استقامت یہ ہے کہ انسان کو بظاہر کتنا ہی خطیر نفع یا بھاری نقصان کسی کی طرف سے نظر آ رہاہو‘ لیکن وہ یقین رکھ لے کہ میرا نافع اور ضارّ اللہ کے سوا کوئی نہیں‘ یعنی ’’لاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ‘‘ اور ’’لَا فَاعِلَ فِی الْحَقِیْقَۃِ وَلَا مُؤَثِّرَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘. تو یہ درحقیقت انسان کی کامیابی کی کڑی شرط بھی ہے اور معرفت ِالٰہی کی حقیقی اساس بھی. انسان اس عالم ِمادّی میں عالم ِاسباب میں رہتے ہوئے اور بدلتے ہوئے حالات سے متأثر ہوئے بغیر چٹان کی مانند اپنے اس یقین پر جما رہے کہ اللہ ہی کی قدرت ہر شے پر حاوی ہے‘ اور وہی حقیقی مؤثر ہے‘ اس کے اِذن کے بغیر ایک پتّا تک جنبش نہیں کرتا‘ اور پھر اس پر انسان بالکل مطمئن ہو جائے اور اپنے معاملات اور اپنی ہر کوشش کو اللہ کے حوالے کر دے‘ ازروئے الفاظِ قرآنی: وَ اُفَوِّضُ اَمۡرِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ ﴿۴۴﴾ (المؤمن) اور یہ بات دل میں بٹھا لے کہ میرے معاملات میرے اپنے ہاتھوں کی نسبت اُس ذات کے ہاتھوں میں کہیں زیادہ محفوظ ہیں جو ’’عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ‘‘ ہے‘ جو ’’ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ‘‘ ہے ‘جو میری مصلحتوں سے مجھ سے بڑھ کر واقف ہے اور میرا مجھ سے بڑھ کر خیر خواہ ہے‘ تو تب اسے تعلق ِ بندگی میں رسوخ حاصل ہوتا ہے. اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی بے ثبات طبعی کیفیات کا محاسبہ بھی کر لے کہ میرا حال تو یہ ہے کہ میں ہر چیز سے فوراً تأثر قبول کر لیتا ہوں ‘اور اپنی کم علمی کے باعث کوئی ایسی چیز پسند کر بیٹھتا ہوں جو حقیقت میں میرے لیے مضر ہوتی ہے اور کسی ایسی چیز کو برا سمجھ بیٹھتا ہوں جس میں میری حقیقی منفعت مضمر ہوتی ہے‘ اور اللہ ہی ہے جو ہر خیر کو جانتا ہے اور جو ہر شر سے واقف ہے‘ وہی ہے جسے قدرت حاصل ہے. انسان اللہ ہی کے ’’قدیر‘‘ ہونے پر یقین رکھے اور اپنے آپ کو اس کی بارگاہ میں یوں بے بس و عاجز تصور کرے جیسے صوفیاء کہتے ہیں ’’کَالْمَیِّتِ فِیْ اَیـْدِی الْغَسَّالِ‘‘ یعنی انسان اللہ کی رضا پر اس طرح راضی رہے اور اس کی مرضی پر اپنے آپ کو اس طرح چھوڑ دے جیسے کہ میت (ایک مردہ جسم) ایک غسل دینے والے کے ہاتھ میں لاچار ہوتی ہے. یہ ہے انسان کا اللہ کے ساتھ صحیح ربط و تعلق‘ اور یہ ہے وہ استقامت جو مطلوب ہے‘ ورنہ مجرد کہہ دینا کہ ’’میرا ربّ اللہ ہے‘‘ اتنا مشکل نہیں جتنا کہ ’’ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا ‘‘ کے تقاضے پورے کرنا مشکل ہے. اور استقامت کے تقاضے یہ ہیں کہ عقیدہ میں‘ فکر میں‘ سوچ میں‘ نقطہ ٔنظر میں اور بدلتے ہوئے حالات میں انسان کا دل بہراعتبار اللہ کی ربوبیت و قدرتِ مطلقہ پر جما رہے. یہ استقامت کاایک پہلو ہے.

استقامت کا دوسرا پہلو عملی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان نے جس ذات کو مالک مان لیا ہے اس کے ہر ہر اشارے پر حرکت کرے‘ اس کی ہر مرضی کو پورا کرنے کے لیے 
ساری قوت صرف کر دے‘ اس کا ہر حکم اس کے لیے واجب التعمیل ہو‘ اس کے اشارے پر سب کچھ نچھاور کرنے پر بدل و جان آمادہ ہو. اس سے آگے انسان کی غیرت و حمیت کا تقاضا ہے کہ جو کچھ مالک کو پسند ہے اسے دنیا میں پھیلانے‘ رائج کرنے اور غالب کرنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دے‘ جو اسے پسند نہیں ہے بندہ بھی اسے ناپسند کرے اور ہمیشہ اس سے نبرد آزما بھی رہے اوردنیا سے اس کا نام و نشان مٹانے کے لیے جان اور مال نچھاور کر دے. یہ ہے استقامت ِ عملی. گویا اگر یوں کہا جائے کہ سورۃ العصر‘ آیۂ بِر اور سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع میں جتنے عملی پہلو ہمارے سامنے آئے ہیں وہ سب یہاں لفظ ’’استقامت‘‘ میں مضمر ہیں ‘تو یہ بات بالکل بجا ہو گی.اسی لیے میں کہا کرتا ہوں کہ اس لفظ استقامت میں ایک قیامت مضمر ہے. نبی اکرم سے جب ایک صحابیؓ نے عرض کیا کہ حضور !مجھے کوئی ایسی بات تعلیم فرما دیجیے کہ جس کے بعد قول و عمل کی راہ میں کسی دشواری سے دوچار نہ ہوں اور بے دھڑک راہِ ہدایت پر گامزن رہوں‘ تو آپ نے ارشاد فرمایا: قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ (۱’’کہو میں ایمان لایا اللہ پر‘ پھر (عملاً) اُس پر جمے رہو.‘‘