سورۃ العصر کا دوسرا جامع عنوان تھا’’عملِ صالح‘‘. اس کی کوئی تفصیل وہاں ممکن نہیں تھی.یہاں اگر غور کریں تو عمل صالح کے اس جامع عنوان کے تحت تین ذیلی عنوان قائم کیے جا سکتے ہیں.سب سے پہلا ہو گا’’انسانی ہمدردی اور خدمتِ خلق‘‘ کا عنوان.یعنی انسان اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی ہوئی اپنی دولت ‘جو اُسے طبعاًمرغوب اور محبوب ہے‘ اسے وہ اِس طبعی محبت کے علی الرغم اپنے ابنائے نوع کی تکلیف کو دُور کرنے میں صرف کر سکے.دوسرا ذیلی عنوان بن جائے گا ’’عبادات یا حقوق اللہ‘‘ کا‘جن میں نماز اور زکوٰۃ کا ذکر آگیا.تیسرا ذیلی عنوان ہو گا ’’معاملات‘‘ کا‘اس لیے کہ ایفائے عہد کا بنیادی تعلق معاملاتِ انسانی سے ہے.ہمارے تمام معاملات خواہ لین دین اور کاروبار کے قبیل سے ہوں‘خواہ آجرومستٔاجر کے تعلق کے ذیل سے‘ان کی حیثیت معاہدوں کی سی ہوتی ہے.اسی طرح شادی بھی ایک سماجی معاہدہ ہے.گویا تمام انسانی معاملات کی اصل بنیاد عہد اور معاہدے پر قائم ہے.لہذا اگر کسی معاشرے میں ایفائے عہد پیدا ہو جائے تو یوں سمجھئے کہ انسانی تعلقات کی stream lining ہوجائے گی اور جملہ انسانی تعلقات کا معاملہ درست ہو جائے گا.
سورۃ العصر میں ’’عمل صالح‘‘ ایک جامع اصطلاح تھی.یہاں اس کے تین ذیلی عنوانات ہمارے سامنے آئے.اس کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے ایک درخت کے تنے سے تین بڑی بڑی شاخیں نکلیں.گویا عمل صالح جو سورۃ العصر میں آیا‘ وہ تنے کی مانند ہے اور اس سے جو تین بڑی بڑی شاخیں اس سورۂ مبارکہ میں نکلتی نظر آرہی ہیں وہ ہیں انسانی ہمدردی اور خدمتِ خلق‘حقوق اللہ اور عبادات‘ اور معاملاتِ انسانی اور ایفائے عہد.
سورۃ العصر کے آخر میں تواصی بالحق کا ذکر ہے‘اور یہ آیت بھی ختم ہو رہی ہے ان الفاظ مبارکہ پر: وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ ’’اور بالخصوص صبر کرنے والے فقر و فاقہ میں‘ تکالیف و مصائب پر اور جنگ کے وقت‘‘.اور صبر کے مقامات یا مواقع میں سے بھی تین کا ذکر کر دیا گیا ہے‘جیسے عمل صالح کے تین ذیلی عنوانات آئے تھے.صبر کے تین مواقع میں سے پہلا ’’الۡبَاۡسَآءِ ‘‘ہے. ’’بأساء‘‘ کہتے ہیں فقر و فاقہ اور تنگی کو. دوسرا ’’الضَّرَّآءِ‘‘ ہے. یہ ضرر سے بنا ہے ‘یعنی تکلیف‘خواہ وہ جسمانی اذیت ہو ‘خواہ ذہنی کوفت.پھر ظاہر ہے کہ صبر و مصابرت اورثبات و استقلال کے اصل امتحان کا آخری میدان‘میدانِ جنگ ہے‘جہاں انسان جان کی بازی کھیلتاہے اور نقدِجان ہتھیلی پر رکھ کر اُس کو خطرے میں ڈالتے ہوئے میدان میں آتا ہے.
گویا سورۃ العصر کے ساتھ اس آیت کے مضامین کا بڑا گہرا ربط ہے اور اسی مناسبت سے ہم نے اس منتخب نصاب میں اس کو سبق نمبر۲کی حیثیت سے شامل کیا ہے.
دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ اس آیۂ مبارکہ کا اصل مضمون کیا ہے؟اس کا آغاز ہوتا ہے لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ کے الفاظ سے. یعنی’’نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہروں کو مشرق و مغرب کی طرف پھیر لو‘‘. گویا نیکی کے ایک محدود تصور کی نفی سے بات شروع ہوئی اور اس کے بعد نیکی کا ایک جامع اور مکمل تصور پیش کیا گیاکہ : وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الۡمَالَ الآیۃ لہذا یہی اس آیۂ مبارکہ کا اصل موضوع اور مضمون ہے.