توحید فی العبادۃ…انفرادی عملی توحید

سورۃ الزمر کا آغاز ہوتا ہے:

تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱﴾ 
’’اس کتاب کا نزول ہے اللہ کی طرف سے جو العزیز (نہایت زبردست) ہے، جو الحکیم(بے حد و حساب حکمت والا ) ہے.‘‘

اِنَّ اَ نْزَلْنَآ اِلَــــــیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ 
’’ہم نے نازل کی ہے (اے نبیؐ !) آپؐ کی طرف یہ کتاب (یعنی قرآن مجید) حق کے ساتھ.‘‘

یہ فیصلہ کن کتاب ہے، جیسا کہ سورۃ الطارق میں الفاظ وارد ہوئے: 
اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ 
اب اسی سے اقوامِ عالم کی قسمتوں کا فیصلہ ہو گا. جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے جس کے راوی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں: 

اِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتٰبِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ [مسلم] 
’’اللہ تعالیٰ اس کتاب کی وجہ سے کئی قوموں کو سر بلند کرے گا اور کئی دوسری قوموں کو پست کرے گا.‘‘

یعنی اللہ تعالیٰ ا س کتاب کی وجہ سے ان قوموں کو عزت و سربلندی عطا فرمائے گا جو ا س کو اپناامام بنائیں گی. اور دوسروں کو، جو اس کو پس پشت ڈال دیں گی تو ذلت و نکبت سے دو چار فرمائے گا. قوموں کے عروج و زوال کی بنیاد یہ کتاب بنے گی… اب آگے وہ مضمون آرہا ہے جس کے لیے یہ پوری تمہید باندھی گئی: 
فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ؕ﴿۲﴾اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ یہ اسلوب اور مضمون آپ کو قرآن مجید میں کسی اور جگہ نہیں ملے گا. ان آیات کی ترجمانی یوں ہو گی: ’’(اے محمدؐ !) پس بندگی کرو اللہ کی، پوجو اللہ کو، پرستش کرو اللہ کی، اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے. اور جان لو کہ خالص دین یعنی اطاعت ِکلی اللہ ہی کا حق ہے.‘‘ اللہ کے لیے ملاوٹ والا دین قابل قبول نہیں ہے.ملاوٹ والا دین منہ پر دے مارا جائے گا. اللہ کے ہاں مقبول ہو گا دین خالص. ان آیات میں دو اہم الفاظ ’’عبادت‘‘ اور ’’دین‘‘ آ گئے ہیں… اب یہاں توقف کر کے پہلے عبادت کے مفہوم اور معنی پر غور کیجیے. ’’دین‘‘ کے لفظ کی تشریح و توضیح آگے بیان ہو گی.

دینی اصطلاح میں عباد ت کا مفہوم

لفظ عبادت کے صحیح مفہوم کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے فارسی کے دو الفاظ جمع کر لیجیے تو بات پوری طرح سمجھ میں آ جائے گی. وہ دو الفاظ ہیں بندگی اور پرستش… محض لفظ ’’بندگی‘‘ سے قرآن مجید کی اصطلاح ’’عبادت‘‘ کا مفہوم مکمل نہیں ہو گااور محض ’’پرستش‘‘ سے بھی نہیں ہو گا. دونوں کو جمع کریں گے تو عبادت کا مفہوم ادا ہو جائے گا. بندگی میں اصل زور ہے اطاعت کی طرف. غلامی اور محکومی بندگی کہلائے گی. غلام اور محکوم تو اپنے آقا اور حاکم کا مطیع و فرماں بردار ہوتا ہے، اس کے دل کی کیفیت کچھ بھی ہو. دل میں وہ چاہے اپنے آقا اور حاکم کو گالیاں دے رہا ہو.چاہے وہ دل میں شدید باغیانہ جذبات رکھتا ہو. لہذا بندگی میں دل کی کیفیت سے بحث نہیں ہوتی. غلام اور محکوم کا کام ہے اپنے آقا اور حاکم کی اطاعت. گویا بندگی یا اطاعت عبادت کا جزوِ اعظم ضرور ہے، لیکن عبادت کی روح پرستش ہے. لفظ پرستش میں اصل زور محبت پر ہے. پرستار کس کو کہتے ہیں؟ وطن پرست کون ہے؟

