اسلامی معاشرے میں خواتین کا کردار

کے موضوع پر ۲۵ جنوری ۱۹۸۴ء کو جنگ فورم میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی گفتگو کا خلاصہ (منقول از روزنامہ ’’جنگ‘‘ جمعہ ایڈیشن: ۱۷ تا ۲۴ فروری ۱۹۸۴ء)

ضیا شاہد: خواتین وحضرات! آج محترم ڈاکٹر اسرار احمد ’’جنگ فورم‘‘ کے مہمان خصوصی ہیں. ان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ’’اسلامی معاشرے میں خواتین کا کردار‘‘ پر اظہارِ خیال فرمائیں. اس موضوع کے حوالے سے ملک کے اندر ایک طویل بحث چھڑ چکی ہے. بعض لوگ ڈاکٹر صاحب کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں اور بعض اختلافِ رائے کا راستہ اختیار کرتے ہیں. آج اس محفل میں ایک متنازعہ موضوع پر گفتگو کر کے ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایسے مسئلے پر خالص علمی انداز میں تحمل سے بحث کریں. میں ڈاکٹر صاحب کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ وہ یہاں تشریف لائے. ان الفاظ کے ساتھ ہی میں ان سے گزارش کروں گا کہ وہ آج کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں. بعد میں حاضرین میں سے اَصحاب وخواتین سوال بھی کر سکتے ہیں. 

ڈاکٹر اسرار احمد: (اللہ تعالیٰ کی حمد اور رسول اکرم  پر درود بھیج کر قرآن کریم کی ایک آیت مبارکہ تلاوت فرمانے کے بعد)
محترم خواتین اور معزز حضرات! آج کی اس محفل کے موضوع پر ضیاء شاہد صاحب تعارفی کلمات کہہ چکے ہیں‘ مجھے اس ضمن میں زیادہ وقت لینے کی ضرورت نہیں ہے. سب سے پہلے دو باتوں کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں. ایک تو میرے نزدیک یہ اچھا موقع ہے کہ ایک مسئلے پر ہمارے ہاں بڑی گرما گرم بحث جاری رہی‘ طویل عرصے تک مختلف ذرائع سے موافق اور مخالف نظریات لوگوں کے سامنے آئے. اب کچھ عرصے سے فضا اتنی گرم نہیں ہے. لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے پر اس فضا میں ٹھنڈے دل سے غور کرنا اتنا آسان نہیں تھا. اب شاید حالات زیادہ سازگار ہیں اور اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کیا جا سکتا ہے. لہذا 
میں اس موقع کو بہت ہی غنیمت خیال کرتا ہوں. دوسری بات یہ ہے کہ جب ہم اسلام کا ذکر کرتے ہیں اور اس کی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہیں تو ایک نا گزیر سی صورت یہ ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں اسلام کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے‘ خواہی نخواہی ذہن ادھر منتقل ہو جاتا ہے اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ ان تمام باتوں کا دفاع کیا جا رہا ہے جو ہمارے معاشرے میں مختلف گوشوں سے در آئی ہیں. مثال کے طور پر ہمارے ہاں معاشیات پر جو بحث ہوتی ہے اور سوشلزم یا کمیونزم کی مخالفت کرتے ہوئے کچھ لوگ اسلام کا دفاع کرتے ہیں تو عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو نظام اس وقت ہمارے ہاں ہے‘ شاید اُس کے تحفظ کی بات ہو رہی ہے اور سود وغیرہ کو نکال دیا جائے تو ہمارا معاشی نظام اسلامی رنگ اختیار کر لے گا.

یہی معاملہ معاشرتی مسائل میں بھی ہو رہا ہے. ہمارے معاشرے میں اس وقت جو اقدار ہیں جن پر فی الواقع عمل ہو رہا ہے‘ میرا تجزیہ یہ ہے کہ اس میں تین اطراف سے چیزیں شامل ہوگئی ہیں. ایک تو اسلام کی تعلیمات کا عنصر ہے. اسلام کی طویل تاریخ کا پس منظر بہر حال موجود ہے. ہمارے تہذیب و تمدن کی تشکیل میں اسلام نے بھی اپنا حصہ ادا کیا ہے. چنانچہ ایک عنصر تو اس کا ہے. دوسرا اِس وقت جتنے بھی مسلمان ممالک ہیں ان سب میں قبل از اسلام کی تہذیب و تمدن کی روایات بھی چلی آ رہی ہیں. مثلاً ہمارے ہاں سماجی سطح پر ہندو تہذیب کے اثرات موجود ہیں‘ معاشرتی اور عائلی سطح پر بھی ان کے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور آج کے مسلمان معاشرے نے چونکہ ان کو قبول کیا ہوا ہے اس لیے سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ بھی اسلام کی تعلیم کا کوئی حصہ ہیں. اب تیسرا عنصر مغربی تہذیب کا ہے. اس کا تسلط پوری دنیا پر ہو چکا ہے‘ تو کم و بیش تمام مسلمان معاشروں کے مختلف طبقات نے اس کے کچھ نہ کچھ اثرات قبول کیے ہیں.
ہمارے ہاں معاشی‘ سماجی اور معاشرتی سطح پر تین عوامل ہیں. ان میں سے ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ سمجھنا بہت ضروری ہے اور اسلام کے کھاتے میں ان تمام چیزوں کو نہیں ڈال دینا چاہیے. مثلاً ہمارے معاشرے میں بہت سے ہندوانہ اثرات کا غلبہ ہے جن کا سمجھ لینا بہت ضروری ہے.

