دوسری بات جو اِس سورۂ مبارکہ پر معمولی سے غور و فکر کے نتیجے میں سامنے آتی ہے‘ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس جام ِ حقیقت نما سے از خود چھلک رہی ہے‘ یہ ہے کہ اس میں انسان کی کامیابی اور ناکامی کا ایک معیار وارد ہوا ہے. ہر شخص جو اِس دنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے‘ بھاگ دوڑ‘ سعی و جُہد اور محنت و مشقت کر رہا ہے‘ کامیابی کا کوئی نہ کوئی معیار اس کے سامنے ہے. اور اگر ہم تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ اکثر و بیشتر دنیا میں کسی انسان کی کامیابی کے جو معیارات معروف ہیں ان میں دولت و ثروت ہے‘ حیثیت ووجاہت ہے‘ شہرت و ناموری ہے یا کاروبار و جائداد ہے. ان چیزوں سے بالعموم کسی انسان کی کامیابی یا ناکامی کو ناپا جاتا ہے. لیکن اس سورۂ مبارکہ میں اس کے بالکل برعکس تصور سامنے آتا ہے کہ انسان کی کامیابی نہ دولت و ثروت سے ہے‘ نہ شہرت و ناموری سے ہے‘ نہ حیثیت و وجاہت سے ہے‘ نہ دُنیوی اقتدار و غلبے سے‘ بلکہ انسان کی کامیابی کے چار لوازم ہیں. یعنی ایمان ‘ عمل صالح‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر!

گویا اگر کسی انسان کے پاس نہ دو وقت پیٹ بھرنے کے لیے کچھ موجود ہو‘ نہ تن ڈھانپنے کے لیے مناسب لباس اسے میسر ہو‘ اور نہ سر چھپانے کے لیے کوئی چھت اسے حاصل ہو‘ لیکن ایمان کی دولت‘ عمل صالح کی پونجی اور تواصی بالحق اور تواصی بالصبر سے اس کا دامن بھرا ہوا ہو تو وہ انسان ازروئے قرآن و از روئے سورۃ العصر ایک کامیاب انسان قرار پائے گا . اس کے برعکس کسی کے پاس خواہ نمرود اور فرعون کی سی بادشاہی ہو‘ قارون کا سا خزانہ ہویا دنیا کی دوسری تمام نعمتیں انتہائی کثرت اور بہتات کے ساتھ جمع ہو گئی ہوں‘ لیکن اگر وہ دولتِ ایمان سے محروم ہے‘ اعمالِ صالحہ کی پونجی سے تہی دامن ہے‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر سے عاری ہے تو وہ شخص ازروئے سورۃ العصر ناکام ہے‘ خائب و خاسر اور نامراد ہے.

اس حقیقت کو جان لینا شاید اتنا مشکل نہیں جتنا کہ اس پر دل کا جم جانا دشوار ہے. اس لیے کہ انسان اس دنیا میں اپنے گرد و پیش سے متأ ثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا. اگر کسی وقت کوئی چمکیلی شوخ رنگ کی نئے ماڈل کی کار کسی کے پاس سے زنّاٹے کے ساتھ گزر جاتی ہے تو واقعہ یہ ہے کہ اعصاب میں ایک ارتعاش سا پیدا ہو جاتا ہے. اسی طرح اگر کسی عالی شان محل کے سامنے سے گزر ہو جس میں زندگی کی تمام آسائشیں فراہم ہوں تو 
نفس ِانسانی اس سے تأثر قبول کرتا ہے. واقعہ یہ ہے کہ اِس دنیا میں رہتے ہوئے یہاں کی چمک دمک اور رونقوں سے متأثر ہونا انسان کی خلقی کمزوریوں میں سے ایک ہے‘ لہذا ضرورت ہے کہ کامیابی و ناکامی کے اس قرآنی معیار کو ایک دفعہ مان لینے کے بعد اس کا بار بار اعادہ کیا جاتا رہے ‘ اس حقیقت کی طرف وقفے وقفے سے ذہن کو منتقل کیا جاتا رہے اور اس کی بکثرت یاد دہانی ہوتی رہے. یہی وہ بات ہے جو صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرز ِ عمل سے سامنے آتی ہے اور اس سوال کا واضح جواب ہمارے سامنے آتا ہے کہ آخر وہ کیوں ہر ملاقات کے موقع پر ایک دوسرے کو سورۃ العصر سنایا کرتے تھے! اسی لیے کہ یہ حقیقت ذہن میں مستحضر رہے کہ انسان کی کامیابی دولت و جائداد‘ دنیاوی اقتدار اور شہرت و ناموری سے نہیں ہے ‘بلکہ اس کی کامیابی کے لوازم بالکل دوسرے ہیں‘ یعنی ایمان‘ اعمالِ صالحہ‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر.