زندگی کے عملی میدان میں توحید اختیار کرنا توحید علمی سے بھی زیادہ بڑا مشکل کام ہے. اس توحید فی العمل کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ توحید فی الطلب کہتے ہیں. یہ بڑی کٹھن وادی ہے جسے عبور کرنا بڑے عزم اور حوصلہ کا کام ہے… یہ توحید عملی درحقیقت پانچویں گروپ میں سورۂ سبا سے لے کر سورۃ الاحقاف تک کی تیرہ مکی سورتوں میں سے چار سورتوں کا مرکزی موضوع ہے. یہ چار سورتیں ہیں سورۃ الزمر، سورۃ المؤمن، سورۂ حم السجدۃ اور سورۃ الشوریٰ… ان چار سورتوں میں تدریجاً توحید عملی کا مضمون سامنے آتا ہے… جیسا کہ آئندہ صفات میں ذکر ہو گا. 

پہلا درجہ: انفرادی توحید

توحید عملی کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان کے انفرادی عمل میں توحید آ جائے اور انفرادی شخصیت فی الواقع توحید کے رنگ میں رنگی جائے. انسان واقعتا اللہ کا بندہ بن جائے جیسا کہ اس کابندہ بننے کا حق ہے، پھر اس کی بندگی میں کسی اور کی بندگی کا شائبہ نہ ہو. وہ بندگی خالص اللہ کی بندگی ہو… اگر اللہ کے سوا کسی اور کا کہنا مانا جا رہا ہو، اللہ کے حکم کے خلاف کسی اور کا حکم بجالایا جا رہا ہو تو یہ توحید نہیں ہے، بغاوت اور سرکشی ہے، طغیان ہے. لیکن اگر اللہ کے حکم کے تابع کسی کا حکم مانا جائے، اس سے آزاد ہو کر نہ مانا جائے، تویہ توحید ہے. اس طرح اگر انسان اپنی انفرادی زندگی میں حقیقی طور پر اللہ کا بندہ بن جائے تو یہ عمل کے اعتبار سے انفرادی توحید ہے.

اسی انفرادی عملی توحید کا ایک اہم پہلو توحید فی الدعا ہے… اس لیے کہ نبی 
اکرم نے فرمایا کہ:

اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ 
’’دعا ہی عبادت کا جوہر ہے.‘‘ 

ایک موقع پر حضور نے ارشاد فرمایا:. 

اَلدُّعَاءُ ھُوَالْعِبَادَۃِ 
’’دعا ہی اصل عبادت ہے.‘‘

مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی حاجت روائی، دست گیری اور اعانت امداد کے لیے غیب میں سے جس کو پکارتا ہے وہی اس کا اصل معبود ہے. پس توحید فی العبادۃ اور توحید فی الدعاء، یہ انفرادی توحید کا پہلا درجہ ہے.

دوسرادرجہ: اجتماعی توبہ

اب انفرادی سطح اور انفرادی وجود سے جو توحید نکلے گی وہ لازماً متعدی ہو گی. جیسا کہ اگر کسی جگہ آگ ہے اور ا س میں حرارت ہے تو یہ حرارت آگ میں محدود نہیں رہتی،بلکہ وہ ماحول میں سرایت کرتی ہے. آپ آگ پر کوئی چیز رکھیں گے یا اس میں ڈالیں گے تو وہ چیز بھی گرم ہو جائے گی. اسی طرح برف میں ٹھنڈک ہے تو وہ برف تک محدود نہیں رہے گی، وہ بھی ماحول میں سرایت کرے گی. آپ برف کو پانی میں دالیں گے تو برف پانی کو بھی ٹھنڈا کر دے گی. یہ قانون طبعی ہے… اسی مثال سے سمجھئے کہ اگر کسی فرد کے اندر توحید فی الواقع جاگزیں ہوجائے، قائم ہو جائے اور وہ راسخ ہو، پختہ ہو اور حقیقی ہو، دھوکے اور فریب کی نہ ہو، یعنی ایسا نہ ہو کہ بظاہر تو بڑے موحد ہونے کے مدعی ہوں اور بباطن یعنی دل میں صنم خانے آباد ہوںتو اس حقیقی اور خالص توحید کو لازماً ماحول میں سرایت کرنا چاہیے.

باطن کے اصنام

اس سلسلہ میں چند تلخ حقائق ملاحظہ ہوں. ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ہیں جو موحد خالص ہونے کے دعوے دار ہیں. وہ قبر پرستی اور اس نوع کے مختلف مشرکانہ و مبتدعانہ افعال کی تو بجا طور پر بڑی مذمت کرتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر حضرات کا دھیان اس طرف نہیں جاتا کہ دولت پرستی بھی تو شرک ہے. اگر حصولِ دولت میں حلال و حرام کی تمیز ختم ہو گئی تو معلوم ہوا کہ دولت کو معبود بنا لیا گیا ہے. نبی اکرم نے فرمایا: 

تَعِسَ عَبْدُالدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْھَمِ 
’’ہلاک ہو جائے دینار اور درہم کا بندہ.‘‘

اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہو گا کہ:
’’ہلاک ہو گیا دینار و درہم کا بندہ.‘‘

دینار و درہم کا بندہ کون ہے؟ آنحضور نے لفظ کون سا استعمال فرمایا! عبد. اس لیے کہ جس شخص کے دل میں دولت کی محبت اتنی ہے کہ وہ اسی تگ و دو میں لگا رہتا ہے کہ دولت ہر حال میں اس کے پاس آنی چاہیے، اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ حلال سے آئے یا حرام سے آئے، جائز سے آئے یا ناجائز سے آئے، صحیح راستے سے آئے یا غلط سے آئے… دولت کی اس محبت کا مطلب یہ ہے کہ اس کا معبود دولت ہے. فرق اتنا ہی ہے کہ ہندوؤں نے دولت کی ایک دیوی تراشی ہوئی ہے جس کا نام انہوں نے لکشمی دیوی رکھ چھوڑا ہے. اس کی وہ پوجا کس لیے کرتے ہیں! اس لیے کہ ان کو دولت ملے. درحقیقت وہ اس مورتی کے پردے میں دولت کی پوجا کرتے ہیں اور ہم نے صرف یہ کیا ہے کہ ’’لکشمی دیوی‘‘ کی کوئی مورتی ہمارے سامنے نہیں ہے، لیکن لکشمی دیوی کی پوجا سے ہندوؤں کا جو مقصود ہے وہی ہمارابھی ہو جائے گا، اگر ہم حرام و حلال اور شریعت کی قیود و شرائط سے بے نیاز ہو کر دولت کے حصول میں لگ جائیں گے. اس طور پر دولت معبود کا درجہ حاصل کر لیتی ہے. دولت کے ایسے پجاریوں اور غلاموں کے لیے ہی آنحضور نے فرمایا کہ: 

تَعِسَ عَبْدُالدِّیْنَارِ وَعَبْدُالدِّرْہَمِ 

اسی طرح ایک طرف اللہ کا حکم ہوتا ہے اور دوسری طرف نفس کی چاہت. مثلاً صبح سویرے کا وقت ہے، آنکھ بھی کھل گئی ہے، اذان بھی سنی ہے. یہ پکار کس کی ہے؟ مؤذن کی زبان سے ضرور نکلی ہے، لیکن پکار اس کی نہیں ہے، پکار تو اللہ کی ہے کہ… حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ اور حَیَّ عَلَی الْفَلاَح ِ اور اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ . علامہ اقبال کا بڑا پیارا شعر ہے جو اس بات کی تفہیم میں ممد ہو سکتا ہے ؎ 

نکلی تو لب اقبال سے ہے کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا
پیغام سکوں پہنچا بھی گئی، دل محفل کا تڑپا بھی گئی!

تو زبان بے شک مؤذن کی ہے، لیکن صدا تو اللہ کی ہے. ایک طرف اللہ کی پکار ہے، دوسری طرف نفس کہتا ہے ’’سوؤ، ابھی آرام کرو.‘‘ یہ ہے وہ کشمکش جس سے اکثر لوگوں کو سابقہ پیش آتا ہے. یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو. ہم میں سے اکثر کو اس کاتجربہ ہوا ہے. اب اگر مستقل طور پر یہ کیفیت ہو کہ اس وقت ہم نے اللہ کی پکار پر تو اپنے کان بند کیے اور نفس کی خواہش اور مرضی پر لبیک کہا تو ہمارا معبود کون ہوا؟ اللہ یا ہمارا نفس؟ معلوم ہوا کہ دل میں صنم خانہ آباد ہے. اسی بات سے متنبہ کیا گیا سورۃ الفرقان کی آیت ۴۳ میں: اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳﴾ ’’اے نبی! آپ نے اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنایا ہوا ہے. کیا آپ ایسے شخص کی نگرانی کر سکیں گے؟‘‘

غور کیجیے! یہاں لفظ الٰہ آیا ہے جو ہمارے کلمۂ شہادت کے جزوِ اوّل میں آتا ہے: 

لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ. 
’’کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے.‘‘

پس معلوم ہوا کہ معبود دولت بھی بنتی ہے، معبود نفس بھی بنتا ہے. دل کے اس صنم خانے کو ختم کرنا آسان کام نہیں ہے. پتھر کے تراشیدہ باہر کے بتوں کی نفی اور مذمت آسان ہے، قبر پرستی کی نفی اور مذمت بھی آسان ہے… اور یہ نفی و مذمت بالکل صحیح ہے، یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے، یہ توحید کا لازمہ ہے، اس میں غلطی کا کوئی شائبہ نہیں… لیکن دل کے اندر جو صنم خانے ہیں، حب مال ہے، حب جاہ ہے، حب اقتدار ہے، نفس کی مرضیات و خواہشات اور چاہتوں کی بجا آوری ہے، یہ تمام چیزیں توحید کی ضد ہیں. اس مفہوم کی ادائیگی کے لیے بھی علاقہ اقبال کا بڑا پیارا شعر ہے کہ:

ابراہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے!
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں 

چنانچہ اندر کے اس صنم خانے کو بھی دیکھنا ہو گا. دل کے سنگھاسن پر براجمان ان بتوں کو بھی توڑنا ہو گا. جب واقعتا یہ ہو جائے اور ساتھ ہی باہر کے بت بھی ختم کر دیے جائیں تو ایسے شخص کوبجا طور پر سچا موحّد کہلائے جانے کا استحقاق ہو گا. حقیقی موحّد بننے کے لیے لازم ہو گا کہ اللہ کی محبت بھی تمام محبتوں پر غالب آ گئی ہو اور دوسری تمام محبتیں اللہ کی محبت کے تابع ہو گئی ہوں. اسی طرح اللہ کی اطاعت تمام اطاعتوں سے اوپر ہو گئی ہو اور دوسری تمام اطاعتیں اللہ کی اطاعت کے تحت آگئی ہوں. اگر اس طور سے کوئی موحّد بن گیا ہو تو ہو نہیں سکتا کہ ایسے موحد کے وجود سے توحید دوسروں تک نہ پہنچے. یہ توحید لازماً متعدی ہو گی. ایک فرد سے دوسروں تک توحید پہنچنے کا یہ معاملہ ہے دعوت و تبلیغ… یعنی لوگوں کوبھی توحید کی طرف بلانا اور پکارنا… اور لوگوں تک بھی توحید کی دعوت کو پہنچانا.

اجتماعی توحید کا نقطہ ٔ عروج

اس طور پر جب انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف قدم بڑھے گا تو اس کا اگلا مرحلہ ہو گا پورے ماحول پر اللہ کی توحید کا سکہ رواں کر دینا. یعنی پورا معاشرہ موحّد بن جائے، پوری قوم موحّد بن جائے، پورا ملک موحد بن جائے، ملک کا نظام موحّد بن جائے، ملک کا دستور توحید کا مظہر بن جائے. یہ مرحلہ سر کر لیا تو اس کا نام ہے اقامت دین.

خلاصہ

مختصراً یوں کہا جا سکتا ہے کہ خالص انفرادی سطح پر توحید فی العبادات اور توحید فی الدُّعاء… پھر اجتماعی سطح پر دعوت و تبلیغ… پھر ان دونوں مراحل سے اگلا قدم اقامت دین… یہ ہے توحید کامل! یہ اصطلاحات اچھی طرح ذہن نشین ہو جائیں تو اگلی بات بخوبی سمجھ میں آجائے گی جس کے تانے بانے اور تمہید کے طور پر یہ سب باتیں بیان کی گئی ہیں.
قرآن حکیم کی اکیس سورتیں ایسی ہیں جن کامرکزی مضمون و موضوع توحید ہے. ان میں چار سورتیں سورۃ الزمر، سورۃ المؤمن، سورۂ حم السجدۃ اور سورۃ الشوریٰ ہیں، ان میں اس عملی توحید کا تدریجاً بیان ہے جو بطورِ تانابانا اور تمہید اوپر 
بیان ہوا. بطورِ مثال یوں سمجھ لیجیے کہ ان چار سورتوں کی ایک ڈور ہے جس میں توحید عملی کے موتی تدریجاً پروئے ہوئے ہیں اور یہ مضمون انفرادی توحید سے اجتماعی توحید کی طرف تدریجاً بڑھتا چلا جا تا ہے.

قرآن میں انفرادی توحید کا بیان

سورۃ الزمر میں انفرادی توحید کا بیان ہے اور اس قدر شدومد کے ساتھ، اتنی تاکید کے ساتھ اور اتنے اہتمام کے ساتھ ہے کہ میرے حقیر مطالعہ کے بموجب پورے قرآن مجید میں اس اسلوب کے ساتھ یہ بیان اور کہیں نہیں ملے گا. البتہ اس موقع پر اس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ توحید کے موضوع پر جامع ترین سورۃ تو سورۃ الاخلاص ہی ہے جو بڑی مختصر سورۃ ہے. اس سورۃ کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ یہ توحید کا عطر ہے. یا یوں کہہ لیجیے کہ کوزے میں دریا بند کر دیا گیا ہے. اسی لیے نبی اکرم نے اس سورۂ مبارکہ کو ثلث ِقرآن قرار دیا ہے. یہ اس اعتبار سے کہ تینوں بنیادی ایمانیات، یعنی ایمان باللہ، ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرۃ میں سے ایمان باللہ یعنی توحید کا بیان اس سورۃ میں انتہائی جامعیت کے ساتھ وارد ہوا ہے. مزید یہ کہ اس سورۃ کا اسلوب خبر یہ و بیانیہ ہے لیکن انشائیہ انداز اور شدومد، انتہائی تاکید اور نہایت ہی پُر جلال اسلوب سے توحید عملی کا تدریجاً بیان ان چار سورتوں میں ہوا ہے جن کا ابھی اوپر ذکر ہوا.

اصولی بات

اوپر بیان ہو چکا کہ توحید کے دو درجے ہیں، ایک توحید فی العلم، یا توحید فی المعرفت یا توحیدفی العقیدہ. دوسرا توحید فی العمل یا توحید فی الطلب. پھر اس توحید عملی کے بھی تین مرحلے ہیں. پہلا توحید فی العبادت اور توحید فی الدعاء. دوسرا اسی توحید کی بندگانِ خدا کو دعوت دی، اسی کی تبلیغ… اور تیسرا اسی توحید پر مبنی نظامِ حیات کا قیام و قرار، یعنی ’’اقامت ِ دین.‘‘

توحید فی العبادۃ

توحید فی العبادۃ تمام انبیاء رُسل کی دعوت کا نقطۂ آغاز رہا ہے. اس بات کے لیے قرآن مجید کی متعدد آیات پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن محدود وقت کے پیش نظر صرف چند آیات پیش ہیں… سورۃ النحل میں فرمایا: 

وَ لَقَدۡ بَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡت [النحل: ۳۶
’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت (غیر اللہ) کی بندگی سے بچو.‘‘

سورۃ الانبیاء میں فرمایا:
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا نُوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدُوۡنِ ﴿۲۵﴾ [الانبیاء: ۲۵]
’’(اے نبیؐ !) ہم نے آپؐ سے پہلے جو رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، لہذا صرف میری ہی بندگی کرو.‘‘

آخری پارے کی سورۃ البینہ میں واضح کیا گیا: 

وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ…
’’اور ان کو حکم نہیں ہوا تھا مگر اس بات کا کہ وہ اللہ کی بندگی کریں اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے یک سو ہو کر.‘‘

اس آخری آیت میں رسولوں اور ان کی اُمتوں کے لیے یہ ضابطہ بیان ہوا کہ سب کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ سب کے سب اللہ کی عبادت اسی کے لیے اپنی اطاعت خالص کرتے ہوئے بجا لائیں. یہ نہ ہو کہ بظاہر بندگی اللہ کی ہو لیکن اطاعت اللہ کے دشمنوں کی ہو رہی ہو، ساز باز اللہ کے باغیوں سے ہو رہی ہو، ان کے احکام کی تعمیل بھی ہو رہی ہو، ان کے سامنے سر بھی جھکائے جا رہے ہوں اور دعویٰ اللہ کی عبادت کا ہو… یہ طرز عمل ہرگز مطلوب نہیں ہے، بلکہ طرزِ عمل درکار ہے 
مُخْلِصِیْنَ لَــہُ الدِّیْنَ والا.پھر آخر میں حُنَفَـآءَ کا اضافہ کیا گیا ہے، یعنی ایک سو ہو کر… کئی رنگی طرزِ عمل مطلوب نہیں ہے. اللہ کو تو دو رنگی بھی پسند نہیں ہے، کئی رنگی تو بہت دُور کی بات ہے. یہاں تو ایک رنگ چاہیے: صِبۡغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً انسان یک رنگ ہو جائے، یک سو ہو جائے، وہ اپنے پورے وجودِ ظاہری و باطنی کے ساتھ فی الواقع اللہ کا بندہ بن جائے اور اللہ ہی کی بندگی میں ہمہ تن رنگ جائے.

اب سورۃ البینہ کی اسی آیت کے مضمون کو سورۃ الزمر میں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ مضمون وہاں کس شدومد اور کس تاکید کے ساتھ مختلف اسالیب سے بیان ہوا ہے. اور چونکہ اس میں انفرادی سطح پر توحید عملی کا بیان ہے لہذا آپ دیکھیں گے کہ وہاں صیغہ واحد کا آئے گا، خطاب نبی اکرم سے ہو گا. لیکن اس اسلوب میں تخاطب اُمت سے بھی ہے اور ان سے بھی جنہوں نے ابھی دعوت کو قبول نہیں کیا ہے. گویا تا قیام قیامت پوری نوعِ انسانی اس کی مخاطب ہے.