نزولِ قرآن کا پس منظر اور تاویل خاص

اوّلاًقرآن مجید ایک خاص دور میں (۶۱۰عیسوی سے لے کر ۶۳۲ عیسوی تک) جناب محمد رسول اللہ پر نازل ہوا. دوسرے یہ کہ ایک خاص ملک یعنی عرب میں پورا کا پورا قرآن نازل ہوا. تیسرے یہ کہ قرآن مجید کے اوّلین مخاطب محمد رسول اللہ ، پھر آنحضور کے توسط سے اوّلین مخاطب وہی لوگ تھے جو عرب میں آباد تھے. لہذا قرآن حکیم کی ایک تفسیر اس انداز میں کریں گے کہ جب فلاں آیت یا فلاں سورت نازل ہوئی تو اس خاص پس منظر (Immediate Spectacle) اس کا کیا مفہوم سمجھا گیا؟ ہمیں اس آیت یا آیات یا سورت کو اس خاص پس منظر میں رکھ کر غور کرنا ہو گا کہ یہ کب نازل ہوئی! کس مرحلہ پر نازل ہوئی! اس وقت اس کا مفہوم کیا سامنے آیا! اس پر کیا عمل ہوا! یہ ہو گی تاویلِ خاص.

تاویل عام

لیکن قرآن حکیم صرف اس دور کے لیے نازل نہیں ہوا، بلکہ ابد الآباد تک کے لیے ہدایت و رہنمائی ہے. صرف عربوں کے لیے نہیں پوری نوعِ انسانی کے لیے ہے. ھُدًی لِلنَّاسِ ہے. لہذا دوسری تاویل ہو گی تاویل عام… جس کے لیے مفسرین کا اصول یہ ہے کہ الاعتبار لعموم اللّفظ لا لخصوص السّبب. خاص حالات جن میں آیتیں یا سورتیں نازل ہوئیں، ان کو سامنے رکھ کر نہیں، بلکہ الفاظ کو دیکھ کر ان کے عموم سے جو مطلب اخذ کیا جائے گا وہ قرآن مجید کا ابدی مفہوم ومطلب ہو گا. لیکن اس تاویل عام کے لیے ضروری ہے کہ انسان تاویل خاص سمجھ لے. کہیں ایسا نہ ہو کہ عام تاویل میں قرآن کے منشاء سے بہت دور چلا جائے. اس کا امکان ہے اور غالب امکان ہے. لہذا پہلے تاویل خاص کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے. پھر یہ کہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اس سے جو عام اصول نکل رہے ہوں یا استنباط کئے جا سکتے ہیں تو ان کو پلے باندھ لینا چاہئے کہ یہ ہے قرآن مجید کی ابدی رہنمائی… یہ ربط و تعلق ہے تاویل خاص اور تاویل عام کا.

اب تاویل خاص کے اعتبار سے اس پس منظر کو دیکھئے کہ جب یہ آیت نازل ہو رہی ہے کہ اے محمد کے مخاطبو! جن تک حضور دعوت توحید پہنچا رہے ہیں، یا اے محمد کے نام لیواؤ! جنہوں نے دعوت توحید پر لبیک کہا ہے، اسے قبول کر لیا ہے، تمہارے لیے ہم نے وہی دین مقرر کیا ہے جو حضرت نوح کو دیا، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ کو دیا (علیہم الصلوٰۃ والسلام) اور جو اب ہم نے وحی کیا ہے محمد( ) کی جانب. اور تمہارا فرض کیا ہے؟

اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ 
’’یہ کہ اس دین کو قائم کرو اور اس کے بارے میں تفرقہ میں نہ پڑو.‘‘

… اب سمجھئے کہ کون کون لوگ اس وقت عرب میں تھے جو نبی اکرم کے مخاطبین تھے.

