اوائل ۱۹۸۳ء میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن پاکستان کے اجلاس منعقدہ خالق دینا ہال کراچی میں خطاب کی دعوت دی گئی تھی. اجلاس کے اختتام پر ایسوسی ایشن کے صدر جناب ڈاکٹر مبین اختر‘ ڈاکٹر صاحب کو اپنے کلینک واقع نارتھ ناظم آباد لے گئے. ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ وہاں ایسوسی ایشن کے مندوبین ہوں گے‘ ان سے گفتگو ہو گی. لیکن اس کے برعکس وہاں ماہنامہ ’’ آنچل‘‘ کراچی کی مدیرہ اور ایک اور خاتون منتظر تھیں اور اچانک یہ راز کھلا کہ یہاں انٹر ویو کا اہتمام ہے. اجلاس کے موقع پر ڈاکٹر صاحب کو مدیرۂ ’’ آنچل‘‘ کی جانب سے انٹر ویو کی فرمائش پر مشتمل رقعہ ملا تو تھا لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے لیے اس طور سے فوری ’’سازش‘‘ ہو جائے گی. بہر حال وہاں کچھ گفتگو ہوئی اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کے ذہن سے یہ واقعہ بالکل محو ہو گیا تھا‘ یہاں تک کہ اچانک ستمبر ۱۹۸۳ء میں ڈاکٹر صاحب کراچی گئے تو ایک صاحب نے نہایت تحسین آمیز انداز میں اس انٹر ویو کا ذکر کیا.

اس پر ڈاکٹر صاحب نے فورا ً تو بالکل انکار کر دیا کہ میں نے خواتین کے کسی جریدے کو انٹر ویو نہیں دیا. پھر اچانک انہیں وہ واقعہ یاد آ گیا تو خیال ہوا کہ پرچہ حاصل کر کے دیکھا جائے کہ کیا کچھ چھاپ دیا گیا ہے بلکہ اس پر حیرت بھی ہوئی کہ ’’ آنچل‘‘ والوں نے یہ کیا کیا کہ انٹر ویو جولائی کی اشاعت میں چھپ گیا لیکن ہمیں خبر تک نہیں دی بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے تو پانچ پرچے بذریعہ رجسٹرڈ پوسٹ ارسال کر دیے تھے لیکن غالباً محکمہ ڈاک کے کارکنوں کو کچھ ضرورت سے زیادہ ہی پسند آگئے بہر حال انہوں نے دوبارہ پرچہ عنایت کیا تو یہ انٹر ویو سامنے آیا جسے قارئین ’’میثاق‘‘ کی دلچسپی کے لیے شائع کیا جا رہا ہے. (جمیل الرحمن) 

دل موہ لینے والا مسحور کن اندازِ بیان‘ تقدس مآب چہرہ‘ دانش مندانہ پُر وقار پیشانی‘ بردباری اور آہستہ آہستہ آدمی سے سچائی منوانے کی صلاحیت یہ ہیں وہ اوصاف جو ٹی وی پروگرام ’’الہدیٰ‘‘ کو دیکھتے ہوئے میرے ساتھ لاکھوں لوگوں نے محسوس کیے ہوں گے. 

پاکستان بہترین عالم دین حضرات کا گہوارہ ہے اور ہم بے حساب علماء کرام کے ذریعے آفاقی علم حاصل کرتے ہیں‘ لیکن انداز بیان کی انفرادیت اور آواز کی گھن گرج کے ساتھ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا‘ وہ ہے تقویٰ جس کی مثال فی زمانہ مشکل ہی سے ملے گی . میں نے سوچا‘ اس شخص کے تقوے کی مثال کیسے دوں جو آج کے ترقی پسند دور میں اوصافِ پیغمبری کے اتباع پر مصر ہے‘ جبکہ لوگوں کا خیال ہے کہ اس جدید سائنسی دور میں چودہ سو سال پیچھے سفر کرنا ممکن نہیں اتباعِ رسولؐ مشکل ہے. لوگ انہیں جو چاہیں کہہ لیں‘ جو چاہیں سمجھ لیں‘ میں اپنے طور پر یہ سمجھنے میں برحق ہوں کہ تقویٰ اختیار کرنا ہی وہ عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ضامن ہے. متقی اللہ کی نظروں میں محبوب ہوتا ہے. اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو پسند کرتا ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے راہِ نجات پر گامزن ہوئے.

ایک کوالیفائیڈ ایلوپیتھک ڈاکٹر کا اس قدر تقویٰ کا پابند ہونا میرے لیے واقعی نہ صرف حیرت کا باعث تھا بلکہ مسرت کا بھی کہ منشائے ایزدی کا کامل اتباع کس قدر مشکل امر ہے.
وقت بدلا ہوا ہے. اقدار بدل چکی ہیں. رسم ورواج تبدیل ہو گئے ہیں. بڑے بڑے جید علماء اور راہبرانِ دین اسلامی شعار کو اختیار کرتے ہوئے وقت کی رفتار کو بہرحال ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے چلن کو حسب حال ڈھال لیتے ہیں. تاہم ڈاکٹر اسرار احمد‘ اسلام کے موقف کو اسی حال میں جاری رکھنے پر مُصر ہیں جس طرح قرآن حکیم کے ذریعے آنحضور ﷺ نے نافذ کیا. وہ دین میں کسی بھی پیوند کاری کے روادار نہیں. ان کا موقف یہ ہے کہ دین اسلام اتنا مکمل اور فطری دین ہے کہ تا قیامت اس میں تبدیلی کی ضرورت نہیں. تمام انسانی ضرورتیں وہ خود پوری کرتا ہے‘ پھر کس تبدیلی کی گنجائش ہے؟ اس دین کو اختیار کرنے میں کیا قباحت ہے؟

محترم ڈاکٹر اسرار احمد عورتوں کو تو کیا‘ مردوں کو بھی انٹر ویو نہیں دیتے. عجیب مایوس کن اور حوصلہ شکن صورتحال تھی اور میں نے اس صورتحال کو اپنی آرزو میں ڈھالنے کا تہیہ کر لیا تھا. 

مدیرۂ آنچل سے گفتگو کے ایک طویل مرحلے سے گزرنے کے بعد میں نے واقعی اس چیلنج کو قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا. 
ایک تقریب میں بطور خاص شرکت کرنے کے لیے میں خالق دینا ہال میں صبح نوبجے سے موجود تھی. میں اپنی کوتاہی سے کوئی لمحہ ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی. معلوم ہوا کہ بعد نماز مغرب محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب قبلہ کی تشریف آوری متوقع ہے. 

بہت سوچ بچار کے بعد میں نے ایک خط ان کے نام تحریر کیا جس کا متن حسب ذیل ہے اور قارئین کی خدمت میں پیش ہے . 


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

محترم ڈاکٹر صاحب قبلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں خواتین کے رسالے ماہنامہ ’’آنچل‘‘ کی طرف سے آپ کا انٹر ویو لینا چاہتی ہوں. رسالہ اگرچہ تفریحی ادب کا سرچشمہ ہے‘ تاہم دینی مسائل پر انتہائی مستند خدمات کی انجام دہی میں کسی قسم کے تساہل اور کوتاہی سے کام نہیں لیتا. مجھے امید ہے کہ آپ مجھے انٹر ویو دینے سے انکار نہیں کریں گے‘ کیونکہ لازمی امر ہے کہ اسلام کے اسکالروں کے انٹر ویو‘ شانِ جہاد کے ساتھ‘ دین کو بہتر طریقے پر قارئین کے آگے پیش کرتے ہیں. میں چاہتی ہوں کہ لوگ آپ جیسے لوگوں سے واقف ہو سکیں. دین کی رہنمائی کے لیے مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں. 

