اسلام کی حقیقت کو اگر ایک لفظ میں تعبیر کیا جائے تو وہ ’’دین توحید‘‘ ہے جس کی ضد شرک ہے. یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء میں دوبار فرمایا ہے کہ :

’’اللہ تعالیٰ اسے تو ہر گز معاف نہ کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے البتہ اس سے کم تر گناہ جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا!‘‘

قرآن و حدیث کے بنظر غائر مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ توحید اور شرک دونوں کی ہمہ گیری کا عالم یہ ہے کہ فکر و نظر، خیال و عقیدہ، اخلاق و کردار، مقاصد و مطالب، نجی رویہ اور اجتماعی نظام… غرض علم و عمل کی جو بھی خوبی، نیکی، بھلائی، اور اعلیٰ قدر ہے وہ توحید کے شجرۂ طیبہ کے برگ و بار کی سی حیثیت رکھتی ہے… اور اس کے برعکس ان جملہ اعتبار سے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر جو بھی شر، بدی، ظلم اور تعدی ہے اس کا تعلق لامحالہ شرک ہی کے شجرۂ خبیثہ کے ساتھ ہے…! 

لیکن افسوس کہ امتدادِ زمانہ اور علمی وعملی زوال کے ساتھ شرک کا تصور بھی صرف چند عقائد اور اعمال کے ساتھ وابستہ ہو کر رہ گیا … اور توحید بھی صرف عقیدہ کا مسئلہ بن کر رہ گئی، جس پر بالکل صحیح ’’مرثیہ‘‘ کہا علامہ اقبال مرحوم و مغفور نے کہ: ؎

زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیا ہے؟ فقط اک مسئلہ علم کلام!

چنانچہ عوام کے نزدیک تو توحید صرف ایک عقیدہ ہے… اور خواص کہیں تو وحدت الشہود اور وحدت الوجود یعنی توحید وجودی کی بحثوں میں الجھ کر رہ گئے اور کہیں ؏ ’’ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جدا یا عین ذات!‘‘ کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئے. راقم کی محدود معلومات کی حد تک صرف ایک امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ ایسی شخصیت گزرے ہیں جنہوں نے توحید فی العقیدہ کے ساتھ ساتھ توحید فی الطلب کا عنوان بھی قائم کیا.

راقم الحروف اب سے لگ بھگ بیس اکیس سال قبل اپنے مسلسل درس قرآن کے ضمن میں جب سورۂ زمر پر گہرے غور و تدبر کے مرحلے پر پہنچا تو اس پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حکم کے ساتھ 
’’مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ‘‘ کی اضافی شرط کا بار بار ذکر بہت معنی خیز ہے. چنانچہ یہاں توحید عملی کا یہ تقاضا سامنے آتا ہے کہ ’’لا معبود الا اللّٰہ‘‘… ’’لا مقصود الا اللّٰہ‘‘… ’’لا مطلوب اِلاَّ اللّٰہ‘‘ اور ’’لا محبوب اِلاَّ اللّٰہ‘‘ کے ساتھ ساتھ توحید فی الاطاعت پر زور دیا گیا ہے جسے حدیث نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں لا طاعۃ لمخلوقٍ فی معصیۃ الخالق سے تعبیر کیا گیا ہے… پھر اس سے اگلی سورت یعنی سورۂ مومن یا سورۂ غافر میں ’’دعا‘‘ کے حکم کے ساتھ بھی، جو احادیث نبویہؐ کی رو سے مخ العبادۃ بھی ہے اور ھو العبادۃ بھی ’’مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ‘‘ کی اضافی قید بہت معنی خیز ہے. اس سے اگلی سورت میں اللہ سے دعا آگے بڑھ کر خلق خدا کو ’’دعوت‘‘ کے ضمن میں بھی دعوت الی سبیل الرّبّ (سورۂ نحل) کی بجائے ’’دعوت الی اللہ‘‘ کے الفاظ نہایت اہم ہیں… اور اس طرح توحید عملی کا یہ مضمون درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے سورۂ شوریٰ میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ جاتا ہے، یعنی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ گویا توحید عملی کی آخری منزل یہ ہے کہ وہ اجتماعی نظام یا جدید اصطلاح میں ریاست قائم کر دی جائے جس میں حاکم مطلق اور شارع حقیقی اللہ کے سوا کوئی نہ رہے…!

اپنے ان تأثرات کو راقم نے چند دروس و خطابات کے ذریعے بیان کیا جسے میرے بزرگ رفیق شیخ جمیل الرحمن مرحوم و مغفور نے ٹیپ سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کی شدید مشقت برداشت کر کے مارچ ۱۹۸۵ء میں ’’توحید عملی‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیا… جسے اب اٹھارہ سال بعد ازسر نو ایڈٹ کر کے شائع کیا جا رہا ہے… اس ضمن میں جو بھی خیر اب تک وجود میں آیا ہو، یا آئندہ آئے، اس کے اجر و ثواب میں ظاہر ہے کہ میرے ساتھ ساتھ ان سب لوگوں کا بھی حصہ ہے جنہوں نے اس کی اشاعت کے ضمن میں محنت کی ہے!

الحمد للہ اس سے بھی بہت قبل میں ’’حقیقت و اقسام شرک‘‘ پر ایک ایک گھنٹے کی چھ تقاریر کر چکا ہوں جن سے شرک کی ہمہ گیری… اور خصوصاً عہد حاضر کے مخصوص شرک پوری وضاحت سے سامنے آتے ہیں. ان تقاریر کے کیسٹ تو بہت پھیلے ہیں اور مقبول عام بھی ہوئے ہیں… لیکن ان کوبھی کیسٹ کی ٹیپ سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے اور مرتب کر کے شائع کرنے کا مرحلہ تا حال نہیں آیا. دیکھئے کب اس کی صور ت من جانب اللہ پیدا ہوتی ہے.

خاکسار اسرار احمد عفی عنہ
۱۹؍اگست ۲۰۰۳ء