ہو جاتے ہیں اَفکار پراگندہ و اَبتر
آغوشِ صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے وہ قطرۂ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر!
خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر ولیکن خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر

ایک بڑا معاشرتی سوال یہ رہا ہے کہ مرد و زن کے تعلق میں بالادستی (upper hand) کسے حاصل ہو؟ اس لیے کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ہو اس میں کوئی ایک فریق شریک غالب کی حیثیت ضرور رکھتا ہے اور یہ اس کائناتی حقیقت پر مبنی ہے کہ ہر شے اور ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ہر ایک‘ ایک دوسرے کی تکمیل کرتا ہے‘ خصوصاً مرد و زن کے تعلقات میں چند چیزوں میں مرد کو عورت پر فضیلت اور اوّلیت حاصل ہے‘ اور یہ بھی کسی نسلی اور صنفی تفریق کی بنا پر نہیں بلکہ خود عورت کے حیاتیاتی‘ عضویاتی فرق اور فطرت کے لحاظ کے ساتھ اس کے حقوق و مصالح کی رعایت کے پیش نظر ہے. نگرانی اور ’’قوامیت‘‘ ایسی چیز نہیں جو مرد اور عورت دونوں کے سپرد کر دی جاتی یا عورت کو دے دی جاتی. اقبال نے مغرب کی نام نہاد ’’ آزادیٔ نسواں‘‘ کی پروا کیے بغیر عورت کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی پر زور وکالت کی اور عورت کی حفاظت کے عنوان سے کہا ؎ 

اِ ک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد!
نے پردہ نہ تعلیم‘ نئی ہو کہ پرانی نسوانیت ِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا اُس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد 


یہ نظم درحقیقت حدیث شریف: لن یفلح قومٌ ولّوا علیھم امرأۃً کی ترجمانی ہے. انہوں نے اپنی دوسری نظم میں فرمایا ؎ 

جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منّت غیر غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود
راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتۂ شوق آتشیں لذتِ تخلیق سے ہے اس کا وجود
کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرارِ حیات گرم اسی آگ سے ہے معرکہ بود ونہود
میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غمناک بہت نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود 


اقبال اپنے کلام میں آنحضور  کے وہ بلند ارشادات بھی لائے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ:

حُبِّبَ اِلَیَّ مِنْ دُنْیَاکُمُ الطِّیْبُ وَالنِّسَاءُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ
’’مجھے دنیا کی چیزوں میں خوشبو اور عورتیں پسند کرائی گئی ہیں‘ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے.‘‘ 
اقبال نے اس حدیث کا بھی حوالہ دیا ہے کہ ’’جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے‘‘. انہوں نے امومت کو رحمت کہا ہے‘ اور اسے نبوت سے تشبیہہ دی ہے. ماں کی شفقت کو وہ پیغمبر کی شفقت کے قریب کہتے ہیں‘ اس لیے کہ اس سے بھی اقوام کی سیرت سازی ہوتی ہے اور ایک ملت وجود میں آتی ہے . ؎

آں یکے شمع شبستانِ حرم حافظِ جمعیت خیر الامم
سیرتِ فرزند ہا از اُمہات جوہر صدق و صفا از اُمہات
آنکہ نازد بر وجودش کائنات ذکر او فرمود با طیب و صلوٰۃ
گفت آں مقصودِ حرفِ کن فکاں زیرِ پائے اُمہات آمد جناں
نیک اگر بینی امومت رحمت است زانکہ او را با نبوت نسبت است
شفقت او شفقت پیغمبر است سیرتِ اَقوام را صورت گر است
از امومت پختہ تر تعمیر ما در خط سیمائے او تقدیر ما
آبِ بند نخل جمعیت توئی حافظ سرمایۂ ملت توئی
ہوشیار از دست بردِ روزگار گیر فرزندانِ خود را درکنار 

اخیر میں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ اقبال حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہاکو ملت اسلامیہ کی ماؤں کے لیے مثالی خاتون سمجھتے ہیں اور جگہ جگہ ان کی اتباع کی تاکید کرتے ہیں کہ وہ کس طرح چکی پیستے ہوئے بھی قرآن پڑھتی رہتی تھیں اور گھریلو کاموں میں مشکیزہ تک اُٹھانے پر صبر فرماتی تھیں. اقبال کے خیال میں سیرت کی اسی پختگی سے حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہما ان کی آغوش سے نکلے. ؎ 

مزرعِ تسلیم را حاصل بتول ؓ مادراں را اسوۂ کامل بتولؓ 
آں ادب پروردۂ صبر و رضا آسیا گرداں و لب قرآں سرا
فطرتِ تو جذبہ ہا دارد بلند چشم ہوش از اسوۂ زہرا ؓ بلند
تا حسینےؓ شاخ ِتو بار آورد موسمِ پیشیں بہ گلزار آورد! 

وہ مسلمان خاتون کو وصیت کرتے ہیں کہ ؎ 

اگر پندے ز درویشے پذیری ہزار اُمت بمیرد تو نمیری
بتولے ؓ باش و پنہاں شو ازیں عصر کہ در آغوش شبیرےؓ بگیری!