یہاں نوٹ کیجیے کہ اس آیۂ مبارکہ میں ایمانیات کے ذکر کے بعد نیکی کا جو مظہرِاوّل بیان ہو رہا ہے وہ’’خدمتِ خلق‘‘ اور ’’انسانی ہمدردی‘‘ ہے. اگرچہ آپ نے سن رکھا ہو گا اور یہ بالکل صحیح ہے کہ ارکانِ دین میں کلمۂ شہادت کے بعد رکنِ اوّل اور رکنِ رکین‘ جس کو عِمَادُ الدِّیْن (دین کا ستون) قرار دیا گیا ہے وہ اقامتِ صلوٰۃ ہے‘لیکن اس آیۂ مبارکہ میں نماز کا ذکرمؤخر ہو گیا ہے اور اس سے بھی پہلے اپنے مال کو ابنائے نوع کی تکلیفوں کو رفع کرنے‘ ان کی احتیاجات کو دُور کرنے اور ان کی مصیبتوں سے انہیں نجات دلانے میں صرف کرنے کا ذکر نہایت اہتمام اور شدّومدّ کے ساتھ ہورہا ہے.
یہ معاملہ بہت اہم ہے اور واقعہ یہی ہے کہ جہاں کہیں نیکی کی حقیقت کی بحث ہو گی وہاں ترتیب وہ ہو گی جو اِس آیۂ مبارکہ میں ہے‘لیکن جہاں ارکانِ اسلام کی گفتگو ہو گی وہاں ترتیب وہ رہے گی جو مشہور حدیث میں بیان ہوئی ہے‘جس کا مفہوم یہ ہے:

’’اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر تعمیر کی گئی ہے: کلمۂ شہادت‘ نماز‘ زکو ٰۃ ‘صوم ِ رمضان اور حج‘‘ . 
(۱)

یہاں چونکہ بحث نیکی کی حقیقت سے ہے لہذا یہاں اس کی مناسبت سے ترتیب قائم کی گئی ہے کہ انسان کے عملی رویّے میں نیکی کا ظہورِ اوّل’’انسانی ہمدردی‘‘ کو قرار دیا گیا ہے.قرآن مجید اس بات پر جس قدر زور دیتا ہے اس کا اندازہ آپ سورۂ آل عمران کی آیت ۹۲سے بخوبی لگا سکتے ہیں.اس میں یہ معاملہ بہت نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے.فرمایا:

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ
’’تم نیکی کے مقام تک پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک کہ تم خرچ نہ کرو(اللہ کی راہ میں)وہ چیز جو تمہیں محبوب ہے.‘‘

یعنی وہ چیز نہیں جو دل سے اتر گئی ہو‘نہ وہ چیز جو ازکارِ رفتہ ہو گئی ہو‘بلکہ وہ چیز جو محبوب ہو.اگرتم محبوب چیز یعنی مال اللہ کی راہ میں اپنے ابنائے نوع کی تکالیف رفع کرنے میں خرچ نہیں کر سکتے تو یہ بات جان لو کہ نیکی میں سے تم کو کوئی حصہ نہیں ملے گا اور تمہارا شمار اتقیاء و ابرار میں نہیں ہو سکے گا!

یہ بات بھی جان لیجیے کہ ہر لفظ اور ہر اصطلاح کا ایک مفہوم ہوتا ہے اور اس کے کچھ مضمرات و مقتضیات ہوتے ہیں جو اس سے جدا نہیں کیے جا سکتے‘خاص طور پر جو الفاظ اصطلاح کی حیثیت اختیار کر لیں تو ان کا ایک خاص مفہوم 
(connotation) معیّن ہو جاتا ہے.مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص عالم ہے تو لفظ عالم کا اپنا ایک مفہوم (۱) صحیح البخاری و صحیح مسلم عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما. ہے.اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ کوئی زاہد ہے یا عابد ہے تو زاہد اور عابد کا اپنا اپناجداگانہ مفہوم ہے.تو ہو سکتا ہے کہ ایک شخص عالم ہو‘عابد ہو‘ زاہد ہو‘لیکن ازروئے‘ قرآن وہ شخص نیک شمار نہیں ہو گا‘نہ ہی اس کا شمار ابرار میں ہو گا جب تک اس کے اندر انسانی ہمدردی کا وصف اور بنی نوع انسان کی تکالیف کو دُور کرنے کا جذبہ موجود نہ ہو.

