اس رکوع میں جس کا ہم مطالعہ کر رہے ہیں‘ والدین کے حقوق کا ذکر کر کے والدہ کے حق کو نمایاں کیا گیا اور اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کی تاکید فرمائی گئی:
وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡنِ اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ ؕ اِلَیَّ الۡمَصِیۡرُ ﴿۱۴﴾
’’اور ہم نے انسان کو وصیت کی اس کے والدین کے بارے میں. اٹھائے رکھا اسے اس کی والدہ نے کمزوری پر کمزوری جھیل کر اور اس کا دودھ چھڑانا ہے دو سالوں میں‘ کہ کر شکر میرا اور اپنے والدین کا ‘میری ہی طرف لوٹنا ہے.‘‘
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اصل میں ایک جامع عنوان ہے اس بات کا کہ اس دنیا میں انسان زندگی بسر کرتا ہے تو اس پر بہت سے لوگوں کے حقوق عائد ہوجاتے ہیں جنہیں اسے ادا کرنے کی فکر کرنی چاہیے. انہیں شریعت کی اصطلاح میں ’’حقوق العباد‘‘ کہا جاتا ہے اور ان میں سرفہرست والدین کے حقوق ہیں‘ اس میں قطعاً کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں. انسان پر سب سے بڑا احسان تو بلاشک و بلاریب اللہ تعالیٰ کا ہے جو اُس کا خالق ہے‘ مالک ہے اور پروردگارِ حقیقی ہے. لیکن اللہ کے بعد انسان سب سے زیادہ زیر بارِ احسان ہے اپنے والدین کا جنہوں نے اسے پالا پوسا‘ اپنا پیٹ کاٹ کر اسے کھلایا پلایا‘ اپنے آرام کو تج کر اس کے آرام کی فکر کی‘ اس کی تکلیف پر بے چین ہوتے رہے. پھر اُن میں بالخصوص والدہ کا حق بہت فائق ہے. لہذا والدین کے ذکر کے بعد یہاں والدہ کا خاص طو رپر ذکر آیا ہے‘ جس نے اسے ضعف پر ضعف برداشت کرتے ہوئے اپنے پیٹ میں اٹھائے رکھا. پیدائش کے بعد پھر وہ دو سال تک جونک کی طرح اس کی چھاتی سے چمٹ کر دودھ کی شکل میں اس کے جسم و جان کی توانائیاں چوستا رہا اور اس نے اپنی توانائیوں کو بہترین غذا بنا کر اس کے جسم میں اتارا‘ لہذا والدین بالخصوص والدہ کے اولاد پر یہ احسانات نہایت عظیم ہیں. چنانچہ انسانوں کے حقوق میں سرفہرست والدین کے حقوق ہیں.
یہاں والدہ کے حقوق کے فائق ہونے کے ضمن میں دومشہور احادیث کا ذکر مناسب رہے گا.ایک یہ کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘ (۱) .یعنی ماں کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن ِ سلوک انسان کے جنت میں داخل (۱) سنن النسائی‘ کتاب الجہاد‘ باب الرخصۃ فی التخلف لمن لہ والدۃ. وسنن ابن ماجہ‘ کتاب الجہاد‘ باب الرجل یغزو ولہ ابوان. ہونے کے ذرائع میں سے ایک اہم ذریعہ ہے. دوسرے یہ کہ ایک مرتبہ ایک صحابیؓ نے حضورﷺ سے دریافت کیا کہ ’’میرے حسن ِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟‘‘ تو حضورﷺ نے فرمایا: ’’تیری ماں‘‘.صحابی ؓ نے پھر پوچھا:’’اس کے بعد؟‘‘ جواب ملا:’’تیری ماں‘‘.صحابیؓ نے تیسری مرتبہ دریافت کیا:’’اس کے بعد؟‘‘ آپؐ نے پھر فرمایا:’’تیری ماں‘‘. چوتھی مرتبہ صحابیؓ کے سوال کے جواب میں ارشادہوا: ’’تیرا باپ‘‘ (۱) . اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باپ کے مقابلے میں ماں کا حق تین گنا فائق ہے.