ان دو باتوں کی نشان دہی کے بعد میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں. موضوع بہت وسیع ہے‘ اس کی بہت سی اطراف وجوانب بھی ہیں. بہر حال میں یہاں اہم باتوں کا تذکرہ 
کروں گا اور اختصار کو ملحوظ رکھنے کی کوشش کروں گا.
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک بہت ہی غلط بحث اُٹھ کھڑی ہوئی ہے اور بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ شاید اسلام کی طرف سے بولنے والوں کے نزدیک عورت مرد کے مقابلے میں کوئی گھٹیا مخلوق ہے. بعض لوگوں نے اسے کمتری کا احساس گردانا اور پھر اس کا دفاع کرنے لگے کہ عورت گھٹیا مخلوق نہیں ہے. میں یہ کہوں گا کہ اس ضمن میں اسلام کا نقطۂ نظر قطعی یہ نہیں کہ عورت مرد کے مقابلے میں کسی بھی درجے میں گھٹیا مخلوق ہے‘ بلکہ اس اعتبار سے کہ دونوں انسان ہیں‘ ایک نوع کے دو اَفراد ہیں‘ ایک مرد ہے دوسرا عورت ہے‘ اس کے اندر تخلیقی اعتبار سے کسی کے گھٹیا اور کمتر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی بحثا بحثی کی قسم ہے کہ خوا مخواہ ایسی بحث چھیڑ دی جائے. میں یہاں عرض کرنا چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے جو شرف نوعِ انسانی کو بخشا ہے اور اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے‘ اس شرف کی روسے ان میں کوئی فرق نہیں. دینی‘اَخلاقی اور روحانی اعتبار سے بھی اسلام مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھتا. نیکی کمانے کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں. سورۂ احزاب کی آیت ۳۵ کے مطالب اور معانی پر غور کیجیے جو میں نے گفتگو کے آغاز میں تلاوت کی ہے. اس میں آپ دیکھیں گے کہ کس قدر تکرار ہے کہ جتنے اوصاف اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ہیں ان سب میں عورتوں اور مردوں کو برابر کا شریک قرار دیا گیا ہے کہ:

’’یقینا مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور صداقت شعار مرد اور صداقت شعار عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور خشوع وخضوع اختیار کرنے والے مرد اور خشوع وخضوع اختیار کرنے والی عورتیں اور صدقہ وخیرات دینے والے مرد اور صدقہ وخیرات دینے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرنے والے مرد اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لیے مغفرت اور اجر ِعظیم کا اہتمام کیا ہے.‘‘ 

یہ وہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں قدر وقیمت کی حامل ہیں. ان اوصاف کے اعتبار 
سے کوئی فرق مرد اور عورت کے درمیان نہیں. بلکہ اسی طرح کی ایک اہم آیت سورۂ آل عمران کے آخری رکوع میں بھی ہے کہ وہاں بھی چوٹی کے اعمال جن کا ذکر اوپر ہوا ہے اور پھر ایک دعا کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : ’’میں کسی بھی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا خواہ وہ مرد ہو خواہ عورت ہو‘ اور تم سب ایک دوسرے ہی سے ہو‘‘. آخر عورت اور مرد کسی ایک باپ ہی کی تو اولاد ہیں‘ کسی ایک ماں ہی کے بطن سے ہیں. ان کے درمیان کوئی تفاوت نہیں ہے. جن لوگوں نے اتنے بڑے بڑے کام سر انجام دیے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی راہ میں تکلیفیں اٹھائیں‘ ہجرت کی اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں صبر واستقامت کا مظاہرہ کیا‘ اللہ تعالیٰ ان کا اجر ضائع کرنے والا نہیں.

اسی طرح سورۂ تحریم میں عورتوں کے مذہبی اور دینی تشخص اور ان کی آزاد شخصیت کو ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مثالیں دی ہیں. یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ عورتیں دینی یا اخلاقی اعتبار سے اپنے شوہروں کے تابع ہیں. ان کی اپنی شخصیت ہے. ایمان اگر عورت کے دل میں ہے تو یہ اس کی اپنی متاع ہے. شوہر اگر اس متاع سے محروم ہے تو اللہ تعالیٰ کے حضور تہی دست ہو گا اور خاتون اللہ کے ہاں سرخرو ہوگی. چنانچہ وہاں مثال دی گئی کہ حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویاں اپنے اعمال کی وجہ سے سزا پا گئیں‘ حالانکہ وہ الوالعزم پیغمبروں کی بیویاں تھیں. اس کے بر عکس فرعون کی بیوی حضرت آسیہ کا مقام بہت بلند ہے. وہ اپنے کردار اور اعمال کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے حضور مکرم ہے. معلوم یہ ہوا کہ اس اعتبار سے اسلام میں عورت کو مکمل دینی اور مذہبی تشخص حاصل ہے. جہاں تک اس کا قانونی تشخص ہے‘ میں ان کی بات نہیں کر رہا.