حضرت محمد ﷺ کے پاس خواتین دین کے سلسلے میں راہبری کی جستجو میں حاضر خدمت ہوا کرتی تھیں تو دھتکاری نہ جاتی تھیں. قوم کی لاکھوں بیٹیاں آپ کے علم کی برکتوں سے مستفیض ہونا چاہتی ہیں کیا آپ انہیں مایوس کر دیں گے؟
کمترین
فاطمہ زہرا جبین
نمائندہ ماہنامہ ’’ آنچل‘‘ کراچی

ڈاکٹر اسرار احمد نے میرا خط اسٹیج پر ہی کھول لیا. ان کے لبوں پر ایک پُر نور سی مسکراہٹ رینگ گئی اور میں اُمید وبیم کے درمیان ہچکولے کھاتی کشتی کی مانند‘ ان کی طرف دیکھتی رہی. پروگرام کے اختتام کے بعد جب انہوں نے میری طرف توجہ فرمائی تو میں نے مرعوب ہوتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا.

’’انٹر ویو سے مجھے انکار نہیں‘ لیکن صبح آٹھ بجے مجھے واپس بھی جانا ہے‘‘. انہوں نے پُراخلاق انداز میں معذرت چاہی. 
میں نے ایس اے خان اور ڈاکٹر سید مبین اختر کی طرف دیکھا. ڈاکٹر مبین اختر نے بروقت میری اخلاقی مدد کرتے ہوئے کہا:

’’ہم وی آئی پی ہاؤس چلتے ہیں. آپ وہیں انٹر ویو کر لیں.‘‘
ڈاکٹر صاحب کی مقدس شخصیت کی جو دھاک دل پر بیٹھ چکی تھی‘ اس نے اب اعتماد کی شکل اختیار کر لی تھی. 
رات گہرائی میں اتر رہی تھی. ڈاکٹر صاحب کچھ سفر‘ کچھ عمر اور کچھ مشقت ِخطابت کے باعث تھکے تھکے سے نظر آ رہے تھے. تاہم ان کی روشن آنکھوں کی طرف دیکھ کر انسان مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا. 

میں انٹر ویو حاصل ہونے کی مسرت اور طمانیت سے کچھ نفسیاتی طور پر متاثر و مرعوب ہو کر سوال کرنے لگی. 

’’آپ موجودہ دور میں نفاذِ اسلام کے منصوبے اور اس پر عمل در آمد سے مطمئن ہیں؟‘‘
’’قطعاً نہیں!‘‘ وہ اعتراف کے معاملے میں بے باک اور مکمل طور پر راست گو تھے.
’’کیوں کوئی وجہ‘ کوئی خامی؟‘‘

’’نفاذِ اسلام کی رفتار اس قدر مدھم اور خطوط اس قدر موہوم ہیں کہ اگر واقعی اس کی برکات معاشرے پر اثر پذیر ہو چکی ہیں تو ان کا واضح اور مکمل ظہور نہیں پایا جاتا. اسی وجہ سے لوگوں میں مایوسی اور کم حوصلگی پائی جاتی ہے. موجودہ حکومت نفاذِ اسلام کے معاملے میں انتہائی سست روی سے کام کر رہی ہے. دوسرے یہ کہ دین کے نفاذ کے سلسلے میں بھی انہوں نے اپنی ترجیحات رکھی ہیں اور یہ ترجیحات دین سے ہرگز ہرگز مطابقت نہیں رکھتیں. مثلاً یہ کہ جنسی جرائم کی جو سزا وہ دیتے ہیں‘ ان میں احکامِ دین اور قرآن کے مطابق ستر اور حجاب کے جو احکام ہیں‘ ان پر قطعی عمل نہیں ہوتا. بتدریج ہی سہی‘ نافذ تو کریں. دین کے احکامات پر مکمل طور پر عمل درآمد‘ خواہ وہ تدریجی طریق کار ہو یا انقلابی عمل کے ذریعے‘ دین مبین کی آفاقی حیثیت کے نفوذ کا واحد ذریعہ ہے اور اب جب کہ عمل در آمد ہی نہیں ہو رہا ہے بلکہ وقت کا بڑا حصہ صرف دستاویزی تیاریوں وغیرہ میں صرف ہو رہا ہے تو امر لازم ہے کہ اس رفتار سے سفر کی منزلوں کا تعین انتہائی مایوس کن ہو گا.‘‘ 

’’کیا آپ کے خیال میں دین کو مکمل طور پر یک لخت نافذ کرنا چاہیے؟‘‘
’’جی ہاں! یک لخت اور آناً فاناً کیونکہ اسلام کو نافذ کرنے کے لیے ’’جزو‘‘ کے فلسفے سے ’’کل‘‘ کا فلسفہ زیادہ مؤثر اور مستحکم ہے‘ اور انقلاب ہی وہ لفظ ہے جو اس کے عمل کو بیان کر سکتا ہے. یعنی انقلابی خصوصیت کے حامل لوگ انقلابی جماعت بنائیں اور انقلاب کی راہ ہموار کر کے غیر اسلامی شعائر کو یک لخت منسوخ کریں. یہ وہ لوگ ہوں جو بنیادی طور پر تربیت شدہ ہوں‘ جنہوں نے اسلام کی خاطر قربانیاں دے کر اپنے آپ کو ثابت کیا ہو. جب تک محنت ِشاقہ سے ایسے لوگ فراہم نہ ہوں گے جو دین کی آفاقی حیثیت پر نا قابل شکست اعتماد رکھتے ہوں اور اس کے نفاذ میں کسی مزاحمت کی پرواہ نہ کرتے ہوں‘ ایک انقلابی جماعت کا وجود میں آنا معنی خیز نہیں.‘‘

’’نفاذِ اسلام کے لیے کیا اسلام کو زمانے اور وقت کے ارتقائی مدارج کا تابع رکھنا بہتر ہے یا زمانے کو اسلام کے اتباع سے مشروط رکھنا ہو گا؟‘‘
’’اصل میں تو ہمیں زمانے کو دین کے تابع کرنا ہے. دین کو وقت کے پیمانے میں اتارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ کیونکہ دین ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کی تمام تر مادّی اور روحانی افادیت کی کما حقہ ٗ معنویت کے ساتھ نافذ کیا گیا ہے. ارتقاء دراصل کائنات کے علم کے حصول اور اس کے ذریعے زندگی کے معیار اور حصولِ آگہی کے معیار کا بتدریج اضافہ ہے. اس اضافے کے لیے لباس‘ طرزِ معاشرت‘ طرزِ بودوباش‘ عقیدے یا یقین میں تبدیلیوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی. البتہ ایک عنصر ’’اجتہاد‘‘ کا ہے. وہ چونکہ دین کے اندر ہے‘ دین سے باہر نہیں‘ لہذا میں اس کو یوں نہیں کہوں گا کہ ہم نے زمانے کے مطابق دین کو کیا ہے‘ بلکہ دین تو اپنی جگہ پر صدیوں سے قائم ہے. ہمیں اس کو نافذ کرنا ہے‘ حاکم بنانا ہے.‘‘