جس کے دل میں وطن کی محبت ہر چیز کی محبت سے بالا تر ہو گی وہ وطن پرست کہلائے گا. زرپرست کون ہے؟ جس کے دل میں دولت کی محبت دوسری محبتوں پر غالب ہو جائے وہ زرپرست ہے. اسی طرح آپ کہتے ہیں شہوت پرست، شہرت پرست. ایسے لوگوں کو اپنی اس پرستش یعنی محبت کی تسکین چاہیے، چاہے وہ صحیح طریق سے ہو چاہے غلط طور پر ہو. نفس پرست اسے کہا جاتا ہے جو نفس کا غلام بن کر رہ جائے اور ا س کی خواہش اور تقاضے کو جائز و ناجائز کی تمیز کیے بغیر پورا کرنے کے لیے تگ و دو کر رہا ہو. پس جو چیز بھی انسان کو انتہائی عزیز ہو گی اس کا وہ پرستار کہلائے گا. لہذا جب بندگی اور پرستش اللہ ہی کے لیے جمع ہو جائیں، یعنی ہمہ تن، ہمہ وقت، ہمہ جہت اللہ ہی کی اطاعت اور اللہ ہی کی محبت سے انسان سرشار ہو جائے تو عبادتِ رب کا حق ادا ہو گا. شیخ سعدیؒ کا شعر ہے: ؎

زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی 

اس شعر میں اس آیہ مبارکہ 
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ کی بڑی حد تک ترجمانی کی گئی ہے. 
اسی طرح قرآن مجید میں سورۃ البقرۃ کے بیسویں رکوع میں اللہ کی محبت والا مضمون آیا ہے. بہت پیارا مضمون ہے، اس لوح ِ دل پر کندہ کر لیجیے! فرمایا: 

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَ شَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ 
’’اور جو لوگ (حقیقی صاحب) ایمان ہیں، ان کی سب سے زیادہ محبت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ اقدس سے ہوتی ہے.‘‘ 
اگر یہ نہیں ہے تو حقیقی ایمان سے محرومی ہے. پھر تو محض ایک موروثی عقیدہ 
(Dogma) یا ایک Racial Creed ہے. حالانکہ مطلوب یہ ہے کہ اللہ کی محبت اس درجہ کو پہنچ جائے کہ وہ باقی ہر محبت پر حاوی ہو جائے. وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَ شَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ حقیقی اہل ایمان کے لیے محبوب ترین اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے.

تو جب محبت اور اطاعت اللہ کے لیے مل جائیں تو یہ ہو گی اللہ کی کامل بندگی. اور یہی درحقیقت عبادت کی وہ تعریف ہے جو امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہما نے کی ہے. بلکہ حافظ ابن قیم ؒ کے الفاظ اپنے استاذ سے بھی زیادہ پیارے ہیں. ان کا قول ہے کہ: 
العبادۃ تجمع اصلین: غایۃ الحُبِّ مع غایۃ الذُّلِّ والخضوع ’’عبادت دو بنیادوں کے جمع ہونے سے بنتی ہے. پہلی یہ کہ اللہ کے ساتھ انتہائی درجہ کی محبت ہو، دوسری یہ کہ انسان انتہائی درجہ میں اس کے سامنے اپنے آپ کو پست کر دے اور بچھا دے.‘‘ ان دونوں کے اجتماع کا نام ہے ’’عبادت.‘‘ (۱(۱) حال ہی میں العلامہ الشیخ عبدالرحمن بن حسن آل شیخ ؒ کی ایک تصنیف راقم کی نظر سے گزری.

خالص اطاعت مطلوب ہے

فرمایا: فَاعْبُدِاللّٰہِ اب دیکھئے کہ یہ اپنی جگہ پر مکمل ہے. لیکن انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بڑا جھگڑالو ہے. کچھ نہ کچھ منطق فطری طور پر انسان کو ملی ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے سورۃ الکہف کی آیت ۵۴کے آخری حصہ میں کہ: 

وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ اَکۡثَرَ شَیۡءٍ جَدَلًا ﴿۵۴﴾ 
’’اور انسان بڑا جھگڑالو واقع ہوا ہے.‘‘

پس وہ طرح طرح سے اپنے لیے بہانے بناتا اور حیلے تراشتا ہے. تو قرآن حکیم یہاں ہر نوع کے بہانے اور حیلے کا سدباب فرماتا ہے. حضور اکرم کو مخاطب کر کے اصل دعوت تو حضور کی امت اجابت و دعوت کو دینی ہے. 
فَاعْبُدِاللّٰہَ میں بات پوری آ گئی تھی لیکن فرمایا: 

فَاعْبُدُاللّٰہَ مَخْلِصًا لَّـــــہُ الدِّیْنَ 
’’پس (اے نبیؐ !) عبادت کیجیے اللہ کی اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے.‘‘

یہاں ’’دین‘‘ کا ترجمہ اطاعت ہے. اس لفظ میں اطاعت کا مفہوم بھی شامل ہے. اسی لیے تقریباً تمام ہی متقدمین و مؤخرین قرآن مجید کے مفسرین نے یہاں دین کا مفہوم اطاعت ہی بیان کیا ہے.

یہاں اس بات پر زور دینا مقصود ہے کہ اللہ کے لیے اطاعت خالص ہو. یہ نہ ہو کہ کچھ اطاعت کسی کی اور کچھ اطاعت کسی اور کی، کچھ اللہ کی اور کچھ نفس کی، کچھ اللہ کی اور کچھ ایسے حاکموں کی جو اللہ کے احکام سے آزاد ہو کر کوئی حکم دے 
الشیخ مرحوم نے عبادت کی تعریف و توضیح ان الفاظ میں کی ہے: والعبادۃ اسم یجمع کمال الحب للہ ونھایتہ فالحب الخلی عن ذل والذال الخلی عن حب لا یکون عبادۃ وانما العبادۃ ما یجمع کمال الامرین ’’عبادت ایسا اسم ہے جس میں کمال محبت اور اس کی انتہا اور اللہ کے سامنے کمال الذلہ اور ا س کی انتہا پنہاں ہے، پس وہ محبت جس میں الذلہ نہ ہو اور وہ ذلت جس میں محبت نہ ہو عبادت کہلانے کی مستحق نہیں، بلکہ عبادت وہ ہے جس میں یہ دونوں چیزیں جمع ہوں.‘‘ یہ بات پیش نظر رہے کہ عربی میں ذلت کے معنی پست ہو جانے اور بچھ جانے کے ہیں. (مرتب) رہے ہوں. تو ایسی اطاعت خلوص و اخلاص کے ساتھ نہیں ہے، یہ ملاوٹ والی اطاعت ہے. ملاوٹ والی کوئی شے ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہوتی، تو غور کا مقام ہے کہ ملاوٹ والی اطاعت اس اللہ عزوجل کے لیے کیسے قابل قبول ہو گی جو خالق و مالک ِارض و سماوات ہے، جو الغنی ہے، جو الحمید ہے جو الغیور ہے! اسی تاکید کے لیے فَاعْبُدِ اللّٰہَ کے فوراً بعد فرمایا: 

مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ 
’’پس اللہ کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے (اس کی عبادت کرو).‘‘

نبی اکرم نے اس ضمن میں نہایت جامع اور مختصر الفاظ میں ہمیں ایک فارمولا عطا فرما دیا ہے کہ ہم اس کو روز مرہ معاملات پر منطبق 
(Apply) کر سکتے ہیں. آنحضور نے ارشاد فرمایا ہے: 

لاَ طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ 
’’مخلوق میں سے کسی کی (ایسے معاملہ میں) اطاعت نہیں کی جائے گی جس سے خالق کی نافرمانی ہوتی ہو.‘‘

اللہ کا ایک حکم ہے، والدین اس کے خلاف کوئی حکم دیں تو اطاعت نہیں ہو گی. اللہ کے حکم کے خلاف کوئی حکم اساتذہ دیں تو اطاعت نہیں ہو گی. اللہ کے حکم کے خلاف اقتدارِ وقت حکم دے تو اطاعت نہیں ہو گی… اس لیے کہ فرمانِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ہے کہ 
لاَ طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ. ہاں اللہ کے احکام کے دائرے کے اندر اندر والدین کی اطاعت بھی ہو گی، اساتذہ کی بھی اور اقتدارِ وقت کی بھی. تمدنی زندگی میں اطاعت کا دائرہ بہت وسیع ہے جس میں اولی الامر بھی شامل ہیں، والدین بھی، اساتذہ بھی، مرشدین بھی، بیوی کے لیے اس کا شوہر بھی. ان کے علاوہ بہت سے اور بھی… ان سب کی اطاعت مباحات میں ہو گی. اللہ کے حکم سے آزاد ہو کر اطاعت کی جائے گی تو شرک لازم آئے گا.

یہ ہے ان آیات ِ کریمہ کا اصل درس، حقیقی سبق، اصل دعوت اور واقعی انتباہ. 
فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ؕ﴿۲﴾اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ… قرآن مجید میں جہاں بھی ’’اَلاَ‘‘ آیا ہے شاہ عبدالقادر دہلویؒ نے اس کا بڑا پیارا ترجمہ کیا ہے. یہ آج سے دو سو سال پہلے کا انداز ہے. وہ ترجمہ کرتے ہیں: ’’سنتا ہے!‘‘ تو یہ انداز بہت اچھا ہے. اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ ’’سن رکھو، آگاہ ہو جاؤ! اللہ ہی کے لیے ہے خالص دین یعنی مخلصانہ اطاعت.‘‘

اگر کسی اور کی اطاعت اللہ کی اطاعت سے آزاد ہو کر کی گئی ، اسی طرح اگر اللہ کی محبت سے آزاد ہو کر کسی اور کی محبت کی آلائش شامل ہو گئی تو معاملہ تلپٹ ہو گیا، دگرگوں ہو گیا، اس میں ملاوٹ آ گئی. ہاں! اللہ کی محبت کے تابع اولاد سے محبت کرو کوئی ہرج نہیں، وطن سے محبت کرو کوئی ہرج نہیں، اپنے گھر سے محبت کرو کوئی ہرج نہیں. لیکن یہ کہ اللہ کی محبت کے برابر اپنے دل کے سنگھاسن پر کسی کی محبت کو بٹھا لیا تو یہ شرک ہے… اور اگر کسی کی محبت اللہ کی محبت سے بڑھ گئی تو شرک سے بھی اوپر کا کوئی لفظ ایجاد کرنا پڑے گا، کیونکہ ایسا لفظ ہماری لغت میں نہیں ہے… برابر کا معاملہ ہو گیا تو یہ شرک ہو جائے گا.

یہاں ایک بات اور جان لیجیے کہ اطاعت کے ساتھ محبت کا ذکر کس بنیاد پر کیا گیا ہے! اس کی پہلی بنیاد تو لفظ عبادت ہے، جس کی تشریح ہو چکی کہ اس میں تذلل کے ساتھ غایت درجہ کی دلی محبت کا مفہوم بھی شامل ہے. دوسری بنیاد لفظ اطاعت ہے جو طوع سے بنتا ہے. ہم اردو میں بھی طوعاً و کرہاً بولتے ہیں. طوع کے معنی دل کی آمادگی کے ہیں. اور ظاہر بات ہے کہ دل کی آمادگی مستلزم ہے محبت کو.

توحید فی العبادۃ کی اہمیّت

سورۃ الزمر میں انفرادی توحید کا مضمون بڑی شدومد اور بڑی شان سے آیا ہے. ابتدائی تین آیات کا قدرے شرح و بسط کے ساتھ بیان ہو چکا. اب چند آیات مزید دیکھئے .

کسی اہم بات کو 
emphasize کرنے کے لیے، اس پر زور دینے کے لیے، اس کو خوب اچھی طرح ذہنوں میں اتارنے کے لیے مختلف اسالیب سے اس کی تکرار اور اس کا اعادہ بھی ایک مؤثر ذریعہ بنتا ہے. وہی بات جو سورۃ کے آغاز میں آئی تھی، آیت ۱۱ میں دوبارہ آ رہی ہے. وہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا تھا اور نشائیہ انداز تھا کہ: فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ؕ﴿۲﴾ یہاں نبی اکرم سے فرمایا جا رہا ہے کہ:

قُلۡ اِنِّیۡۤ اُمِرۡتُ 
’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجیے کہ مجھے حکم ہوا ہے.‘‘ 

اَنۡ اَعۡبُدَ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ 
’’کہ میں اللہ کی بندگی اور پرستش کروں اطاعت کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے.‘‘

یہاں کس حکم کا ذکر ہے، اسی کا جو 
فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ؕ﴿۲﴾َ کی صورت میں ابتدائے سورۃ میں آگیا تھا.

اگلی آیت ۱۲ میں اسی مضمون کے مفہوم و مقصود کو مزید واضح فرما دیا: 
وَ اُمِرۡتُ لِاَنۡ اَکُوۡنَ اَوَّلَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۱۲﴾ ’’اور مجھے تو حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے فرماں بردار میں خود بنوں.‘‘

یعنی اللہ کے احکام پر سب سے پہلے عمل پیرا میں خود ہوں، اللہ کے نواہی سے رُک جانے والا اور اللہ کے اوامر کو دل و جان سے بجا لانے والا سب سے پہلے میں خود بنوں.

آگے چلیے اور دیکھئے کہ نبی اکرم کی زبان مبارک سے، درآنحالیکہ آپؐ معصوم ہیں، کس طرح خشیت ِ الٰہی اور اللہ کی نافرمانی پر خوفِ آخرت کا اظہار کرایا جا رہا ہے. فرمایا: 

قُلۡ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۳﴾ 
’’(اے نبیؐ !) یہ بھی کہہ دیجیے کہ اگر میں اللہ کے حکم کی نافرمانی کروں تو مجھے یوم عظیم (آخرت) کے عذاب کا خوف اور اندیشہ ہے.‘‘ 

کون سے احکام کی نافرمانی سے خوف کا یہاں اظہار ہو رہا ہے… یہاں دو ہی تو حکم آئے ہیں، پہلا یہ کہ 
فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ دوسرا یہ کہ لِاَنۡ اَکُوۡنَ اَوَّلَ الۡمُسۡلِمِیۡن لیکن ان دونوں احکام نے پوری زندگی کے فکر و نظر اور رویہ و عمل کا احاطہ کر لیا ہے. اب اگر عملی زندگی میں اس توحید عملی کی ذرا سی بھی خلاف ورزی ہو جائے تو اس پر محبوب رب العالمین سے کہلوایا جا رہا ہے: قُلۡ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۳﴾ 
اس میں دراصل اہل ایمان کے لیے انتہائی مؤثر انتباہ ہے. آگے فرمایا: قُلِ اللّٰہَ اَعۡبُدُ مُخۡلِصًا لَّہٗ دِیۡنِیۡ ﴿ۙ۱۴﴾ 
’’(اے نبی! پھر) کہہ دیجیے کہ میں تو اللہ ہی کی بندگی اور پرستش کرتا ہوں اس کے لیے اپنے دین اور اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے.‘‘

اس آیت میں نبی اکرم نے آپؐ کے اس عزمِ مصمم اور ثبات و استقلال کا اعلان کرا دیا گیا کہ میری لائی ہوئی دعوتِ توحید کو کوئی قبول کرے یا نہ کرے، میں تو ہر حال میں اللہ ہی کی مخلصانہ بندگی اور پرستش کرتا ہوں اور کروں گا، اور میری اطاعت اسی کے لیے مخصوص ہے اور رہے گی.

تاکید ِمزید

آگے اسی سورۂ مبارکہ کے ساتویں رکوع کی تین آیات (۶۴،۶۵ اور ۶۶) میں یہ مضمون پورے نقطۂ عروج (Climax) کو پہنچ گیا ہے. اس سے زیادہ تاکیدی اسلوب آپ کو کہیں نہیں ملے گا… فرمایا: 

قُلۡ اَفَغَیۡرَ اللّٰہِ تَاۡمُرُوۡٓنِّیۡۤ اَعۡبُدُ اَیُّہَا الۡجٰہِلُوۡنَ ﴿۶۴﴾ 
’’اے نبی !) کہہ دیجیے کہ اے جاہلو! (اے نادانو! اے حرص و ہوا کے بندو!) کیا تم مجھے یہ حکم (اور مشورہ) دے رہے ہو کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کروں؟‘‘ 

دیکھئے وہاں جو کشمکش چل رہی تھی، اور وہ کشمکش توحید اور شرک کے مابین ہی تھی، اس کشمکش میں نبی اکرم پر دباؤ پڑ رہا ہے. سارے وفود جنابِ ابو طالب کے پاس کس لیے آئے تھے؟ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ محمد( ) سے کہہ دو کہ ہم انہیں اپنا بادشاہ بنانے کے لیے بھی تیار ہیں، اگر انہیں دولت درکار ہے تو اس کے انبار بھی ان کے قدموں میں لگا دیتے ہیں، جہاں چاہیں جس خاندان میں چاہیں بس اشارہ کر دیں ہم آپؐ کا وہاں نکاح کرنے کے لیے بھی آمادہ ہیں، لیکن آپؐ اپنی اس دعوت سے باز آ جائیں… یہاں قریش کے ان بڑے بڑے سرداروں سے خطاب کیا جا رہا ہے اور خطاب بھی نہایت تیکھا اور تندوتلخ انداز میں 
اَیُّھَا الْجٰھِلُوْنَ کے الفاظ سے.یہ بڑا ثقیل انداز ہے جو قرآن نے براہ راست خطبات میں اختیار کیا ہے. عام طور پر خطاب کا یہ انداز نہیں ہے، لیکن یہ موقع ہی ایسا ہے کہ اندازِ تخاطب دو ٹوک ہو اور اس میں سختی ہو… ویسے لفظ جاہل کے عربی میں وہ معنی نہیں ہیں جو اردو میں ہیں. اردو میں جاہل اَن پڑھ کو کہتے ہیں. عربی میں جذبات اور خواہشات سے مغلوب کو جاہل کہتے ہیں. اس کے مقابلہ کا لفظ ہے حلیم.حلیم اس شخص کو کہا جاتا ہے جو ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لیتا ہے، غور و فکر کرتا ہے، تحمل کرتا ہے، بردباری اختیار کرتا ہے اور عقل کی رہنمائی میں کوئی فیصلہ کرتا ہے، جبکہ جاہل وہ ہے جو اپنے جذبات اور خواہشات کے تابع ہو کر اقدام کرتا ہے… اس لیے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے:

’’اے حرص و ہوا کے بندو! یعنی اے خواہشات کے غلامو!… کیا تم رسول اللہ سے یہ توقع رکھتے ہو اور ان کو یہ حکم اور مشورہ دینے کی جسارت کرتے ہو کہ آپؐ اللہ کے سوا کسی اور کو پوجیں یا اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی اور پرستش کریں… معاذ اللہ!

