سورۃ الشوریٰ کی زیر مطالعہ آیات کو اقامت ِ دین کے موضوع پر قرآن مجید کے ذر وۂ سنام (Climax) کی حیثیت حاصل ہے.

شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ میں لَکُمۡ خطاب کی ضمیر ہے اور اس کی مخاطب پوری نوع انسانی ہے، جو کہ امت محمد ہے. قبل ازیں یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ جو لوگ آپ ؐ کی تصدیق کرتے ہیں، آپؐپر ایمان رکھتے ہیں، آپؐ کو اللہ کا آخری نبی و رسول مانتے ہیں، خود کو آپؐ کی ذاتِ اقدس سے منسوب کرتے ہیں وہ امت اجابت ہیں اور باقی تمام انسان امت ِ دعوت ہیں. نبی اکرم  کی بعثت پوری نوعِ انسانی کے لیے ہوئی ہے. حضور کی بعثت سے لے کر تاقیام قیامت جتنے انسان بھی اس دنیا میں آئیں گے وہ سب آپؐ کی امت ِ دعوت میں شامل ہیں. ’’شَرَعَ‘‘ کے معنی ہیں ’’کسی چیز کو مقرر کر دینا.‘‘ ہمارے یہاں عام طور پر استعمال ہوتا ہے یہ ’’شارع عام‘‘ نہیں ہے، یا سڑکوں کے نام ’’شارع‘‘ کے ساتھ رکھے جانے لگے ہیں، جیسے ’’شارع فیصل‘‘ . چونکہ سڑک اور راستہ چلنے کے لیے مقررکیا جاتا ہے اس لیے شارع کہلاتا ہے تو کسی چیز کا تعین اور مقرر ہو جانا ’’شرع‘‘ کا اصل مفہوم ہے شَرَعَ لَــکُمْ.... وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہ کا ترجمہ ہو گا:

’’مقرر کیا تمہارے لیے دین میں سے وہی کچھ جس کی وصیت کی تھی (اللہ نے) نوح علیہ السلام کو اور جس کی وحی کی ہم نے (اے محمد !) آپؐ کی طرف، اور جس کی ہم نے وصیت کی تھی ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو (علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام) کہ دین کو قائم کرو (یا قائم رکھو) اور اس کے بارے میں کسی تفرقہ میں مبتلا نہ ہو جانا.‘‘
’’قائم کرو دین کو‘‘ یا ’’قائم رکھو دین کو‘‘ یہ دونوں ترجمے ہوں گے. یعنی دین قائم ہو تواسے قائم رکھو! قائم نہ ہو تو اس کو قائم کرو!! 

’’اَقِیۡمُوا‘‘ کا لفظ اَقَامَ، یُقِیْمُ، اِقَامَۃً (باب افعال) سے فعل امر جمع مذکر مخاطب ہے. معنی ہوں گے کسی چیز کو کھڑا کرنا یا کھڑا رکھنا. تفہیم کے لیے خیمہ پر قیاس کریں تو اگر خیمہ کھڑا ہے تو کھڑا رکھا جائے گا اور اگر گر گیا ہے تو اسے کھڑا کیا جائے گا… کھڑا ہے اور آندھی آ رہی ہے، طوفان آ رہا ہے، تو اسے کھڑا رکھنے کا اہتمام کرنا ہو گا کہ کھونٹے مضبوط ہوں. رسّوں کو مضبوطی سے تھام کر رکھنا ہو گا کہ کہیں خیمہ گر نہ جائے. پس خیمہ کھڑا ہے تو اسے کھڑا رکھو اور اگر گر گیا ہے تو کھڑا کرو. تو یہ دونوں مفہوم اَقِیۡمُوا کے فعل امر میں شامل ہیں. میں نے یہ دونوں مفہوم اس لیے بیان کیے ہیں کہ تراجم میں اگر یہ لفظی فرق آپ کو نظر آئے تو اس کی وجہ سے پریشان نہ ہو چاہیں کہ ترجمہ ’’کھڑا رکھ‘‘ درست ہے یا ’’کھڑا کرو‘‘… دونوں ترجمے درست ہیں. دونوں مفاہیم اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ میں موجود ہیں. ’’دین کو قائم رکھو یا قائم کرو.‘‘

قابل غور مقام

آیت کے اس حصہ کے آخر میں فرمایا: وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ 
’’اور اس کے بارے میں کسی تفرقہ میں مبتلا نہ ہو جانا.‘‘یہاں ’’ فِیۡہِ‘‘ کا لفظ بہت اہم ہے، اس کو اچھی طرح سمجھنا ہو گا. اس مقصد کے لیے لفظ ’’دین‘‘ کو ایک مرتبہ پھر اچھی طرح جان لیجیے کہ ’’دین‘‘ کس کو کہتے ہیں اور دین میں تفرقہ کے معانی کیا ہوں گے؟ اگرچہ دین اور تفرقہ کی تشریح پہلے ہو چکی ہے تاہم چونکہ اس سورۂ مبارکہ کا یہ عمود اور مرکزی مضمون ہے، لہذا ایک بار پھر ان کو اچھی طرح سمجھنا اور ذہن نشین کرنا ضروری ہو گا. 

لفظ ’’دین‘‘ کی مزید تشریح

عربی زبان میں دین کا لفظ بنا ہے دَانَ یَدِیْنُ سے. اس کے بنیادی معنی ہیں بدلہ اور جزا و سزا. جیسے سورۃ الفاتحہ میں فرمایا: مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ’’بدلے یا جزا کے دن کا مالک.‘‘ سورۃ الماعون میں فرمایا:اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یُکَذِّبُ بِالدِّیۡنِ ’’کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جو (آخرت کے) بدلہ اور جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے.‘‘ سورۃ الانفطار میں فرمایا: کَلَّا بَلۡ تُکَذِّبُوۡنَ بِالدِّیۡنِ [آیت: ۹’’ہرگزنہیں، بلکہ (تمہارے اعراض کی اصل وجہ یہ ہے کہ) تم بدلہ اور جزا و سزا (کے دن) کو جھٹلاتے ہو.‘‘ قرآن مجید کی ان تین آیات کے حوالے سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ ان میں ’’دین‘‘ کے معنی بدلہ اور جزا و سزا کے ہیں. یہ اس لفظ کا بنیادی مفہوم ہے. اسی معنی میں لفظ ’’دَین‘‘ آتا ہے، جس کے معنی قرض کے ہیں. آپ کسی کو کوئی چیز ہبہ کر دیں تو وہ واپس نہیں لی جاتی. وہ ہدیہ ہے، عطیہ ہے.

لیکن دَین کیا ہوتا ہے؟ آپ نے کسی کو قرض دیا، اب اسے آپ نے واپس لینا ہے. دَین اور دِین میں حروف کا فرق نہیں ہے، دونوں میں د، ی، ن استعمال ہوئے ہیں. فرق پہلے حرف پر زبر اور زیر کا ہے، حروف اصلی ایک ہی ہیں. ہبہ، ہدیہ، عطیہ، آپ اسے جو بھی کہیں، وہ واپس نہیں ملتا، جبکہ اس کے بالمقابل دَین واپس ملتا ہے. لہذا جزا و سزا عمل کا واپس آنا ہے. نیک عمل کا بدلہ جزا کی صورت میں ملے گا. یہ اس عمل کا Return یعنی اس کا واپس آجانا ہے. بدی کی ہے تو سزا کی شکل میں بدلہ ملے گا. یہ بھی اس برے عمل کا واپس آ جانا ہے. پس دین کے اندر بھی یہ بنیادی مفہوم موجود ہے.

لفظ ’’دین‘‘ کا دوسرا بنیادی مفہوم ہے اطاعت. اس کا تعلق بھی بدلہ اور جزا و سزا سے قائم رہتا ہے. ظاہر بات ہے کہ جزا و سزا کسی قانون کے تحت ہی دی جاتی ہے. جنگل کا قانون ہو تو دوسری بات ہے، لیکن مہذب اور متمدن معاشرے میں جزا و سزا کسی قانون کو مستلزم ہے کہ قانون کے مطابق کام ہو رہا ہو تو جزا اور تحسین ملے اور اگر اس کے خلاف کام ہو رہا ہو تو سزا اور نفرین ملے. پھر اس کے ساتھ کسی ایسی ہستی کا تصور لازماً ہو گا جو قانون دینے والی ہو، جس کی اطاعت کی جائے تو جزا ملے 
اور اس کی نافرمانی کی جائے تو سزا ملے… لفظ دین کے یہ بنیادی مفاہیم ہیں. ایک شاعر کا ایک مصرعہ ہے: 

دِنَّاھُمْ کَمَا دَانُوْا 
’’جیسا انہوں نے ہمارے ساتھ کیا تھا اس کا ہم نے بھرپور بدلہ لے لیا.‘‘ 

اسی طرح عربی کاایک مقولہ ہے: 
کَمَا تَدِیْنُ تُدَانُ. اس کے معنی بالکل وہی ہیں جو اردو کے اس محاورے کے ہیں ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے.‘‘ ہندی میں اسے ’’کرنی کا پھل‘‘ کہا جاتا ہے.

ان بنیادی مفاہیم کی توضیحات سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ ’’دین‘‘ کے اساسی معنی ہوئے جزا و سزا کی شکل میں کسی قانون اور ضابطہ کے تحت بدلہ، جبکہ کوئی ہستی جو قانون دینے والی ہو اس کی اطاعت ہو تو جزا ملے، نافرمانی ہو تو سزا ملے.

قرآنی اصطلاحات

یہ بات تو ہم سب کو معلوم ہے کہ عربی زبان تو نزولِ قرآنِ حکیم سے پہلے موجود تھی. اس عربی مبین میں قرآن نازل ہوا. پس عربی ہی کے الفاظ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز کے لیے چن لیا اورمعتدبہ الفاظ کے مفاہیم و معانی میں وسعت دے کر اصطلاحات کی شکل عطا فرما دی. جیسے لفظ صلٰوۃ پہلے بھی تھا، زکٰوۃ پہلے بھی تھا، صوم پہلے بھی تھا، لیکن جب ان الفاظ نے قرآنی اصطلاحات کی شکل اختیار کی تو اب ان الفاظ کو جب اصطلاحاً بولا جائے گا تو اس کے معنی و مفہوم وہی پیش نظر رہیں گے جو قرآن مجید میں اصطلاحات کی صورت میں ان میں شامل کیے گئے ہیں. اسی طرح لفظ ’’دین‘‘ کو قرآن مجید نے اپنی اہم اصطلاح بنایا. اس اصطلاح کا مفہوم یہ ہو گا کہ:

’’کسی ہستی کو مطاعِ مطلق مان کر اس کی کامل اطاعت کے اصول پر جو نظامِ زندگی بنے گا وہ اس ہستی کا دین قرار پائے گا.‘‘

غور فرمایئے کہ جہاں بھی کوئی نظام ہو گا وہاں پہلے یہ طے ہو گا کہ کون ہے مطاعِ مطلق اور مختارِ مطلق؟ کون ہے اصل قانون ساز؟ کون ہے حقیقی مقنن؟ یہ طے ہو جانے کے بعد اس کی اطاعت کے اصول پر پورا نظام بنے گا اور قوانین مدون ہوں گے. اس کے جو احکام ہوں گے ان ہی کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کے 
معاملات چلائے جائیں گے. اس طرح جو نظام بنے گا وہ اس ہستی کا دین ہو گا.

چنانچہ بادشاہی نظام کیا ہے! بادشاہ حاکم مطلق 
(Sovereign) ہے. حاکمیت اس کی ہے، اس کی زبان سے نکلا ہو الفظ قانون ہے. لہذا اس اصول پر جو نظام بنے گا اسے کہیں گے دین الملک، یعنی بادشاہ کا نظام. یہ لفظ قرآن مجید میں اس موقع پر سورۂ یوسف میں آیا ہے جب حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائی بن یامین کو روکنا چاہتے تھے، لیکن وہاں بادشاہی قانون نافذ و رائج تھا جس کے تحت ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ تھا… حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے بادشاہ نہیں تھے، بعض لوگوں کو یہ مغالطہ ہو گیا ہے، بلکہ اس حکومت میں بہت بڑے عہدے پر تھے. وزیر خوراک کہہ لیں، وزیر خزانہ کہہ لیں. خود حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ سے کہا تھا: 

اجۡعَلۡنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرۡضِ ۚ اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۵﴾ 
[یوسف: ۵۵
’’ملک کے خزانے میرے سپرد کر دو،(میں ان کا صحیح انتظام کروں گا) میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں.‘‘

تو معلوم ہوا کہ حضرت یوسف علیہ السلام ایک بہت بڑے عہدے دار تھے، چیف سیکریٹری کہہ لیجیے، لیکن بادشاہ تو نہیں تھے. بادشاہِ وقت کے خواب کی تعبیر بتا کر آپؑ جیل خانے سے رہا ہوئے تھے. چونکہ وہاں شاہی نظام تھا، لہذا اس کی رو سے بلا کسی سبب کے کسی غیر ملکی 
(Foreigner) کو روک لینا ممکن نہیں تھا. لہذا ایک خاص شکل اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیدا فرمائی. چنانچہ فرمایا: 

کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ ؕ مَا کَانَ لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ فِیۡ دِیۡنِ الۡمَلِکِ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ (یوسف:۷۶)
’’اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر فرمائی (ان کے لیے اپنے بھائی کو روکنے کے لیے ایک سبب پیدا فرما دیا)، اس (یوسف) کے لیے بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) کے تحت اپنے بھائی کو پکڑنا ممکن نہ تھا، الا یہ کہ اللہ ہی نے ایسا چاہا.‘‘

قرآن کے حوالے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ بادشاہی نظام کو بھی قرآن 
’’دین‘‘ کہتا ہے، مگر یہ ’’دینُ المَلِک‘‘ کہلاتا ہے.
موجودہ دَور میں دنیا جمہوریت کی دیوانی ہے. دیکھئے دین الملک اور دین اللہ تو قرآنی اصطلاحات ہیں، البتہ دین جمہور کی اصطلاح ہمیں قرآن و حدیث میں نہیں ملتی. چونکہ اس وقت جمہوریت کا زمانہ نہیں تھا، اس کا تصور موجود نہیں تھا، لہذا جو چیز عوام کے ذہن اور ادراک میں تھی ہی نہیں، جس کا چلن تو ایک طرف رہا تصور تک موجود نہیں تھا، اس کو قرآن و حدیث میں لا کر لوگوں کے ذہن پربوجھ نہیں ڈالا گیا، البتہ دو انتہائیں بیان فرما دیں: دین الملک اور دین اللہ. اب اس کے درمیان آپ خود خانہ پری کریں. ’’ایں قدر گفتیم باقی فکر کن‘‘ کے مصداق آپ کو اوّل و آخر بتا دیا گیا، درمیانی کام آپ خود کیجیے. نظام جمہوریت کے اصول و مبادی چونکہ وہی ہیں جو دین الملک اور دین اللہ کے ہیں تو ان پر قیاس کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ جمہوریت فی الواقع ایک دین ہے.

ہوا یہ ہے کہ جب مذہب کو انسان کی زندگی کا محض ایک نجی معاملہ 
(Private Affair) بنا دیا گیا اور ملوکیت کا دور قریباً ختم ہوا تو ضرورت محسوس ہوئی کہ نظام کے لیے انسانی ذہن کوئی راہ تلاش کرے اور کوئی اصول وضع کرے. لہذا طے کیا گیا کہ ہر ملک کے رہنے والے اپنے ملک میں Sovereign ہیں. حاکمیت جمہور کی یعنی عوام کی ہے. قانون سازی اور نظام کی ہیئت، اس کے اصول و مبادی طے کرنے کا اختیار بالکلیہ عوام کو حاصل ہے. ان کے منتخب کردہ نمائندے پارلیمان یا اسمبلی میں اکثریت رائے سے ہر نوع کا قانون بنانے کے مجازو مختار کل ہیں. ان کے لیے کسی آسمانی شریعت و ہدایت اور کسی اخلاقی قدر کی پابندی کی ضرورت نہیں. ان کے نزدیک فیصلہ کن اور حتمی و قطعی بات اپنے عوام کی پسند و ناپسند ہے. عوام کا منتخب ایوان مجاز ہے کہ اکیاون فیصد اکثریت سے جو چاہے قانون بنائے. وہ چاہے تو ہم جنسی جیسے مکروہ فعل کو بھی جائز قرار دے.

پارلیمان چاہے تو شارع عام پر، پارکوں میں، کلبوں میں، ڈراموں میں، اسٹیج پر جنسی فعل اور اختلاط کو جائز قرار دے دے ، جیسا کہ یورپ کے اکثر ممالک اور امریکہ کی اکثر ریاستوں میں اس فحاشی پر کوئی قدغن نہیں، بلکہ اس شیطانی فعل کو قانونی تحفظ حاصل ہے… وہ چاہے تو شراب نوشی، قمار بازی، سٹہ، لاٹری اور اسی قبیل کے منکرات کو تفریح یا ضرورت کا نام دے کر قانونی طور پر جائز قرار دے دے، جیسا کہ دُنیا کے اکثر ممالک میں عملاً یہ ہو رہا ہے. یہ ہے اصل جمہوریت جس میں جمہور کے نمائندوں کو قانون سازی کے لا محدود اختیارات حاصل ہیں. ان پر کوئی تحدید (Limitation) نہیں ہے. چونکہ جمہوریت میں اصل حاکمیت (Sovereignty) عوام کی ہے، لہذا اسمبلی ان عوام کی نمائندگی کرتی ہے. 

اسلامی جمہوریہ کی بات چھوڑ دیجیے. اوّل تو فی الوقت صحیح معنوں میں یہ کہیں قائم ہی نہیں. اگر ہو گی تو ظاہر بات ہے کہ اس میں دستور ساز اسمبلی 
(Legislative Assembly) یا پارلیمنٹ کو اس محدود دائرہ میں قانون سازی کا اختیار حاصل ہو گا جو اللہ اور اس کے رسول نے ان کے لیے چھوڑ رکھا ہے. اس میں بھی وہ شریعت کے کسی حکم سے نہ تجاوز کر سکتے ہیں نہ اعراض… پارلیمنٹ کو لامحدود (unlimited) اختیارات کسی طور پر حاصل نہیں ہوں گے. 

جب اللہ کو مان لیا جائے کہ مطاعِ مطلق وہ ہے، حاکمیت مطلقہ اس کی ہے، بادشاہِ حقیقی صرف وہ ہے تو پھر قانون دینے کا اصل مجاز وہی ہے، شارعِ حقیقی وہی ہے، رسول اس کے نمائندے کی حیثیت سے ہیں، لیکن اصلاً حکومت اللہ کی ہے، مطلقاً اطاعت اس کی ہے، اور یہ اطاعت بواسطہ رسول اللہ ہو گی. اس بات کو قرآن مجید میں واضح طور پر فرما دیا گیا کہ:. 
مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی.‘‘ یہاں الرسول سے مراد ہیں جناب محمد . ایک جگہ فرمایا: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ’’اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا کہ اذنِ الٰہی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے.‘‘

اس آیت میں قاعدہ کلیہ کے طور پر یہ بات آ گئی ہے کہ 
اللہ کی اطاعت کا واسطہ رسول ہی ہوا کرتے ہیں.
قرآن حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی حاکمیت مطلقہ کا مختلف اسالیب سے بیان ہوا ہے. یہاں ان سب کا احصاء ممکن نہیں، لہذا چند آیات پیش ہیں. سورۂ یوسف میں ایک جگہ حضرت یوسف علیہ السلام کی زبان سے کہلوایا گیا: 

اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ... [یوسف: ۴۰
’’فرمان روائی اور حکم دینے کا اختیار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے. اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو. یہی سیدھا طریق زندگی ہے.‘‘

اسی سورۂ یوسف میں دوسرے مقام پر حضرت یعقوب علیہ السلام کی زبان سے ادا کرایا گیا: 

اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ ۚ وَ عَلَیۡہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُتَوَکِّلُوۡنَ [یوسف: ۶۷
’’حاکمیت اللہ کے سوا کسی کی نہیں، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور جس کو (کسی پر) بھروسہ کرنا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ ہی پر بھروسہ کرے.‘‘

سورۃ الانعام میں ایک دوسرے انداز سے اس بات کا اظہار فرمایا گیا کہ: 

اَلَا لَہُ الۡحُکۡمُ ۟ وَ ہُوَ اَسۡرَعُ الۡحٰسِبِیۡنَ [الانعام: ۶۲
’’ آگاہ ہو جاؤ! حقیقی حاکمیت اللہ ہی کی ہے اور وہ حساب لینے میں بڑا تیز ہے.‘‘ 

لَہُ الۡمُلۡکُ قرآن مجید میں متعد د بار آیا ہے. مزید برآں یہ مضمون مختلف اسالیب سے قرآن مجید میں بار بار آیا ہے کہ وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اور لَہُ الۡمُلۡکُ ... یہاں دونوں جگہ جو حرفِ جار لام آیا ہے یہ لام تملیک بھی ہے اور لام استحقاق بھی… یعنی De-Facto and De-jure اسی کی بادشاہت ہے. اور یہ بادشاہت دنیا کے عام بادشاہوں کی طرح نہیں ہے، بلکہ اس شان سے ہے کہ وہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے: 

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرُۨ ۙ﴿۱﴾ ’’نہایت بزرگ وبرتر و بالا ہے وہ ہستی (اللہ) جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) حکومت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے.‘‘ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، اس کے آڑے آنے والا کوئی نہیں ہے.

اللہ کی حاکمیت مطلقہ پر جو نظام بنے گا وہ دین اللہ ہو گا. آخری پارے کی مختصر سورت سورۃ النصر میں یہ اصطلاح آتی ہے:
اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾ (آیت: ۱،۲

’’(اے نبیؐ !) جب اللہ کی مدد آ گئی اور فتح نصیب ہو گئی تو آپ ؐ نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج درفوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں.‘‘

ان آیات میں فتح مکہ کے بعد کا نقشہ کھینچا گیا ہے جب جزیرہ نمائے عرب کے چہار اطراف سے قبائل مدینہ النبیؐ میں چلے آرہے تھے، اللہ کو اپنا مالک اور آقا اور جناب محمد رسول اللہ کو بحیثیت رسول اور اللہ کا نمائندہ تسلیم کر رہے تھے، آپ کا ہر حکم ماننے کے لیے آمادہ تھے اور جوق در جوق اسلام (دین اللہ) میں شامل ہو رہے تھے.

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو عمل کی جو تھوڑی سی آزادی دی ہے اور اسے یہ اختیار دیا ہے کہ: 

اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا 
’’چاہے شکر گزار بندہ بن کر رہے چاہے ناشکرا‘‘ 

تو اللہ کا مطالبہ یہ ہے کہ اپنی آزاد مرضی سے انسان اللہ کا مطیع، فرماں بردار، اطاعت گزار بن کر رہے اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر گوشے میں اسی کی ہدایت پر عمل پیرا ہو. یہ ہے لفظ ’’دین‘‘ کا حقیقی مفہوم اور 
مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ کا اصل تقاضا.

ہر دین غلبہ چاہتا ہے

جب یہ بات واضح ہو گئی کہ ’’دین‘‘ اس نظام زندگی کو کہتے ہیں جس میں انفرادی سے لے کر اجتماعی زندگی تک کلی زندگی ایک مطاع کی اطاعت کے تابع ہو تو ایک حقیقت مزید سمجھ لیجیے کہ ہر ’’دین‘‘ اپنی فطرت کے اعتبار سے یہ چاہتا ہے کہ وہ قائم ہو اور غالب ہو. بادشاہ کا دین قائم ونافذ ہو تو بادشاہ کا دین کہلائے گا، بادشاہ مغلوب ہو گیا تو پھر بادشاہ کا دین کہاں رہا! وہ تو ختم ہوا. جب تک بادشاہت قائم ہے اس وقت تک دین الملک ہے، ورنہ نہیں… سورۃ الزخرف میں دیکھئے جہاں فرعون کا قول نقل ہوا ہے، اس نے اپنی قوم کو منادی کرائی: 

وَ نَادٰی فِرۡعَوۡنُ فِیۡ قَوۡمِہٖ قَالَ یٰقَوۡمِ اَلَیۡسَ لِیۡ مُلۡکُ مِصۡرَ وَ ہٰذِہِ الۡاَنۡہٰرُ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِیۡ ۚ [الزخرف: ۵۱’’اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کرائی اور کہا ’’اے میری قوم کے لوگو! کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے؟ اور کیا یہ سارا آب پاشی کا نظام میرے اختیار میں نہیں ہے؟‘‘ یعنی میں جس کو چاہوں پانی دوں اور جس کے لیے چاہوں پانی روک لوں. پھر سورۃ البقرۃ میں اس محاجہ کو دیکھئے جو نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا تھا: اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡ حَآجَّ اِبۡرٰہٖمَ فِیۡ رَبِّہٖۤ اَنۡ اٰتٰىہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ ۘ ’’(اے نبیؐ !) کیا آپ نے اس شخص (نمرود) کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم( علیہ السلام ) سے جھگڑا کیا تھا ان کے رب کے بارے میں، اس بناء پر کہ اللہ نے اسے حکومت دے رکھی تھی.‘‘ اس حکومت کی بنیاد پر اس کو زعم ہو گیا تھا کہ مختار مطلق اور علی الاطلاق حاکم و بادشاہ وہ ہے. وہ بھی خدائی کا مدعی تھا. اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحۡیٖ وَ اُمِیۡتُ ’’جب حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) نے اس سے کہا کہ میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے.‘‘ تو وہ سرکش بولا: ’’زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے.‘‘ روایات میں آتا ہے کہ اس نے دو قیدی جیل سے بلوائے، ان میں سے ایک کو آزاد کیا کہ جاؤ تم بَری ہو اور دوسرے کی دربار ہی میں گردن اڑا دی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا دیکھو میں نے ایک کو زندہ رکھا اور ایک کو مروا دیا، تو میرے پاس زندگی اور موت کا اختیار ہوا کہ نہیں؟

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ یہ تو کج بحثی پر اتر آیا ہے تو انہوں نے آخری بات کہہ دی کہ: فَاِنَّ اللّٰہَ یَاۡتِیۡ بِالشَّمۡسِ مِنَ الۡمَشۡرِقِ فَاۡتِ بِہَا مِنَ الۡمَغۡرِبِ ’’میرا رب تو وہ ہے جو سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے، تو ذرا اسے مغرب سے نکال لا.‘‘ اگر تجھے واقعی اختیار حاصل ہے تو یہ کر کے دکھا. اس بات پر وہ کافر مبہوت، حیران اور ششدر ہو کر رہ گیا. فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ وہ لاجواب ہو گیا، بغلیں جھانکنے لگا. جس طرح نمرود نے کہا تھا کہ زندگی اور موت میرے قبضہ میں ہے، اسی طرح فرعون نے کہا تھا کہ آب پاشی کا نظام اور حکومت کا انصرا م میرے ہاتھ میں ہے. اَلَیۡسَ لِیۡ مُلۡکُ مِصۡرَ وَ ہٰذِہِ الۡاَنۡہٰرُ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِیۡ ... لہذا میرا حکم چلے گا. تو جب تک اس کا حکم چل رہا ہے تو یہ اس کا دین ہے، یہ نہیں تو دین کہاں رہا! ختم ہو گیا. اسی طرح جب جمہور کو انتخاب کا حق حاصل ہے اور وہ اپنے نمائندوں پر مشتمل پارلیمان یا اسمبلی منتخب کرتے ہیں اور یہ منتخب پارلیمان جمہور کی حاکمیت کے اصول پر کاروبارِ حکومت چلاتی ہے تو جمہوریت بالفعل قائم ہے، لیکن اگر کوئی فوجی سربراہ اپنے ساتھیوں کے تعاون سے اسمبلی یاپارلیمنٹ کو توڑ دے اور مارشل لاء نافذ کر کے بحیثیت چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر حکومت کا انتظام و انصرام اور جملہ اختیارات سنبھال لے تو جمہوریت کہاں رہی! دین جمہور ختم ہو گیا، اس لیے کہ نظام تووہی ہے جو بالفعل قائم ہو اور واقعتا اس کے اختیارات کا سکّہ چل رہا ہو. بالکل اسی طرح دین اللہ قائم و نافذ اسی وقت سمجھا جائے گا جب امر واقعہ میں وہ نظام قائم ہو جس میں بالفعل اللہ ہی کو حاکم مطلق مانا گیا ہو اور مطاعِ مطلق فی الحقیقت اللہ ہی کو تسلیم کیا گیا ہو، اسی کے احکام کے آگے سب کے سر جھکے ہوئے ہوں اور عملاً صورتِ حال یہ ہو کہ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ الْعُلْیَا کہ اللہ کا کلمہ سب سے اونچا ہو جائے، اللہ کی بات، اس کا فرمان بالاترین ہو جائے اوریہ ہو پورے نظامِ زندگی پر … جزوی نہیں، کل کا کل نظام اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت میں جکڑا ہوا ہو.

کامل غلبہ درکار ہے

پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ انفرادی توحید جزوی مطلوب نہیں ہوتی، بلکہ کلی مطلوب ہوتی ہے. 
فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ؕ﴿۲﴾اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ 
’’پس بندگی کرو اللہ کی‘ اطاعت کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے. اور آگاہ ہو جائو کہ اللہ کے لیے تو دین خالص مطلوب ہے.‘‘

اسی طرح اجتماعی توحید بھی کلی مطلوب ہے. اللہ اس بات کے لیے تیار نہیں ہے کہ آدھا دین میرا مان لو‘ کچھ اطاعت میری کر لو اور آدھا دین کسی اور کا مان لو‘ اس کی اطاعت بھی کر لو. یہ طرزِ عمل درکار 
نہیں ہے. اللہ کا مطالبہ تو یہ ہے کہ کل کا کل دین‘ کامل اطاعت اسی کے لیے خالص ہو جائے اور دین میں انسان پورا کا پورا داخل ہو جائے. اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّۃً ’’ فرماں برداری میں (دین میں) پورے کے پورے داخل ہو جاؤ.‘‘ چنانچہ سورۃ الانفال میں جوبتایا گیا ہے کہ قتال کی آخری منزل کیا ہے؟ جہاد و قتال فی سبیل اللہ کا آخری ہدف کیا ہے! فرمایا: وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہ [الانفال: ۳۹’’(اے مسلمانو!) ان (کافروں اور مشرکوں) سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ و فسادبالکل فرو ہو جائے اور دین کل کا کل اللہ کے لیے ہو جائے.‘‘

یہ نہیں کہ اس کا کوئی جزو مان لیا جائے. مسجد میں تو اللہ کی مرضی چل رہی ہو‘ پارلیمنٹ میں نہ چلتی ہو‘ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس اور ماتحت عدالتوں میں نہ چلتی ہو‘ ذرائع ابلاغ میں نہ چلتی ہو‘ بازار میں نہ چلتی ہو‘ منڈی میں نہ چلتی ہو‘ گھر میں نہ چلتی ہو. یہ تو معاذ اللہ تم نے اللہ کو ٹرخا دیا ہے. ایک بڑا ہی جزوی اور چھوٹا سا حصہ تو اس کو دیا ہے‘ باقی سب دوسروں کو الاٹ کردیا.

تفریق دین کی ممانعت

اس آیۂ مبارکہ میں وارد الفاظ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ پر بھی گہرائی میں اتر کر غور کرنا ہو گا. خاص طور پر یہاں فِیْہِ قابل توجہ ہے. فَرَّقَ‘ یُفَرِّقُ‘ تَفْرِیْقًا کے معنی ہیں: ٹکڑے ٹکڑے کر دینا، علیحدہ علیحدہ کرد ینا، پھاڑ دینا. دین ایک وحدت ہے. پورا نظام زندگی، انفرادی بھی اور اجتماعی بھی، ایک وحدت بن کر اللہ کے تابع آ جائے تو یہ ہے دین اللہ. گویا کہ مکمل دین قائم ہو گیا. اگر یہ نہیں ہے، اور حال یہ ہے کہ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ … دین کو پھاڑ دیا‘ کچھ حصہ میں نے لے لیا‘ کچھ آپ نے لے لیا‘ کچھ کسی اور کو دے دیا… دین کے ٹکڑے کردیئے کہ کچھ حصے کو ہم مانیں گے کچھ کو نہیں مانیں گے تو یہ ہے تفریق دین… الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَ کَانُوۡا شِیَعًا لَّسۡتَ مِنۡہُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ ’’(اے محمد !) جو لوگ اپنے (اس) دین کے ٹکڑے کر دیں، (اس کو پھاڑ دیں، اس کے حصے بخرے کر دیں) اور خود تفرقے میں بٹ جائیں تو ایسے لوگوں سے آپؐ کا کوئی تعلق نہیں، (ان سے آپؐ کو کوئی سروکار نہیں)‘‘. لرز جانا اور ڈرنا چاہئے اس وعید سے کہ کس طور پر اللہ عزوجل ایسے لوگوں سے اعلان براء ت فرما رہے ہیں جو اللہ کے اس دین میں، جو تمام انبیاء و رسل کا دین ہے، تفرقہ ڈالنے کی روش اختیار کریں کہ ان سے ہمارے نبی کا کوئی تعلق نہیں ہے. فِیۡہِ میں یہ مفہوم غالب ہے.

اس کا ایک مفہوم اور بھی ہے، وہ یہ کہ اقامت ِ دین کے فریضہ کی ادائیگی کے لیے امت کو بنیانِ مرصوص بن جانابن جانا لازم ہے. فقہی مسائل میں رائے اور تعبیر کا اختلاف دوسری چیز ہے. یہ اختلاف صرف فقہ کے چار مشہو ر و معروف ائمہ کرام امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہم یا اہل سنت کے علماء کرام کے درمیان نہیں ہوا،بلکہ صحابہ عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مابین بھی رہا ہے. یہ فقہی مسالک کے اختلافات اگر اقامت ِ دین کے فریضہ کی ادائیگی میں روک بن جائیں، گروہ بندی ہونے لگے، من دیگرم تو دیگری والا معاملہ ہو جائے تو یہ وحدت ملی ہی کے لیے مہلک نہیں بلکہ اقامت ِ دین کے فریضہ کی انجام دہی میں بھی رکاوٹ بن جائے گا. 
وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ میں اس نوع کے تفرقے سے بچنے کا بھی نہی کے اسلوب میں حکم دیا گیا ہے. فریضہ ٔ اقامت دین کی ادائیگی کے لیے پوری امت کی اجتماعی قوت درکار ہے… دین دُنیا کے صرف ایک حصہ پر قائم کرنا تو مطلوب نہیں، بلکہ پورے کرۂ ارض پر اللہ کا دین قائم کرنے کی جدوجہد کرنی ہے، پوری دنیا کو نورِ توحید سے منور کرنا ہے. گروہ بندی اور تفرقہ بازی کیوں ہوتی ہے! اس کی توجہ کیا ہے! اس کی تصریح و توضیح آگے آئے گی.

فقہی اختلافات حدود کے اندر ہوں تو تفرقہ نہیں

دین ایک ہو، اور وہ ہو دین توحید، اس کے تحت تفصیلی قوانین میں تھوڑا تھوڑا فرق ہو،تعبیر (Interpretation) کا فرق ہو، استنباط کا فرق ہو، اجتہاد کا فرق ہو، لیکن توحید کا اصول سب کے نزدیک ایک ہی ہو تو یہ تفرقہ نہیں. ہمارے تمام فقہاء اور سلفی المسلک ائمہ کے نزدیک اصول ایک ہی ہے کہ حکم دینے کا اختیار صرف اللہ کو ہے اور اس کے نمائندے کی حیثیت اس کے رسول کی ہے. اللہ اور رسول، یہ ہیں اصل ستون جن پر دین قائم ہے وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ [التغابن: ۱۲اس اصول کے تحت مختلف نئے مسائل میں استنباط کیا جا سکتا ہے. ہر مجتہد اور ہر فقیہہ اللہ اور اس کے رسول کے منشاء کے مطابق کسی نئے مسئلہ میں حکم تلاش کر سکتا ہے اور اس میں کچھ نہ کچھ فرق بھی واقع ہو سکتا ہے.

آپ کو معلوم ہے کہ بھٹو صاحب کے خلاف قتل کا مقدمہ جب سپریم کورٹ میں آیا (یہ الگ بات ہے کہ یہ مقدمہ تو پاکستان کی تاریخ کا ایک حصہ بنے گا) تو اس کے باوجود کہ قانون ایک ہی ہے، نئی شہادتیں سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوئیں، وہ تو ہائیکورٹ میں مقدمہ کی جو مثل تیار ہوئی تھی اور اس پر جو فیصلہ ہوا تھا اسی پر بحث و تمحیص اور جرح و تعدیل ہوئی اور اس نوع کے مقدمات کے سابقہ فیصلوں اور نظائر سے استدلال و استشہاد ہوا. پھر مختلف شہادتوں کے مابین تضادات کی نشاندہی کرنے کی کوشش ہوئی. چنانچہ مثل پر جو مختلف شہادتیں ریکارڈ ہوئی تھیں ان میں سے ہر شہادت مین تضاد تلاش کیا گیا. سابقہ فیصلے کے سقم بیان کئے گئے، ان امور پر فریقین کے وکلاء نے بحث کی اور اپنے اپنے دلائل دیئے… اب دیکھئے قانون ایک، ساری مثل ایک، لیکن سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے فیصلہ کرنے کا فیصلہ دیا ان میں سے کسی نے اصول سے اختلاف نہیں کیا. وہ سب قانون کو بھی تسلیم کر رہے ہیں، لیکن شہادتوں سے استنباط و استدلال کر رہے ہیں… پوری دنیا کو معلوم ہے، کوئی یہ نہیں کہتا کہ فیصلہ کرنے والوں نے بدنیتی سے مختلف فیصلے دیئے 
ہیں اور تو اور صرف وہ دو حج ایک قانون کے تحت ایک ہی مقدمہ کو سنتے ہیں تو ان کی آراء میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے.
پس اختلاف شے دگر ہے. لیکن جہاں اصول بدل جائیں گے وہ تفرقہ فی الدین ہو جائے گا. البتہ جب اصول یہ ہو کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول کے تمام واضح احکام یعنی نصوصِ قرآن و سنت کی اطاعت اور فرماں داری کی جائے گی اور صرف اسی دائرے میں رہ کر جو اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کر دیا ہے، معاملات طے کئے جائیں گے تو یہ تفرقہ نہیں ہو گا.

دین ہمیشہ سے ایک رہا ہے

دین ہمیشہ سے ایک ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے. دین جو حضرت آدم علیہ السلام کا تھا وہی دین محمد کا ہے. یہ دین ہے توحید، یعنی اللہ کو ایک مان لینا، اسے وحدہٗ لا شریک لہٗ جان لینا. جب اس توحید کو آپ عملاً انفرادی زندگی میں لے آئیں گے تو وہ ہو گی اللہ کی عبادت، اپنی کل اطاعت کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے… اور اسی توحید کو جب آپ اجتماعی نظام کے ذیل میں لائیں گے تو یہ ہو گا پورے نظامِ زندگی کو اللہ کے حکم کے تابع کر دینا، یعنی دین اللہ کو بالفعل قائم کر دینا اور یہی اقامت ِ دین ہے، بالفاظ مبارکہ: ’’اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ ‘‘.

ایک غلط فہمی کا ازالہ

ہمارے ہاں جو فقہی اختلاف پائے جاتے ہیں ان سب میں اصل الاصول توحید ہی ہے. مسلمات دین سب کے نزدیک مشترک ہیں. سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اطاعت ِ مطلقہ کی سزا وار صرف ذات ِ باری تعالیٰ ہے اور یہ اطاعت بواسطہ ٔ رسولؐ ہو گی. جناب محمد بحیثیت ِ رسول اللہ مطاع ہیں. آپؐ کے احکام، آپ ؐ کے فیصلے، آپؐ کی سنت، آپؐ کے فرمودات واجب اطاعت اور واجب اتباع ہیں. ازروئے آیات ِ قرآنیہ: مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ َ [النساء: .۸۰’’جس نے رسول اللہ کی اطاعت کی پس اس نے اللہ کی اطاعت کی.‘‘ اور

وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا ﴿ؕ۳۶﴾ [الاحزاب: ۳۶

’’کسی مؤمن مرد اور کسی مؤمن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملہ کا فیصلہ کر دیں تو پھر اسے اپنے معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا.‘‘

سورۃ النساء میں فرمایا:
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُم… [النساء: ۶۵

’’(اے محمدؐ !) آپؐ کے ربّ کی قسم! یہ کبھی مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں آپؐ ہی کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں…‘‘

علاوہ ازیں 
اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ کا حکم قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے. اللہ کی اطاعت اور اس کے رسولؐ کی اطاعت دین کے دو ستون ہیں جن پر دین توحید قائم ہے. لہذا تمام فقہاء اور ائمہ دین رحمتہ اللہ علیہم کا دین یہی دین توحید ہے. وہ چاہے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ ہوں، امام مالک رحمہ اللہ علیہ ہوں، امام شافعی رحمہ اللہ علیہ ہوں، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ ہوں، امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ہوں وغیرہم. کتاب و سنت سے استدلال کرتے ہوئے جو تفاصیل طے کی جائیں گی تو بعض مسائل کے استنباط، تعبیر اور بعض میں اجتہاد و قیاس، راجح و مرجوح، افضل و مفضول کی آراء میں اختلاف ہو سکتا ہے اور ہوا ہے. ان ائمہ عظام کے مابین معاذ اللہ دین کے معاملہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے. یہ فقہی مذاہب اور مسالک ہیں. سب کا دین، دین اسلام ہے. مسلکوں کے اختلافات میں کوئی حرج نہیں، سب حق ہیں. لیکن دین میں تفرقہ درست نہیں ہے، یہ تو کفر ہو جائے گا.

اس بات کو اس طرح بھی سمجھ لیجئے اور فرض کیجئے کہ کسی ملک میں غالب اکثریت امام مالک رحمہ اللہ علیہ کے مسلک پر چلنے والوں کی ہے، تو جب وہ اپنے ملک میں اللہ کا دین قائم کریں گے تو وہاں مالکی فقہ رائج ہو جائے گی. کسی جگہ پر احناف کی عظیم اکثریت ہے تو وہ جب اپنے یہاں اللہ کا دین قائم کریں گے تو وہاں فقہ حنفی نافذ ہو گی. وَقِس عَلٰی ذَلِکَ. لیکن فقہ کے اختلاف کے علی الرغم سب کا دین ایک ہی ہو گا اور وہ ہوگا دین اسلام، دین توحید… اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ دین اور شریعت یا دین اور فقہ میں کیا فرق ہے؟ اس پر جمے رہو، اللہ ہی کو مطاعِ مطلق ماننا ہے، اسی کی حاکمیت تسلیم کرنی ہے، اسی کی فرمانبرداری کرنی ہے. اسی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے، اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت پر مبنی اپنا نظام حیات بنانا ہے. یہ ہے اقامت ِ دین، اس کے بارے میں تفریق میں نہ پڑ جانا.