یہاں یہ بات جان لینی چاہیے کہ قَسم سے اصل مقصود شہادت اور گواہی ہوتی ہے. یعنی کسی کو اپنی بات پر گواہ کے طورپر پیش کرنے کے لیے اس کی قَسم کھائی جاتی ہے. چنانچہ جب ہم کسی بات پر اللہ کی قَسم کھاتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ میں یہ بات اللہ کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں. قَسموں کے ضمن میں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کسی عظیم ہستی کی قَسم کھاتا ہے. تبھی اس کے کلام میں زور اور تاکید کا مفہوم پیدا ہوتا ہے. لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جوقَسمیں کھائی ہیں ان کا معاملہ مختلف ہے. چونکہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ مقدس اور عظیم تر وجود کسی کا نہیں ہے لہذا قرآن مجید کی قَسموں میں تقدس اور عظمت کا پہلو تلاش کرنا ایک غیر ضروری بات اور ایک لاحاصل سعی ہے. اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں جب کسی شے کی قَسم کھاتے ہیں تو وہاں محض گواہی پیش نظر ہوتی ہے. گویا وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾ کا بامحاورہ ترجمہ ہو گا ’’زمانہ گواہ ہے‘‘ .یعنی اگلی آیت میں جو حقیقت بیان کی جا رہی ہے اس پر زمانے کو بطور گواہ کے پیش کیا گیا.