اوّلین مخاطب مشرکین عرب

سب سے پہلے مخاطب تو مشرکین عرب تھے جو ہدایت ربانی سے بہت دور جا چکے تھے. ان کے پاس کوئی آسمانی ہدایت یا کوئی آسمانی کتاب موجود نہیں تھی. اس کی وجہ یہ تھی کہ اکثر وبیشتر عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں. یہ عرب مستعربہ کہلاتے ہیں. ان میں کچھ عرب عاربہ ہیں، یعنی اصل عرب کے پرانے رہنے والے . اس لیے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تو اصل عرب کے رہنے والے نہیں تھے وہ توحضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے ہیں جن کا اصل وطن تو عراق تھا‘ جنہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو عرب میں آباد کیا تھا. بفحوائے آیت قرآنی : 

رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ... [ابراہیم: ۳۷لہذا خود حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی ذریت عرب مستعربہ کہلاتی ہے. یعنی عرب بن گئے ہیں، اصل عرب نہیں ہیں. یمن وغیرہ سے جو قبائل نکلے وہ اصل عرب ہیں. ان کا تعلق عرب عاربہ سے تھا. ایک تو یہ قبائل ہیں. لیکن ان پر اور عرب کے تمام قدیم قبائل پر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کا اتنا اثر ہوا کہ ان سب لوگوں نے اپنے آپ کو دین ابراہیمی پر ہی قرار دے دیا. حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک لقب حنیف بھی تھا. قرآن میں بھی آنجناب ؑ کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوا ہے. لہذا تمام عرب خود کو ملت حنیفی پر عمل پیرا قرار دیتے تھے اور بنی اسمعیل کہلاتے تھے. پھر یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس نسل میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد نبی کوئی نہیں آیا‘ قریباً ڈھائی ہزاربرس کے دوران کوئی نبی نہیں، کوئی رسول نہیں‘ کوئی کتاب نہیں. 

جبکہ آپ ؑ کی دوسری نسل میں نبی آئے‘ رسول آئے، کتابیں نازل ہوئیں، ہدایت الٰہی کا سلسلہ جاری رہا، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام سے چلی اور جو فلسطین کے علاقے میں آباد ہوئی. حضرت اسحق نبی ہیں، ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت یعقوب نبی ہیں، ان کے بارہ بیٹوں میں سے حضرت یوسف نبی ہیں. چونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا لہذا اب یہ نبی اسرائیل کہلائے. اب نبوت و رسالت کا سلسلہ اسی نسل میں چلتا رہا. ان ہی میں حضرت موسیٰ ہیں، حضرت داؤد ہیں، حضرت سلیمان ہیں،. ان ہی میں سے حضرت عزیز ہیں، حضرت زکریا ہیں، حضرت یحیی ہیں اور بے شمار نبیوں کا سلسلہ ہے جن کا ذکر تورات میں ہے. علیٰ نبینا و علیہم الصلوٰۃ والسلام… اور اس سلسلہ کے آخری نبی و رسول ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کو روح اللہ بھی کہا جاتا ہے.

بعثت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے موقع پر عرب میں عربوں کے یہ دو گروہ عرب مستعربہ اور عرب عاربہ موجود تھے جو اپنے آپ کو حضرت اسمعیل علیہ السلام کی 
طرف منسوب کرتے تھے. وہ دین اور توحید سے بہت دور جا چکے تھے. کہنے کو وہ کہتے تھے کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیرو کار ہیں، لیکن بدترین شرک میں مبتلا تھے. بت پرستی اور ستارہ پرستی ان کے یہاں ہو رہی تھی، فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا ہوا تھا، توحید کی کوئی رمق ان میں باقی نہیں تھی. حضرت ابراہیم علیہ السلام حج کے جو مناسک ان کے یہاں چھوڑ گئے تھے ان میں بھی ردوبدل کر لیا تھا. مادر زاد برہنہ ہو کر طواف کرنے کو بڑی نیکی کا کام سمجھ رہے تھے. نہ معلوم ان کے یہاں اور کیا کیا خرافات آ گئی تھیں! عربوں کے یہ دوگروہ ہیں جن کو قرآن مجید کہتا ہے اُمِّیّٖنَ اور مشرکین. 