اب بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تہذیب وتمدن کی گاڑی کے دو پہیے ہیں‘ ایک مرد اور دوسرا عورت‘ تو یہاں اللہ تعالیٰ نے دونوں کی جسمانی صورتِ حال کے پیش نظر ان کے فرائض میں تخصیص رکھی ہے. یہ فرق ان کی جسمانی ساخت میں نظر آتا ہے‘ ان کے نفسیاتی فہم میں نظر آتا ہے. 

میں یہاں یہ عرض کروں گا کہ بیالوجی کے اعتبار سے ہر زندہ عنصر کو دو چیلنج درپیش ہیں. ایک تو اپنی ذات کی بقا ہے‘ جس کے لیے اُسے خوراک چاہیے‘ سر چھپانے کے لیے پناہ گاہ چاہیے‘ تحفظ چاہیے. دوسرا چیلنج بقائے نوع کا ہے کہ اس کی نسل برقرار رہے. وہ آگے چلے 
پھلے پھولے. بقائے نوع کا معاملہ آپ کو غیر ذی حیات میں نظر نہیں آئے گا. اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کی جو دو جنسیں بنائی ہیں ان کی اصل حکمت کیا ہے! حکمت یہ ہے کہ ایک کام کے لیے زیادہ جسمانی طاقت‘ قوتِ ارادی اور اعتماد کی دولت مرد کو عطا کی ہے اور دوسرے کام میں زیادہ بڑا حصہ عورت کے ذمہ لگایا ہے. تخلیق کے عمل میں مرد کا حصہ بہت قلیل ہے‘ باقی کوئی بوجھ فطرت نے مرد پر نہیں ڈالا حمل کے دنوں میں نو ماہ کی مشقت عورت ہی برداشت کرتی ہے. رضاعت کے دور میں عورت ہی دو سال تک بچے کو دودھ پلاتی ہے. مغربی تہذیب کے رجحانات کے زیر اثر عورتیں دودھ پلانے سے کتراتی ہیں. اب جدید میڈیکل سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عورتوں میں سینے کے سرطان کی بڑی وجہ یہی بن جاتی ہے. فطرت کے نظام میں آپ رکاوٹ ڈالیں گے تو وہ اپنا بدلہ خود لے لیتی ہے. 

انہی دو چیزوں کا ذکر آیا ہے سورۂ لقمان میں جہاں والدین کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے. وہاں زیادہ حصہ ماں کا قرار دیا گیا ہے‘ کیونکہ اُس نے بچے کو پیٹ میں اٹھائے رکھا‘ پھر اس کو دو سال تک دودھ پلایا. اس عمل میں اس کے جسم کی توانائیاں خرچ ہو جاتی ہیں. اس لحاظ سے پروڈکشن کی ذمہ داری اصلاً عورت پر ڈالی گئی ہے‘ مرد اس میں محض چند لمحوں کے لیے شریک ہوتا ہے. میرے نزدیک یہ ظلم کا معاملہ ہو گا کہ دوسرے کاموں میں بھی عورت پر بوجھ ڈالا جائے. اس بات کو حقوق میں شامل کرنا بہت بڑی غلطی ہے کہ خواتین کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے. یہ حق کا معاملہ نہیں‘ ذمہ داری کا معاملہ ہے‘ بوجھ کا معاملہ ہے کہ فطرت نے جو تقسیم عورت مرد کے مابین کی ہے اس کے لحاظ سے یہ بات سخت ظالمانہ ہو جائے گی کہ عورت بقائے نسل کے لیے بھی سارا بوجھ اور ساری مشقت برداشت کرے اور کفالت کی ذمہ داریوں میں بھی شریک ہو. استثنائی حالات البتہ ہو سکتے ہیں جب عورت کو کام کرنا پڑ جاتا ہے. ایسے حالات انفرادی طور پر پیش آ سکتے ہیں. اجتماعی طور پر پورے معاشرے یا ملک اور قوم کو پیش آسکتے ہیں. اگر اس کی ضرورت محسوس ہو تو پھر عورت کا کام کرنا حرام نہیں ہے. 

دوسری بات یہ ہے کہ انسان ہونے کے ناطے بھی سب برابر ہیں اور اس لحاظ سے بھی مرد اور عورت کے درمیان کوئی فضیلت کا معاملہ نہیں. جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ 
اَخلاقی‘ ارتقائی اور دینی اعتبار سے دونوں میں کامل مساوات ہے. لیکن جب آپ ایک خاندان کی تشکیل کرتے ہیں تو وہاں خاوند اور بیوی کو مساوی مرتبہ حاصل نہیں‘ کیونکہ کسی بھی ادارے میں دو منتظمین کو برابر کے اختیارات دے دینا اس ادارے کی تباہی پر مہر ثبت کر دینے کے مترادف ہے. دو سربراہ بنانے سے ادارے کے اندر فساد پیدا ہو جائے گا‘ انتشار برپا ہو جائے گا. بہرحال سربراہ ایک ہو گا‘ دوسرا اس کا ساتھی‘ اس کا وزیر‘ اس کا نائب بھی ہو سکتا ہے. اسلام کے عائلی نظام کا یہ بنیادی نکتہ ہے اور اسے آپ سمجھ لیجیے. قرآن مجید میں انسانی اجتماعیات کی جو تین سطحیں ہیں یعنی خاندان‘ معاشرہ اور ریاست‘ تو قرآن نے سب سے پہلی سطح یعنی خاندان کے بارے میں پوری تفصیل کے ساتھ ہدایات دی ہیں اور اتنی ہدایات معاشرتی ڈھانچے یا ریاست کی حیثیت اور اس کے نظام کے بارے میں موجود نہیں. قرآن کریم کا منشا یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر خاندان درست خطوط پر استوار ہو گیا تو پورا معاشرہ سدھر گیا اور معاشرے کے سدھارنے سے ریاست کے معاملات بخوبی چلتے رہیں گے‘ جیسے کسی شاعر نے کہا ؎ 

خشت اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج!