’’ڈاکٹر صاحب! بسا اوقات لوگ آپ کو انتہا پسند قرار دیتے ہیں. کیا آپ واقعی انتہا پسند ہیں؟‘‘
’’در اصل‘ مجھے یہ انداز ہی نہ تھا کہ لوگ مجھے انتہا پسند سمجھتے ہیں. مجھے تو یہ بھی علم نہیں کہ وہ کس انداز میں مجھے انتہا پسند قرار دیتے ہیں. میں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میں خود کو Fundamentalist کہلائے جانے پر اعتراض نہ کروں گا‘ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کے جو fundamentals ہیں ان پر میں کبھی سمجھوتہ نہیں کر سکتا. میں دین کو مکمل سمجھتا ہوں‘ اس میں ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں کرتا. مجھے یقین ہے کہ دین کو وقت کے لحاظ سے تبدیل کیے بغیر بھی انسان ارتقاء کے اعلیٰ ترین مدارج طے کر سکتا ہے. اس لیے ہو سکتا ہے کہ لوگ مجھے انتہاپسند سمجھتے ہوں‘ کیونکہ میں دین پر تصرف کرنے میں ایسا کوئی سودا کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا. اب مجھے انتہا پسند کن معنوں میں کہا جاتا ہے‘ اس کا مجھے کوئی جواز ہی نظر نہیں آتا.‘‘

’’اگر آدمی اپنی ذات کی حد تک مضبوط کردار کا حامل ہو تو انتہا پسند ہو جاتا ہے. تاہم کیا مذہب کے سلسلے میں تمام معاشرے کو انتہا پسند بنایا جا سکتا ہے‘ یعنی کسی بھی چیز کا نفاذ جس پر طبیعت مکمل طور پر تربیت یافتہ نہ ہو؟‘‘
’’در اصل اسلام کا نفاذ ہی میری زندگی کا واحد مقصد ہے. اس کے لیے جدو جہد اہم ترین عنصر ہے. جدو جہد کے ذریعے ہی لوگوں کو قائل کر کے آمادہ کرنا ہو گا. اس کے بعد ان کے تعاون سے ایک جماعت تشکیل کرنی ہو گی. جب لوگ قائل ہو جائیں گے تو کوئی امر انہیں اپنے اندر زبردست انقلاب پیدا کرنے سے نہیں روک سکے گا. لیکن یہ ایسے تو نہیں ہو سکتا کہ آج میرے ہاتھ میں اختیار دے دیا جائے تو میں اسلام کو نافذ کر دوں. واقعتا جب تک ہم انقلابی عمل سے نہ گزریں گے‘ اسلام کی تنفیذ اور اسلام کا غلبہ ممکنات میں سے نہیں.‘‘

’’تو کیا یہی وجہ ہے کہ ہم ہنوز اسلام کے نفاذ کے راستے تلاش کر رہے ہیں تاکہ مستقبل کے کسی دور میں تدریجی بنیادوں پر اسے نافذ کیا جا سکے؟‘‘ میں نے سوال کیا.
’’ہاں ‘‘ مختصر سا جواب تھا. 

کافی عرصے سے ڈاکٹر صاحب کے خواتین کے سلسلے میں موقف پر خبریں چھپ رہی تھیں. اگرچہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے کسی انٹر ویو میں کہا تھا کہ ’’میں کسی تنازعے کے لیے نہیں ہوں‘‘ تاہم ان کی ذات وشخصیت متنازعہ بنی یا پھر لفظ تنازعہ کو ایک نیا موضوع مل گیا‘ خواہ مطلب کچھ بھی ہو. چونکہ مجھے ان موضوعات پر تشفی کے لیے معلومات درکار تھیں‘ لہذا میں نے پوچھا:

’’دینی لحاظ سے خواتین کی تربیت کن خطوط پر ہونی چاہیے کہ عورت احساسِ حق تلفی اور محرومی کے بغیر اعتماد کے ساتھ معاشرے کا ایک فعال حصہ مقرر ہو جائے؟ او پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت جس عقیدے کے درمیان پل کر جوان ہوتی ہے‘ دمِ آخر تک اسی پر سختی سے قائم رہتی ہے. اس سلسلے میں عورت سے تبلیغ کی ابتدا کے بارے میں بحث فرمایئے.‘‘

’’تبلیغ کے بارے میں مرد اور عورت یکساں ہیں. یعنی جب بھی کسی معاشرے میں کسی بھی خیال کے تحت تبلیغ کی ابتدا ہوتی ہے تو وہ خواتین اور مردوں پر یکساں انداز میں اثر انداز ہوتی ہے. یکساں انداز ہی میں اسے قبول کیا جاتا ہے. عورت کو بہترین تربیت اور بہترین کارکردگی کی مراعات ملنا چاہئیں‘ کیونکہ اگلی نسل اس کی گود میں پلتی ہے‘ لیکن انقلاب کی ابتدا میں سب سے بڑا کردار مردوں کاہوتا ہے. تاہم ہر دو صورتوں میں کسی کی اہمیت کا تعین بآسانی نہیں کر سکتے‘ کیونکہ دونوں اپنی اپنی جگہوں پر اہم اور مضبوط ستون کی سی کیفیت رکھتے ہیں. البتہ جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کی جسمانی اور نفسیاتی ساخت میں فرق کا تعین کر دیا ہے. اس تعین کی مقرر کردہ حد میں ذہنی‘ روحانی اور اخلاقی حصار کے ساتھ انہیں تعلیم و تربیت کے مکمل مواقع فراہم ہونا چاہئیں. غلط تعلیم کے ذریعے ایک بڑا الجھاؤ وجود میں آتا ہے جو اپنی تباہ کاریوں کے ذریعے ہماری بہترین صلاحیتوں کو مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے.‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا موجودہ نظام تعلیم یکسر غیر مؤثر اور بے معنی ہے؟‘‘

’’ہاں‘ اکثروبیشتر میرے خیال میں لڑکیوں کے لیے ادب‘ فلسفہ‘ سائیکالوجی ایسے علوم ہیں جن سے بہترین نسلوں کو وجود میں لانا ممکن ہے. ایسے علوم جن سے ان کے اندر شعور پیدا ہو‘ جن سے تربیت ِاولاد کی صلاحیت میں اضافہ ہو‘ انسانی نفسیات کا فہم ہو‘ امورِ خانہ داری کی عملی تربیت کا مظاہرہ ہو. میڈیکل لائن میں خواتین کے ذریعے پردے میں خواتین کے عوارض کے علاج کی مکمل ترین سہولتوں کا اہتمام ہو‘ تاکہ عورتوں کا علاج معالجہ عورتیں ہی کرسکیں‘ سوائے اس کے کہ بہت ہی پیچیدہ معاملہ ہو تو مردوں کے پاس جائے. ورنہ اس سلسلے میں مردوں کی حوصلہ شکنی ہونا چاہئے.‘‘
’’درس وتدریس کے شعبے میں بھی خواتین کا حق ہو سکتا ہے؟‘‘

