یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے‘ جیسے کہ اس سے پہلے کے تین اسباق میں ہم دیکھ چکے ہیں‘ کہ حق کی دعوت خواہ کتنے ہی خلوص اور بے نفسی سے دی جائے اس کی مخالفت اور مزاحمت ضرور کی جائے گی‘ خواہ ا س دعوت کے پیش کرنے والے ایسے لوگ ہی کیوں نہ ہوں جن کی نیتوں پر شک نہ کیا جاسکتا ہو.اس کا اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ خود رسول اللہ جنہیں ان کے کٹر دشمن اور ان کے خون کے پیاسے بھی ’’الصادق‘‘ اور ’’الامین‘‘ کہتے تھے‘ جن کی شخصیت پر کوئی داغ نہ دکھا سکا اور جن کے کردار پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکا‘ انہیں بھی شدید مخالفت بلکہ اس سے بڑھ کر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا. آپؐ کے قریب ترین اعزّہ آپؐ کی جان کے درپے ہوئے. ابولہب جیسا قریبی رشتہ دار آپؐ کا دشمن بن گیا.اس کی بیوی نے آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے. قریش کا پورا گھرانہ آپؐ کے اعزّہ و اقارب ہونے کے باوجود دشمن بنا.

معلوم ہوا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی دعوت واقعتا حق کی ہو اور باطل اس کی راہ میں مزاحم نہ ہو. باطل کبھی بھی اسے 
lying down نہیں لے گا.اس کے باطل ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حق کا راستہ روکے ‘ حق کے راستے میں موانع و مشکلات پیدا کرے. یہ دو اور دوچار کی طرح کا وہ اصول ہے جس سے کہیں کوئی استثناء نہیں. اگر محمد عربی کے لیے استثناء نہ ہوا اور آپؐ کو اپنے جسم مبارک پر پتھراؤ جھیلنا پڑا‘اپنے دندانِ مبارک شہید کرانے پڑے‘ اپنے انتہائی محبوب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جانوں کا ہدیہ بارگاہِ ربانی میں پیش کرنا پڑا. حضرت مصعب بن عمیرؓ جیسے جاں نثار ساتھی اور حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب جیسے محبوب چچا‘ خالہ زاد اور دودھ شریک بھائی اور ساتھ کے کھیلے ہوئے ہمجولی کی لاشیں اگر نبی اکرم کے سامنے اس حال میں آئی ہیں کہ ناک کٹی ہوئی ہے‘ کان کاٹ لیے گئے ہیں‘ پیٹ چاک ہے اور کلیجے کو چبا لیا گیا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ کسی دوسرے کے لیے یہ اٹل قانون توڑا جا سکے‘ لہذا مخالفت‘ مخاصمت ‘ موانع ‘ مشکلات اور آزمائشیں اس راہ کے سنگ ہائے میل ہیں. مخاطبین کی طرف سے جنہیں حق کی دعوت دی جا رہی ہو ‘استہزاء‘ تمسخر اور مخالفت بھی ہو گی اور ایذا رسانی بھی! وہ جان لینے کے درپے بھی ہوں گے اور گھر سے نکال باہر بھی کریں گے.