اس رکوع میں حکمت ِ قرآنی کی جو دوسری بات آئی ہے اب اس پر غور کیجیے. وہ بات معروف اور منکر یعنی نیکی اور بدی کا تصور ہے. قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ فطرتِ انسانی میں نیکی اور بدی کی پہچان اللہ کی جانب سے ودیعت شدہ موجود ہے. انسان ان میں طبعا ً امتیاز کرتا ہے‘ اس کی ضرورت نہیں ہے کہ انسان کو بتایا جائے کہ سچ بولنا اچھا ہے‘ جھوٹ بولنا برا ہے. انسان کی اپنی فطرت اس بات سے واقف ہے کہ سچائی نیکی ہے اور جھوٹ بدی ہے. وعدہ پورا کرنا نیکی ہے‘ وعدے کی خلاف ورزی کرنا بدی ہے. دیانت و صداقت اعلیٰ اقدار ہیں‘ خیانت و کذب برائیاں ہیں. ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک خیر ہے‘ ہمسائے کو پریشان کرنا اور اسے اذیت پہنچانا شر ہے. چنانچہ قرآن نے نیکی کے جملہ اعمال و مظاہر کے لیے جو اصطلاح اختیار کی ہے وہ ہے ’’معروف‘‘. معروف کے معنی ہیں ’’جانی پہچانی چیز‘‘. اس کے برعکس بدی کے لیے قرآن کی اصطلاح ’’منکر‘‘ ہے. منکر اس چیز کو کہتے ہیں جو پہچان میں نہ آئے‘ جس سے انسان کی طبیعت کو نفرت اور اباء ہو. یہ قرآن حکیم کا اعجاز ہے کہ اس نے ان دو الفاظ کے حوالے سے حکمت کے نہایت اہم مسائل پرسے پردے ہٹا دیے ہیں اور ان کو مبرہن کر دیا ہے. قرآن بتاتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ انسان اپنی فطرت سے جانتا ہے کہ نیکی کیا ہے بدی کیا ہے‘ خیر کیا ہے شر کیا ہے! بلکہ فطرتِ انسانی کا میلان نیکی کی طرف ہے. وہ اس کی فطرت کی جانی پہچانی چیز ہے. اس کا طبعی رجحان نیکی کی طرف ہے‘ بدی کی طرف نہیں. وہ بدی سے طبعا ً نفرت کرتا ہے. یہ بالکل علیحدہ بات ہے کہ بالکل غیر معمولی حالات میں یا غلط ماحول سے متأثر ہو کر انسان بدی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے ‘لیکن اس کی فطرت اسے متنبہ کرتی رہتی ہے اور اس کا ضمیر اس کو ٹوکتا رہتا ہے کہ تم غلط راستے پر جا رہے ہو‘ اِلّا یہ کہ اس کی فطرت ہی مسخ ہو گئی ہو. الغرض یہ ہے حکمت ِ قرآنی کی دوسری اہم اساس جس کا تعلق ایمان بالآخرۃ سے ہے.
یہ بات اس منتخب نصاب میں آئندہ واضح ہو کر سامنے آئے گی کہ اگر نیکی نیکی ہے اور بدی بدی ہے تو نیکی کی جزا ملنی چاہیے اور بدی کی سزا. ؏ ’’ گندم از گندم بروید جوزِجو‘‘. اگر گندم سے گندم اور جو سے جو پیدا ہوتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ نیکی کی جزا اور بدی کی سزا نہ ملے جو بالعموم اس دنیا میں نہیں ملتی‘ لہذا اس کے لیے کسی دوسرے عالَم کی ضرورت ہے. یا پھر یہ کہنا پڑے گا کہ نیکی اور بدی برابر ہیں‘ ان میں کوئی فرق و تفاوت نہیں ہے. لیکن فطرتِ سلیمہ اور عقل ِ صحیحہ اس کو قبول نہیں کرتی. فطرت اور عقل کا فیصلہ یہ ہے کہ نیکی نیکی ہے‘ بدی بدی ہے اور نیکی کا نتیجہ اچھا اور بدی کا نتیجہ برا نکلنا چاہیے. مکافاتِ عمل کی یہی بات حضرت لقمان نے کہی: ’’اے میرے پیارے بچے! نیکی یا بدی خواہ رائی کے دانے کے برابر ہو‘ پھر خواہ وہ کسی چٹان میں کی گئی ہو یا کہیں فضا کی پہنائیوں میں کی گئی ہو یا کہیں زمین کے پیٹ میں گھس کر کی گئی ہو‘ اللہ اس کو لے آئے گا‘‘. یہ اعمالِ انسانی ضائع جانے والے نہیں. یہ ہیں وہ امور جن کو قرآن حکمت سے موسوم کرتا ہے اور جن تک انسان غور و فکر کے نتیجے میں ازخود پہنچ سکتا ہے. اگر آپ ان کے لیے لفظ فلسفہ استعمال کرنا چاہیں تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ قرآن حکیم کے فلسفہ کی عمارت ان اساسات پر تعمیر ہوتی ہے.