’’جی ہاں‘ بے شک کیونکہ خواتین کے لیے علیحدہ شعبۂ تعلیم قائم کرنا از حد ضروری ہے تاکہ پردے کی عظمتوں کے ساتھ علم مثالی معراجِ کمال سے خواتین میں منتقل ہو جائے.‘‘

’’کیا عورت اتالیق کی حیثیت سے مرد سے بہتر کام کر سکتی ہے؟ پرائمری لیول تک صرف عورتوں کو استاد مقرر کیا جا سکتا ہے؟‘‘
’’جی ہاں! لڑکے ہوں یا لڑکیاں‘ tender age میں ماں کی شفقتوں کی طرف رغبت رکھتے ہیں. اس جذباتی کیفیت کے سبب پرائمری لیول تک‘ جہاں بچے بچیاں ہنوز کم سنی کے دور میں ہوں‘ خواتین اساتذہ اپنی محبتوں سے لبریز طرزِ عمل سے بہترین نتائج برآمد کر سکتی ہیں. اس لیول کے بعد لڑکوں کے لیے مرد اور لڑکیوں کے لیے صرف خواتین اساتذہ کے شعبوں کا منتقل کر دینا ناگزیر ہو جاتا ہے. اس طرح دین کی پابندی کے ساتھ معیاری کردار بھی حاصل ہو سکتا ہے.‘‘
’’ملازمتوں کے شعبے علیحدہ کرنے کے بعد خواتین کو زیادہ فعال کردار دینا نا انصافی تو نہیں؟‘‘

’’موجودہ دور‘ تقابل کا دور ہے. نوعِ انسانی کا تناسب زیادہ سے زیادہ ہو رہا ہے. ویسے تو اصولی طور پر کفالت کی ذمہ داری مرد کی ہے‘ لیکن اگر ناگزیر وجوہات کی بنا پر مرد اس ذمہ داری کو نبھانے سے معذور ہے اور اگر ملکی معیشت میں بھی ضرورت ہو تو ہم اپنی پیداوار میں خواتین سے مدد لیں‘ کیونکہ اس وقت دنیا ایک معاشی مقابلے میں بری طرح مبتلا ہے‘ تو اس صورت میں اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے متبادل صورت حال فراہم کرنا ہو گی.‘‘

’’یعنی ـ؟‘‘ میں نے پوچھا. ’’یعنی محلہ در محلہ کاٹن انڈسٹریز سے خام مال گھروں میں پہنچایا جائے‘ جہاں عورتیں کام کریں اور شام کو فوری ادائیگی کے بعد مال واپس لیا جائے. اس قسم کا باقاعدہ نظام مربوط طریقے سے ذرا سے جہد سے قائم ہو سکتا ہے. ایسے انڈسٹریل یونٹ بنائے جائیں جن میں عورتیں کام کریں اور عورتیں ہی کام لیں. خواتین کی جسمانی ساخت اور نجی مصروفیات کے لحاظ سے short shift بنیاد پر انہیں ملازم رکھا جائے. یہ شفٹ چار گھنٹے کی ہو. یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب رجائیت پسند قیادت نہیں بلکہ مذہبی قیادت برسر اقتدار آئے‘ جس کا اپنا ایک مکمل نظریہ ہو کہ ہر حالت میں دین کی پابندی کرنا ہے‘ اس کے ساتھ چلنا ہے تو یہ سارے کام بحسن وخوبی انجام پا سکیں گے. لیکن جب ان چیزوں کو صرف ظاہری نگاہ سے پرکھا جائے گا تو یہ سب کام پہاڑ معلوم ہوں گے.‘‘ 

ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا: ’’اسلام کے معاشرتی نظام میں عورت کا اصل مقام اس کا گھر اور نسلوں کی پرورش وپرداخت ہے. عام حالات میں ایک عورت‘ اوّل تا آخر ایک خانہ دار عزت مآب بیوی‘ ماں‘ بہن اور بیٹی ہے تاہم بوقت ِضرورت اسے زندگی کی ہر ُجہد میں مسابقت کا حق حاصل ہے مگر حدود کے ساتھ.‘‘

’’صحافی اور دانشور حضرات تجسس میں ہیں کہ آپ عورت کو کس طرح رکھنے پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا کبھی آپ نے ان سے دریافت کیا کہ وہ اپنی خواتین کو کس طریقے پر رکھتے ہیں؟‘‘

’’میرا اِن حضرات سے براہِ راست کبھی رابطہ نہیں رہا. روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ارشاد احمد حقانی کام کرتے ہیں. وہ میرے پاس آئے تو میں یہ نہیں سمجھا کہ وہ میرے پاس انٹر ویو کی غرض سے آئے ہیں. وہ ہمارے پرانے ہم جماعتوں میں سے ہیں. جب انہوں نے مجھ سے وقت مانگا تو میں سمجھا کہ پرانی ملاقات کی تجدید کے لیے یا پھر ایسی ہی کسی ملاقات کے لیے آئے ہیں. تاہم مجھے اعتراف ہے کہ وہ صحافی کی حیثیت سے مجھ سے انٹر ویو لے گئے. کچھ سوالات آخر میں سرعت سے یکے بعد دیگرے ہو گئے. اس میں بعض باتیں خالص تھیوریٹیکل طرز کی تھیں‘ جیسے: آج آپ کے ہاتھ میں طاقت آ جائے تو آپ کیا کریں گے؟ تو میں نے کہا: سب کو پنشن پر بھیج دوں گا‘ خاص طور پر خواتین کو. ظاہری بات ہے کہ پنشن پر بھیج رہا ہوں‘ ڈس مس تو نہیں کررہا ہوں. پنشن مل جائے تو اور کیا چاہیے؟ گھر بیٹھیں. بہر حال مجھے اس بات کا اندازہ نہیں‘ کیونکہ میرا صحافیوں سے زیادہ تعلق نہیں کہ وہ کیا سوچتے ہیں‘ ان کے گھریلو حالات کیسے ہیں؟‘‘

’’ایک کثیر الاشاعت روزنامہ میں عورت کے مقام کے عنوان سے کچھ مضامین شائع ہوئے ہیں. ایک صاحب نے لکھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’عورت جو کہے‘ اس کے خلاف کرو. اس میں بڑی برکت ہے‘‘ جب کہ ہمارے نبی کریم ﷺ اگر عورت کے بارے میں ایسی رائے رکھتے تو بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مشاورت کا جواز باقی نہ رہتا. آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

’’میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں. ہو سکتا ہے کہ ایسی بات ہو بھی اور چونکہ یہ مضامین میرے مطالعے سے نہیں گزرے‘ لہذا میں اس سلسلے میں کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتا.‘‘ 

’’ آپ اور بہت سے حضرات خواتین کے لباس کے بارے میں خاصے متفکر پائے جاتے ہیں اور یہ درست بھی ہے. تاہم آپ نے کبھی مردوں کی چست پتلونوں کو دیکھا ہے جو ٹی شرٹ‘ جرسی اور بنیانوں پر پہنی ہوتی ہیں. کیا مردانگی اور برہنگی دورِ جدید کی توام بہنیں تو نہیں؟‘‘

ڈاکٹر صاحب نے میرے سوال کو تحمل سے سنا اور فرمایا:

’’ستر پوشی ہر دو اَصناف پر لازم ہے تاکہ معاشرہ پاکیزہ حیثیت کو برقرار رکھ سکے. آپ کی بات صحیح ہے. ساتر لباس‘ مرد کا بھی ہونا چاہیے. مرد کے ستر کی حد ناف کے اوپر سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک ہے‘ لیکن عورت کے لیے سوائے چہرے کی ٹکیہ‘ ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ تمام اعضاء کا پوشیدہ رکھنا شرعاً فرض ہے. مرد اور عورت میں نفسیاتی اعتبار سے ایک فرق ہے. جسمانی لحاظ سے عورت کے لیے مرد میں کشش ہے اور مرد کے لیے عورت میں لیکن نفسیاتی فرق یہ ہے کہ مرد قوی تر ہے اور اقدام اور فعالیت میں فزوں تر. اس میں آگے بڑھنے کا حوصلہ ہے. عورت میں نفسیاتی طور پر گریز ہے‘ فطری گریز ہے اور یہی اس کی نسوانیت کا اصل زیور ہے. لہذا عورت مرد کی طرف متوجہ ہونے کے باوجود فطری طور پر اِقدامِ حصول میں اتنی شدید نہیں جتنا کہ مرد ہے. اس اعتبار سے عورتوں کا مردوں کو دیکھنا اتنا اشتعال انگیز نہیں ہے جتنا کہ مردوں کا عورتوں کو دیکھنا. ورنہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرد بھی پردہ کریں. نہ عورتیں مردوں کو دیکھیں نہ مرد عورتوں کو لیکن یہ بات نہیں ہے. صرف عورتوں کو پردے کا پابند کیا گیا ہے‘ جسم کا بیشتر حصہ چھپانا لازمی قرار دیا گیا ہے. لیکن مرد کے لیے اس قدر پابندی نہیں مثلاً مرد کا ستر ناف کے اوپر سے لے کر گھٹنے کے نیچے تک ہے. اگر جسم کا یہ حصہ ڈھکا ہوا ہے تو ٹھیک ہے. اگر اُس نے قمیص نہیں پہنی ہوئی ہے تو اس پر لازم بھی نہیں ہے. تاہم عورت کا پورا جسم ستر ہے سوائے چہرے کے اور ہاتھ‘ پیر کے. لیکن آج کل مرد جو چست لباس پہنتے ہیں‘ وہ درست نہیں ہے. خاص طور پر نیکر‘ کھیلوں میں شارٹس کا استعمال‘ تیراکی کا لباس شریعت کے سراسر خلاف ہے. مرد کو ناف سے اوپر اور گھٹنے سے نیچے تک جسم کو کپڑے سے پوشیدہ رکھنا ضروری اور شرعی ہے.‘‘

’’مذہب‘ معاشرے میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟‘‘
’’ آپ کا انٹر ویو ہنوز ختم نہیں ہوا؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے پہلو بدلا. 

’’دیکھیے محترم ڈاکٹر صاحب! سوال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین آپ کے علم کے ایک ایک لفظ کو وضاحت کے ساتھ سن لیں‘ سمجھ لیں اور توفیق ہو تو عمل بھی کریں.اس لیے گستاخی معاف.‘‘

وہ شفقت سے بولے :
’’معاشرے میں مذہب وہی کردار ادا کرتا ہے جو ایک فرد کی زندگی میں. مذہب اخلاق کی بنیاد فراہم کرتا ہے. اس سے بڑی اور کیا بات ہو گی کہ معاشرہ نفس حیوان کی بربریت سے صرف اور صرف دین کی وجہ سے پاک ہو گا. ایک انسان دوسرے انسان کا حق‘ اس کے طلب کرنے سے پہلے ادا کر دے گا. یہ ایک بہت عظیم تربیت کی بات ہے کہ حقوق کی ادائیگی میں عجلت کا تصور‘ کردار کے اعلیٰ ترین تصور کی ضمانت ہو گا اور یہ ضمانت صرف دین کا احیاء ہی دے سکتا ہے. مذہب‘ معاشرے میں رہنے والوں اور معاشرے کو جزا اور سزا کا تصور دیتا ہے‘ خود احتسابی کا قانون دیتا ہے‘ جس سے انسان خود اپنے طرزِ عمل پر ناقدانہ احتساب قائم کرتا ہے. مذہب کے جو اثرات انفرادی طور پر فرد پر مرتب ہوتے ہیں‘ وہی اجتماعی طور پر معاشرے پر ہوں گے. ہمارا جو مذہب ہے وہ مذہب نہیں‘ دین ہے‘ بلکہ دین کے بارے میں مَیں کہوں گا کہ This is a way of life, rather a system of life جس میں اس کا معاشی‘ سیاسی‘ سماجی ایک مکمل نظام پنہاں ہے. ان کے درمیان عدل و انصاف‘ اعتدال و توازن ہے جو انسان کی بنیادی ضرورت ہے کہ ہر انسان ہر طرح کی اونچ نیچ‘ ہر طرح کی افراط وتفریط سے بچ کر رہے. انسان کو دین کی صورت میں جو متوازی نظام ملا ہے‘ وہ درحقیقت اسلام کا نوعِ انسانی پر ایک بہت بڑا احسان ہے.‘‘

’’جہاد کے بارے میں فرمایئے؟‘‘
’’جہاد کے تین حصے ہیں. ایک اپنے نفس حیوان کی بربریت کے خلاف جہاد یعنی اپنے نفس کو ممکنہ حد تک برائیوں سے پاک کرنے کا مرحلہ. جب تک انسان خود شر‘ برائی اور حرام خوری سے نہ بچے گا‘ وہ کوئی جہاد نہ کر سکے گا. یہ وہ most fundamental جہاد ہے جہاں انسان اپنی ذات سے آگاہ ہوتے ہوئے شرفِ آدمیت کے حصول کے لیے حیوانی محرکات کو قابو کرتا ہوا نفس حیوان کو مکمل طور پر زیر کرنے کے اہل ہو جاتا ہے. 
دوسرا جہاد ہے معاشرے میں توہمات یا باطل نظریات‘ متصادم اور متضاد مکاتب فکر میں اصلاحِ حال واحوال‘ تہذیب وتمدن اور ثقافت کی ترویج میں نقائص کو قطع کرنا‘ یعنی اسلامی معاشرے کو عین اسلام کے مطابق رواج دینے کے لیے ہر فرد کا انفرادی جہاد ایک اجتماعی کیفیت کے ساتھ ایک اعلیٰ ترین بے مثال قوم کی صورت میں وجود پاتا ہے.