دوسرے مخاطبین: اہل کتاب

دوسرا گروہ جو قرآن حکیم کا مخاطب تھا وہ نسل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام سے چلی تھی جن کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے. یہ بھی آگے چل کر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی. ایک وہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے نبیوں کو تو مانتے تھے، لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کرتے تھے. یہ یہود کہلائے. دوسرے وہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی ایمان رکھتے تھے کہ آنجناب ؑ اللہ کے نبی ور سول تھے، البتہ ان کی اکثریت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بھی قرار دے رکھا تھا‘ وہ نصاریٰ (عیسائی) کہلائے… یہ دونوں گروہ بھی عرب میں آباد تھے. یہود کے مدینہ میں تین قبیلے تھے. خیبر میں ان یہود کا بہت بڑا گڑھ تھا، جبکہ نجران میں نصاریٰ آباد تھے.

لہٰذا بعثت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے وقت عرب میں دو جماعتیں تھیں. ایک تو وہ جو دین سے بہت بعید تھی، جاہل تھی، ان کے پاس نہ شریعت تھی، نہ کوئی آسمانی کتاب، اور یہ بدترین شرک میں مبتلا تھی. دوسری جماعت وہ تھی جن کے پاس آسمانی کتاب بھی تھی اگرچہ وہ کافی حد تک محرف ہوچکی تھی اور شریعت بھی تھی. ان کے یہاں علماء تھے، فضلاء تھے، مفتی تھے، قاضی تھے. ان کا سارے کا سارا 
نظام برقرار تھا. اسی طرح نصاریٰ تورات کو بھی مانتے تھے اور ان کے پاس انجیل بھی تھی، گو اس میں بھی کافی تحریف ہو چکی تھی. ان کے یہاں بھی بڑے بڑے علماء تھے، احبار بھی تھے اور رہبان بھی. ان دونوں طبقوں کو ذہن میں رکھیے. اب اس پس منظر میں دعوت ِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جو معاملہ ہو رہا ہے اسے سمجھئے!

دعوت ِ محمدی کی مخالفت

نبی اکرم نے جب دعوت شروع کی اور آپؐ نے دیکھا کہ لوگ اس مطابق فطرت دعوت کو قبول نہیں کر رہے ہیں، ایمان نہیں لا رہے ہیں، مخالف ہو رہی ہے، کشمکش ہو رہی ہے، مٹھی بھر جو سعید روحیں ایمان لے آئی ہیں ان پر تشدد ہو رہا ہے، ان کو شدید ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ اسی مکہ کے رہنے والے اجرائے وحی اور آغازِ دعوت توحید سے قبل آنحضور سے انتہائی محبت کرتے تھے اور آپ کو الصادق اور الامین کے القابات سے پکارتے تھے، وہ تو آپؐ کے قدموں تلے اپنی آنکھیں بچھاتے تھے. لیکن یہ ہوا کہ جب آنحضور نے دعوتِ توحید شروع کی تو وہی مکہ والے جو جان چھڑکتے تھے، اب وہی خون کے پیاسے ہو گئے.

بنو ہاشم کی حمایت

ابوطالب کو نبی اکرم سے نہایت محبت تھی، طبعی اور قلبی محبت. وہ اگرچہ ایمان نہیں لائے تھے لیکن اس محبت کی وجہ سے آنحضور کو ان کی حمایت حاصل تھی. ابوطالب چونکہ بنوہاشم کے قبیلہ کے سردار تھے لہذا قبائلی دستور کے مطابق پورا قبیلہ سردار کے ساتھ تھا. چنانچہ بنو ہاشم کی حمایت حضور کو حاصل تھی جو قریش کا سب سے بااثر قبیلہ تھا. اس لیے قریش کو نبی اکرم کے خلاف کوئی براہِ راست اقدام کی جرأت نہیں ہوئی. قریش جانتے تھے کہ اگر ہم نے محمد( ) کو نقصان پہنچایا تو اس نظام کے تحت بنوہاشم کا پورا قبیلہ خون کا بدلہ لینے کے لیے اٹھ کھڑا ہو گا، چاہے وہ قبیلہ ایمان نہ لایا ہو گا. اس طرح ایک خون ریز خانہ جنگی شروع ہو جائے گی جس کا وہ تحمل نہیں کر سکتے. پورے عرب میں ان کا رعب اور دبدبہ قریش کے تمام قبیلوں کے متحد ہونے کے سبب سے تھا. آپس کی جنگ ان کے لیے بڑی نازک صورت حال پیدا کر دیتی ہے. قریش کو اندیشہ تھا کہ اگر ہمارے مابین تفرقہ ہو گیا تو ہماری ہوا اکھڑ جائے گی. اس لیے وہ آنحضور کے خون کے پیاسے ہونے کے باوجود آپؐ کی جان لینے کی ہمت نہیں کر سکتے تھے، لیکن مخالفت شدید تھی اور طرح طرح سے نبی اکرم اور آپؐ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تکلیفیں پہنچانے کا سلسلہ جاری تھا.

اہل کتاب کا مخالفانہ رویہ

دوسری طرف دعوتِ توحید قبول کرنے کی توقع اہل کتاب سے ہو سکتی تھی کہ چلو قریش تو جاہل ہیں، ان کے پاس کتاب نہیں، شریعت نہیں وحی کا نور نہیں، لیکن اہل کتاب تو وہ لو گ ہیں جن کے پاس کتاب بھی ہے، شریعت بھی ہے، دین کا علم بھی ہے. ان میں وہ لوگ بھی تھے جو نبی آخر الزمان کے منتظر تھے، ان کی بعثت کے لیے دعائیں مانگا کرتے تھے کہ اللہ! تیرے آخری نبی کے ظہور کا وقت کب آئے گا. یہودی کی جب اصل عربوں سے لڑائی ہوتی تھی تو وہ مار کھاتے تھے، پیٹتے تھے. جیسے آپ کو معلوم ہے کہ سرمایہ د ار تو مار کھاتا ہے، جس طرح ہندوستان میں مسلمان چاہے تھوڑے ہوتے تھے، اقلیت میں ہوتے تھے، لیکن جب فساد ہوتا تھا تو بنیا مار کھاتا تھا. یہی معاملہ یہودیوں کا ہوتا تھا، وہ طبعی طور پر بزدل تھے لہذا وہ مار کھاتے تھے. لیکن جب وہ پیٹتے تھے تو کہا کرتے تھے کہ ٹھیک ہے، اس وقت تو ہم تم سے پٹ گئے ہیں، لیکن آخری نبی کے ظہور کا وقت قریب ہے، جب ہم ان کی زیرقیادت تم سے جنگ کریں گے تو تم ہم پر غالب نہیں آ سکو گے… یثرب میں رہنے والے اوس و خزرج کے عرب قبائل کو بھی یہود یہی دھمکیاں دیا کرتے تھے. یہود کی یہی دھمکیاں (جس کو Irony of fate کہیں گے) مدینہ والوں کے ایمان لانے میں سبقت کا ذریعہ بن گئیں. انہوں نے سن رکھا تھا کہ ہمارے یہاں یہود کے بڑے بڑے علماء ہیں، وہ یہ کہا کرتے ہیں کہ آخری نبی کے ظہور کا وقت ہے.

لہذا جیسے ہی رات کی تاریکی میں مکہ کی وادی عقبہ میں مدینے سے آئے ہوئے چھ اشخاص کی نبی اکرم سے ملاقات ہوئی جہاں آپؐ تبلیغ کے لیے گشت فرما رہے تھے، تو آپؐ نے ان کے سامنے توحید پیش فرمائی، ان لوگوں نے ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھا کہ ہو نہ ہو یہ وہی نبی ہیں جن کی بعثت کا یہود ذکر کیا کرتے تھے. لہذا انہوں نے طے کیا کہ ہم سبقت کر کے آپؐ کے ہاتھ پر ایمان لے آئیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہودی سبقت کر جائیں. یہود کی دی ہوئی خبروں کے ذریعہ سے ان چھ حضرات کو تو ہدایت حاصل ہو گئی اور یہ ایمان لے آئے. لیکن یہود کے علماء کا حال وہ رہا جس کے متعلق قرآن مجید کہتا ہے: یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ یہ اگرچہ محمد( ) کو اور قرآن مجید کو اچھی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچاننے ہیں، لیکن اس کے باوجود آنحضور کی دشمنی میں یہود سب سے آگے بڑھ گئے… وجہ یہ تھی کہ ان کا خیال تھا کہ نبی آخر الزمان نبی اسرائیل مین سے مبعوث ہوں گے. اس لیے کہ ڈھائی ہزار برس سے نبوت ہمارے ہاں چلی آ رہی ہے، یہ تار کبھی ٹوٹا ہی نہیں.لیکن ان کی توقع کے خلاف خاتم النبیین والمرسلین کا ظہور بنی اسمعیل میں ہو گیا. یہ بات ان کے لیے بہت بڑی آزمائش بن گئی کہ ہم بنی اسمعیل کے ایک فرد کے آگے کیسے جھک جائیں! وہ تو امی قوم ہے، ان پڑھ قوم ہے، ان میں دین نہیں، ان کے پاس کوئی علم نہیں، کہیں سے فارغ التحصیل نہیں، ان کے پاس کسی دارالعلوم کی سند نہیں، ان کے پاس کسی صاحب علم کی جانب سے کوئی Testimonial نہیں، ہم ان کو نبی کیسے مان لیں! ہم تو پھر بہت گھٹیا ہو جائیں گے، ہماری علمیت، ہماری سیادت، ہماری قیادت ختم ہو جائے گی. ان کا یہ استکبار اور پندار اُن کے قبول حق کی راہ میں آڑے آ گیا.

نبی اکرم کی تشویش

اس پس منظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نبی اکرم اپنی دعوت کے نتیجے کو دیکھ کر تشویش میں ہیں کہ لوگ کیوں ایمان نہیں لا رہے! آخر انہیں کیا ہو گیا ہے! میری دعوت کتنی صاف اور سادہ ہے‘ کتنی مطابق فطرت ہے‘ انسان کی فطرت کی بدیہیات کو اپیل کرنے والی ہے…! پھر کیا وجہ ہے کہ لوگ ایمان نہیں لا رہے ہے؟ اس پس منظر کو پیش نظر رکھیے اور اگلے حصے کو پڑھیے. فرمایا:

کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ [الشوری:۱۳
’’(اے محمد !) بہت بھاری ہے مشرکین پر وہ چیز جس کی طرف آپؐ انہیں بلا رہے ہیں.‘‘
آپ ؐ اسے سادہ بات سمجھ رہے ہیں. حالانکہ دعوتِ توحید ان کے رائج نظام کو درہم برہم اور تلپٹ کر دینے والی ہے ،کیونکہ ان کا پورا نظام شرک پر قائم ہے، ان کے مفادات اس کے ساتھ وابستہ ہیں، ان کی چودھراہٹیں اسی مشرکانہ نظام کی رہین منت ہیں.

