ہماری اب تک کی بحث کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ انسان کا جو عمل اِن دو محرکات پر مبنی نہ ہو وہ چاہے کتنا ہی بڑے سے بڑا نیکی کا کام نظر آئے‘ازروئے قرآن و حدیث وہ نیکی کا کام نہیں‘بلکہ اس میں کوئی نہ کوئی دُنیوی غرض پوشیدہ ہوتی ہے‘جب کہ تاکیدی ہدایت یہ ہے کہ ؏ ’’سوداگری نہیں‘یہ عبادت خدا کی ہے!‘‘کے مصداق نیکی کو کاروبار نہ بنا لینا‘نیکی سے دُنیوی منفعت کو مدِّنظر مت رکھنا‘نیکی کا فائدہ اس دنیا میں حاصل کرنے کی نیت نہ رکھنا.ایسا کریں گے تو اس نیت و ارادے کے تحت نیکی کے جتنے کام کیے جائیں گے ازروئے قرآن سب باطل ہو جائیں گے.اسی کو ہم اصطلاح ِ دینی میں کہتے ہیں کہ کوئی نیکی خلوص و اخلاص کے بغیر اللہ تعالیٰ کی جناب میں قبول نہیں.اس پر اسلام نے اتنا زور دیا ہے کہ بعض احادیثِ شریفہ تو ایسی ہیں کہ جن کو پڑھ کر انسان واقعتا لرز اٹھتا ہے.البتہ سب سے جامع حدیث وہ ہے جس کے راوی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں اور اکثر محدثین نے جو احادیثِ نبویؐ کے مجموعے مرتب کیے ہیں ان کا آغاز اسی حدیث سے کیا ہے.حضور فرماتے ہیں: 

اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِی مَا نَویٰ (۱)
’’اعمال کا دارومدار(نیکیوں کا انحصار) نیتوں پر ہے اور انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو‘‘.

یعنی اگر ایک شخص نے ایک اچھا عمل کیا لیکن اس کے پیچھے کوئی بُری نیت تھی تو اُس کا عمل بھی بُرا شمار ہو گا اور اس کا نتیجہ بھی بُرا نکلے گا.(اگرچہ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہ ہو گا کہ اگر انسان ایک برا عمل کرے جس میں اس کی نیت اچھی ہو تو اس کو اس کا اجر ملنا 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب بدء الوحی‘باب بدء الوحی. وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب قولہ انما الاعمال بالنیۃ… چاہیے. اس لیے کہ حدیثِ مبارکہ میں’’اعمال‘‘ کالفظ استعمال ہوا ہے اور اعمال سے مراد نیکی کے اعمال ہیں. ’’افعال‘‘ کالفظ آتا تو وہ دونوں کا احاطہ کر لیتا.مزید برآں نیت کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے.ہم اس پر اس کے ظاہر کے اعتبار سے برائی ہی کا حکم لگائیں گے.اس لیے کہ ہم دنیا میں صرف ظاہر پر ہی فیصلہ کر سکتے ہیں.البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کسی مخمصے میں ہو یا کسی ایسی مجبوری میں گرفتار ہو جس سے نکلنا اس کے لیے قطعاًناممکن ہو تو اس کے لیے رعایت ہو سکتی ہے).تو یہ ہے دونوں اعتبارات سے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ کا تعلق نیکی کی بحث سے.