توحید فی العبادۃ کی تاکید کی انتہا

آگے فرمایا: وَ لَقَدۡ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۶۵﴾ 
’’اور (اے نبیؐ !) یقینا آپ کی طرف بھی وحی کی جا چکی ہے او ران کی طرف بھی جو آپ سے پہلے گزر چکے ہیں، اگر بالفرض آپ نے بھی شرک کیا تو جان لیجیے کہ لازماً آپ کے سارے اعمال اخبط اور اکارت ہو جائیں گے اور آپؐ بھی لازماً خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے.‘‘ 

یہ بڑا چونکا دینے والا انداز ہے. اس کا ترجمہ کرتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے. اس میں شرک پر جس غیظ و غضب کا اظہار ہے وہ اس بات سے ظاہر ہے کہ انتہائی تاکید کے دو اسلوب یہاں موجود ہیں.
یَحْبَطُ اور تَـــکُوْنُ سے پہلے لام تاکید اور پھر مزید تاکید کے لیے آخر میں نون مشددلایا گیا ہے… میں نے ترجمہ میں یہ احتیاط کی ہے کہ لفظ ’’بالفرض‘‘ کا اضافہ کر دیا، کیونکہ رسول اللہ سے شرک کےظہور کا کسی نوع کا کوئی امکان سرے سے نہیں ہے. معاذ اللہ ثم معاذ اللہ. لیکن بات میں زور پیدا کرنے اور قرآن مجید کی دعوتِ توحید کے مخاطبین اوّل اور تاقیام قیامت آنے والی نوعِ انسانی کو شرک کی شناخت سے متنبہ کرنے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا کہ اے محمد( )! اگر آپؐ بھی شرک کریں گے تو آپؐ کا مقام، آپؐ کا مرتبہ اور آپؐ کے محبوب رب العالمین ہونے کی حیثیت بھی آپؐ کو اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکے گی اور آپؐ کے تمام اعمال لازماً اکارت ہو جائیں گے اور آپؐ بھی لازماً زمرۂ خاسرین میں سے ہو جائیں گے… یہ ہے توحید فی العمل کا تقاضا اور اس کی اہمیت … قرآن مجید کے ایسے مقامات کے مطالعہ ہی سے شاید علامہ اقبال نے یہ شعر کہا تھا: ؎
چوں می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ را! 

آگے فرمایا:
بَلِ اللّٰہَ فَاعۡبُدۡ وَ کُنۡ مِّنَ الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۶۶﴾ 
’’لہذا (اے نبیؐ !) آپؐ بس اللہ ہی کی بندگی کیجئے اور اللہ کے شکر گزار بندوں میں سے بن جایئے.‘‘ 

یہ عبادت کی تاکید، اللہ کی بندگی اور پرستش کا مؤکد حکم ہے. یہاں عبادت سے مراد محض ارکانِ اسلام یعنی شہادتین، صلوٰۃ، صوم اور حج نہیں، بلکہ پوری زندگی اللہ کی بندگی میں بسر کرنا مراد ہے. اسی رویہ کی ایک تعبیر شکر ہے.

خلاصۂ کلام

سورۃ الزمر کے تین مقامات سے تین، پھر چار اور پھر تین آیات، یعنی کل دس آیات کی قدرے تفصیل آپ پڑھ چکے ہیں. اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انفرادی سطح پر عملی توحید کیا ہے. وہ ہے اللہ کا بندہ بن جانا ہمہ تن، ہمہ وقت، ہمہ جہت… اطاعت اسی کے لیے خالص ہو. دوسروں کی اطاعت کی جائے تو ا س کی اطاعت کے تابع ہو کر کی جائے، اس سے آزاد ہو کر نہ کی جائے. بنیادی اور حقیقی شدید ترین محبت اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہو. دوسروں سے محبت اس سے نیچی نیچی اور ورے ورے اور اس کی محبت کے تابع ہو. گویا سب سے اونچی محبت اللہ ہی کی ہو. انفرادی توحید کی یہ شرط لازم ہے کہ عبادت، اطاعت اور محبت اسی کے لیے خالص کر لی جائے… اگر اس میں کہیں ملاوٹ آ گئی تو وہ توحید نہیں ہے. یہ ملاوٹ اور یہ کھوٹ شرک کے درجے میں آئے گی اور اگلے پچھلے تمام اعمال کے حبط اور اکارت بننے کا ذریعہ بن جائے گی.