تیسرا جہاد وہ ہے جو اُن اقوام کے ساتھ ہے جنہوں نے اس عظیم المرتبت منصوبے کو خاک میں ملا کر اپنے عقائد کی برتری اور اپنے اقتدار کے ذریعے نوع آدم کو اپنا تابع بنانے کی کوشش کی‘ یعنی حق کا باطل کے ساتھ مقابلہ آخری سٹیج ہے جس میں جان کی بازی بھی لگتی ہے.‘‘

’’علماء کی سطح سے صرف تقریریں ہی جہاد ہیں. ایسے بے عمل عالموں سے ہم کن تاریخی فتوحات کی امید رکھ سکتے ہیں؟‘‘ میں نے ایک چبھتا ہوا سوال کیا‘ لیکن انہوں نے اپنے مخصوص ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں جواب دیا:

’ہمیں دوسروں سے بہت سی امیدیں وابستہ نہیں رکھنا چاہئیں بلکہ خود بڑھ کر عمل کرنا چاہیے. وہ جو کچھ کر رہے ہیں‘ وہی غنیمت ہے. ایسے ماحول میں بہت کچھ حاصل ہونا امر محال ہے. تاہم ایک رمق ِشرر فشانی‘ اس خس وخاشاک میں رہ گئی ہے. اس میں علماء کا بہت بڑا contribution ہے. انہوں نے مسجدیں آباد رکھی ہوئی ہیں‘ اذانیں ہیں‘ نمازیں ہیں‘ جمعے ہیں‘ خطبے ہیں. یہ سب کیا ہے؟ معاشرے میں ان کا مثبت حصہ ہے. پھر میں ایک سوال کرتا ہوں کہ ہم سب لوگ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ سارا کام وہی کریں. ہمیں خود بھی تو بحیثیت مسلمان کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے. اپنے اعمال کی کوتاہی کا اللہ تعالیٰ کے سامنے وہی جواب دیں گے اور اسلام میں یہ کام صرف علماء کا نہیں بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے.‘‘

’’بچے کو بہترین اسلامی لٹریچر پڑھایا جائے‘ بہترین اسلامی تربیت دی جائے اور بہترین شخصیت کے ساتھ پیش کیا جائے اور ہر گھر میں یہی جذبہ پروان چڑھے تو کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ موجودہ منافقت کا دور ہٹے اور اسلام جلد از جلد اپنی تمام افادیت کے ساتھ نافذ ہوجائے‘‘. میں نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کیا تو وہ بولے:

’’جی ہاں! میں نے پہلے ہی کہا ناں کہ جہاد کی ابتدا تو خود انسان کے اپنے نفس سے ہوتی ہے.‘‘ 
’’ڈاکٹر صاحب! بلا سود بینکاری کے سلسلے میں کیا ہم پوری طرح اسلام پر کاربند ہیں؟‘‘

’’در اصل میں اس نظام کو ہنوز اسٹڈی نہیں کر سکا ہوں جو کہ نافذ کیا گیا ہے‘‘. ڈاکٹر اسرار احمد نے جواب دیا. ’’جہاں تک ہماری معلومات حاصل کرنے کی بات ہے تو اس بارے میں یہی معلوم ہوا ہے کہ حکومت ’’بلا سود بینکاری‘‘ کا سارا روپیہ صرف اَجناس کی خریداری پر صرف کر رہی ہے. اس میں مارکر سسٹم بھی استعمال ہو رہا ہے. تاہم ایک بات میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ نظام اپنی روح کے اعتبار سے سودی ہی ہے.‘‘

’’جی ہاں‘ بلا سود بینکاری نظام ہنوز متنازعہ مسئلہ ہے‘ لیکن شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟‘‘
’’شریعت تو سود کو حرام قرار دیتی ہے‘‘. ڈاکٹر صاحب کی آواز کھلا جہاد تھی‘ لہجہ تلوار کی سان تھا. 
انہوں نے کہا: ’’کوئی شخص جو اس سسٹم آف بینکنگ پر عبور رکھتا ہو‘ وہی اس کی صحیح تشریح کر سکتا ہے. البتہ میرے نزدیک اگر ایک آدمی حکومت کی اس یقین دہانی پر کہ یہ سودی نہیں‘ اس میں روپیہ جمع کرائے گا اور اسے کچھ نہ معلوم ہو گا تو ان شاء اللہ وہ گنہگار نہ ہو گا. اس کے گناہ کا پورا وزن حکوت کے کریڈٹ کارڈ میں درج ہو گا.‘‘ 

’’اگر اس کو معلوم ہو جائے تو؟‘‘ ڈاکٹر مبین اختر نے سوال کیا.
’’تو وہ گنہگار ہو گا‘‘. ڈاکٹر اسرار احمد نے مختصراً جواب دیا.

’’جو لوگ بینکنگ نظام میں اپنے فرائض ملازمین کی حیثیت سے انجام دیتے ہیں‘ ان کے مشاہروں کے بارے میں متضاد رائے پائی جاتی ہے. آپ کیا کہیں گے؟ـ‘‘

’’غیر سودی کھاتہ تو اَب کھلا ہے‘‘. ڈاکٹر صاحب بولے ’’پہلے تو یہ نظام سو فی صد سود پر تھا. تب بھی لوگ ملازمت کر رہے تھے. ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے تاجر ایسے ہیں جو اوور ڈرافٹ پر بزنس نہیں کرتے. کتنے کاروباری لوگ ایسے ہیں جو سود نہیں لیتے! معاشرے میں تو حرام خوری رچ بس گئی ہے. کسی بھی ملک میں‘ جب کہ اس میں اپنا ایک ادارہ بھی ہو اور اس ادارے کا ایکdetermination بھی ہو تو وہ ملکی نظام اختیار کرتا ہے. دنیا اس کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کر لیتی ہے. دنیا ہمارے ساتھ بزنس کرتی ہے تو اپنی غرض سے کرتی ہے‘ صرف ہمارے فائدے کے لیے نہیں کرتی. کوئی ملک ہمیں مدد دیتا ہے تو اپنے مفاد کے لیے دیتا ہے مگر جب ہم اپنا ایک مکمل نظام معیشت ترتیب دے لیں گے تو دنیا صرف اپنی غرض کے لیے ہمارے ساتھ مذکورہ نظام کے تحت ہو گی تو کوئی دقت نہ رہے گی‘ اور پھر جب ہماری تجارت کا رابطہ سودی معیشت پر چلنے والے ممالک سے رہے گا تو لازماً سود آہستہ آہستہ ہماری رگوں میں گردش کناں ہو جائے گا. آخر کمیونسٹ ممالک بھی تو ہیں جہاں سودی نظام نہیں تو وہاں سے بھی تو تجارت ہوتی ہے. انہوں نے غیر محسوس طریقے پر اسلامی تصور اپنا لیا جبکہ ہمارا نظام اس سے عاری ہے.‘‘

