چوتھی‘ آخری اور اہم ترین بات جو اِس سورۂ مبارکہ پر غور و فکر سے انسان کے سامنے آتی ہے‘ یہ ہے کہ یہاں جو لوازم ِنجات بیان ہو رہے ہیں اور جن سے انسان کی کامیابی کو مشروط قرار دیا گیا ہے وہ سب کے سب ناگزیر ہیں‘ ان میں سے کسی ایک کو بھی ساقط کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے. اس لیے کہ یہ کلامِ الٰہی ہے. اس کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) کہ ؏’’بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب ِداستاں کے لیے‘‘ والا کوئی معاملہ اس میں کیا گیا ہویا محض ردیف اور قافیے کی ضرورت کے تحت کچھ اضافہ کر دیا گیا ہو. اس کا ایک ایک حرف اپنی جگہ اٹل ہے‘ اس میں جو بات فرمائی گئی ہے وہ جوں کی توں حقیقت ہے‘ اس میں کسی قطع و برید اور کسی کمی و بیشی کی کوئی گنجائش ہے نہ امکان! اس لیے کہ یہ کلام اللہ ہے.

دیکھئے‘ اگر کوئی معالج کسی مریض کو چار اجزاء پر مشتمل ایک نسخہ لکھ کر دے تو ظاہر ہے کہ وہ چاروں اجزاء ہی اس نسخہ کے لازمی اجزاء ہوں گے. بلکہ بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک جزو میں اگر کوئی مضرت بخش پہلو ہو تو دوسرا جزو اس میں مصلح کی حیثیت سے شامل ہوتا ہے‘ لہذا اگر کوئی مریض اپنی مرضی سے اس نسخہ میں سے کسی جزو کو ساقط کر دے تو یہ بات طے شدہ ہے کہ اب یہ نسخہ اس معالج یا حکیم کا نسخہ نہیں رہا ‘بلکہ اب اس کی ذمہ داری اُس شخص پر ہے جس نے اس میں قطع و برید یا کمی بیشی کی ہے. عین ممکن ہے کہ اب وہ نسخہ نسخہ ٔ‘ شفا نہ رہے بلکہ نسخہ ٔ ہلاکت بن جائے.