اس آیت کے الفاظِ مبارکہ سے تو یہ بات نیکی کی بحث میں واضح اور مبرہن ہو کر سامنے آتی ہے ‘لیکن اپنی اہمیت کے اعتبار سے یہ مضمون قرآن مجید میں بعض دوسرے مقامات پر بھی مختلف اسالیب سے بیان ہوا ہے.اس لیے کہ قرآن مجید کا معاملہ تو یہ ہے ہی کہ ؏ ’’اِک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘.چنانچہ سورۃ اللّیل میں ارشادِ الٰہی ہے : 
اِنَّ سَعۡیَکُمۡ لَشَتّٰی ؕ﴿۴’’(لوگو!)یقینا تمہاری سعی وجہد( تگ و دَو اور بھاگ دوڑ) کے نتائج بڑے مختلف اور متضاد ہوتے ہیں‘‘.پھر اللہ ربّ العزت نے دو مختلف نتیجوں کا ذکر فرمایا: فَاَمَّا مَنۡ اَعۡطٰی وَ اتَّقٰی ۙ﴿۵﴾وَ صَدَّقَ بِالۡحُسۡنٰی ۙ﴿۶﴾فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡیُسۡرٰی ؕ﴿۷﴾ ’’سوجس نے سخاوت اختیار کی‘اور برائی سے بچا‘ اور بھلی بات کی تصدیق کی‘تواسے ہم رفتہ رفتہ بڑی آسانی کا اہل بنا دیں گے‘‘.گویا ایک راستہ وہ ہے جس کا پہلا قدم ہے’’اعطاء‘‘یعنی جُودوسخا.یہ راستہ آسانی کی طرف لے جانے والاہے.اس کے برعکس راستہ وہ ہے جس کا پہلا قدم بخل ہے.فرمایا گیا: وَ اَمَّا مَنۡۢ بَخِلَ وَ اسۡتَغۡنٰی ۙ﴿۸﴾وَ کَذَّبَ بِالۡحُسۡنٰی ۙ﴿۹﴾فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡعُسۡرٰی ﴿ؕ۱۰﴾ ’’اور جس نے بخل سے کام لیا اور لاپروائی اختیار کی ‘اور بھلی بات کی تکذیب کی‘ تواسے ہم رفتہ رفتہ کڑی سزا کا مستوجب بنا دیں گے‘‘.گویا یہ راستہ تنگی اور سختی کا راستہ ہے.

