سورۂ لقمان کے اس رکوع میں حضرت لقمان کی شخصیت کے حوالے سے گفتگو ہوئی‘ لیکن حکمت ِ قرآنی کی دو اساسات کو متعین کر دیا گیا. پہلی اساس ہے شکر ِ خداوندی. یہاں مناسب ہو گا کہ لفظ ’’شکر‘‘ کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا جائے. اگرچہ یہ لفظ اردو میں مستعمل ہے ‘لیکن اگر کسی سے پوچھا جائے کہ شکر کسے کہتے ہیں‘ اس کے معنی کیا ہیں‘ تو جواب ملے گا کہ شکر‘ شکر ہوتا ہے. اس کے لیے اکثر لوگ شاید کوئی دوسرا لفظ استعمال نہ کر سکیں. شکر کیا ہے! اس کی امام راغب اصفہانی ؒ نے بڑی عمدہ تشریح فرمائی ہے. وہ کہتے ہیں کہ ’’شکر کے معنی ہیں کسی احسان و انعام کا ادراک و تصور اور اس کا (۱) سنن الترمذی‘کتاب العلم‘ باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ. و سنن ابن ماجہ‘ کتاب الزھد‘ باب الحکمۃ‘ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ. اظہارو اعتراف‘‘. اس کے برعکس جو کیفیت ہے وہ ’’کفر‘‘ ہے. اس رکوع کی پہلی آیت میں فرمایا گیا:

وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۱۲﴾ 
’’اور جو شکر کرتا ہے اپنے بھلے کے لیے کرتا ہے اور جس نے کفر کیا تو بلاشبہ اللہ بے نیاز ہے اور اپنی ذات میں ستودہ صفات (اوراز خود محمود) ہے.‘‘

عام طور پر کفر کے معنی صرف انکار کے سمجھے جاتے ہیں. جیسے کوئی دین کی کسی بنیادی بات کا انکار کرے‘ توحید کا منکر ہو یا اللہ کی صفاتِ کمال کا منکر ہو‘ اسی طرح رسالت کا منکر ہو یا ختمِ نبوت کا منکر ہو‘ آخرت کا منکر ہو یا جنت اور دوزخ کا منکر ہو تو ایسا شخص کافر ہے. یہ بات اپنی جگہ صد فیصد صحیح ہے‘ لیکن لغوی اعتبار سے اصل میں کفر‘ شکر کی ضد ہے. یہ دونوں الفاظ ’’شکر و کفر‘‘ متضاد معنی کے حامل (antonyms) ہیں. شکریہ ہے کہ انسان کو نعمت کا احساس ہو اور وہ اس کا اظہار کرے.اور کفر کے معنی ہیں چھپا دینا‘ دبا دینا‘ لہذا جب یہ شکر کے مقابلے میں آئے گا تو اس کا مفہوم ہو گا ناشکرا پن یا کفرانِ نعمت.

آپ تھوڑے سے غور سے اس نتیجہ تک خود پہنچ جائیں گے کہ شکر فطرت کا جزوِ لاینفک ہے‘ بشرطیکہ فطرت صحیح ہو اور مسخ نہ ہوئی ہو. یہ بات اس حد تک درست ہے کہ یہ معاملہ صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ حیوانات تک میں پایا جاتا ہے. چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ اگر کوئی بھوکا پیاسا جانور ہو‘ آپ نے اس کے سامنے چارہ یا پانی رکھ دیا اور اس نے اپنی بھوک یا پیاس مٹائی تو اب وہ گردن اٹھا کر جب آپ کو دیکھے گا تو آپ کو اُس کی آنکھوں میں جذبۂ تشکر چھلکتا ہوا نظر آئے گا. یہ فطرت ہے اور اچھی طرح جان لیجیے کہ فطرت کی صحت کی علامت یہ ہے کہ انسان میں شکر کا جذبہ موجود ہو.

