دعوتِ توحید انفرادی توحید جب فرد سے آگے بڑھے گی تو یہ کام توحید کی دعوت کی شکل اختیار کرے گا. یعنی لوگوں کو اللہ کی توحید کی طرف بلانا اور پکارنا… چنانچہ اسی سورۃ المؤمن میں اس ضمن میں مؤمن آلِ فرعون کا ایک قول نقل ہوا ہے. ہوا یہ تھا کہ آلِ فرعون میں سے ایک بڑی با اثر شخصیت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئی تھی، جو بڑے پائے کے درباری بھی تھے. لیکن انہوں نے اپنے ایمان کو چھپائے رکھا تھا، تاآنکہ جب وہ مرحلہ آیا کہ فرعون نے کہا کہ اب میں موسیٰ کو قتل کر کے رہوں گا. اسے یہ اندازہ ہو گیا کہ میرے درباریوں میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کچھ حامی (Supporters) موجود ہیں. اگر اسے یہ اندازہ نہ ہوتا تو اسے دربار میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی بات رکھنے کی ضرورت نہیں تھی. وہ اپنے دربار میں تجویز پیش کرتا ہے کہ: ذَرُوۡنِیۡۤ اَقۡتُلۡ مُوۡسٰی … ’’مجھے چھوڑو، میں موسیٰ( علیہ السلام ) کو قتل کیے دیتا ہوں…‘‘ حالانکہ خدائی کا دعوے دار ہے، دنیا میں بادشاہوں کا یہ حال ہوتا ہے. اگر اس کے منصب دار اس کا ساتھ نہ دیں، اس کے پنج ہزاری، بیس ہزاری، تیس ہزاری اس کی پشت پر نہ ہوں، اس کی فوج کے بڑے بڑے جرنیل اور سپہ سالار اور دوسرے بااثر لوگ اس کے ساتھ نہ ہوں تو اکیلے بادشاہ سلامت کیا کریں گے! یہی وجہ ہے کہ جب فرعون کو اندازہ ہوگیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا اثر میرے چند درباریوں پر بھی ہو چکا ہے تو اس نے قدم اٹھانے سے پہلے ضروری سمجھا کہ اپنے درباریوں سے استصواب کر لے اور ان کی رائے اور تائید حاصل کر لے. اسی لیے اس نے دربار میں کہا: ذَرُوۡنِیۡۤ اَقۡتُلۡ مُوۡسٰی ’’اب مجھے اجازت دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں.‘‘ 

مؤمن آلِ فرعون کی دعوتِ توحید

اس موقع پر وہ مومنِ آلِ فرعون کھڑے ہو گئے… اس سورت کا نام ہی سورۃ ’’المؤمن‘‘ ہے. اس لیے کہ ان مؤمن آل فرعون کی تقریر اس سورت میں بڑی تفصیل سے آئی ہے… پورے قرآن مجید میں کسی نبی یا رسول کی بھی اتنی طویل تقریر نقل نہیں ہوئی ہے جتنی ان مؤمن آلِ فرعون کی. مؤمن آلِ فرعون اس موقع پر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے نہایت مؤثر تقریر کی جو قرآن میں نقل ہوئی ہے، جس کے نتیجہ مین فرعون کو، جو خدائی کا دعویٰ دار اور مدعی تھا، اپنا Resolution واپس لینا پڑا… ان کی تقریر کا پورے دربار پر اتنا اثر ہوا کہ پھر فرعون کو جرأت نہیں ہوئی کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ہاتھ ڈالے. اب آیئے مؤمن آل فرعون کے اس قول کی جانب جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا.
اس تقریر میں وہ مؤمن آلِ فرعون کہتے ہیں: 
وَ یٰقَوۡمِ مَا لِیۡۤ اَدۡعُوۡکُمۡ اِلَی النَّجٰوۃِ وَ تَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَی النَّارِ ’’اے میری قوم کے لوگو! کیا معاملہ ہے، غور کرو، میں تمہیں نجات کی دعوت دے رہا ہوں، میں تمہیں اس راستہ کی طرف پکار رہا ہوں جو فوز و فلاح اور رُشد وکا مرانی کی طرف لے جانے والا ہے اور تم مجھے آگ کی طرف بلا رہے ہو.‘‘ تَدۡعُوۡنَنِیۡ لِاَکۡفُرَ بِاللّٰہِ وَ اُشۡرِکَ بِہٖ مَا لَیۡسَ لِیۡ بِہٖ عِلۡمٌ ۫ وَّ اَنَا اَدۡعُوۡکُمۡ اِلَی الۡعَزِیۡزِ الۡغَفَّار ’’تم تو مجھے دعوت دے رہے ہو کہ میں اللہ کا انکار کروں اور اس کے ساتھ شریک کروں جس کے لیے کوئی علم اور کوئی سند یا دلیل میرے پاس نہیں ہے اور میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں اس ہستی کی طرف جو العزیز ہے، الغفار ہے. ہر نوع اور ہر قسم کے اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہیں اور وہ بہت معاف فرمانے والا ہے.‘‘

دعوتوں کا فرق

مؤمن آل فرعون کے ان اقوال میں یہ بات بھی واضح طور پر آ گئی ہے کہ دنیا میں دونوں دعوتیں بیک وقت موجود رہتی اور چلتی ہیں. توحید اور ایمان کی دعوت بھی اور کفر و شرک کی دعوت بھی… قیامت تک یہ دعوتیں چلتی رہیں گی، جیسے علامہ اقبال نے اس شعر میں کہا ہے: ؎

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی!!

داعیانِ حق بھی رہیں گے اور داعیانِ باطل بھی رہیں گے، اور ان میں سے بھی رہیں گے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور کہلواتے ہیں. کیا جلال الدین اکبر اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہلاتا تھا؟ کیا اس دَور میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود نہیں ہیں جو مسلمانوں جیسے نام رکھ کر اور خود کو مسلمان کہلا کر الحاد، زندقہ، بے حجابی، بے پردگی، اباہیت اور نہ معلوم کس کس ضلالت کی طرف دعوت دینے میں نہایت منظم طریق اور بہترین تکنیک سے مصروف ہیں! ایسے لوگ موجود ہیں اور یقینا موجود ہیں. ان کی اکثریت ذرائع ابلاغ اور بڑے بڑے کلیدی مناصب پر فائز ہے اور وہ ہمارے معاشرے میں اسلامی فکر اور اسلامی اقدار میں سرنگیں لگا رہے ہیں اور اسلام کی جڑیں کھود رہے ہیں. ہمارے اسی معاشرے میں حدود اللہ کا تمسخر و استہزاء اور اس سے بغاوت کرنے والے موجود ہیں اور اسی کی دعوت دینے اور ترویج میں لگے ہوئے ہیں، اسی کام میں وہ اپنی بہترین صلاحیتیں اور توانائیاں لگا رہے ہیں.

لہذا دنیا میں دعوتیں ہمیشہ دونوں موجود رہی ہیں… ایک ہے توحید کی دعوت اور ایک ہے کفر کی دعوت. ایک دعوت ہے اسلام کی، ایک ہے شرک اور الحاد کی… اور ہمارے معاشرے میں بھی بالفعل وبالقوۃ یہ مختلف دعوتیں موجود ہیں، بلکہ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ باطل کی دعوت بہت منظم اور ہمہ گیر ہے. اس کے داعیان بڑے عیار اور چالاک ہیں، پھر ذرائع ابلاغ پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہے جس کے ذریعے وہ معاشرے میں گمراہی پھیلا رہے ہیں. وہ ہماری ان کمزوریوں سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں جو ایک طرف 
شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ ۬ۙ الۡخَنَّاسِ ۪ۙ﴿۴﴾الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ ۙ﴿۵﴾ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ ٪﴿۶﴾ کے ذیل میں آتی ہیں، دوسری طرف ان کا سبب ڈیڑھ دو صدیوں تک انگریزوں کا سیاسی استیلاء ہے جس کے باعث سیاسی غلبہ ختم ہو جانے کے باوجود بھی ہماری ذہنی مرعوبیت اور غلامی میں کمی ہونے کے بجائے روزبروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے. دراصل ہمارا نصاب اور نظامِ تعلیم انہی فکری اساسات پر مبنی ہے جو ملحدانہ اور مادہ پرستانہ ذہنیت وجود میں لاتی ہیں، ان کی نشوونما کرتی ہیں اور مسلمان نما ملحدوں کی معاشرے میں کثرت کا باعث بنتی ہیں.

ایک مؤحد کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے؟


سورۂ حم السجدۃ کی آیت ۳۳ بڑی پیاری اور مہتم بالشان آیت ہے، فرمایا:

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ
’’اس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہو گی جو اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہو اور اس کا عمل بھی صالح ہو اور کہے میں بھی فرماں برداروں میں سے ہوں.‘‘

یوں تو سب کے پاس زبانیں ہیں اور آج کل قلم ہیں اور چھاپنے کے لیے اخبارات و رسائل ہیں. اخبارات اور رسائل اب انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکے ہیں، یہ صحافت نہیں رہی، صحافت کا نام خواہ مخواہ بدنام ہو رہا ہے، یہ ایک کاروبار ہے. جس طرح ایک کاروبار اور انڈسٹری کا کام یہ ہے کہ معاشرے میں جس چیز کی طلب ہو اسے وہ مہیا اور پیدا کریں گے، یا پھر کسی ایسی چیز کی معاشرے میں مانگ 
(Demand) پیدا کریں گے جس میں ان کو غیر معمولی منفعت کا یقین ہو، چاہے وہ شے نفسانی خواہشات کو مہمیز دینے والی ہی کیوں نہ ہو، پھر اس کو سپلائی کرنے کے لیے مسابقت کریں گے. اس لیے کہ معاشرے میں طلب اسی کی ہے. انہیں تو اپنا پرچہ بیچنا ہے، پیسہ کمانا ہے. اس کے سوا ان کے سامنے کوئی اصول نہیں، کوئی اعلیٰ قدر نہیں، کسی ذمہ داری کا احساس نہیں. جو کسی نے لکھ کر بھیج دیا شائع کر دیا. پرچے کا پیٹ بھرنا ہے. قارئین کی تفریح اور دلچسپی کا سامان مہیا کرنا ہے. کچھ نہیں سوچنا کہ لکھنے والا کفر لکھ رہا ہے، شرک لکھ رہا ہے، فحش لکھ رہا ہے، اللہ کے دین کا مذاق اڑا رہا ہے، شعارِ دینی کا تمسخر اور اقدارِ دینی کا استہزاء کر رہا ہے. قرآنی آیات کے تراجم و مطالب میں تحریف کر رہا ہے اور احادیث کو بازیچہ ٔ اطفال بنا رہا ہے. پھر اخبارات و رسائل میں کثرت کے ساتھ لوگوں کی نگاہوں کو دعوتِ گناہ دینے والی تصاویر شائع کی جا رہی ہیں. انہیں زیادہ سے زیادہ دیدہ زیب اور دلکش بنایا جا رہاہے. یہ سب کچھ اس ملک میں دھڑلے سے ہو رہا ہے جس کے قیام کا مقصد لا الہ الا اللہ بتایا گیا تھا اور جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے.

پس معلوم ہوا کہ اس دور میں بھی دعوتیں بہت سی ہیں، زبان بھی ہے، قلم بھی ہے. جو جس کے جی میں آ رہا ہے کہہ رہا ہے اور لکھ رہا ہے. لیکن فرمایا: اس شخص سے بہتر بات کس کی ہو گی جو اللہ کی طرف دعوت دے رہاہو، لوگوں کو بلا رہا ہو اور اس کے ساتھ اس کا عمل بھی دعوت کی مناسبت سے صالح ترین اور خلوص و اخلاص پر مبنی ہو. وہ خود اس پر کاربند ہو. یہ نہ ہو کہ اوروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت والا معاملہ ہو رہا ہے. بلکہ نقشہ یہ ہو کہ جو بات وہ کہہ رہا ہو اس پر سرتا پا خود عامل بھی ہو.

یہ مفہوم و مطلب ہوا ان دوباتوں کا کہ: 
وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا 
آگے تیسری بات یہ فرمائی: وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡن 
’’اور کہے میں بھی مسلمانوں میں سے ہوں.‘‘

یعنی کوئی نیا فرقہ نہ بنایا جائے، بلکہ کہا جائے کہ میں بھی اللہ کے فرماں برداروں میں سے ایک ہوں، یعنی میں بھی محمد رسول اللہ  کے پیروکاروں اور اللہ کی توحید پر ایمان رکھنے والوں میں سے ایک ہوں، میں بھی یوم جزا کا یقین رکھنے والوں میں سے ایک ہوں… ان ہی باتوں کے اقرار کا نام اسلام ہے. اپنا ایک علیحدہ تشخص بنانا اور مسلمانوں میں ایک نئے فرقہ کی بنیاد ڈال دینا، اس سے بچنا چاہیے.