اس ادارے کا ایک سربراہ ہونا لازمی ہے اور قرآن مجید نے مرد کو خاندان کا سربراہ بنایا ہے. یہ کڑوی گولی ہے‘ لیکن قرآن کریم میں اس کے تدریجی احکامات نازل ہوئے اور یوں اسے مانے بغیر کوئی چارہ نہیں. سورۃ النساء میں واضح حکم ہے کہ مرد عورتوں پر ’’قوام‘‘ ہیں‘ نگران ہیں‘ ذمہ دار ہیں‘ بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ حاکم ہیں. یہ اللہ کا کلام ہے اور ہمارا اس پر ایمان ہے.

قانونی معاملات میں مرد کو عورت پر ایک درجہ فضیلت کا دیا گیا ہے‘ مثلاً مرد طلاق دے سکتا ہے. عورت طلاق لے سکتی ہے‘ دے نہیں سکتی. میں ایک مثال یہاں دوں گا کہ ایک واقعے میں حضور اکرم نے محض اس بناء پر خلع کی اجازت دے دی کہ عورت نے کہہ دیا تھا کہ مجھے یہ مرد پسند نہیں. ظاہر ہے کہ ازدواجی زندگی میں موافقت اور مزاج کی ہم آہنگی پیدا نہیں ہوئی تو زبردستی ایک دوسرے کو باندھے رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں. حدیث میں یہاں 
تک فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ فعل طلاق کا ہے.

قرآن کریم میں والدین کے ساتھ بہتر سلوک کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ فرماں برداری کے بعد بیان کیا گیا ہے. مثلاً ’’تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی پرستش نہیں کرو گے اور والدین کے ساتھ حسن ِسلوک کرو گے‘‘. جہاں تک ادب کا معاملہ ہے‘ ماں کا درجہ باپ کے مقابلے میں تین درجے زیادہ بلند رکھا گیا ہے. تعلقات کا یہ توازن صرف اسلام میں نظر آتا ہے. قانونی طور پر تو خاوند کو سربراہ بنایا گیا ہے‘ لیکن اَخلاقی اعتبار سے ماں کو بلند مرتبت قرار دیا گیا ہے اور اس کے پائوں کے نیچے جنت قرار دی گئی ہے. 

اب میں تیسرے نکتے کی طرف آتا ہوں. یہ پردے اور ستر کا مسئلہ ہے. اسلام نے عورت کی جنسی جاذبیت صرف اس کے شوہر کے لیے مخصوص کی ہے. آزادانہ اختلاط کی اجازت نہیں دی گئی. مردوں کا دائرہ کار الگ ہے اور عورتوں کا دائرہ کار الگ رکھا گیا ہے. مرد کے لیے بھی ستر کا حکم ہے اور گھٹنے سے لے کر ناف کے اوپر کے حصے تک اس کا جسم ڈھکا ہونا چاہیے. یہ ہر حال میں ڈھکا رہنا چاہیے. بیٹے کے جسم کا یہ حصہ باپ کی نظر میں نہیں آنا چاہیے‘ بھائی کے جسم کا یہ حصہ بھائی کے سامنے ننگا نہیں کرنا چاہیے. یہ حصہ کھلے گا تو صرف بیوی کے سامنے یا پھر طبیب کے سامنے. عورت کے لیے حکم ہے کہ اس کا پورا جسم ستر ہے‘ سوائے تین حصوں کے. ایک چہرے کی ٹکیہ‘ دوسرے ہاتھ‘ تیسرے پاؤں. باقی سارا جسم چھپا رہنا چاہیے. عورت کا لباس اتنا تنگ نہیں ہونا چاہیے کہ جسم کے سارے نشیب وفراز نظر آ رہے ہوں. حضور اکرم  نے لعنت فرمائی ہے ان عورتوں پر جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں. عورت حجاب اور ستر کے احکامات کو ملحوظ رکھ کر اپنے ضروری فرائض بجا لائے. اگر کسی مجبوری کی وجہ سے اسے کام کرنا پڑے تو اسلام اس پر قدغن نہیں لگاتا. وہ گھر کے اندر کام کر سکتی ہے‘ قومی سطح پر ایسی کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دینا چاہیے جہاں صرف خواتین کام کر سکیں. ایسے صنعتی یونٹ لگائے جائیں جو عورتوں کی زیر نگرانی چلائے جائیں. میں ایک بات اس ضمن میں اور کہوں گا کہ عورت کی جسمانی ساخت کے اعتبار سے اس کے کام کے اوقات مردوں کے مقابلے میں کم رکھے جائیں. بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر عورت پر کام کرنے کی پابندی عائد کر دی جائے تو دیہاتی معیشت تباہ ہو کر رہ جائے گی‘ کیونکہ وہاں تو ہر مرحلے پر عورت اور مرد برابر محنت کرتے ہیں. میں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ 
دیہات کی عورت اپنے محرموں کے اندر کام کرتی ہے جبکہ شہری عورت ہر جگہ نا محرموں میں گھری رہتی ہے. بہر حال اس کے باوجود اگر دیہاتی معاشرے میں اس ضمن میں کوئی خرابی ہے تو اس کی اصلاح ہونی چاہیے. ان الفاظ کے ساتھ میں اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں. 
ضیاء شاہد: شکریہ ڈاکٹر صاحب! اب میں معزز مہمانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ ان کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو مختصراً آپ سے پوچھ سکتے ہیں. 

