اس کی کامل اور مکمل مثال ہے محمدـ ٌرسول اللہ کی حیاتِ طیبہ ‘جس میں یہ چاروں چیزیں اپنی بلند ترین شان کے ساتھ بتمام و کمال موجود ہیں.

رسول اللہ نے سب سے پہلے اپنی اور کائنات کی حقیقت پر مطلع ہوناچاہا اور جب ازروئے 
وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾ (الضحیٰ) جبریل امین نے حقائق کا کامل انکشاف کیاتو اس کی تصدیق کی اور ایمان لے آئے. جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا: اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ (البقرۃ:۲۸۵’’ایمان لایا رسول اُس پر جو نازل کیا گیا اُس پر اُس کے ربّ کی جانب سے اور ایمان لائے اہل ایمان.‘‘

دوسری طرف آپ کی زندگی اخلاقِ حسنہ کا کامل نمونہ اور خلق عظیم کا شاہکار تھی. جیسے کہ فرمایا گیا: 
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ ﴿۴﴾ (القلم) یعنی آپؐ یقینا نہایت اعلیٰ اخلاق کے حامل اور اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز ہیں.

ایمان اور عمل صالح کے ان بنیادی تقاضوں کو بتمام و کمال پورا کرنے کے بعد پھر مسلسل تیئیس (۲۳)برس نبی اکرم نے حق کی دعوت اور ذاتِ سبحانہ وتعالیٰ کی کبریائی کے اعلان و نفاذ کی اَن تھک جدوجہد میں صرف کیے اور اس راہ میں ہر تکلیف سہی‘ ہر مصیبت کو برداشت کیا‘ ہر مشکل کو جھیلا اور ہر مخالفت کا مردانہ وار مقابلہ کیا. چنانچہ شعب بنی ہاشم میں تین سال کی شدید ترین قید کی صعوبت بھی سہی‘ طائف کے بازاروں میں اوباشوں کی فقرہ بازی اور سنگ باری بھی برداشت کی‘ بدر اور اُحد میں خود اپنے دندانِ مبارک کے علاوہ اپنے قریب ترین اعزہ اور عزیز ترین جاں نثاروں کی جانوں کا ہدیہ بھی بارگاہِ ربّانی میں پیش کیا اور تئیس برس کی شبانہ روز محنت اور مشقت سے بالآخر حق کا بول بالا کر دیا اور خدا کے دین کو جزیرہ نمائے عرب میں غالب کر کے ہی رفیق اعلیٰ کی طرف مراجعت اختیار فرمائی. فصلی اللہُ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلَّم تسلیماً کثیرًا کثیرًا. گویا آنحضور کی حیاتِ طیبہ سورۃ العصر کی مجسّم تفسیر ہے! فداہ ابی واُمّی.

تو حضرات! یہ ہے سورۃ العصر کے مفہوم کی مختصر تشریح. اب آپ کو اچھی طرح سے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کیوں میں نے اسے قرآن مجید کی جامع ترین سورت قرار دیا تھا‘ اور کیوں امام شافعی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اگر لوگ غور و فکر سے کام لیں تو تنہا یہی مختصر سورت ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کافی ہے. 

oo وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمینoo