انفرادی توحید سے عملی توحید کی طرف پیش رفت کے ضمن میں دعوت الی اللہ کا مرحلہ سورۂ حٰم السجدۃ میں بیان ہوا. اب آیئے سورۃ الشوریٰ کی طرف جہاں اجتماعی زندگی اور معاشرتی نظام میں بھی توحید ہی کے روح رواں ہونے کا تقاضا ہے.
آیت ۱۳ سورۃ الشوریٰ کی مرکزی آیت ہے. 

شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ [الشوری: ۱۳

شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ 
’’(اللہ نے) مقرر کیا ہے تمہارے لیے دین.‘‘

یہاں پوری امت سے خطاب ہے کہ تم سب کے لیے یہی دین (اسلام) مقرر کیا گیا ہے. جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ 
’’بے شک اللہ کے نزدیک دین تو صرف اسلام ہے.‘‘

امت کا جامع اور ہمہ گیر مفہوم

واضح رہے کہ صرف ہم ہی حضور کی امت نہیں ہیں، بلکہ نبی اکرم کی امت دعوت تو پوری نوعِ انسانی ہے. آپ تا قیام قیامت ہر زمان و مکان کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں. ازروئے آیات ِ قرآنیہ:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا 
اور 
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ 

لہذا پوری نوع انسانی نبی اکرم کی ’’اُمت ِدعوت‘‘ ہے. جن لوگوں نے آنحضور کی دعوت کو قبول کر لیا یا آئندہ کریں گے وہ ’’امت اجابت‘‘ میں شامل ہیں یا ہو جائیں گے. امت اجابت کے معنی ہوں گے تصدیق و تسلیم کرنے والی امت… ہمارا حال کچھ بین بین ہے. عملاً تو ہم نے قبول کیا ہوا نہیں ہے. ہم نام کے اور نسلی مسلمان ہیں. الا ما شاء اللہ. ہماری عظیم اکثریت فرائض دینی کی تارک اور شعائر دینی کی پابندی سے عاری ہے. نفس پرستی، زرپرستی، قبر پرستی، تعزیہ پرستی اور نہ معلوم کتنی او رپرستیوں میں مبتلا ہے. زمانے کے چلن کی پرستش ہے. نظریاتی سطح پر ملحدانہ اور مادہ پرستانہ نظریات ہمارے فہیم طبقے کے قلب و ذہن پر مستولی ہیں… ان اعتبارات کے پیش نظر ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے نبی اکرم کی دعوت پر فی الواقع اوربالفعل لبیک کہا ہے، البتہ ہم دعوے دار اس بات کے ضرور ہیں کہ ہم جیسے کچھ بھی ہیں بہرحال محمد کے نام لیوا اور آنحضور کے امتی ہیں.

جو بھی رسول اللہ اور قرآن حکیم کا مخاطب ہے وہ امت دعوت میں سے ہے، اور جو بھی اس دعوت پر لبیک کہہ کر اور اس کو قبول کر کے اس میں شامل ہو گیا وہ امت اجابت میں سے ہے. امت اجابت کو قرآن حکیم فرقان حمید 
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے خطاب کرتا ہے… ان دونوں ہی سے سورۃ الشوریٰ کی اس آیت میں خطاب ہے.

آیت کی تفہیم و تشریح

شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡن 
’’(لوگو!) تمہارے لیے اللہ نے وہی دین مقرر کیا ہے.‘‘ کونسا دین؟ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا ’’جس کی اس نے وصیت کی تھی نوح (علیہ السلام) کو.‘‘ وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ’’اور جو ہم نے وحی کیا ہے (اے محمد !) آپ کی طرف.‘‘ یہاں اِلَیْکَ واحد کا صیغہ ہے، لہذا مراد ہوں گے محمد … وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی ’’اور جس کی وصیت کی تھی ہم نے ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو.‘‘ (علی نبینا وعلیھم الصلوۃ والسلام) 

یہاں پانچ رسولوں کا ذکر آیا ہے‘ نبی اکرم کا اور حضرات نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم الصلاۃ والسلام کا اور یہی وہ پانچ رسول ہیں جن کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ اولوالعزم من الرسل ہیں. بعض علماء اس فہرست میں حضرت ہود اور حضرت صالح علیہماالسلام کو بھی شامل کرتے ہیں، لیکن علمائے سلف کی اکثریت کا رجحان ان ہی پانچ رسولوں کی طرف ہے جن کا ذکر یہاں آیا ہے. قرآن مجید میں ایک مقام پر حضور سے خطاب کر کے فرمایاگیا ہے: فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ’’پس (اے محمد !) آپ صبر کیجیے جیسے (ہمارے) باہمت اور صاحب عزیمت رسول صبر کرتے رہے ہیں.‘‘

یہاں اولوالعزم رسولوں سے یہی رسل مراد ہیں. آیت کے اس ٹکڑے میں اہم بات یہ بیان ہوئی کہ ان سب رسولوں کا دین ایک ہی ہے. جو دین جناب محمد لے کر آئے وہی دین لے کر آئے حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام . پس دین میں کوئی فرق نہیں. یہ بڑی اہم بات ہے. ہمیں معلوم ہے کہ رسولوں کی شریعتیں مختلف رہی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں. نماز کی جو شکل ہمارے یہاں ہے یہ شکل شریعت موسوی میں نہیں تھی. روزے کے جو احکام ہمارے یہاں ہیں وہ بنی اسرائیل کے روزوں کے احکام سے مختلف ہیں. لہذا شریعتوں میں فرق رہا ہے. البتہ دین ایک ہی رہا ہے. یہ بات اچھی طرح نہ سمجھیں گے تو 
و اَقِیْمُوا الدِّیْن کا حقیقی مفہوم سمجھ میں نہیں آئے گا. اس لیے اس فرق کو اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے.

جملہ انبیاء و رسل کا دین … دین توحدید

تمام انبیاء و رسل کے مشترک دین کو واقعتا ایک لفظ سے تعبیر کریں گے تو وہ ہو گا ’’دین توحید.‘‘ حضرت نوح کا دور ہو‘ حضرت ابراہیم کا دور ہو، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کا دور ہو (علیہم الصلوٰۃ والسلام) اور نبی خاتم الرسل آخر الزماں جناب محمد کی دعوت ہو، ان سب کا دین ایک ہی رہا ہے او روہ ہے دین توحید. حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب نبی اکرم تک ہر نبی اور رسول اسی دعوت توحید پر مامور ہوتے رہے ہیں. توحید کی دعوت ایک نقطۂ واحدہ ہے جو سب کی دعوت میں مشترک ہے. اس میں کسی دور میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی. توحید کیا ہے؟ یہ کہ انسان کو ہر معاملہ میں اللہ کا حکم ماننا ہے، اس کی ہدایت پر چلنا ہے. یہی تاکید جنت سے حضرت آدم علیہ السلام کے ہبوطِ ارضی کے موقع پر کر دی گئی تھی: قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا مِنۡہَا جَمِیۡعًا ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ [البقرۃ: ۳۸

’’توحید کا اصل تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت اور اوامر ونواہی کے مطابق اس دنیا کی زندگی بسر کی جائے. تمام انبیاء و رسل کی دعوت کا مرکزی نقطہ یہی توحید رہا ہے… قرآن مجید میں جن انبیاء و رسل کا ذکر آیا ہے سب کی دعوت یہی ملے گی کہ: اَنِ عْبُدُوا اللّٰہَ مَالَـکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ

شریعتیں جدا رہی ہیں

مختلف رسولوں کے دور میں شریعت کے احکام بدلتے رہے ہیں. اس ضمن میں اللہ کا حکم ایک وقت میں ایک ہے، دوسرے وقت میں دوسرا ہے، لیکن توحید وہی ہے. اس وقت اس حکم کی اطاعت کر لینا توحید تھی، اس وقت اس حکم کی تعمیل کرنا توحید ہے. اس بات کی وضاحت کے لیے مختلف شریعتوں کے فرق کو بیان کرنے کے بجائے خود نبی اکرم کی حیات طیبہ سے ایک مثال پیش ہے جس سے ان شاء اللہ بات واضح طور پر سمجھ میں آ جائے گی. ہجرت کے بعد تقریباً سولہ مہینے آنحضور نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، تاآنکہ حکم آ گیا: فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ’’پس آپ پھیر دیجیے اپنے چہرے کو مسجد حرام کی طرف.‘‘

اس پر بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ایک بے چینی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی. اس 
لیے کہ ان کو خوب اندازہ تھا کہ نماز تو عماد الدّین ہے، دین کا ستون ہے، رکن رکین ہے، بلکہ ایمان اور کفر میں امتیاز کرنے والی چیز درحقیقت یہ صلوٰۃ ہے، اس کی دین میں بہت اہمیت ہے. ان کوخیال آیا کہ اگر سولہ مہینے ہم نے غلط رخ پر نما زپڑھی تو ہماری ان نمازوں کا کیا ہو گا؟ دوسرے یہ کہ اس دوران جن مسلمانوں کا انتقال ہو گیا اب ان کا کیا ہو گا؟ پس منظر میں یہ تشویش موجود تھی جس کے ازالے کے لیے اسی مقام پر یہ الفاظ آئے ہیں: وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَــکُمْ 
’’اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان ضائع کرنے والا نہیں ہے.‘‘

فکر نہ کرو. ا س وقت تم نے اگربیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی تو حکم خداوندی وہی تھا. اس وقت اسی اللہ کا حکم یہ ہے کہ مسجد حرام کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھو. تو اس وقت توحید کا تقاضا وہ تھا، اس وقت اسی توحید کا تقاضا یہ ہے. گویا حکم بدل سکتا ہے، اصول نہیں بدلے گا. اصول یہ ہے کہ اللہ کے حکم پر چلنا ہے. جس وقت جو حکم ہے اسے ماننا ہو گا.

اسی طریقے سے دوسری مثال سیرت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں دیکھئے . مکی دور میں حکم ہے کہ مشرکین اگر تمہیں دہکتے انگاروں پر لٹا رہے ہیں تو جھیلو، برداشت کرو، ہاتھ مت اٹھاؤ. اس وقت اس حکم کی اطاعت کرنا اللہ کی اطاعت تھی. جبکہ مدنی دور میں آ کر حکم ہوا: 
وَقَاتِلُوْا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَـکُمْ ’’اور جنگ کرو اللہ کے راستے میں ان سے جو تم سے جنگ کرتے ہیں.‘‘

اب اس حکم پر عمل کرنا توحید ہے، اللہ کی اطاعت ہے. اللہ کی اطاعت وہاں وہ تھی، یہاں یہ ہے. اللہ کی اطاعت کا اصول قائم رہے گا اگرچہ حکم بدل گیا… حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت کچھ اور تھی جس کا ہمارے پاس کوئی ریکارڈ نہیں. ہمارے پاس اگر ریکارڈ ہے تو وہ شریعت موسویؑ کا ہے. اور ان شریعتوں کے فرق کو عام طور پر لوگ جانتے ہیں. پس شریعتیں بدلی ہیں، جدا رہی ہیں. قرآن مجید میں ایک جگہ یہ الفاظ بھی آئے ہیں: 

لِکُلٍِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَا جًا 
’’ہم نے تم (انسانوں) میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور راہِ عمل مقرر کی.‘‘ سابقہ اُ متیں اگر ان کو دی ہوئی شریعتوں پر کاربند رہیں تو انہوں نے توحید کا تقاضا پورا کیا. اب شریعت ِ محمدی… علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام… پچھلی تمام شریعتوں کی ناسخ ہے. اب اس پر چلنا توحید اور اطاعت الٰہی کا تقاضا ہے.

ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ تورات کا ایک نسخہ لے آئے تھے اور اس کو نبی اکرم کے سامنے پڑھنا شروع کیا. (میرا یہ گمان ہے کہ وہ کسی مسئلہ میں دلیل کے طور پر تورات کو پڑھ رہے تھے اور حضور کو سنا رہے تھے) وہ تو پڑھنے میں لگے رہے اور ان کو اندازہ نہیں ہوا کہ حضور کے چہرۂ مبارک پر ناراضگی کے آثار ہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قریب تھے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ٹوکا ’’دیکھتے نہیں ہو کہ حضور کے چہرۂ مبارک کا کیا حال ہے!‘‘ … حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نگاہ اُٹھا کر دیکھا اور ان کو حضور کے چہرۂ انور پر خفگی کے آثار نظر آئے تو فوراً ان کی زبان سے یہ الفاظ جاری ہو گئے:

رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلاً وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا 
تین بار انہوں نے ان الفاظ کا اعادہ کیا. یہاں تک کہ حضور کا غصہ فرو ہوا اور پھر حضور نے فرمایا:
’’اے عمرؓ ! اگر موسیٰ علیہ السلام بھی اس وقت زندہ ہوتے تو ان کوبھی میری اطاعت کیے بغیر چارہ نہیں تھا.‘‘ 

اَوْ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ 
اس لیے کہ تمام سابقہ شریعتیں شریعت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے آنے کے بعدف منسوخ ہو چکی ہیں… اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ اگرچہ انبیاء و رسل ؑکی شریعتیں مختلف رہی ہیں، تاہم دین ایک ہی رہا اور وہ ہے ’’دین توحید.‘‘

دین اور شریعت میں ربط و تعلق

اب دیکھیں کہ دین اور شریعت میں کیا ربط و تعلق ہے. دیکھئے جدید سیاسیات میں دو اصطلاحات رائج ہیں. ایک دستور (Constitution) ، دوسری قانون (Law) . ان دونوں میں بڑا فرق ہے. دستور(Constitution) وہ دستاویز ہے جو کسی بھی ملک کے نظام کو متعین کرتی ہے. اساسی دستو ر مین طے ہوتا ہے کہ اس ملک میں حاکمیت کس کی ہے. حاکم (Sovereign) کون ہے! اور حاکمیت کس طرح استعمال (Channelize) ہو گی! وہ روبعمل (Exercise) کس طور پر ہو گی. اس دستور کے تحت قانون سازی کا طریقہ کیا ہو گا! اس میں ردوبدل کیسے ہوگا! انتظامیہ اور عدلیہ میں باہمی ربط و تعلق کیا ہو گا! ایک دوسرے کے محاسبہ اور توازن (Checks and Balances) کا نظام کیا ہو گا! ان بنیادی مسائل کے لیے رہنمائی دینے والی دستاویز اساسی دستور کہلاتی ہے. ہر ملک کے دستور میں اس بات کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ اساسی دفعات بہت پائیدار اور مضبوط ہوں. چونکہ دستور میں بار بار ترمیم مناسب نہیں ہوتی لہذا تبدیلی کا طریقہ (Process) مشکل ترین رکھا جاتا ہے. اس دستور کے تحت حسب ضرورت اکثریت کی رائے سے قانون سازی ہوتی رہتی ہے، اور قانون صرف ۴۹ اور ۵۱ فیصد آراء کے فرق سے ہر وقت تبدیل بھی ہو سکتا ہے. ایک وقت میں لیجسلیٹو اسمبلی یا پارلیمنٹ ایک قانون منظور کرتی ہے اور دوسرے وقت میں اس کو تبدیل کر دیتی ہے یا اس میں ترمیم (amendment ) کر دیتی ہے. وہ ترمیم چھپ جاتی ہے اور وکلاء حضرات اس طرح قانون کی کتاب میں چیپیاں لگاتے رہتے ہیں… ان دونوں اصطلاحات سے یہ بات سمجھ لیجیے کہ دستور کی حیثیت ہے دین کی اور قانون کی حیثیت ہے شریعت کی. 

لفظ دین کا مفہوم

آگے بڑھنے سے قبل لفظ دین کے مفہوم کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا جائے جس کی تشریح ابتدائی گفتگو میں مؤخر کی گئی تھی. عربی میں دین کے لغوی معنی ہیں ’’بدلہ‘‘. ظاہر ہے کہ بدلہ کسی کام کے نتیجہ کے طور پر ملتا ہے. اچھے کام کا اچھا اوربرے کام کا برا بدلہ… لہذا لفظ دین میں جزا و سزا کا مفہوم پیدا ہوا. اس مفہوم سے لفظ دین میں قانون اور ضابطہ کا تصور شامل ہوا، کیونکہ جزا اور سزا مستلزم ہے کسی قانون اور ضابطہ کو. اس تصور کے مقتضیات و لوازم کے طور پر اسی لفظ دین میں ایک مقنن اور مطاع کا مفہوم داخل ہوا. اب بدلہ، جزا و سزا، قانون و ضابطہ اور مقنن اور مطاع کے تمام مفاہیم کو جمع کیجیے تو حاصل جمع ہو گا اطاعت. لہذا ان تمام مطالب و مفاہیم اور تصورات کے اجتماع سے قرآن مجید کی اصطلاح ’’دین‘‘ نبی. دین کے معنی ہوئے ایک دستور، ایک پورا نظام حیات، ایک مکمل ضابطۂ زندگی جس میں ایک ہستی یا ادارے کو مطاع، مقنن اور حاکم مطلق تسلیم کر کے اس کی جزاء کی امید اور سزا کے خوف سے اس کے عطا کردہ یا جاری و نافذ کردہ قانون اور ضابطہ کے مطابق اس ہستی یا ادارے کی کامل اطاعت کرنا.
ان تمام مفاہیم کو قرآن مجید میں ان الفاظ مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے: 
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ بلا شبہ اللہ کا پسند کردہ نظام حیات تو اسلام یعنی مکمل فرماں برداری ہے. یہاں دین اور اسلام کے فرق کو بھی سمجھ لیجیے. ’’الدِّیْن‘‘ کے معنی یہاں ہیں ’’نظام حیات واطاعت‘‘ اور الاسلام کے معنی ہوں گے تابعداری اور فرمانبرداری کرتے ہوئے زندگی بسر کرنا. نظامِ حیات اور دستور کے معنی میں یہ لفظ ’’دین‘‘ سورۃ النصر میں استعمال ہوا: یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا غیر اللہ کے بنائے ہوئے نظام حیات پر بھی اسی ’’دین‘‘ کی اصطلاح کا اطلاق ہو گا. جیسے سورۂ یوسف میں بادشاہ کے رائج نظام کے لیے ’’دینُ الملکِ‘‘ استعمال ہوا، کیونکہ ملوکیت میں حاکمیت مطلقہ بادشاہ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور وہ کسی تحدید کا پابند نہیں ہوتا.

دستور و قانون کاباہمی تعلق

اب پھر رجوع کیجیے اس بات کی طرف کہ دستور تو اصل میں نظام کو طے کرتا ہے اور اس نظام کے تحت قانون کا عمل جاری و ساری رہتا ہے. لہذا دستور کی حیثیت ہے دین کی اور قانون کی حیثیت ہے شریعت کی. دستور طے کرتا ہے کہ حاکمیت کس کی ہے، اطاعت ِ مطلقہ کس کی ہے! قانون سازی کا آخری اختیار کس کے کے ہاتھ میں ہے! اللہ کے دین میں حاکمیت مطلقہ صرف اور صرف اللہ کے لیے ہے. اطاعت مطلقہ کی سزاوار اسی کی ذات عزوجل ہے. اس کی قائم کردہ حدود کے اندر اندر رہتے ہوئے اسلامی ملک کی پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق حاصل ہے.

جمہوریت

دورِ حاضر میں سب سے زیادہ مقبول اور روبعمل نظام جمہوریت ہے. گویا آج کل سب سے زیادہ رواں جمہوریت کا سکہ ہے. علامہ اقبال نے کہا تھا ؏ ’’سلطانی ٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ!‘‘ یہاں ’’آتا‘‘ کو ’’آیا‘‘ سے بدل دیجیے تو یہ دورجمہوریت کا دور ہے. یہ بھی ایک دین ہے، دین جمہور. اس کی اصل یہ ہے کہ حاکمیت مطلقہ عوام کی ہے. عوام کے منتخب کردہ نمائندے جو چاہیں گے قانون بنائیں گے. انہیں اختیار ہے کہ شراب پر پابندی لگائیں یا اسے قومی مشروب قرار دیں. ان کو اختیار ہے کہ زنا پر کوئی سز ا طے کریں یا اس کی کھلی چھوٹ دے دیں. اسی جمہوریت نے یہ گل کھلائے ہیں کہ بعض مغربی ممالک میں فعلِ قوم ِلوط کو نہ صرف جائز قرار دیا گیا ہے، بلکہ اس فعل کو اس طرح قانونی تحفظ دیا گیا ہے کہ دو مرد بھی آپس میں شوہر اوربیوی کا رشتہ قائم کر کے رہ سکتے ہیں، قانون ان سے کوئی تعرض نہیں کرے گا. چونکہ ان کا قانون اس جوڑے کو جائز رشتہ ازدواج میں منسلک قرار دیتا ہے لہذا ان پر شوہر اوربیوی کے تمام حقوق و فرائض کا اطلاق ہو گا. یہ ہے جمہوریت جس میں حاکمیت ِ مطلقہ عوام کے ہاتھ میں ہے. ان کے نمائندے جو چاہیں قانون بنائیں، ان پر کوئی تحدید نہیں ہے..

دین اللہ

دین الملک اور دین جمہور کے مقابلے میں دین اللہ، یعنی دین اسلام کیا ہے؟ وہ یہ کہ مطاعِ مطلق اللہ ہے. قانون سازی کا مطلقاً اختیار اللہ کو ہے. اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ 

’’حکمرانی اور فرماں روائی کا کلیتاً اختیار صرف اللہ کے لیے ہے. اس نے حکم دیا ہے کہ صرف اسی کی بندگی کی جائے گی، اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں ہو گی. اسی طرزِ عمل اور رویہ کا نام دین قیم ہے.‘‘

اسلامی مملکت میں اللہ کی حاکمیت مطلقہ تسلیم کی جائے گی اور اللہ کے نازل کردہ دین و شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے حسب ضرورت قانون سازی ہوتی رہے گی. اصولِ دین سے کسی حال میں سرموانحراف نہیں کیا جائے گا.

ہمارے دستور کی قراردادِ مقاصد

مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ علیہ او ر چند دوسرے اہل علم و دانش کے تعاون سے مرتب کردہ قرارداد مقاصد ۱۹۴۹ء میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کی تھی جو ۱۹۷۳ء کے دستور تک ہر دستور میں بطورِ افتتاحیہ (Preamble) شامل ہے. (۱اس قرارداد میں یہ بات طے کی گئی تھی کہ اس سلطنت ِ خداداد میں حاکمیت اللہ کی ہے اور عوام کے منتخب نمائندے اس کے نائب کی حیثیت سے امور و کاروبارِ حکومت چلائیں گے. وہ بہت اہم اور بڑا فیصلہ تھا. یہ دوسری بات ہے کہ وہ فیصلہ دلی آمادگی سے نہیں کیا گیا تھا. یہ تو مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ علیہ کی شخصیت، ان کی علمیت، ان کی وجاہت اور ان کا پاکستان کی تحریک میں بھرپور حصہ، پھر عوام و خواص میں ان کی عزت و احترام اور ان کا اثر و رُسوخ، ان سب باتوں کا رعب اتنا تھا. پھر یہ کہ نواب لیاقت علی خان مرحوم خود بھی مولانا کے کچھ زیر اثر تھے، لہذا قراردادِ مقاصد پاس ہو گئی، ورنہ مجھے امید ہے کہ اس مجلس میں چند لوگ ایسے ضرور ہوں گے جن کو یاد ہو گا کہ قرارداد مقاصد کے منظور ہونے کے بعد دستور ساز اسمبلی میں کچھ نام نہاد مسلمانوں ہی نے کھڑے ہو کر یہ کہا تھا تھا کہ اس قرارداد کے پاس ہونے پر آج ہماری گردنیں شرم کے مارے جھک گئی ہیں، آج ہم مہذب دنیا کو منہ دکھانے کے قابل (۱) صدر ضیاء الحق مرحوم نے قرارداد مقاصد کو دستور میں دفعہ ۲. الف کی حیثیت سے شامل کر دیا تھا. نہیں رہے. حقیقت یہی ہے کہ بات چونکہ دل سے نہیں نکلی تھی لہذا اثر انگیز نہیں ہوئی. اندر خاص شخصیتوں کے دباؤ تھے، پھر خارج میں جماعت اسلامی کی برپا کردہ اسلامی دستور کی تدوین کے لیے کافی مؤثر تحریک تھی، جس کے نتیجہ میں اسمبلی میں خطوط، پوسٹ کارڈز اور تاروں نیز مختلف پلیٹ فارموں سے منظور شدہ مطالبوں کی قراردادوں کی نقول سے بوریوں کی بوریاں بھر گئی تھیں اور ان کا تانتا بندھا ہوا تھا، ملک نیا نیا بنا تھا، عوامی دباؤ کابھی یہ نیا تجربہ تھا، لہذا برسراقتدار لوگ اس عوامی تحریک سے بھی کافی مرعوب ہو گئے تھے. رائے عامہ کا ظہور جس قدر بڑے پیمانے پر ہوا تھا اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا. چنانچہ قراردادِ مقاصد منظور تو ہو گئی، لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ کام خارجی دباؤ کے تحت ہوا تھا، اصل میں دل سے یہ بات نہیں نکلی تھی، لہذا وہ صفحۂ قرطاس کی زینت تو بن گئی لیکن اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جو پیش رفت ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی. نہ اس وقت ہوئی نہ آج تک ہوئی ہے.

ایک کثیفہ

اس ضمن میں ایک لطیفہ بلکہ کثیفہ ملاحظہ ہو. ایک صاحب جو اُس وقت اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل تھے اور مجھ سے بڑے تھے، اب بھی حیات ہیں اور ایک نامور سیاسی لیڈر کی حیثیت سے معروف ہیں، ہم دونوں ساتھ ساتھ لاہور کی مال روڈ پر جا رہے تھے تو ایک بڑی سی کار پاس سے گزری جس میں ایک بہت لمبی داڑھی والے ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے. میں نے توجہ سے دیکھا کہ کون ہیں! انہوں نے کہا کہ کیا دیکھتے ہو؟ یہ ’’قراردادِ مقاصد‘‘ ہے. میں بڑا حیران ہوا اور میں نے کہا کیا کہہ رہے ہو؟ وہ کار والے صاحب سے ذاتی طور پر واقف تھے . انہوں نے کہا کہ ان کو لوگ ’’قرار دادِ مقاصد‘‘ کہتے ہیں. میں نے پوچھا کیوں؟بولے ’’جس طرح قرارداد مقاصد کی ہمارے ملک میں کوئی حیثیت نہیں ہے ویسے ہی ان صاحب کے کردار میں اس داڑھی کا کوئی دخل نہیں ہے. اپنے کردار کے لحاظ سے یہ نہایت بدنام شخص ہے. دینداری کے اظہار کے لیے بڑی سی داڑھی رکھی ہوئی ہے، بالکل اس طرح جیسے قرارداد مقاصد کی حیثیت محض ایک دکھاوے کی چیز کے سوا کچھ نہیں.‘‘ ان کی بات صد فی صد درست ثابت ہوئی. اس لیے کہ پینتیس (۱سال گزر چکے ہیں، اور اس عرصہ میں اس قرارداد پر جو عمل ہوا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے. تاہم قراردادِ مقاصد کی یہ دفعہ جو ہر دستور میں محض رہنما اصول (Directive Principle) کے طور پر درج ہوتی چلی آرہی ہے اصولی طورپر بہت اہم ہے: 

(No legislation will be done repugnant to the Quran and the Sunnah)
’’کوئی ایسی قانون سازی نہیں کی جائے گی جو قرآن و سنت کے خلاف ہو.‘‘ 

اسلامی نظام کے مقتضیات

اگر قرارداد مقاصد اوریہ رہنما اصول ہمارے دستور کی نافذ العمل دفعہ (Operative Clause) بن جائے اور یہ دونوں واقعی اخلاص کے ساتھ صاحب اقتدار حضرات کے دلوں میں اتر جائیں، پھر ملک کی تمام ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کو کھلا اختیار دے دیا جائے کہ اس ملک کا رہنے والا ہر مسلمان اس دفعہ کے تحت جس قانون کوبھی چیلنج کرے کہ یہ قرآن و سنت کے خلاف ہے تو وہ عدالتیں اس قانون کا جائزہ لیں اور اس کے بارے میں فیصلہ دیں… یہ دونوں چیزیں ملک کے دستور اور نظام کو اسلامی بنانے کے لیے کفایت کریں گی.

باقی رہی یہ بات کہ انتخابات کا طریقہ کیاہو! وہ جماعتی بنیاد پر ہو، متناسب نمائندگی کے اصول پر یا غیر جماعتی ہو؟ ملک کا نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی ہو‘ وحدانی ہو یا وفاقی یا الحاقی ہو؟ یہ سارے مسائل مباحات کے دائرے کے ہیں. ہمارے ملک کے حالات کے اعتبار و لحاظ سے جو طریقہ مناسب نظر آئے اسے اختیار کر لیا جائے 
(۱) واضح رہے کہ یہ خطاب ۱۹۸۳ء کا ہے. اصل چیز یہ ہے کہ ملک کا نظام توحید پر مبنی ہو. نظری طور پر تسلیم کیجیے اور عمل میں اس کا مظاہرہ کیجئے کہ حاکمیت کا اختیار صرف اللہ کا ہے. نظری طور پر یہ بات قراردادِ مقاصد میں موجود ہے اور عملاً اس رہنما اصول کو نافذالعمل بنانے کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت سے متصاد م کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکے گی.
قانون سازی کا ہمیں اختیار ہے، لیکن یہ اختیار محدود ہے. ہم اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے اندر اندر اور ان کی روح کے مطابق قانون بنا سکتے ہیں. اللہ اور اس کے رسول کے احکام میں ردّوبدل کرنے کے ہم ہرگز مجاز نہیں ہیں، نہ ہم ان سے تجاوز کرسکتے ہیں: 
تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْھَا ’’یہ اللہ کی حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو.‘‘ اور تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَقْرَبُوْھَا 

’’یہ اللہ کی حدود ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکو.‘‘ (۱اس دائرے کے اندر آپ قانون بنایئے. اس کے لیے بھی قرآن نے ان الفاظ مبارکہ میں واضح ہدایت دے دی ہے وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ لہذا ضروری ہے کہ معاملات باہمی مشاورت سے طے پائیں. (۱) ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ بندۂ مومن کے اختیار کی کیفیت اس گھوڑے کے مانند ہے جو ایک کھونٹے سے بندھا ہو. اب جتنی لمبی رسی ہے اسی قدر وہ اس کھونٹے کے چاروں طرف جا سکے گا، اس رسی سے تجاوز نہیں کر سکے گا. یہی طرزِ عمل ایک مؤمن بندے کا ہونا چاہیے. (اوکما قال) اس سے ایک صحیح اسلامی ریاست کی حدود اختیارات کو سمجھا جا سکتا ہے… اسلامی ریاست میں اختیارات کی حد بندی کے لیے سورۃ الحجرات کی یہ آیت کریمہ رہنمائی کرتی ہے کہ: 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱﴾ ’’اے اہل ایمان! اللہ اور اس کے رسول کے آگے (یعنی ان کے احکام سے) پیش قدمی نہ کرو اور اللہ کی نافرمانی سے بچو. اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے.‘‘ 

اس آیت کی رو سے ایک اسلامی ریاست کو لازماً اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کے تابع ہو کر کاروبارِ حکومت چلانا ہو گا. (مرتب)

قابلِ صد افسوس بات

آپ کو معلوم ہے کہ اس دَور میں شرعی عدالتیں بنی ہیں، لیکن ان کا حال کیا ہے؟ ان کے بھی ہاتھ بندھے ہوئے ہیں. ان کو حکم ہے کہ کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ اپنے ہاتھ بندھے رکھو. فلاں فلاں قوانین کی طرف نگاہ نہ اٹھانا. عائلی قوانین ان شرعی عدالتوں کے حیطۂ اختیار سے باہر ہیں. ان پر فیصلہ کرنے کی یہ عدالتیں مجاز نہیں کہ ان میں شریعت کے خلاف کون کون سی دفعات ہیں. ان عائلی قوانین کو صاحب اقتدار حضرات کا تحفظ حاصل ہے. چونکہ ڈر ہے کہ اگر ان میں سے خلافِ شرع دفعات حذف کر دی گئیں تو مغرب زدہ خواتین ناراض ہو جائیں گی. گویا ان کی ناراضگی کا اللہ کی ناراضگی سے زیادہ خوف ہے. یایوں کہہ لیں کہ ان کی رضا اللہ کی مرضی و رضا سے زیادہ عزیز ہے. ان شرعی عدالتوں کو اس امر کا پابند بھی کر دیا گیا ہے کہ یہ مالی قوانین کے بارے میں بھی فیصلے دینے کی مجاز نہیں ہیں کہ کون سے قوانین اور طور طریقے خلاف ِ اسلام ہیں. حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ اہم ترین نظام تو مالیات کا نظام ہی ہوتا ہے. آج کی دنیا میں سارا دارومدار تو معاشی نظام پر ہے. وہ طے کرتا ہے کہ پورا نظام کن اصولوں پر چلے گا.

آپ کو بادنی ٰ تامل نظر آ جائے گا کہ ہمارے پورے نظامِ معیشت کا دارومدار حرام پر ہے. ہماری تمام بڑی بڑی صنعتیں اور ہماری تمام برآمدی و درآمدی تجارت سود کی بنیاد پر چل رہی ہے. ہماری زمین یعنی کاشت کاری کا اکثر وبیشتر بندوبست جاگیرداری اور زمینداری کی بنیاد پر چل رہا ہے. ایک ہے صنعت وتجارت کا سود اور ایک ہے زمین کا سود. معیشت کا کل کا کل معاملہ سود کی بنیاد پر چل رہا ہے. لیکن شرعی عدالتوں کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں کہ وہ ان مسائل کے متعلق کوئی فیصلہ 
(Verdict) نہیں دے سکتیں. ہو سکتا ہے کہ چند اور بھی مسائل ہوں جو ان عدالتوں کے حیطہ اختیار سے باہر رکھے گئے ہوں. بہرحال عائلی قوانین اور مالی قوانین پر یہ عدالتیں کسی غور و فیصلہ کی مجاز نہیں ہیں. ان امور کو اگر دین کے تابع نہیں کیا گیا تو گویا بنیادی باتوں ہی سے اعراض و گریز کیا جا رہا ہے. پھر اسلام آئے گا تو کیسے آئے گا! اگر اسلام کو فی الواقع لانا ہے تو ان سب کوبدلنا ہو گا. 

آیت کی مزید توضیح و تشریح

اب آیئے سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ کی طرف. اس آیت کی ابھی تک صرف دو باتوں کی شرح ہوئی ہے. ایک تو یہ کہ ان پانچ رسولوں کا دین ایک ہی ہے اور یہ پانچوں چوٹی کے رسول ہیں… معلوم ہوا کہ تمام انبیاء و رسل کا دین ایک ہی رہا ہے، از آدم علیہ السلام تا ایں دم، دین الٰہی ایک ہے. یہ دین کیا ہے؟ یہ ہے فَاعْبُدِاللّٰہَ مُخْلِصًا لَّــہُ الدِّیْنَ انفرادی سطح پر اور اجتماعی سطح پر یہ بات مانو کہ اللہ ہی حاکم مطلق ہے. اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ للّٰہ ِ اسی کے قانون کی تنفیذ ہو. جہاں اس نے آزادی دے رکھی ہو وہاں تم حدود میں رہ کر قانون بنا سکتے ہو. یہ اسی کی دی ہوئی آزادی ہے، لیکن اس کی مقرر کردہ حدود سے ہرگز تجاوز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ان میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے. یہ ہو گا دین کو قائم کرنا. یہ ہے اقامت ِ دین.اس کو سمجھنے کے لیے اب آیت مبارکہ کے اگلے حصے پر آجایئے. شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ 

یہ دین اس لیے دیا گیا ہے کہ اس کو قائم کرو. اس لیے تو نہیں دیا گیا کہ اس کی مدح کرو، اس کی تعریفیں کرو، اس پر کانفرنسیں کرتے رہو. کانفرنسیں اور محاضراتِ قرآنی ہم بھی کرتے ہیں، لیکن اگر ان کانفرنسوں اور محاضرات سے مقصود دین کو قائم کرنے کی جدوجہد میں کام لینا ہو تو ان کا انعقاد مبارک ہے، اور اگر یہ چیزیں اپنی جگہ مقصود و مطلوب بن جائیں اور گفتن و برخاستن تک معاملہ رہے تو ان کا کوئی حاصل نہیں. کسی پیش نظر عظیم کام کے لیے ہو تو یہ احسن کام ہے. چونکہ ظاہر بات ہے کہ اس کے کچھ عملی پہلو (Practical Aspects) ہوں گے، لہذا اصل مقصود ہی اس کام کا صحیح مقام متعین کرے گا… اقامت ِ دین کی جدوجہد کے طور پر تبلیغ ہو رہی ہو تو وہ تبلیغ اور ہو گی. اور اگر تبلیغ برائے تبلیغ ہو رہی ہو تو وہ تبلیغ اور ہو گی. ان میں زمین و آسمان کا فرق ہو جائے گا. ایک ہے خالص مذہبی طرز کی تبلیغ اور ایک تبلیغ ہے انقلابی تبلیغ. ایک تبلیغ وہ ہے جو صرف عقیدہ کو پھیلاتی ہے، جیسے عیسائیت کی تبلیغ. وہاں نظام ہے ہی نہیں، دین ہے ہی نہیں، شریعت موجود ہی نہیں کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام؟ اس کے احکام موجود ہی نہیں ہیں. ان کے ہاں صرف عقیدہ ہے یا اخلاقیات کی کچھ تعلیم ہے. اخلاقیات سب کے نزدیک مشترک چیزیں ہیں. ان کو آفاقی اخلاقیات(Universal Ethics) کہنا بجا ہو گا. شریعت ان کے ہاں سرے سے ہے نہیں تو نظام کیا بنے گا! لہذا اس کی تبلیغ صرف عقیدے اور چند اخلاقی اصولوں کی تبلیغ ہے. جس طرح ایک بیل ہوتی ہے، وہ زمین پر پھیلتی ہے، سرے سے اوپر اٹھتی ہی نہیں، وہ خربوزے کی ہو، کدو کی ہو، کسی چیز کی بھی ہو وہ زمین پر ہی رہ جائے گی، اوپر نہیں اٹھے گی. یہی مذہبی تبلیغ کا مزاج ہے. وہ زمین پر ہی پھیلتی چلی جاتی ہے. وہ کبھی نظام قائم نہیں کرتی. نظام کا قیام اس کے پیش نظر ہوتا ہی نہیں.

اس کے برعکس انقلابی تبلیغ کسی نظام کو برپا کرنے کے لیے ہوتی ہے. اس کی مثال ہمارے سامنے اشتراکی تبلیغ ہے. ایک اشتراکی اپنی جدوجہد اور تبلیغ کے ذریعے اپنے نظریات کو پھیلاتا ہے، لوگوں کو اپنا ہم خیال بناتا ہے، اپنا لٹریچر پھیلاتا ہے، غزلوں، نظموں، افسانوں اور بہت سے ذرائع سے وہ اپنے فکر کو پھیلانے کے لیے جدوجہد کرتا ہے پھر اس فکر کو قبول کرنے والوں کو منظم کرتا ہے، اس لیے کہ اس کے پیش نظر انقلاب برپا کرنا ہے. اس کے پیش نظر ایک نظام ہے جسے وہ سمجھتا ہے کہ صحیح اور بہترین نظام ہے. وہ غلط سمجھتا ہے یا درست، اس سے قطع نظر وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ یہ وہ نظام ہے جو عدل پر مبنی ہے. وہ اس نظام کو برپا کرنے کے لیے تبلیغ کر رہا ہے. تو اس انقلابی تبلیغ میں اور اس مذہبی تبلیغ میں زمین و آسمان کا فرق ہے. حضرت محمد کی تبلیغ کو آپ دیکھیں گے تو اس میں آپ کو دونوں پہلو نظر 
آئیں گے.اللہ کی طرف دعوت بھی ہے، توحید کے عقیدے کی دعوت بھی ہے اور اقامت ِ دین کی جدوجہد بھی ہے، نظام کوبدلنے کی سعی و کوشش بھی ہے. چنانچہ آگے چل کر جب ہم اس سورۂ شوریٰ کی اگلی آیات زیر بحث لائیں گے تو ان میں ہمیں دعوتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا یہ ہدف ملے گا: فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ’’(اے محمد !) پس آپ اسی کی دعوت دیجئے.‘‘ یہاں فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ نہایت غور اور توجہ چاہتا ہے.دعوت کس چیز کی؟ دعوت اقامت دین کی… اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ کی دعوت، دین کو بالفعل قائم کرنے کی دعوت. صرف عقیدے کی دعوت نہیں. ٹھیک ہے، نماز، روزے اور دوسرے نیکی کے کاموں کی دین میں بڑی اہمیت ہے، لیکن ان سب سے جو چیز مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی توحید کو اجتماعی نظام پر قائم کرنے کے لیے ان سے مدد حاصل کی جائے: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ ’’اے ایمان والو! مدد حاصل کر و (اللہ کی راہ میں مشکلات پر) صبر سے اور نماز سے.‘‘ آگے جہاد فی سبیل اللہ کی جو چوٹی ہے، یعنی قتال فی سبیل اللہ… اس کے اعلیٰ و ارفع مقام کا ذکر ان الفاظ مبارکہ سے کرد یا گیا: وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾ صبر و صلوٰۃ سے مدد کس مقصد کے لیے حاصل کرنی ہے! وہ مقصد ہے اقامت ِ دین کی جدوجہد!!

اسی کے متعلق نبی اکرم سے فرمایا گیا: 
فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ 
’’ پس (اے نبیؐ !) اسی کی دعوت دیجیے، اور جس چیز کا آپؐ کو حکم ہوا ہے اس پر جم جایئے او ران (مشرکوں) کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے.‘‘
یہ ہے اقامت دین 
اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ 

تفرقہ کیا ہے؟

ایک لفظ ہے تفرقہ یا تفریق اور ایک ہے اختلاف. ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے. اختلاف بالکل نیک نیتی سے بھی ہو سکتا ہے. اختلاف جزوی ہوتا ہے. اختلاف کی وجہ سے یہ نہیں ہوتا کہ من دیگرم تو دیگری. جبکہ تفرقہ یہ ہے کہ ایک دوسرے سے کٹ جائیں، آپس میں پھٹ جائیں، ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں. اختلاف تو امام ابوحنیفہ سے کیا امام شافعی نے ( علیہما السلام)… امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے بعض فتاویٰ سے اختلاف کیا ہے خود امام موصوف کے شاگردوں نے . امام محمد رحمہ اللہ علیہ اور امام قاضی ابویوسف رحمہ اللہ علیہ نے بعض مسائل میں امام صاحب رحمہ اللہ علیہ کی آراء سے اختلاف کیا. ایک امام دوسرے امام کی رائے، تعبیر اور فتویٰ سے اختلاف کر سکتا ہے. ایک شاگرد اپنے استاذ کی رائے سے اختلاف کر سکتا ہے. ان سب کی نیتیں نیک ہیں، مبنی براخلاص ہیں. یہ سب دین الٰہی کا حکم اور اس کی منشاء قیاس اور اجتہاد کے ذریعے سے معلوم کرنا چاہ رہے ہیں. پس اختلاف نیک نیتی سے بھی ہو سکتا ہے. اختلاف کوئی بری شے نہیں ہے. یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسی اختلاف سے دنیا کی رونقیں ہیں. چنانچہ ذوق نے کہا ہے: ؎

گلہائے رنگا رنگ سے ہے رونق چمن
اے ذوق اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے!

ایک گلاب کا پودا ہے، اس میں جو پھول لگتے ہیں وہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے. ہر ایک کا رنگ اور انداز جدا جدا ہوتا ہے. اسی طرح اگر ایک ہی طرح کے تمام انسان ہوتے، رنگ ایک، شکل و صورت ایک، ناک نقشہ ایک، تو کتنی اکتا دینے والی یکسانیت (monotony) ہو جاتی. ایک دوسرے کو پہچاننا مشکل بلکہ قریب قریب ناممکن ہو جاتا ہے.

تفریق دین ایک نوع کا شرک ہے

تفرقہ کے متعلق جان لیجیے کہ امت میں تفرقہ اور دین میں تفرقہ کو شرک کے برابر قرار دیا گیا ہے. قرآن کہتا ہے:
 
اِنَّ الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَ کَانُوۡا شِیَعًا لَّسۡتَ مِنۡہُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ 
’’جو لوگ اپنے دین کو پھاڑ دیں (ٹکڑے ٹکڑے کر دیں، اس میں تفرقہ ڈال دیں) اور گروہوں میں بٹ جائیں، یقینا (اے نبیؐ !) ان سے آپؐ کا کوئی تعلق نہیں.‘‘ 

دین کو پھاڑنا کیا ہو گا؟… نظامِ اطاعت کو تقسیم کر دینا. یعنی زندگی کے ایک حصہ میں اللہ کی اطاعت ہو رہی ہے اور دوسرے حصوں میں کسی اور کی اطاعت ہو رہی ہے. کہیں اطاعت ہو رہی ہے شریعت ِ الٰہی کی اور کہیں اپنے نفس کی خواہشات کی، کہیں زمانے کے چلن اور فیشن کی، کہیں برادری کے رواج کی. یہ دین ہی پھاڑ دیا گیا ہے. یہاں 
فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ کے الفاظ نہایت قابل غور ہیں. فَرَّقَ، یُفَرِّقُ، تَفْرِیْقًا آتا ہے پھاڑ دینے، کاٹ دینے، ٹکڑے ٹکڑے کر دینے اور جدا جدا کر دینے کے معانی میں.

دوسرا ہے 
تَفَرُّقْ فِی الدِّیْنِ یعنی خود دین کے معاملے میں متفرق ہو جائیں. دین کے معاملہ میں متفرق ہونے کا تعلق ہے اقامت ِ دین سے. مسلمان فرقوں میں منقسم ہو جائیں تو پھر دین کیسے قائم ہو گا؟ دین کو قائم کرنے کے لیے تو بڑی مضبوط جدوجہد کی ضرورت ہے. بڑی مجتمع قوتوں کی ضرورت ہے. مل جل کر کام کرنا اور زور لگانا ہو گا. آپ تصور کیجیے محمد اور آپ ؐ کے جان نثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محنت، جدوجہد اور ایثار و قربانی کا، جس کے نتیجے میں جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کا دین بالفعل قائم اور نافذ ہوا، جس کی مدح قرآن مجید جگہ جگہ کرتا ہے. سورۃ الفتح میں فرمایا: 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ.... 

’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول  کو بھیجا ہدایت اور دین حق کے ساتھ، تاکہ اس کو پورے جنس دین (نظامِ اطاعت و نظام حیات) پر غالب کر دیں. اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے. محمد( ) اللہ کے رسول ہیں اور ر جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر نہایت سخت اور آپس میں نہایت رحیم ہے.‘‘

یہ شان نہ ہوتی تو دین قائم نہ ہوتا ؎
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن!

اقامت دین کی فرضیت

فرمایا: اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ’’دین کو قائم کرو اور اس معاملہ میں تفرقہ نہ ڈالو.‘‘

تم سب کا مقصود و مطلوب ایک ہو. تم سب کے سامنے یہی ہدف ہو کہ سب سے پہلے تو خود اللہ کا بندہ بننا ہے. یہ ہے انفرادی سطح پر توحید عملی. یہ توحید ہو گی اطاعت کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے. پھر اجتماعی جدوجہد کا آغاز ہو گا دعوت الی اللہ سے اور اس کا منتہا اور مقصود ہو گا کہ پورے نظام اجتماعی پر، ملک پر، پوری قومی زندگی پر اللہ کے دین کو قائم و نافذ کرنا ہے. یہ ہے اقامت ِ دین جو سورۃ الشوریٰ کا مرکزی مضمون ہے.

توحید عملی کے موضوع پر سورۃ الزمر، المؤمن، حم السجدۃ اور الشوریٰ کا گروپ بہت اہم ہے. سورۃ الزمر میں انفرادی سطح پر توحید عملی کا بیان ہوا. اسی کا باطنی پہلو توحید فی الدعاء سورۃ المؤمن میں بیان ہوا. پھر انفرادی سطح سے اجتماعی سطح کی طرف بڑھیں تو دعوت توحید کا یہ مرحلہ سورۂ حم السجدۃ میں ذکر ہوا… اور اجتماعی سطح پر توحید عملی کا ہدف ہے اقامت ِ دین جو سورۃ الشوریٰ میں بیان ہوا.

اللہ تعالیٰ ہمیں اس فیصلہ کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی توانائیاں اور اپنی قوتیں اس توحید عملی پر مرتکز کریں اور انفرادی سطح سے اجتماعی نظام تک اس توحید کو برپا کرنے کے لیے اپنی کمر کس لیں.