’’وَالْعَصْر‘‘ کا حقیقی مفہوم

اس پس منظر میں اب ’’وَ الۡعَصۡرِ‘‘ کے مفہوم پر غور کیجیے! ترجمہ کچھ یوں ہو گا : ’’تیزی سے گزرنے والا زمانہ گواہ ہے‘‘. اس آیۂ مبارکہ میں بڑا چونکا دینے کا انداز ہے. انسان کو متوجہ کیا جا رہا ہے کہ یہ وقت جو بظاہر ٹھہرا ہوا نظر آتا ہے‘ درحقیقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے. تمہاری اصل پونجی یعنی مہلت ِعمر تیزی سے ختم ہو رہی ہے. بقول شاعر : ؎ 

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی!

ایک صاحب نے بڑی عمدہ تشبیہہ دی ہے کہ انسان کی مثال برف کے تاجر کی سی ہے کہ جس کا مالِ تجارت اگر بروقت فروخت نہ ہو تو نہ صرف یہ کہ منافع کا امکان باقی نہیں رہے گا بلکہ اُس کا اصل سرمایہ بھی پگھل کر ختم ہو جائے گا. انسان کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اس کی اصل پونجی مہلتِ عمر ہے. اس کے ابدی مستقبل کا دار و مدار اسی پر ہے. جو کمائی بھی اس نے کرنی ہے اسی وقفہ ٔحیات میں کرنی ہے. بقول اقبال : ؎ 

سلسلۂ روز و شب تارِ حریر ِدو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات

بہرکیف انسان کی یہ اصل پونجی اور اصل سرمایہ برف کی مانند پگھلتا چلا جا رہا ہے.
یہی چونکا دینے کا انداز اس شعر میں بھی سامنے آتا ہے کہ : ؎
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا!

لفظ ’’وَ الۡعَصۡرِ‘‘ کے صوتی آہنگ اور صوتی کیفیت میں بھی چونکا دینے کی کیفیت موجود ہے مزید غورکرنے پر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ زمانہ ایک ایسی مسلسل چادر کی مانند ہے جو ازل سے ابد تک تنی ہوئی ہے. چنانچہ یہ زمانہ مختلف قوموں کے عروج و زوال کا چشم دید گواہ ہے. نوعِ انسانی جن جن مراحل سے گزری ہے‘ جو جو حالات اس کو پیش آتے رہے ہیں‘ یہ سب گویا زمانے کے سامنے کی چیزیں ہیں. قومِ نوحؑ‘ قومِ ہودؑ اور قومِ صالح ؑ کا جو انجام ہوا‘ قومِ لوطؑ اور قومِ شعیبؑ جس انجام سے دوچار ہوئے‘ آلِ فرعون جس طرح غرق ہوئے‘ ان تمام بڑے بڑے واقعات کا چشم دید گواہ یہ زمانہ ہے. اس زمانہ نے قوموں کو اُبھرتے اور گرتے بھی دیکھا ہے اورتمدنوں کو بنتے اور بگڑتے بھی دیکھا ہے. پھر یہ زمانہ قصۂ آدم و ابلیس کا چشم دید گواہ بھی ہے اور یہی زمانہ انسان کے آخری انجام کا بھی عینی شاہد ہو گا. گویا اس پہلو سے بھی اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ پر جو سب سے بڑی گواہی پیش کی جا سکتی ہے وہ اسی زمانہ کی ہے : وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