اس سورۂ مبارکہ پر اگر غور کیا جائے اور اس کا ترجمہ سامنے رکھا جائے تو یہ بات واضح ہو گی کہ اگرچہ اس کی آیات تین ہیں لیکن ان تینوں کو جوڑنے سے ایک سادہ جملہ (simple statement) وجود میں آتا ہے.اس لیے کہ اس کی درمیانی آیت اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ نہ صرف یہ کہ عددی اعتبار سے اس سورۂ مبارکہ کی مرکزی آیت قرار پاتی ہے بلکہ مضمون کے اعتبار سے بھی مرکزی اہمیت کی حامل ہے. اس میں انسان کے خسارے اور گھاٹے‘ اور اس کی ہلاکت و بربادی کا ایک عجیب مایوس کن نقشہ سامنے آتا ہے. پہلی آیت ایک قَسم پر مشتمل ہے جس سے نہ صرف یہ کہ زورِ بیان میں اضافہ ہوا ہے بلکہ آیت ۲ میں بیان شدہ حقیقت میں مزید تاکید کا مفہوم بھی پیدا ہو گیا ہے. یہ دونوں آیات مل کر ایک قاعدہ کلیہ کے بیان کی حیثیت اختیار کرتی ہیں جس سے ایک استثناء کو تیسری آیت بیان کر رہی ہے. گویا بالفاظِ دیگر پہلی آیت محض ایک قَسم پر مشتمل ہے‘اور سیدھی سی بات ہے کہ قَسم کا مفہوم واضح نہیں ہو سکتا جب تک کہ یہ معلوم نہ ہو کہ وہ قَسم کس بات پر کھائی جا رہی ہے. اسی طرح تیسری اور آخری آیت ایک استثناء پر مشتمل ہے اور اس استثناء کا مفہوم بھی واضح نہیں ہوتا جب تک کہ یہ معلوم نہ ہو کہ یہ استثناء کس سے کیا جا رہا ہے‘ وہ قاعدہ کلیہ کون سا ہے کہ جس سے یہ استثناء بیان ہو رہا ہے! اس طرح یہ تینوں آیات مل کر ایک سادہ جملے کی شکل اختیار کرتی ہیں: وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾ ’’ زمانہ کی قَسم ہے‘‘ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ ’’یقینا تمام انسان:گھاٹے اور خسارے میں ہیں‘‘ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ’’سوائے اُن کے جو ایمان لائے‘‘ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ’’اور انہوں نے نیک عمل کیے( بھلے عمل کیے)‘‘ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ’’اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی‘‘ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ’’اور انہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی.‘‘

اس جملے کو اگر ہم اپنے غور و فکر کا موضوع بنائیں ‘یا یوں کہہ لیجیے کہ اپنے لوح ِ قلب پر اسے نقش کر لیں یا اپنے لوح ِ ذہن پر کندہ کر لیں اور اس پر ذرا سا غور کر یں تو چار باتیں بادنی ٰ تأمل ہمارے سامنے آئیں گی.