یہ تو تھا نوعِ انسانی کو درپیش المیے کا ابتدائی باب یا پہلا مرحلہ انسانی المیے کا نقطہ ٔ عروج (climax) وہ ہو گا جب یہ ساری کمر توڑ دینے والی مشقتیں جھیل کر اورتمام تکلیفیں برداشت کر کے بالآخر انسان کی آنکھ اُس دوسری دنیا میں کھلے گی جہاں وہ اپنے آپ کو ایک بڑے محاسبے اور جواب دہی (grand accountability) (۱) غالب نے اپنے ایک شعر میں اس حقیقت کی تعبیر بڑی خوبصورتی سے کی ہے ؎
قید ِحیات و بند ِغم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں! کے لیے اپنے ربّ کے حضور کھڑا پائے گا. انسانی المیے کا یہ وہ پہلو ہے جو کسی حیوان کا مقدر نہیں ہے‘ کسی کولہو کے بیل یا کسی باربرداری کے جانور کو یہ کٹھن مرحلہ درپیش نہیں ہو گا. قرآن حکیم نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے :
یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ ۚ﴿۶﴾ (الانشقاق)
’’ اے انسان! تجھے یہ تمام دکھ جھیلتے اور مشقتیں سہتے ہوئے بالآخر اپنے ربّ کے حضور میں جاحاضر ہونا ہے‘‘.
یہ وہ مرحلہ ہے کہ جس کے احساس ہی سے نسل انسانی کے گل ِسرسبد کانپ کانپ جاتے رہے ہیں. سورۃ النور میں اس کی نقشہ کشی ان الفاظ میں کی گئی ہے : یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ﴿٭ۙ۳۷﴾ ’’وہ (اہل ایمان) ڈرتے رہتے ہیں اس دن کے احساس اور اس دن کے خیال سے جس دن نگاہیں اور دل الٹ جائیں گے‘‘. اسی احساس سے مغلوب ہو کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑے جذب کی کیفیت میں یہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش میں درختوں پر چہچہاتی ہوئی ایک چڑیا ہوتا جس سے کوئی محاسبہ نہیں ہے‘ جسے کوئی جواب دہی نہیں کرنی ‘اور کاش کہ مَیں گھاس کا ایک تنکا ہوتا جو جلا کر راکھ کر دیا جاتا ہے لیکن اسے کسی محاسبہ اور پوچھ گچھ کا سامنا نہیں کرنا ہو گا. اسی سے ملتے جلتے الفاظ سورۃ النبأ کے اختتام پر وارد ہوئے ہیں کہ اُس روز کی سختیوں اور ہولناکی سے گھبرا کر انسان پکار اُٹھے گا: یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا ’’اے کاش کہ میں مٹی ہوتا‘‘ (کاش کہ شرفِ انسانیت مجھے عطا نہ ہوتا) . یہ ہے نوعِ انسانی کا وہ الم ناک مقدر اور ہلاکت خیز نصیب جس سے پوری نوع کو بحیثیت مجموعی دوچار ہونا ہے اور یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ جس پر اس سورۂ مبارکہ کی پہلی آیت میں قسم کھائی گئی ہے : وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