خاتمۂ کلام‘ راست بازی اور تقویٰ کا معیار

اس آیۂ مبارکہ کا اختتام ہوتا ہے ان الفاظ پر: اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾ ’’یہی ہیں وہ لوگ جو حقیقتاً سچے اور راست گو و راست باز ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو واقعتا متقی(اللہ کی نافرمانی سے بچنے والے) ہیں‘‘. یہاں حصر کا اسلوب ہے .یعنی اپنے دعوائے ایمان میں سچے صرف وہ لوگ ہیں جن کے قلوب میں حقیقی ایمان جاگزیں ہو اور جن کے اعمال میں نیکی کے ان اوصاف کا ظہور ہورہا ہو جن کا اس آیۂ مبارکہ میں بیان ہوا‘اور صرف یہی لوگ حقیقی متقی کہلانے کے مستحق ہیں.

اس آیۂ مبارکہ کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ سورۃ العصر کے چاروں مضامین یہاں موجود ہیں.اس سورۂ مبارکہ میں کامیابی اور فوزوفلاح کے جن چار لوازم کا بیان ہوا اُن کو اس آیۂ مبارکہ میں ایک نئے اسلوب‘نئے انداز‘نئے پیرائے اورنئے سلسلۂ کلام 
(context) میں ایک نئی بحث کے ضمن میں واضح فرمادیاگیا.حقیقتِ واحدہ وہی ہے جو سورۃ العصر میں آئی‘اسی کو ہم نے ایک مرتبہ ایک نئی رعنائی کے ساتھ پھر دیکھ لیا.حقیقتِ نیکی اور تقویٰ کا جو قرآنی معیار قرآن حکیم کی اس عظیم آیت کے حوالے سے ہمارے سامنے آیا‘اس کا اصل فائدہ تب ہی حاصل ہو گا جب ہم یہ ارادہ اور عزم کر لیں کہ جو علم ہمیں قرآن و حدیث سے حاصل ہوا اُس پر ہم عملاً کاربند ہونے کی ہر ممکنہ کوشش کریں گے.اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو!