انفرادی سطح پر توحید فی العبادۃ کے ساتھ ہی توحید فی الدعاء کا معاملہ ہے. دونوں امور باہم گتھے ہوئے ہیں. ہم نبی اکرم کی یہ احادیث بھی پڑھ چکے ہیں کہ اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ اور اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ … توحید العبادۃ کے ضمن میں سورۃ الزمر کے تین مقامات اور ان کی امکانی حد تک تشریح و توضیح کے بعد ہم سورۃ المؤمن کے دو مقامات کا مطالعہ کریں گے، جہاں پر توحید فی الدعاء کا بڑے شدومد کے ساتھ ذکر ہے.

دُعا درحقیقت انفرادی سطح کی عبادت کا ہی ایک باطنی پہلو ہے. جو آپ کا معبود ہے، جس کے بارے میں آپ کا ایمان اور یقین ہے کہ وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے، جس کے متعلق آپ کو یقین ہے کہ وہی 
عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہے، وہی السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ہے، وہ ہر آن آپ کے ساتھ ہے ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ظاہر بات ہے کہ ایسی ہستی کو آپ پکاریں گے، اس سے استعانت و استمداد کریں گے، اس سے دعائیں کریں گے، اس سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے عرض و معروض کریں گے. پس دُعا عبادت کا ایک باطنی رخ ہے. قرآن میں چار مقامات ہیں جہاں دُعا کے ساتھ مُخْلِصِیْنَ لَـــہُ الدِّیْنَ کے الفاظ آئے ہیں. ایک سورۃ العنکبوت آیت ۶۵ میں: 

فَاِذَا رَکِبُوۡا فِی الۡفُلۡکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ 
’’جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں.‘‘

…دوسرے سورۂ لقمان کی آیت ۳۲ میں:
وَ اِذَا غَشِیَہُمۡ مَّوۡجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ 
’’اور جب (سمندر میں) ایک موج ان لوگوں پر سائبان کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ اللہ ہی کو پکارتے ہیں اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے.‘‘

ان دو آیتوں میں سمندری سفر میں مشرکین کی اللہ سے مخلصانہ دعا کا تذکرہ 
ہے. اس موقع پر انہیں نہ لات یاد آتا ہے، نہ منات اور نہ ہبل. کسی دیوی اور دیوتا کے بجائے وہ خالص اللہ ہی کو مدد اور دستگیری کے لیے پکارتے ہیں. (۱لیکن سورۃ المؤمن کی آیت ۱۴ اور ۶۵ جس کا بیان آگے آئے گا، وہ مقام ہے جہاں انشائیہ انداز اور امر کے صیغہ میں دُعا کے ساتھ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ کے الفاظ آئے ہیں… اللہ کو پکارو!لیکن کس طرح؟ کس شان سے؟ کس کیفیت میں؟ اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے. یہ نہیں کہ کچھ اطاعت اللہ کی بھی ہو رہی ہے اور کچھ دوسروں کی بھی، لیکن پکار رہے ہیں اللہ کو. ایسی دُعا قبول ہونے والی نہیں ہے. اب وہ آیت دیکھئے . بڑی 

پیاری آیت ہے. فرمایا: 
(۱) اس ضمن میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل کے ایمان لانے کے واقعہ کا ذکر کرنا مناسب حال ہو گا. ان کی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ ’’جب مجھے علم ہوا کہ میرا نام ان مجرموں میں شامل ہے جن کے قتل کا حکم نبی اکرم فتح مکہ کے موقع پر جاری فرما چکے تھے تو میں نے قتل کے خوف سے حبشہ منتقل ہونے کے لیے مکہ چھوڑ دیا. جب ساحل سے حبشہ جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے تو اثنائے راہ میں زبردست طوفان آ گیا. مسافروں نے پہلے تو اپنے دیوی اور دیوتاؤ ں کوپکارا، لیکن طوفان شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا تو ان کی زبان سے نکلا کہ اب تو صرف ’’اللہ‘‘ ہی ہمیں بچا سکتا ہے. چنانچہ سب ہی نہایت الحاح و زاری کے ساتھ اللہ سے اس مصیبت سے نجات کی دعائیں کرنے لگے. دُعا قبول ہوئی اور طوفان تھم گیا، البتہ طوفان نے کشتی کو جدہ کی بندرگاہ ہی پرواپس دھکیل دیا‘‘… اس کے بعد حضرت عکرمہ اپنے دل کی کیفیت بیان کرتے ہیں کہ: ’’اس موقع پر اچانک میرے دل میں روشنی پھوٹی کہ محمد( ) کی دعوت اسی توحید ہی کی تو ہے، اور یہ بت انسان کے کام آنے والے نہیں، یہ تو ہمارے ہاتھوں کے تراشیدہ بے چارے اور معذور ہیں‘‘… آگے وہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے دل میں اسی وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر میں طوفان سے بچ گیا تو آنحضور کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لوں گا.‘‘ جب جدہ پر کشتی واپس آئی تو وہاں انہوں نے اپنی اہلیہ کو موجود پایا جو خود بھی مشرف باسلام ہو چکی تھیں اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کے لیے نبی اکرم کی جانب سے معافی کی نوید لائی تھیں. حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کو بڑا طمینان ہوا کہ وہ معافی کی خوشخبری سننے سے قبل ہی اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے. (مرتب)
فَادۡعُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ [المومن: ۱۴

’’پس اللہ ہی کو پکارو، اپنی اطاعت کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے، خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے.‘‘
ظاہر بات ہے کہ اگر پورا نظام شرک پر قائم ہو اور اس میں آپ توحید کا نظام برپا کرنا چاہیں گے تو کافروں اور مشرکوں کو سخت ناگوار ہو گا. وہ سب روڑے اٹکائیں گے اور کسی نہ کسی بہانے آپ سے تصادم مول لینے کی کوشش کریں گے.
یہاں دعا کے لیے بھی 
مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ کی شرط عائد کر دی گئی ہے، جیسے عبادت میں عائد کی گئی تھی. خلوص و اخلاص صرف اللہ ہی کے لیے نہ ہو تو اس سے دُعا کرنا، اسے پکارنا بے معنی ہے. اس سلسلے میں ایک حدیث ملاحظہ کیجئے جس سے دعاء کی قبولیت کی شرائط واضح طور پر سامنے آتی ہیں. اس حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور امام مسلم ؒ نے اس کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے. حدیث کا دُعا سے متعلقہ حصہ یہ ہے:

ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَیْہِ اِلَی السَّمَآءِ یَا رَبِّ، یَا رَبِّ وَمَطْعَمُہٗ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ، وَ غُذِّیَ بِالْحَرَامِ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ؟
’’پھر آنحضور نے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ وہ بہت دور دراز کا سفر کرتا ہے، اس کے بال اور کپڑے غبار آلود ہیں، اس پر بڑی بوسیدگی، بے چارگی اور درماندگی طاری ہے. وہ شخص اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا رہا ہے کہ اے رب! اے رب!…‘‘

دیکھئے حالت سفر میں دعا کی مقبولیت کی آنحضور کی طرف سے خبر دی گئی ہے. مسافرت چونکہ مسکنت کی حالت ہوتی ہے، انسان بے یارومددگار ہوتاہے، اجنبیوں میں ہوتا ہے. تو واقعہ یہ ہے کہ سفر کی حالت میں دُعا دل سے نکلتی ہے اور جو دُعا دل 
سے نکلتی ہے اور جو دُعا دل سے نکلے وہ اثر رکھتی ہے اور قبول ہوتی ہے. اور عام طور پرگمان یہی ہے کہ یہاں نبی اکرم کسی شخص کے سفر حج کا ذکر فرما رہے ہیں. حج کے لیے دور دراز سے اور مختلف مقامات سے لوگ آتے ہیں، تھکے ماندے. پھر مناسک حج بڑے کٹھن اور مشقت طلب ہوتے ہیں. منیٰ کا سفر ہے، وقوفِ عرفہ ہے، مزدلفہ میں پڑاؤ ہے، منیٰ واپسی ہے، رمی ٔ جمار ہے، نحر ہے. حقیقت یہ ہے کہ دسویں تاریخ کا دن بڑا سخت اور مشقت سے پُر ہوتا ہے، ہر شخص تکان سے اس روز چور چور ہوتاہے. ان دشوار اور دقت طلب مواقع کا تصور کیجیے اور دیکھئے کہ ان حالات میں ایک شخص اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف دُعا کے لیے اٹھاتا ہے اور کہتا ہے یا رب! یا رب!… جبل رحمت کا مقام سمجھ لیجئے، یا وقوفِ عرفہ کا نقشہ کھینچ لیجیے، یا مقامِ ابراہیم کو خیال کر لیجیے یا ملتزم کا منظر تصور کی نگاہوں میں لے آیئے، جہاں اس سے چمٹے ہوئے لوگ گڑگڑا کر دُعائیں کرتے ہیں… لیکن فَاَ نّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ ’’ایسے شخص کی دُعا قبول ہو تو کیسے ہو؟‘‘ 

وَمَطْعَمُہٗ حَرَامٌ وَ مَلْبَسُہٗ حَرَامٌ وَغُذِّیَ بِالْحَرَامِ ’’جبکہ اس کا کھایا ہوا بھی حرام کا ہے، اس کا پہنا ہوا بھی حرام کا ہے اور جس غذا سے اس کا جسم پروان چڑھا ہے وہ بھی حرام کی ہے.‘‘

معلوم ہوا کہ 
مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ والا معاملہ تو ہے ہی نہیں. کمائی میں تو اللہ کا حکم مانتا نہیں، معاش میں تو حرام میں منہ مار رہا ہے اور یہاں آ رہا ہے دعائیں کرنے کے لیے. کیا منہ ہے اس کا کہ وہ اللہ سے کلام کرے.

یہی بات ہے جو سورۃ البقرۃ میں ارشاد فرمائی گئی ہے کہ ہم تمہاری دعائیں سننے اور قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن ہمارے بندو! یہ بھی تو دیکھو کہ تم ہمارے احکام کے ساتھ کیا معاملہ کر رہے ہو!! فرمایا:

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡن 
[البقرۃ: ۱۸۶’’اے نبیؐ !) جب میرے بندے آپؐ سے میرے بارے میں پوچھیں تو ان کو بتا دیجیے کہ میں قریب ہی ہوں. (۱میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں اور قبول کرتا ہوں، وہ جہاں اور جب مجھے پکارے، پس انہیں چاہیے کہ میری باتوں کو قبول کریں (میرے احکام پر عمل کریں، میری پکار پر لبیک کہیں) اور مجھ پر ایمان رکھیں، تاکہ وہ راہِ راست پا لیں (کامیابی سے ہم کنار ہو جائیں).‘‘

معلوم ہوا کہ یہ یک طرفہ معاملہ 
(One way traffic) نہیں ہے، یہ دو طرفہ معاملہ ہے. تم اللہ کا کہنا مانو گے، اس کے احکام پر چلو گے، اس کے مطیع بن کر رہو گے، اس پر ایمان رکھو گے تو اللہ تمہاری دعائیں قبول کرے گا. تم اللہ سے محبت کرو گے تو اللہ تم سے محبت کرے گا یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ ٗ یہ شان ہو گی اہل ایمان کی … تم اللہ کو یاد کرو، اللہ تمہیں یاد کرے گا فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ. 

حدیث میں اس کی وضاحت آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ اگر مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں، اور اگر میرا بندہ کسی محفل میں میرا ذکر کرتا ہے تومیں اس سے کہیں اعلیٰ محفل میں اس کا ذکر کرتا ہوں. ظاہر ہے کہ وہ محفل ملائکہ مقربین ہی کی ہو سکتی ہے. اس محفل میں اللہ تعالیٰ اس بندے کا ذکر فرماتا ہے جو اس دنیا میں کسی محفل میں اس کا ذکر کرتا ہے. آگے حدیث میں آتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’اگر بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں، بندہ اگر بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں ہاتھ بھر اس کے قریب ہو جاتا ہوں.‘‘

قرآن حکیم میں ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: 
اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ (۱) اللہ تعالیٰ کی قربت اور معیت کی تفہیم کے لیے سورۂ ق کا یہ مقام: وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ اور سورۃ الحدید کا یہ مقام وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ پیش نظر رہیں. (مرتب) 
’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا.‘‘ اللہ کی مدد بندے کی جانب سے کیا ہے؟ اس کے دین کے غلبے اور اقامت کے لیے مال اور جان کھپا دینا. جیسا کہ سورۃ الصف میں ارشاد فرمایا:تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمْ ’’تم ایمان پختہ رکھو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اس کی راہ میں اپنے مالوں کے ساتھ اور اپنی جانوں کے ساتھ.‘‘ معلوم ہوا کہ اللہ کے ساتھ معاملہ یک طرفہ کی بجائے دو طرفہ ہو گا.

اخلاص فی الدّعا

سورۃالمؤمن کی آیت ۱۴ کا ہم مطالعہ کر چکے ہیں: 

فَادۡعُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۱۴﴾ 
’’پس پکارو اللہ کو، دین یعنی اطاعت کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے، چاہے یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو.‘‘

اس سورۃ المؤمن کی آیت ۶۰ بھی اس موضوع پر بہت اہم ہے. فرمایا:

وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ سَیَدۡخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیۡنَ
’’اور تمہارے رب نے یہ فرمایا ہے کہ مجھے پکارو! میں تمہاری پکار سنوں گا، (تمہاری دعائیں قبول کروں گا) حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بربنائے تکبر اور گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے اعراض کرتے ہیں (منہ موڑتے ہیں)وہ جہنم میں داخل ہوں گے ذلیل و خوار ہو کر.‘‘

اس آیت سے استدلال کیا جائے گا کہ عبادت اور دعا ایک ہی ہے. ممکن ہے کہ اسی آیت کی تشریح و تفسیر میں نبی اکرم نے فرمایا ہو کہ 
اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃ ُ اور اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ … غور کیجیے کہ اس آیت کریمہ کے پہلے حصہ میں دُعا کا اور دوسرے حصہ میں عبادت کا ذکر آیا ہے تو آپ خود بھی کسی تامل کے بغیر اس نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں کہ دعا اور عبادت ایک ہی عمل کے دو رخ ہیں، اس میں کسی اشتباہ کی قطعی گنجائش نہیں ہے.

آگے اس سورۂ مبارکہ کی آیت ۶۵ ہے جس میں یہ بات پھر آئی. فرمایا:

ہُوَ الۡحَیُّ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَادۡعُوۡہُ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ 
’’وہ (اللہ) الحی ہے، ہمیشہ ہمیش زندہ رہنے والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں. پس اسی کو پکارو دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے. کل شکر و سپاس اور تعریف و ثناء اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا مالک اور پروردگار ہے.‘‘

دیکھئے یہاں اس آیت میں توحید کے ذکر سے آغاز ہوا اور توحید کے بیان پر ہی اس آیت کا اختتاﷲ ہوا. ہم سب جانتے ہیں کہ شہادتین کا پہلا جزو لا الہ الا اللہ کلمۂ توحید ہے. اسی طرح جان لیجئے کہ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ بھی کلمۂ توحید ہی ہے جو نہ صرف سورۃ الفاتحہ کی (جس کو اُمُّ القرآن اور اساس القرآن کے نام بھی دیے گئے ہیں) پہلی آیت ہے بلکہ قرآن مجید کی بھی پہلی آیت ہے.

اسی سورۂ مبارکہ کی آیت ۶۶ میں بھی عبادت کے بدل کے طور پر دعا ہی کا ذکر آیا ہے. فرمایا:

قُلۡ اِنِّیۡ نُہِیۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَمَّا جَآءَنِیَ الۡبَیِّنٰتُ مِنۡ رَّبِّیۡ ۫ وَ اُمِرۡتُ اَنۡ اُسۡلِمَ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ 
’’اے نبیؐ ! ان لوگوں سے کہہ دیجیے کہ مجھے تو ان ہستیوں کی عبادت سے منع کر دیا گیا ہے جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو (میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں) جب کہ میرے پاس میرے پرودگار کی طرف سے بینات (کھلی کھلی نشانیاں) آ چکی ہیں. مجھے تو حکم دیا گیا ہے کہ میں رب العالمین کے آگے سر تسلیم خم کر دوں اور اس کا فرمانبردار و مطیع بندہ بن کر رہوں.‘‘ (۱(۱) دو آیات مزید ملاحظہ ہوں جن میں نہی کے اسلوب میں اللہ کے سوا یا اللہ کے ساتھ کسی اور سے دعا کی ممانعت کی گئی ہے. مخاطب نبی اکرم ہیں، لیکن آپ کی آپ نے دیکھاکہ سورۃ الزمر میں عبادت کا کس قدر تاکید اور شدومد کے ساتھ بیان ہے ’’اطاعت کو اللہ ہی کے لیے خالص کرتے ہوئے.‘‘ اور اگلی سورت سورۃ المؤمن میں دعا کا ذکر آ گیا، لیکن دعا بھی اللہ ہی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے. ا س طرح انفرادی سطح کے خارجی اور باطنی دونوں پہلوؤں کا احاطہ ہو گیا. وساطت سے پوری نوعِ انسانی بالعموم اور مدعیانِ ایمان بالخصوص مخاطب ہیں. پہلی آیت سورۂ یونس کی ہے. فرمایا:

وَ لَا تَدۡعُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنۡفَعُکَ وَ لَا یَضُرُّکَ ۚ فَاِنۡ فَعَلۡتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۰۶﴾ 
’’اور (اے نبیؐ !) اللہ کو چھوڑ کر کسی ہستی کو نہ پکارو، (اللہ کے سوا) کوئی چیز نہ آپ کو فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان. اگر بالفرض آپؐ نے ایسا کیا تو آپؐ بھی ظالموں (یعنی مشرکوں) میں سے ہو جائیں گے.‘‘دوسری آیت سورۃ الشعراء کی ہے. 

فَلَا تَدۡعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُعَذَّبِیۡنَ ﴿۲۱۳﴾ۚ 
’’پس (اے نبیؐ !) اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو. اور اگر (بالفرض) آپؐ نے ایسا کیا تو آپؐ بھی سزا پانے والوں میں سے ہو جائیں گے.‘‘ 

نہی کے اسلوب میں جو تاکید اور جو زور ہوتا ہے نیز من دون اللہ او رمع اللہ میں جو تمیز و امتیاز اور فرق و تفاوت ہے وہ بادنیٰ تامل سمجھ میں آ سکتا ہے.