اب اس درس کی آخری آیت پر توجہ کیجیے: وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۶﴾ ’’اور اگر تمہیں شیطان کی طرف سے کوئی چوک لگ ہی جائے تو اللہ کی پناہ مانگ لو‘ یقینا وہ سب کچھ سننے والا‘ سب کچھ جاننے والا ہے.‘‘یہاں متوقع سنگین خطرے سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اس اعلیٰ مقام پر پہنچ کر بھی یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آدمی شیطان سے بالکل مأمون و محفوظ ہو گیا ہے اور وہ اب کبھی آدمی کے اندر کوئی اشتعال پیدا نہ کر سکے گا‘ بلکہ شیطان سے اب بھی سابقہ پڑ سکتا ہے. ہو سکتا ہے کوئی چوک اسے شیطان کی طرف سے لاحق ہو ہی جائے اور کبھی اس کے اندرونی جذبات اشتعال میں آ ہی جائیں. یعنی انسان جب تک اس کشمکش خیر و شر میں مبتلا ہے وہ شیطان سے محفوظ و مأمون نہیں ہے. بظاہر یہ بات اگرچہ نبی اکرم سے مخاطب ہو کر کہی جا رہی ہے ‘لیکن درحقیقت اصل تخاطب آپؐ کے جاں نثاروں سے ہے.آپؐ کے نقش قدم پر چلنے والے آپؐ کے وہ اُمتی جو اس دعوت الی اللہ اور دعوت الی الخیر کی ذمہ داریوں کو قبول کریں‘ ان کو ہدایت دی جا رہی ہے: وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزۡغٌ کہ اگر کبھی تمہیں شیطان کی طرف سے کوئی چوک لگ ہی جائے‘ کہیں جذبات میں اشتعال اور غصہ آ ہی جائے تو تم فوراً بھانپ لو کہ درحقیقت یہ شیطان کی جانب سے ایک چوک ہے. اب اس کا علاج اورتدارک یہ ہے کہ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ تو فوراً اللہ کی پناہ مانگ کر اس کی پناہ میں آ جاؤ. اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۶﴾ ’’وہ سب کچھ سننے والا‘ سب کچھ جاننے والا ہے‘‘.وہ ہر دعا کو سنتا اور ہر اُس صورتِ حال سے واقفیت رکھتا ہے جس میں وہ دعا کسی کی زبان پر آ رہی ہے. کسی پیچیدہ صورتِ حال میں گرفتار ہو کر اگر کبھی انسان سے خطا اور لغزش سرزد ہو جائے تو وہ بخوبی جانتا ہے کہ اس خطا کا صدور کس بے چارگی کی حالت میں ہوا ہے.