اگر یہ کیفیت ختم ہو جائے تو ایسا شخص ایک ناشکرا انسان ہو گا کہ اس کے ساتھ بھلائی کی جا رہی ہو اور اسے احسا س بھی نہ ہو کہ کسی نے اس کے ساتھ بھلائی کی ہے‘ اسے شعور تک نہ ہو کہ کسی نے اس کے ساتھ احسان اور حسن ِ سلوک کا معاملہ کیا ہے. ایسے شخص کے لیے حکم لگایا جائے گا کہ اس کی فطرت مسخ ہو چکی ہے یا بالفاظِ دیگر اس کی فطرت کے سوتے خشک ہو چکے ہیں.عرب ابلتے چشمے کو ’’العَین الشکرٰی‘‘ کہتے ہیں. یعنی وہ چشمہ جس سے پانی ابل رہا ہے. پھر ’’ دَابَّۃٌ شَکُوْرٌ‘‘ اس جانور اور اس حیوان کو کہتے ہیں کہ اگر اس کی ٹہل سیوا کی جائے‘ اچھا کھانے پینے کو دیا جائے تو وہ فربہ ہوتا ہے. اس دیکھ بھال اور اچھی غذا کا اس کے وجود میں ظہور ہوتا ہے تو اسے وہ دَابَّۃٌ شَکُوْرٌ کہتے ہیں. لہذا شکر فطرت کے اس جذبے کو کہتے ہیں جو کسی نعمت اور کسی احسان پر انسان کے باطن سے ابھرتا ہے. اب اس فطری اساس پر عقلِ سلیم کے ذریعے اضافی تعمیر ہو گی. عقل کا وظیفہ کیا ہے؟ یہ کہ وہ اپنے محسن ِ حقیقی کو پہچانے اور اس طرح اس کے شکر اور احسان مندی کے جذبے سے اس کا ذہن و قلب سرشار ہو جائے.

ذرا غور فرمایئے کہ جب انسان عہد ِ طفولیت میں ہوتا ہے تو اس کے ذہن کی دنیا ابھی اتنی محدود ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین ہی کے بارے میں یہ سمجھتا ہے کہ یہی میرے رازق ہیں‘ یہی میرے محافظ ہیں‘ یہی میرے دکھ درد محسوس کرنے والے ہیں‘ مجھے کوئی تکلیف ہو تو اسے یہی رفع کرنے والے ہیں‘ لہذا اس کا غیر شعوری جذبۂ شکر اپنے والدین کی ذات پر مرتکز رہتا ہے‘ لیکن جیسے جیسے فکر انسانی کا ارتقاء ہوتا ہے اور عقل اپنی ارتقائی منزلیں طے کرتی ہے‘ انسان کا شعور پروان چڑھتا ہے اور اس کے ذہن میں وسعت پیدا ہوتی ہے تو انسان کو معلوم ہوتا چلا جاتا ہے کہ میں تو بہت سوں کا زیرِ بارِ احسان ہوں. میرا وطن ہے‘ میری قوم ہے‘ میرے اعزہ و اقرباء ہیں. یہ سب کے سب میرے محسن ہیں‘ میری بھلائی کے لیے سوچتے ہیں. میں درجہ بدرجہ ان سب کا زیرِبارِ احسان ہوں. اسی طرح گویا جذبۂ شکر پھیل رہا ہے. پھر انسان یہاں تک سوچتا ہے کہ یہ زمین جس سے مجھے غذا حاصل ہو رہی ہے ‘ یہ سورج جس سے یہ سارا نظام چل رہا ہے‘ فصلیں پک رہی ہیں‘ بارشیں ہو رہی ہیں جن سے ُمردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے تو میں ان میں سے ہر چیز کا زیر ِ بارِ احسان ہوں. میری جو ضروریات پوری ہو رہی ہیں تو اس پوری کائنات کی ایک ایک شے میری ضروریاتِ زندگی کی بہم رسانی میں لگی ہوئی ہے. اس طرح یہ شکر پھیل کر کائنات کی وسعتوں کو اپنے اندر سمو لیتا ہے!

اس کے بعد اگر انسان ایک چھلانگ اور لگا لے‘ فکر انسانی اگر ایک قدم اور اٹھا لے تو وہ اس نتیجے تک پہنچ سکتا ہے کہ یہ تمام مظاہر ِ فطرت اور ان میں جو تعدّد نظر آرہا ہے‘ ان میں جو توافق اور نظم نظر آرہا ہے‘ ان سب کا منبع اور سرچشمہ کوئی ایک ذات ہے. سورج میں جو تمازت ہے وہ اس کی اپنی نہیں‘ کوئی اور ہے جس نے اس میں یہ حرارت و تمازت رکھی ہے. کسی شے میں اگر کوئی وصف ہے تو وہ اس کا ذاتی نہیں‘ کسی کا عطا کردہ ہے. ایک خالق‘ ایک ربّ‘ ایک منعم ہے جس کے انعامات و احسانات کا یہ پورا سلسلہ اس کائنات میں پھیلا ہوا ہے. نتیجہ کیا نکلے گا! یہ کہ غور و فکر اور عقل کا یہ ذہنی سفر جب ا س حد کو پہنچ جائے گا تو وہ شکر جو والدین کی ذات سے شروع ہو کر پھیلتا ہوا کائنات کی وسعتوں کومحیط ہو گیا تھا‘ ایک ذات پر مرتکز ہو جائے گا اور وہ سمجھ لے گا کہ شکر کا مستحق ِ حقیقی اللہ ہے. یہاں فطرت اور تعقّل کے امتزاج سے جو کچھ حاصل ہو ا ہے وہ معرفت ِ توحید ِ باری تعالیٰ ہے جس کا نتیجہ شکر ِ خداوندی ہے. اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا:

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرۡ لِلّٰہِ ؕ
’’اور بے شک ہم نے لقمان کو دانائی عطا کی اور حکمت سے نوازا کہ شکر کر اللہ کا.‘‘

معلوم ہوا کہ یہاں کلمہ ’’اَنْ‘‘ حکمت و دانائی کے لازمی و منطقی نتیجے کی جانب رہنمائی کے لیے آیا ہے. گویا وہ عقلیت سرے سے حکمت قرار ہی نہیں دی جا سکتی جس سے شکر ِ خداوندی کی کیفیت قلب و ذہن میں پیدا نہ ہو.
م
زید برآں اس شکر کے تین درجے ہیں. امام راغبؒ نے بہت خوبصورتی سے اس مسئلہ پر بحث کی ہے. وہ کہتے ہیں کہ شکر کا پہلا درجہ یہ ہے کہ نعمت کا احساس و ادراک ہو. ظاہر بات ہے کہ اگر کسی بچے کے ہاتھ پر کوہِ نور ہیرا رکھ دیا جائے تو اسے معلوم ہی نہیں ہو گا کہ اسے کیا چیز دی گئی ہے ! وہ اسے کانچ کا ٹکڑا سمجھے گا. لہذا جس درجے کا شکر اس میں پیدا ہونا چاہیے وہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا‘ اس لیے کہ اسے شعور ہی نہیں ہے کہ مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا گیا ہے! پس پہلا درجہ ہو گا نعمت کا کماحقہ‘ ادراک و شعور.دوسرا درجہ ہو گا شکر باللّسان‘ یعنی زبان سے بھی منعم و محسن کی حمد و ثنا ہو‘ جسے ہم شکریہ ادا کرنا کہتے ہیں. جیسے ’’thanks‘‘ اور ’’شُکرًا‘‘ کہا جاتا ہے. یہ الفاظ متمدن و مہذب معاشرہ میں سب سے زیادہ کہے اور سنے جانے والے الفاظ ہوں گے. پھر تیسرا درجہ ہے شکر بالجوارح کا‘ یعنی اس نعمت کا حق اپنے پورے وجود سے اداکرو. اگر کسی بچے کو اس کے والد نے بہت عمدہ کتاب لا کر دی‘ بچہ مہذب تھا‘ اس نے اپنے والد کا شکریہ ادا کر دیا ‘لیکن پھر اس نے اس کتاب کو طاقِ نسیان پر رکھ دیا اوراس سے کوئی استفادہ نہ کیا تو یہ ناشکرا پن ہے‘ ناقدری ہے. لہذا نعمت کا حق ادا کرنا بھی شکر کا تقاضا ہے.

الغرض شکر تقاضائے فطرت ہے‘ اور عقل سلیم کا مآل یہ ہے کہ اپنے اصل محسن و منعم اور خالق و مالک کو پہچان لے. اور ان دونوں کے امتزاج سے اللہ کے شکر و امتنان کے جذبات کا چشمہ دل کی گہرائیوں سے ابلتا ہے اوراس کی حمد و ثنا کے زمزمے انسان کی زبان پر جاری ہو جاتے ہیں! پھر شکر خداوندی کا تقاضا ہے کہ انسان اللہ کا حق ادا کرے‘ اور اللہ کا سب سے بڑا حق وہ ہے جسے اگلی آیت میں حضرت لقمان کی پہلی نصیحت میں بایں الفاظ بیان کیا گیا:

یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳
’’اے میرے پیارے بچے! دیکھنا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا‘ بلاشبہ شرک بہت بڑا ظلم (اور بہت بڑی ناانصافی) ہے.‘‘

انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بے حد و حساب نعمتیں ملی ہیں‘ اس پر احسانات کی جو بارش ہوئی ہے تو انسان سے اس کی نعمتوں کا جو عظیم ترین حق مطلوب ہے وہ التزامِ توحید اور اجتناب عن الشرک ہے. یہ بہت اہم موضوع ہے.