آگے چلیے! شرک فی الصفات کا معاملہ جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا‘ کچھ علمی نوعیت کا ہے‘ اس لیے کہ ہماری زبان میں الفاظ مشترک ہیں. جو الفاظ ہم اللہ کے لیے بطورِ صفت بولتے ہیں وہی مخلوقات کے لیے بھی بولتے ہیں. مثلاً اللہ بھی موجود ہے‘ ہم بھی موجود ہیں. اللہ بھی زندہ ہے‘ ہم بھی زندہ ہیں. اللہ بھی سنتا ہے‘ ہم بھی سنتے ہیں. اللہ بھی دیکھتا ہے‘ ہم بھی دیکھتے ہیں. اب اس لفظی اشتراک سے مغالطہ ہو سکتا ہے. لیکن ان صفات کا اطلاق جب اللہ پر ہوتا ہے تو مفہوم کچھ اور ہوتا ہے اور یہی صفات جب مخلوقات کے لیے استعمال ہوں گی تو ان کا مفہوم کچھ اور ہو گا. اس ضمن میں تین چیزیں پیش ِ نظر رکھنی ضروری ہیں تاکہ اس معاملے میں مغالطے سے نجات حاصل ہو. ایک یہ کہ اللہ کا وجود بھی ذاتی ہے اور صفات بھی ذاتی ہیں‘ جبکہ ماسوی اللہ کا وجود بھی عطائی ہے اور صفات بھی عطائی ہیں. اس لیے کہ مخلوقات کو اللہ ہی نے وجود بخشا ہے اور صفات بھی عطا کی ہیں. دوسرے یہ کہ اللہ کا وجود بھی لامحدود ہے اور صفات بھی لامحدود ہیں جبکہ ماسوی اللہ کا وجود بھی محدودہے اور صفات بھی محدود ہیں. تیسرے یہ کہ اللہ کی ہستی بھی قدیم ہے حادث نہیں‘ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی‘ اسی طرح اس کی صفات بھی قدیم ہیں. اس کے برعکس معاملہ مخلوقات کا ہے‘ وہ خود بھی حادث ہیں اور ان کی صفات بھی حادث ہیں. ان تینوں چیزوں کا فرق اگر سامنے رکھا جائے تو پھر اس میں مغالطہ نہیں ہو گا‘ لیکن اگر اس میں ذرا سی بھی بے احتیاطی ہو جائے تو شرک کی صورت پیدا ہو جائے گی.