پروفیسر محمد سلیم: اسلام کی روسے عورتوں کی تفریح کا انتظام کیسے کیا جانا چاہیے؟
ڈاکٹر اسرار احمد: پردہ باغ بنائے جا سکتے ہیں. پھر مکانوں کی طرزِ تعمیر ایسی ہونی چاہیے کہ اندر چھوٹا سا باغ ہو جہاں عورت ٹہل سکے‘ سستا سکے. لیکن میں اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ ۲۳؍ مارچ کی پریڈ میں جوان لڑکیاں سینہ تانے مینارِ پاکستان کی پریڈ میں حصہ لیں اور اسے تفریح کا نام دے دیا جائے.

خالدہ حسین: جب دشمن کی فوج حملہ کرے تو پھر عورت کا ستر وحجاب کیسے باقی رہے گا؟
ڈاکٹر اسرار احمد: ہنگامی حالات کو دلیل بنانا درست نہیں. ایمرجنسی میں احکامات معطل ہوجاتے ہیں اور مجبوری میں حجاب کا نہ رہ جانا کوئی گناہ نہیں ہوتا. اسی طرح اگر کوئی عورت خدانخواستہ نہر میں ڈوب رہی ہے یا آگ میں پھنسی ہوئی ہے تو اُس وقت کوئی آدمی محرم یا نا محرم کی بحث میں نہیں پڑتا اور اسے بچانے کے لیے اقدام کرتا ہے. 

خالدہ حسین: پہلے آپ مردوں نے عورت کو باہر نکالا کہ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں. جب وہ باہر نکل آئی تو آپ اسے واپس گھر کی چار دیواری میں بند کر دینا چاہتے ہیں؟
ڈاکٹر اسرار احمد: میں نے عورتوں سے کبھی نہیں کہا کہ وہ گھر سے باہر نکل آئیں. اس لیے جواب میرے ذمہ نہیں. 

پروفیسر بیگم میر: شہادت کے بارے میں مرد اور عورت کے مابین فرق کیوں ہے؟
ڈاکٹر اسرار احمد: قرآن مجید میں اس سلسلے میں آیت موجود ہے‘ اس کا ترجمہ بھی سب کو معلوم ہے. اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش موجود نہیں. اب ہمارا ایمان ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے تو وہ واجب التسلیم ہو گا‘ اس کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے. حکم ہونا تو ثابت ہو گیا‘ البتہ حکمت پر غور ہو سکتا ہے.

مسز وحید: اسلام دین فطرت ہے‘ اس کے احکامات بھی فطرت کے مطابق ہیں‘ لیکن اس مسئلے 
میں تضاد کیوں ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل کی لڑکیاں زیادہ ذہین ہیں‘ ہوشیار ہیں. میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ایک جاہل مرد کے مقابلے میں دو ذہین وفطین عورتوں کو برابر کیوں قرار دیا گیا ہے؟ 
ڈاکٹر اسرار احمد: محترم خاتون! فطرت کا تقاضا ہر شخص کو معلوم نہیں ہوتا‘ ویسے بھی فطرت کے تقاضوں پر ہی عمل کرنے لگیں تو انتشار پھیل جائے گا. شریعت کے معاملات اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں اور ان کی کوئی دوسری توجیہہ نہیں کی جا سکتی. قرآن کریم کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہے‘ حکمت سمجھ میں آ جائے تو بہتر ہے‘ ورنہ حکم پر عمل کرنا بہت ضروری ہے.

نگار زیب: آپ عورت کو چار دیواری میں بند کر دینے کے حق میں ہیں‘ لیکن تاریخ میں مسلم خواتین نے جنگ بھی لڑی اور رضیہ سلطانہ اس کی ایک مثال ہے. ظاہر ہے کہ وہ برقع کے بغیر میدانِ جنگ میں اتری تھیں.
ڈاکٹر اسرار احمد: پہلے آپ یہ فرمائیے کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ رضیہ سلطانہ پردے کے بغیر لڑی تھی؟ دوسرے میں کہہ چکا ہوں کہ ایمرجنسی کے معاملات میں احکامات بدل جاتے ہیں. 

مسز وحید: آج آپ کوئی بات متنازعہ بیان نہیں کر رہے‘ جبکہ ٹی وی پر آپ کی باتیں قابل اعتراض ہوتی تھیں.
ڈاکٹر اسرار احمد: میں نے ٹی وی پر بھی کوئی متنازعہ بات نہیں کی.