’’کچھ اپنے بارے میں بتائیے؟‘‘
’’حصار‘ مشرقی پنجاب جو اَب ہریانہ میں ہے‘ وہیں میری پیدائش ۱۹۳۲ء میں ہوئی‘‘. عجیب تقدس اور سادگی سے انہوں نے کہا. ’’۱۹۴۷ء میں وہیں سے میٹرک کیا. تقسیم کے بعد ہجرت کر کے ہم مغربی پنجاب یعنی پاکستانی پنجاب میں آ گئے. لاہور میں تعلیم حاصل کی. ۱۹۴۷ء تا ۱۹۴۹ء گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کی. ایم بی بی ایس کے لیے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کو منتخب کیا اور وہاں سے ۱۹۵۴ء میں فارغ التحصیل ہوا. ہائی اسکول لائف کے دوران میں‘ میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا ممبر تھا. دین سے غیر معمولی رغبت فطرتِ ثانیہ تھی. یہی وجہ تھی کہ میں سرگرم کارکن تھا. اپنے ضلع کی آرگنائزیشن کا جنرل سیکرٹری تھا. کالج لائف میں میرا رابطہ فوری طور پر جماعت اسلامی کی جمعیت طلبہ سے ہوا. میری تعلیمی زندگی کے سات سال جمعیت طلبہ کے ساتھ تھے. اس کے بعد میں نے جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کر لی. تقریباً ڈھائی سال تک میں جماعت کا رُکن رہا. ۱۹۵۶ء میں‘ میں نے اپنا ایک مضمون لکھا جس میں مجھے جماعت کی پالیسی کے ساتھ اختلاف تھا. اس کی وجوہات عملی اور انتخابی سیاست میں جماعت کی غیرمعمولی مصروفیات تھیں‘ جس کی وجہ سے میرے خیال میں بنیادی کام میں رکاوٹ پیدا ہو رہی تھی. مولانا مودودی صاحب کا خیال یہ تھا کہ اس پالیسی میں کوئی ترمیم نہیں ہونی چاہیے. اس وقت جماعت میں بڑے بھاری اور سمجھ دار لوگ شامل تھے‘ مثلاً مولانا اصلاحی صاحب. انجام کار‘ ہم لوگ جماعت سے علیحدہ ہو گئے. جماعت سے علیحدگی تھی‘ تحریک سے علیحدگی ہرگز نہ تھی. میری عمر اُس وقت پچیس برس تھی. میں جوان تھا اور انتظار میں تھا کہ بزرگ لوگ شاید تنظیم کی شکل اختیار کریں تو ان کے ساتھ ہم بھی منزلوں کا رخت ِسفر باندھیں. لیکن کچھ اَسباب کی بنا پر اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی تو پھر ۱۹۶۶ء کی ابتدا میں‘ جب میں تینتیس برس کا تھا اور حوصلے مضبوط اور پختہ ہو چکے تھے‘ میں نے تہیہ کر لیا کہ مجھے خود کام کرنا چاہیے. چنانچہ پھر میں دوبارہ لاہور شفٹ ہوا کیونکہ میں ایم بی بی ایس کر کے ساہیوال آ گیا تھا‘ جہاں میرے والدین تھے. لاہور منتقل ہو کر میں نے اپنا کام شروع کر دیا. میں نے قرآن مجید کے دروس کے ذریعے بنیادی باتیں مثلاً دین اور دینی فرائض کے تصور پر کام کیا. تقریباً چھ برس تک تن تنہا کسی تنظیم کے بغیر لگاتار خلوص کے ساتھ کام کرتا رہا. میں نے اصلاحی صاحب کے ساتھ ’’میثاق‘‘ جاری کیا جو میرے اپنے اشاعتی ادارے ’’دار الاشاعت اسلامیہ‘‘ سے شائع ہوتا تھا‘ جو بعد میں بند ہو گیا تھا. میری تنہا کوششیں تھیں کہ ’’میثاق‘‘ دوبارہ جاری ہوا. ۱۹۷۲ء میں‘ میں نے ’’انجمن خدام القرآن‘‘ قائم کی. میں اس کا بانی اور تا حیات صدر ہوں. پھر ۱۹۷۵ء میں ’’تنظیم اسلامی‘‘ قائم کی. یہی میری مختصر سی سرگزشت ہے.‘‘ ڈاکٹر صاحب خاموش ہوئے تو میں نے کہا: ’’ آپ نے تنہا رہ کر بڑے حوصلے سے کام کیا ہو گا؟‘‘

’’جی ہاں‘ مجھے تنہا ہی بہت حوصلے اور فلک آسا امیدوں کے ساتھ اس عظیم مقصد کی خاطر منصوبوں پر عمل در آمد کے لیے تیار ہونا پڑا.‘‘

’’آپ نے ایم بی بی ایس کے بعد کتنے عرصے پریکٹس کی؟‘‘
’’سولہ سال ‘‘

’’تو اب آپ پریکٹس نہیں کر رہے؟‘‘
’’۱۹۷۱ء سے میں نے یہ پریکٹس بند کر دی ہے.‘‘

’اسلام‘ ڈاکٹری اور نفسیات میں کوئی مطابقت؟‘‘
’’مادّی طور پر انسان کا جسمانی نظام نہایت پیچیدہ اور محکم ہے جس میں مرکزی مقام دل کا ہے جبکہ نفسیاتی طور پر جذباتی کیفیات کا سرچشمہ دماغ ہے. جب یہ نفسیاتی اور جذباتی کیفیات جسم پر حاوی ہونے لگتی ہیں تو مینٹل پیتھالوجی کو جنم دیتی ہیں. یعنی فرسٹریشن‘ اضطراری کیفیات‘ خواہشات کی بہتات وغیرہ‘ اور ان ذہنی abnormalities کے اثرات انسان کے نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں. ان نفسیاتی کیفیات کو اعتدال میں رکھنے کے لیے ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کو ہم internal peace کہتے ہیں. یہ کیفیت انسان کی تمام جسمانی اور روحانی حیثیتوں کو مربوط رکھتے ہوئے اجتماعی طور پر ایک اور ہمہ گیر وصف کو جنم دیتی ہے جو social peace ہے‘ یعنی از روئے حدیث ِنبویؐ : ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں‘‘. کسی کو کوئی گزند نہ پہنچے. اور یہ دونوں چیزیں در حقیقت ہمیں سب سے زیادہ اسلام سے ملتی ہیں.‘‘

’’کیا یہ ممکن ہے کہ دوائیوں کو کم کر کے اسلامی تعلیمات کے ذریعے مریض کا نفسیاتی طور پر علاج کیا جائے؟‘‘
’’ہاں‘ یہ ممکن ہے‘ عین ممکن اس میں معالج کی قوتِ ارادی اور روحانی سطح کا معیار ہونا بھی از حد ضروری ہے‘‘. ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا. 

میں مزید سوال کرنا چاہتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب نے شفقت سے کہا:

’’بھئی‘ پرچہ ختم ہوا تو آپ زبانی سوالات پر اتر آئیں میرے خیال میں آپ کے سوالات کا سلسلہ ہنوز ختم نہیں ہوا.‘‘
’’جی ہاں‘ میں اس برکت سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہیں. بحیثیت ڈاکٹر‘ دینی خدمات کیونکر انجام دی جا سکتی ہیں‘ کیونکہ آپ نے تو پریکٹس چھوڑ دی جبکہ یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں؟‘‘