اسی طرح سورۃ البلد میں فرمایا کہ ہم نے انسان پر کیا کیا اور کیسے کیسے احسانات کیے! ازروئے الفاظِ قرآنی: 
اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ ۙ﴿۸﴾وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ ۙ﴿۹﴾وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ ﴿ۚ۱۰﴾ ’’کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں نہیں دیں؟اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟اور اس کو دونوں راہیں(بِروتقویٰ اور فسق و فجور کی راہیں) سجھا نہیں دیں؟‘‘ لیکن یہ انسان بڑا تھڑ دلا ثابت ہوا اور کم ہمت اور ناشکرا نکلا.فرمایا:فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَۃَ ﴿۫ۖ۱۱﴾وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡعَقَبَۃُ ﴿ؕ۱۲﴾فَکُّ رَقَبَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾اَوۡ اِطۡعٰمٌ فِیۡ یَوۡمٍ ذِیۡ مَسۡغَبَۃٍ ﴿ۙ۱۴﴾یَّتِیۡمًا ذَا مَقۡرَبَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾اَوۡ مِسۡکِیۡنًا ذَا مَتۡرَبَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾ ’’پس وہ گھاٹی عبور نہ کر سکا.اور کیا سمجھے تم کہ وہ گھاٹی کون سی ہے؟ (اب آگے اس گھاٹی کا ذکر ہے جس کا تعلق انسانی ہمدردی اور خدمتِ خلق میں اپنے مال کو خرچ کرنے سے ہے.)کسی گردن کو چھڑا دینا (کسی کی گلو خلاصی کرادینا)‘یاکسی یتیم کو قحط کے ایام میں جب کہ اپنے لالے پڑے ہوئے ہوں‘ کھانا کھلا دینا جبکہ وہ قرابت دار بھی ہو‘یا کسی مسکین کو کھانا کھلا دینا جب کہ وہ خاک میں رل رہا ہو‘‘.یہ ہے مشکل وادی.اگر انسان اس کو عبور کر لے اور پھر شعوری طور پر ایمان لائے تو وہ نورٌ علٰی نُور والا ایمان ہو گا.چنانچہ اسی سورۃ البلد میں اس آیت سے آگے فرمایا: ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ ﴿ؕ۱۷’’پھروہ شامل ہوا اُن لوگوں میں جو ایمان لائے‘اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور باہمی ہمدردی کی پُرزورتاکید کی!‘‘…واضح رہے کہ تقریباًسورۃ العصر کا مضمون سورۃ البلد کی اس آیت میں بھی آگیا ہے.یہ گویا وہی بات ہے کہ ؏ ’’اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘.

اس موقع پر چند احادیثِ نبویہؐ ‘ بھی پیش نظر رہیں جو علم و حکمت کے بڑے بڑے خزانے ہیں‘جن میں اسی مفہوم کو نبی اکرم نے ’’کوزہ میں دریا بندکرنے‘‘کے انداز میں بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں: 
مَنْ یُّحْرَمِ الرِّفْقَ یُحْرَمِ الْخَیْرَ (۱جو شخص دل کی نرمی سے محروم رہا وہ (کُل کے کُل) خیر سے محروم ہو گیا‘‘. ایک اور حدیث میں نبی اکرم  فرماتے ہیں: مَنْ لاَّ یَرْحَمْ لاَ یُرْحَمْ (۲’’اللہ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا‘‘.ایک اور (۱) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب فضل الرفق.وسنن ابن ماجہ‘ کتاب الادب‘ باب الرفق. ومسند احمد.
(۲) صحیح مسلم‘ کتاب الفضائل‘ باب رحمتہ الصبیان والعیال وتواضعہ وفضل ذلک. 
حدیث کے مطابق نبی اکرم نے فرمایا: اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللہِ (۱’’کُل کی کُل مخلوق اللہ کے کنبے کی مانند ہے‘‘.لہذااگراللہ سے محبت ہے تو کیا اس کے کنبے یعنی مخلوق سے محبت نہیں ہو گی!حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

’’قیامت کے دن اللہ عزوجل فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو نے میری تیمارداری نہیں کی. وہ کہے گا: اے پروردگار! میں تیری تیمارداری کیسے کرتا جبکہ تو ربّ العالمین ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تو نے اس کی تیمارداری نہیں کی؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی تیمارداری کرتا تو مجھے اس کے پاس موجود پاتا!

اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا‘ تُو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا. وہ کہے گا : اے میرے ربّ! میں تجھ کو کھانا کیسے کھلاتا جب کہ تُو ربّ العالمین ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نہیں جانتا کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا ‘ تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کھانے کو میرے پاس موجود پاتا!
اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا‘ تُو نے مجھے پانی نہیں پلایا. وہ کہے گا : پروردگار! میں تجھ کو کیسے پانی پلاتا جبکہ تُو تو ربّ العالمین ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا‘ تُو نے اس کو پانی نہیں پلایا تھا‘ اور اگر تُو اُس کو پانی پلادیتا تو اپنے اس عمل کو میرے پاس موجود پاتا!‘‘ 
(۲

اندازہ لگائیے کہ یہ اہمیت ہے ہمارے دین میں حاجت مندوں کی حاجت روائی کی!