مسز وحید: عام طور پر آپ کی تنقید کا نشانہ عورت ہی بنتی ہے. آپ مردوں کو مخاطب کر کے انہیں ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیوں نہیں کرتے تاکہ وہ عورت پر ظلم نہ کریں؟ فیملی پلاننگ کے سلسلے میں بھی عورت کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے‘ مردوں کو ہدف نہیں بنایا جاتا. 

ڈاکٹر اسرار احمد: پہلے مجھے یہ پوچھنا پڑے گا کہ ہدف بنانے کا مطلب کیا ہے! بہر حال آپ کی یہ بات صحیح ہے کہ شریعت کے حقوق کی ادائیگی اور بجا آوری کے لیے مردوں کو بھی تلقین کرنی چاہیے.

فوزیہ احمد: ہمارا معاشرہ کس قدر اسلامی ہے؟ اگر اسلامی نہیں تو آپ عورت کو کس حد تک اس کے بگاڑ کا ذمہ دار گردانتے ہیں؟
ڈاکٹر اسرار احمد: معاشرے میں اسلامی اثرات کم ہیں. خاص طور پر ہندوانہ اثرات کا غلبہ ہے اور اب جدید مغربی تعلیم نے ہماری سوچ کو متاثر کیا ہے. بہر حال معاشرے کی بقاء کی ذمہ داری عورت سے زیادہ مرد کی ہے.
فوزیہ احمد: عورت کو عضو ِمعطل بنا کر گھر میں بٹھا دینے سے آپ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں عورت کو 
non-productive کیوں بناتے ہیں؟
ڈاکٹر اسرار احمد: میں نے تو کہا ہے کہ پروڈکشن کی ذمہ داری عورت پر ڈالی گئی ہے. 

نگار زیب: پردہ عورت پر تو مسلّط کیا جا رہا ہے‘ آخر مردوں پر بھی تو پردے کے احکامات آتے ہیں. 
ڈاکٹر اسرار احمد: مرد کے لیے بھی حکم ہے کہ وہ نیچی نگاہ کر کے چلے اور اگر عورت پر اتفاقاً نظر پڑ جائے تو معاف ہے. 

خالدہ حسین: اور ہوتا یہ ہے کہ پہلی نظر اٹھانے کے بعد مرد حضرات آنکھیں نیچی ہی نہیں کرتے.
ضیاء شاہد: شریعت نے جو حقوق خواتین کو دیے‘ وہ عملاً انہیں حاصل نہیں ہو سکے. مرد کی بالادستی رہی. اب کہیں ایسا تو نہیں کہ دیہات میں عورتوں پر ظلم وستم کے ردّ عمل کے طور پر عورت کی آزادی کی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی ہے؟
ڈاکٹر اسرار احمد: میں آپ کے تجزیے سے اتفاق نہیں کرتا کہ ظلم وستم دیہات کی خواتین پر ہوا اور ردّ عمل شہروں میں ہے. حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کی آزادی کی تحریک مغرب سے در آمد شدہ ہے‘ لیکن میں یہ مانتا ہوں کہ عورت کے حقوق پامال ہوئے ہیں اور اس پر زیادتیاں ہوتی رہی ہیں. 

ضیاء شاہد: اسلام کا حکم ہے کہ مسلمان اپنے امور مشورے سے طے کریں‘ اس میں تو عورت کی تخصیص نہیں کی گئی. کیا آپ اس حق میں ہیں کہ عورتیں مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ کی رُکن بن سکیں؟
ڈاکٹر اسرار احمد: مسلمانوں کی مجلس شوریٰ میں کسی عورت کی موجودگی کی مثال نہیں ملتی‘ البتہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کی بات ہو رہی تھی تو بعض خواتین سے مشورہ کیا گیا تھا. میں سمجھتا ہوں کہ امورِ مملکت کو چلانا ایک بھاری ذمہ داری ہے اور اسے مردوں کو سنبھالنا چاہیے. عورت کو نرم ونازک کام سونپے جائیں.

خالدہ حسین: آپ نے محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار بنانے کی سفارش کی تھی! 
ڈاکٹر اسرار احمد: میں نے اس کی سفارش نہیں کی تھی‘ میں اس کے حق میں نہیں. جن 
لوگوں نے مادرِ ملت کو کھڑا کیا انہوں نے ہنگامی صورتحال کو مد نظر رکھا تھا. 
مسز وحید: کیا ہمارے ملک کے عائلی قوانین عورتوں کے حقوق کی پاسداری کے لیے کافی ہیں؟ یہ قانون تو مردوں نے بنایا ہے.

ڈاکٹر اسرار احمد: یہ قانون کا مسئلہ ہے اور میں نے عائلی قوانین کا اس زاویے سے مطالعہ نہیں کیا‘ البتہ مجھے یہ اعتراض ہے کہ اس حکومت نے عائلی قوانین کو شریعت کورٹ میں چیلنج کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس پر بحث ہوتی اور اسے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا تاکہ اس کے سقم دور ہو سکتے اور اسے اسلام کی روح کے مطابق ڈھالا جا سکتا. افسوس کا مقام ہے کہ عائلی قوانین کو ایک مقدس دستاویز بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور انہیں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں لے جانے پر پابندی ہے. 