’’ آپ اس مسئلے کو کچھ اس طرح سمجھئے کہ حضور ﷺ تاجر تھے‘ لیکن آپؐ نے دین کے لیے مکمل طور پر تجارت چھوڑ دی. ایک بڑے مقصد یعنی ملک وملت کی راہبری کے لیے ایک چھوٹے مقصد کو اتباعِ رسول ﷺ میں ترک کرنا ہوتا ہے تاکہ یکسوئی کے ساتھ تمام تر توجہ سے منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے. یعنی قومی سطح پر لیڈر بننا ہے تو اسے اپنا کام ترک کرنا ہو گا. میرے مقاصد بھی کچھ یہی تھے اور مقاصد کے حصول کے لیے مجھے یکسوئی درکار تھی. لہذا میں نے بھی اپنی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک بڑے مقصد کے لیے چھوٹے مقصد کو ترک کردیا. اس ضمن میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تاجر تھے اور تبلیغ بھی کرتے تھے. دین کی خدمات کے سبب ان کا کاروبار آہستہ آہستہ سمٹتا چلا گیا پھر میرا معاملہ بھی خاصا توجہ طلب ہے. جب میں جمعیت طلبہ کے لیے پنجاب اور لاہور کا ناظم تھا تو فروری میں اجلاس ہوا. مولانا مودودی صاحب اور مولانا اصلاحی صاحب بھی تشریف فرما تھے. میری وہ تقریر ’’ہم اور ہمارا کام‘‘ آج تک جمعیت کے لٹریچر میں شامل ہے. مولانا مودودی نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ علم دین کے کام میں بھی آگے رہیں اور تعلیم میں بھی آگے بڑھیں میں نے اسی رات گیارہ بجے مولانا مودودی صاحب کو پکڑ لیا. میں نے کہا‘ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں پرائمری سے اسکالر شپ لیتا آیا ہوں. چوتھی‘ آٹھویں اور دسویں‘ پھر ایف ایس سی میں فورتھ پوزیشن لی اور اسکالر شپ. یونیورسٹی میں‘ میں نے فورتھ پوزیشن لی. فرسٹ ایئر میڈیکل کالج میں فرسٹ آیا اور سیکنڈ ایئر میں میرے پاس دو اسکالر شپ تھے‘ یعنی ایف ایس سی کا بھی اور فرسٹ ایئر میڈیکل کا بھی لیکن میں دونوں جگہوں پر بیک وقت کیسے بیٹھ سکتا ہوں؟ تو مولانا صاحب نے کہا: ’’ہاں‘ تم ٹھیک کہتے ہو. میرا خود یہی حال ہے کہ جب سے تحریک عوامی دور میں داخل ہوئی ہے‘ میرا لکھنا‘ پڑھنا اور مطالعے کا کام تقریباً رُک گیا ہے اور میں اپنے سابقہ مطالعے پر بسر کر رہا ہوں‘‘. اس سے ثابت ہوا کہ ایک وقت میں ایک سے زیاہ کام پوری تن دہی سے انجام نہیں دیئے جا سکتے‘ اور پھر ‘‘ 

وہ ایک لمحے کو رُکے‘ پھر گویا ہوئے:
’’کسی مقصد کے حصول کے لیے لازمی بات ہے کہ پوری طاقت‘ حوصلوں اور علم کو ہر طرف پھیلانے کے بجائے سمیٹ کر ایک نقطے پر مرکوز کر دینا چاہیے. بیک وقت دو کشتیوں میں سوار نہیں ہوا جا سکتا. اسی وجہ سے میں نے پریکٹس چھوڑ دی.‘‘

’’کتنے بچے ہیں آپ کے؟‘‘
’’چار لڑکے اور پانچ لڑکیاں‘‘

’’کسی نے میڈیکل کیا ہے؟‘‘
’’جی ہاں‘ ایک لڑکے نے ایم بی بی ایس کیا ہے. دوسرے نے ایم اے فلاسفی کیا. دونوں ہماری قرآن اکیڈمی میں کام کر رہے ہیں. ڈاکٹر کو ہم نے شام کو کلینک کھول دیا ہے جس کا نام ’’انجمن کلینک‘‘ رکھا گیا ہے.‘‘ 
’’بیٹیوں میں سے کسی نے میڈیکل کیا ہے؟‘‘
’’نہیں‘ بیٹیوں کو میں نے اسکول بھیجا ہی نہیں. انہیں گھر ہی پر ایف اے تک تعلیم دلوائی ہے. شریعت کی حدود کے عین مطابق علم بھی دیا اور پردہ بھی پھر شادیاں کر دیں .‘‘ 

’’عید الفطر کے لیے آپ کا پیغام؟‘‘
’’اگرچہ میں ذہنی طور پر اس انٹر ویو کے لیے تیار نہ تھا‘ تاہم آپ نے انٹر ویو لے ہی لیا ہے تو پھر پیغام بھی لکھ لیجیے.‘‘

عید درحقیقت ایک شکریہ ہے رمضان کے روزوں کا جو ہم ادا کرتے ہیں اور عید اصل میں ان ہی لوگوں کے لیے ہے جو رمضان میں دن کو روزے رکھیں اور راتوں کو قرآن مجید کی تلاوت سے آباد رکھیں. جنہوں نے اس روحانی موسم بہار سے صحیح طور پر استفادہ کیا ہو‘ وہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں. لیکن افسوس کہ ہم نے اس کو ایک فیسٹیول بنا لیا ہے. ہونا تو یہ چاہیے کہ عید کا جو اسلامی تصور ہے‘ وہ بگڑنے نہ پائے. عید کی سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو واقعتا نفس کی غلامی سے اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لیے ایک ماہ کی مشقت کرتے ہیں‘ ان کا اللہ تعالیٰ کے سامنے شکرانے کی یہ دو رکعتیں ادا کرنا بھی معنی خیز عمل ہے. اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے‘ ورنہ تو یہ ہے کہ ہم نے اسے ایک تہوار کی سی صورت دے دی ہے.‘‘

’’گزشتہ دنوں‘ عید پر سویوں کے بارے میں آپ کے بیان پر بڑی گرما گرم بحث رہی. کیا سویاں کھانا شرعاً غلط ہے؟‘‘
’’شرعاً لفظ تو میں نے کبھی نہیں کہا. میں نے تو یہ کہا ہے کہ بعض چیزیں روایت کے طور پر ہمارے درمیان اس قدر مستحکم ہو گئی ہیں کہ ہم ان سے ذرا سا بھی اِدھر اُدھر نہیں ہلتے‘ حالانکہ ان کا کوئی ثبوت سنت میں نہیں ہے اور بعض چیزیں جن کی تاکید کی گئی ہے‘ وہ ہمارے ذہنوں سے اتر گئی ہیں. مثلاً عید کی نماز کو جاتے اور آتے ہوئے تکبیر پڑھنا بھول جاتے ہیں اور واپسی کے وقت راستہ تبدیل کر کے آنے کی سنت نبویؐ کا خیال نہیں کرتے لیکن یہ کہ ہر عید پر کچھ چیزیں لازمی سی اہمیت حاصل کر لیتی ہیں اور یہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے. جب اصل سنت ترک کی جائے گی تو اس کی جگہ کوئی اور رسم لے لے گی. اس اعتبار سے تو سویاں گویا لازم ہو گئی ہیں. حالانکہ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ اس عید پر کوئی میٹھی چیز صبح کے وقت کھاتے ہیں‘ یعنی یہ سنت ہے کہ کوئی میٹھی شے کھا کر آدمی عیدالفطر کی نماز کے لیے جائے. عید الاضحی میں روزے کی حالت میں جاتے ہیں اور واپس آ کر قربانی کے گوشت سے روزہ کھولتے ہیں. یہ عید تو اب عید الفطر کے بجائے سویوں والی عید بن کر رہ گئی ہے. اسی طرح سنت میں عید پر بغل گیر ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا‘ لیکن یہ یوں لازم ہو گیا ہے جیسے اس کے بغیر عید ادھوری رہ جائے گی.‘‘ 

ڈاکٹر اسرار احمد تھکان سی محسوس کر رہے تھے اور ہم بھی جو کچھ حاصل کر چکے تھے‘ وہ کافی تھا. ہم نے ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا کیونکہ صبح آٹھ بجے ڈاکٹر صاحب کراچی سے واپس جا رہے تھے!