مشرکانہ نظام سے وابستہ مفادات

اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ دعوتِ توحید ہزار مطابق فطرت ہو‘ لیکن اس کے جو لوازم‘ مقتضیات اور متضمنات ہیں ان کو وہ لوگ خوب سمجھتے ہیں جو مشرکانہ نظام قیادت و سیادت کے مناصب پر فائز ہوتے ہیں. وہ خوب جانتے ہیں کہ اس دعوت توحید کی ان کے مفادات پر کہاں کہاں ضرب پڑتی ہے! دیکھئے اگر کسی بت کا استھان ہے اور لوگ وہاں آ کر چڑھاوے چڑھاتے ہیں تو کیا وہ بت کے پیٹ میں جاتے ہیں؟ وہ تو مجاوروں کے پیٹوں میں جاتے ہیں. وہاں کے جو پجاری اور Priests ہیں سارے چڑھاوے تو ان کو مل رہے ہیں. کہنے کو وہ بت پر چڑھاوا ہے. اسی طرح پر جو چڑھاوے قبروں پر چڑھائے جاتے ہیں‘ ان کے متعلق آپ نے کبھی سوچا کہ وہ کہاں جاتے ہیں؟ وہ سب مجاوروں اور گدی نشینوں کے پاس جاتے ہیں. وہ تو جب سے محکمہ اوقاف قائم ہوا ہے تو ایسی درگاہوں پر مقفل صندوق رکھ دیئے گئے ہیں کہ نقد نذر و نیاز ان میں ڈالی جائے. لیکن شاید آپ کو معلوم ہو کہ جب محکمہ اوقاف کا نظام زیر ترتیب تھا اسی دوران بڑی بڑی درگاہوں کے جو حضرات پشتی سجادہ نشین تھے‘ وہ ان زمینوں کو جو درگاہوں اور مقبروں کے نام وقف تھیں، اپنے ناموں پر منتقل کرا چکے تھے. گویا اصل دولت تو محکمہ اوقاف کے سرگرم عمل ہونے سے قبل ہی وہاں سے جا چکی تھی. یہ بڑے بڑے پیر جو بڑے بڑے زمیندار اور وڈیرے بنے نظر آتے ہیں، وہ کہاں سے بنے ہیں؟

انہی زمینوں کی بدولت بنے ہیں جو ان مقبروں اور درگاہوں کے نام وقف کی گئی تھیں اور اب وہ ان کی ذاتی ملکیت بنی ہوئی ہیں… پس معلوم ہوا کہ شرک کا پورا نظام ہوتا ہی ہے مفادات کا … اس نظام میں تو صرف اوپر کی دکھاوے کی چیزیں ہوتی ہیں کہ یہ مناد رو مقابر ہیں… یہ دیوتا اور دیویوں کے بت ہیں، یہ اولیاء اللہ کی قبور ہیں. اصل مقصد تو ان ناموں، ان استھانوں اور ان درگاہوں کی آڑ میں قیادت و سیادت اور حصولِ دولت ہوتا ہے. سومنات کے مندر کے اندر جو دولت تھی وہ کس کی ملکیت تھی؟ وہاں کے پجاریوں کی ملکیت تھی! لہذا مشرکین کبھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ نظام توحید قائم و نافذ ہو.

آیت کے اس حصہ کے بین السطور نبی اکرم کو تسلی و تشفی دی جا رہی ہے کہ اے نبی ( )! ٹھیک ہے کہ آپؐ جو دعوت دے رہے ہیں وہ فطرت کے مطابق اور بالکل سیدھی بات ہے… توحید سے بڑھ کر سیدھی بات اور کون سی ہو گی! توحید کے سوا مطابق فطرت بات کون سی ہو گی! توحید سے بڑھ کر مطابق عقل بات کون سی ہو گی! لیکن کسی بات کا مطابق فطرت وعقل ہونا اس کے قابل قبول ہونے کے لیے کافی نہیں. یہاں تو مسئلہ آتا ہے مفادات کا، چودھراہٹ کا، اس بات کا کہ مسند اور سجادہ محفوظ رہتا ہے کہ نہیں! وجاہت اور قیادت پر تو آنچ نہیں آ رہی! اور 
ظاہر بات ہے کہ دعوتِ توحید ان تمام بتوں کو، خواہ وہ مٹی اور پتھر کے ہوں، خواہ مفادات، قیادت اور سیادت کے ہوں، توڑ پھوڑ کر او رملیا میٹ کر کے رکھ دیتی ہے. لہذا مشرکین پر یہ دعوت بہت بھاری ہے. یہ اسے آسانی سے ہرگز برداشت نہیں کر سکتے. لہذا فرمایا:

کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ [الشوری: ۱۳
’’مشرکین پر یہ چیز بہت بھاری ہے جس کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں.‘‘

اضطراب کا فطری سبب

ایک کریم اور شریف النفس انسان جب کہ رسالت کی ذمہ داری بھی اس کے سپرد ہو، یہ سوچتا ہے کہ کہیں میرے اندر تو کوئی نقص نہیں! لوگ جو ایمان نہیں لا رہے تو میری کوشش میں تو کوئی کمی نہیں! میری محنت میں تو کوئی کوتاہی نہیں! دعوت دینے کے میرے انداز میں تو کوئی خامی نہیں! انبیاء و رسل علیہم السلام تو اس بارے میں بے نہایت تشویش میں مبتلا ہوتے ہیں کیونکہ ان کو یہ ضابطہ الٰہی معلوم ہوتا ہے کہ:

فَلَنَسۡـَٔلَنَّ الَّذِیۡنَ اُرۡسِلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَنَسۡـَٔلَنَّ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۶﴾ 
[الاعراف: ۶
’’پس یہ لازماً ہو کر رہنا ہے کہ ہم ان لوگوں سے باز پرس کریں گے کہ جن کی طرف ہم نے رسول بھیجے ہیں اور رسولوں سے بھی پوچھ کر رہیں گے.‘‘

یعنی یہ کہ انہوں نے رسالت کے فرضِ منصبی کو کہاں تک اور کس طرح انجام دیا؟ لہذا حضور کو یہ تشویق ہوتی تھی کہ کہیں میری کوئی کوتاہی نہ ہو جس کے باعث مجھے اللہ کے ہاں جواب دہی کرنی پڑ جائے.

نبی اکرم کی دلجوئی

قرآن مجید میں بار بار نبی اکرم کو مختلف اسالیب سے جو تسلی دی گئی ہے اور آپؐ کی دلجوئی فرمائی گئی ہے وہ اسی لیے کہ آنحضور لوگوں کے ایمان نہ لانے پر تشویش میں مبتلا ہو کر اپنی جان کو نہ گھلائیں: لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۳﴾ [الشعراء: ۳’’اے نبی!) شاید آپؐ (رنج، صدمے، تشویش اور غم میں) اپنی جان کھو دیں گے کہ یہ لوگ ایمان (کیوں) نہیں لاتے.‘‘ حالانکہ حقیقت ہے کہ: 

فَاِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ ﴿۵۲﴾ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِہٰدِ الۡعُمۡیِ عَنۡ ضَلٰلَتِہِمۡ ْ [الروم: ۵۲،۵۳
’’(اے نبیؐ !) آپؐ مردوں کو نہیں سنا سکتے نہ بہروں تک اپنی دعوت پہنچا سکتے ہیں جو پیٹھ پھیر کر بھاگے جا رہے ہوں، اور نہ ہی آپؐ اندھوں کو سیدھا راستہ بتا کر بھٹکنے سے بچا سکتے ہیں.‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جو اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ: 

خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ [البقرہ: ۷’’(ان کے کفر پر اڑے رہنے کے باعث) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کر دی ہے اور ان کے کانوں اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے.‘‘ بظاہر یہ چلتے پھرتے نظر آ رہے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ مر چکے ہیں، ان کی معنوی موت واقع ہو چکی ہے. بظاہر ان کے پاس سماعت بھی ہے، بصارت بھی ہے، لیکن معنوی اعتبار سے یہ بہرے اور اندھے ہیں. یہ چلتے پھرتی مقبرے ہیں، چلتے پھرتے حیوانات ہیں. ان کے اندر کا انسان مر چکا ہے… آپؐ کی تبلیغ و دعوت میں کوئی کمی نہیں ہے، لہذا آپؐ تشویش نہ کریں، آپ ؐ یہ فکر دامن گیر نہ کریں کہ یہ ایمان کیوں نہیں لا رہے!!