اسد اللہ غالب: ڈاکٹر صاحب! آپ نے خواتین کے کردار پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے اور آپ کی باتیں خاص طور پر عورتوں کے لیے بڑی خوش کن ہیں. کیا آپ یہ توقع کرتے ہیں کہ کبھی پاکستان کے اندر خواتین کو ان کا جائز مقام مل سکے گا اور ہم قرآن وسنت میں دیے گئے حقوق اپنی خواتین کو دے سکیں گے‘ خاص طور پر جبکہ آج کل ہمارے ملک میں اسلام کے نفاذ کا چرچا بھی بہت ہے؟
ڈاکٹر اسرار احمد: اصل میں یہ سوال بہت مشکل ہے‘ اس لیے کہ اس کے ڈانڈے اس سے مل جاتے ہیں کہ آیا واقعتا ہم قومی سطح پر اسلام کی منزل تک پہنچ پائیں گے. میں تو جو بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر ہم اس منزل تک نہ پہنچے تو ہم نہ رہیں گے‘ اس لیے کہ ہمارے لیے کوئی اور بنیاد نہیں ہے جو ہمیں سہارا دے سکے سوائے اسلام کے. باقی یہ کہ کامیابی یا ناکامی کے امکانات کا جائزہ لینا میرا مزاج نہیں. میں تو سمجھتا ہوں کہ جس چیز کو انسان حق سمجھے‘ اس کے لیے کوشش کرتا رہے. نتائج کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہیے. جہاں تک امکان کی بات ہے تو میں رُول آؤٹ نہیں کرتا‘ کیونکہ اسلام انسانوں کے لیے ہے اور اس دنیا اور آخرت کی فلاح کے لیے جامع پروگرام ہے تو ہم کیوں اسے اختیار نہیں کر سکتے. میرے نزدیک اس کا امکان موجود ہے‘ لیکن کب ہو گا‘ یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے. 

ضیاء شاہد: میں آخر میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور تمام خواتین وحضرات کا بھی شکر گزار ہوں جو یہاں تشریف لائے اور بحث میں حصہ لیا. 

حرفِ آخر

الحمد ﷲ وکفی والصّلوٰۃ والسّلام علٰی عبادہ الّذین اصطفی خصوصًا علٰی أفضلھم وخاتم النبیّین سید المرسلین مُحمّدٍ الامین وعلٰی آلہٖ وأصحابہٖ أجمعین.

محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے خطاب میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے جمعہ ایڈیشن بابت ۱۲تا ۱۸ مارچ ۹۸۲اء میں شائع شدہ جس انٹر ویو کا ذکر ہے جس میں خواتین سے متعلق چند ضمنی سوالات وجوابات بھی شامل ہیں‘ جن کے ردّ عمل کے طور پر ڈاکٹر صاحب کے خلاف تقریباً تمام ہی انگریزی‘ اردو روزناموں میں مضامین‘ مراسلات‘ بیانات کا ایک طوفان اٹھا‘ حتیٰ کہ گورنر سندھ کی بیگم صاحبہ کی زیر قیادت کراچی ٹیلی ویژن سٹیشن پر خواتین نے ’’الہدیٰ‘‘ (ڈاکٹر صاحب کا ہفتہ وار درس قرآن) کو بند کرنے کے مطالبہ کے لیے مظاہرہ بھی کیا‘ وہ انٹر ویو ’’جنگ‘‘ کے تقریباً بارہ کالموں پر محیط تھا. اس پورے انٹر ویو میں خواتین سے متعلق سوالات وجوابات کا حصہ بمشکل نصف کالم بنتا ہے جو بے تکلفانہ انداز کا حامل ہے. یہ حصہ ذیل میں بے کم وکاست درج کیا جا رہا ہے. اس کے مطالعے سے ان شاء اللہ العزیز ڈاکٹر صاحب موصوف کے خطاب کو سمجھنے میں مدد ملے گی. 

س: کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ مختلف موضوعات پر میں پوچھتا جاؤں! اوّل یہ کہ عورت کے دائرہ کار کے بارے میں آپ کی رائے؟
ج: اسے تو میں فوراً متعین کروں گا کہ وہ گھر کے اندر رہے اور جتنی ورکنگ خواتین ہیں ان کو فوراً پنشن پر بھیج دیا جائے.

س: اس کا فائدہ تو ان کو ہو گا جو ملازمت میں ہیں‘ پنشن ان کو آپ نے دے دی. لیکن جو ملازم نہیں ہیں‘ وہ آئندہ ملازمت میں نہ آ سکیں گی. ان کو پنشن نہیں ملے گی؟
ج: ہاں جو اس وقت سروس میں ہیں ان کی کوئی صورت کر کے … ان کے خرچ کی جو بھی ضروریات ہیں …

س: آئندہ خواتین کی سروس کے بارے میں کسی شعبے میں؟
ج: آئندہ خواتین ملازمت میں نہیں آئیں گی. ہاں میڈیکل کے بارے میں کچھ ہو سکتا ہے. 
س: سکولوں اور کالجوں کی تدریس کے لیے؟
ج: ان کا علیحدہ نظام ہو‘ لیکن یہ کہ ہمارے دفاتر میں‘ ہمارے سٹوڈیو میں‘ پی آئی اے میں ہوسٹس قطعاً نہیں. خواتین کا اپنا انتظام ہو اور وہاں یہ پڑھائیں.

س: حجابِ رُو کے بارے میں؟
ج: ہاں میں اس کا شدت سے قائل ہوں.

س: چہرہ اور ہاتھ مستثنیٰ ہونے کی جو رائے ہے آپ اس کو … 
ج: نہیں میں اس کا قائل نہیں. 

س: تفریحات کے ضمن میں آپ کیا سمجھتے ہیں. مثلاً ٹیلی ویژن ہے‘ اس میں کس نوعیت کی تبدیلی یا اصلاح آپ تجویز کریں گے؟ آپ نے یہ بھی پچھلے دنوں کہا تھا کہ خواتین نہیں بیٹھ سکتیں تو موقف تو آپ کا …
ج: خواتین اناؤنسرز میں اس کو گوارا نہیں کروں گا. 

س: مرد اناؤنسرز کو خواتین دیکھیں گی؟
ج: اس حد تک مرد کا عورت کا دیکھنا اور عورت کا مرد کو دیکھنے میں فرق ہے. 

س: مرد پروگرام پیش کرے اور گھروں میں بیٹھی خواتین دیکھ لیں‘ آپ کوئی حرج نہیں سمجھتے. اور یہ جو ڈرامہ ہے اس میں کچھ پہلو رومانس کے بھی ہوتے ہیں؟
ج: میں قائل نہیں ہوں‘ ڈرامہ نہیں ہونا چاہیے.

اس انٹر ویو میں ملک کے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی معاملات‘ سیاسی جماعتوں کے روز افزوں اختلاف اور ان کے اسباب اور نقصانات‘ دعوت وتبلیغ کی اہمیت اور اس کی کمی کے مسائل‘ اسلامی نظام کی پیش رفت میں رکاوٹ اور سست روی کے اسباب اور ایسے ہی بہت سے موضوعات پر مفصل سوالات وجوابات ہوئے ‘ لیکن ’’جنگ‘‘ کے اس میگزین پر جو سرخی نمایاں کی گئی وہ یہ تھی کہ ’’ٹیلی ویژن پر ڈرامے نہیں ہونے چاہئیں. ڈاکٹر اسرار احمد سے انٹر ویو.‘‘
یہ بات حاشا وکلاہم نے معذرت خواہانہ طور پر نہیں کہی ہے. ڈاکٹر صاحب نے اپنے جوابات میں بہت ہی اختصار کے ساتھ اسلام میں خواتین کے حقیقی مقام اور اس کے دائرہ کار کے متعلق محض اشارات کے انداز میں اپنا نقطۂ نظر پیش کیا تھا. انگریز کے سیاسی استیلاء کے 
کے دور سے ہمارے معاشرے میں بے حجابی کا جو طوفان اُٹھنا شروع ہوا تھا اور جو اِس وقت اپنے شباب پر ہے‘ اس فتنہ کے متعلق الصادق والمصدوق  چودہ سو سال قبل اُمت کو متنبہ فرما گئے تھے. چنانچہ صحیح بخاری کی روایت ہے: 

عن اسامۃ بن زید رضی اﷲ عنہما عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال: مَا تَرَکْتُ بَعْدِیْ فِتْنۃً اَضَرُّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ 

اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہاروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا: ’’میں نے اپنے بعد مردوں کے حق میں سب سے زیادہ نقصان دہ فتنہ عورتوں سے بڑھ کر کوئی نہیں چھوڑا.‘‘

کاش ہمارے ملک کے نام نہاد دانشور حضرات وخواتین نبی اکرم  کے اس ارشاد مبارک سے سبق لیں‘ نیز محترم ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنے خطاب میں قرآن و حدیث کے حوالے سے حجاب وستر کے جو اَحکام اور حدود پیش کیے ہیں ان کا معروضی طور پر مطالعہ کریں. اللہ تعالیٰ کی رحمت سے توقع ہے کہ حق ان کے سامنے مبرہن ہو کر آجائے گا. 
(احقر: جمیل الرحمن عفی عنہ) 


پس نوشت از ناشر


(۱) زیر نظر کتاب میں ’’گھر سے باہر نکلنے کے احکام‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت صفحہ ۷۳ پر اسلامی شعائر کی پابند ایرانی خواتین کے مکمل پردے کا جو ذکر کیا گیا ہے‘ واضح رہے کہ یہ صورت حال بہت پہلے کی تھی. آیت اللہ خمینی کے انقلاب کے بعد ایران میں جس پردے کو فروغ دیا گیا ہے اس میں خواتین چہرہ کھلا رکھتی ہیں. 
(۲) زیر نظر کتاب کے صفحہ ۸۵ پر ذیلی عنوان ’’غزوات اور جنگوں میں خواتین کی شرکت‘‘ کے ضمن میں محترم ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ علیہ کے موقف میں جس شدت کا اظہار ہوا ہے‘ اس حوالے سے بعض مستند روایات و واقعات کے مطالعے کے بعد یہ شدت اس درجے باقی نہیں رہی تھی. اس سلسلے میں ’’جہاد اور مسلمان عورتیں‘‘ کے عنوان سے مولوی انیس احمد مرحوم کا ایک مدلل مضمون ماہنامہ میثاق کے جون ۲۰۰۰ء کے شمارے میں شائع کیا جا چکا ہے.