اس آیت مبارکہ کے آخری حصے میں علمی اعتبار سے ایک اہم مضمون آ رہا ہے، جسے ذہن نشین کرنا ضروری ہے: 
اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ ﴿۱۳﴾ [الشوری: ۱۳
’’اللہ ہی کھینچ لیتا ہے اپنی طرف جسے چاہتا ہے، اور ہدایت دیتا ہے اپنی جانب اس کو جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے.‘‘
یہ بڑی اہم بات ہے. کسی شخص کے راہِ ہدایت پر آنے کے دو طریقے ہیں. یہ مختلف طبائع اور مزاج کی بات ہو رہی ہے. بعض لوگوں کو تو اللہ ہی فیصلہ کر کے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور بعض لوگ محنت و کوشش کر کے اور رجوع کر کے اللہ کے راستے کی طرف آتے ہیں.

اجتباء

اللہ تبارک و تعالیٰ کی شان یہ بھی ہے کہ وہ چاہے تو کسی راہ چلتے کو بلا لے. حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدین سے مصر جا رہے تھے کہ راستہ ہی سے کھینچ بلایا اور کوہِ طور پر نبوت و رسالت سے سرفراز فرما دیا. آپ ؑ سے کلام فرما دیا: وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوۡسٰی تَکۡلِیۡمًا وہ کلیم اللہ ہو گئے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر سے ننگی تلوار لے کر آنحضور کے قتل کے پختہ ارادے سے نکلے تھے، لیکن راستہ ہی سے ان کا رخ اپنی ہمشیرہ کے گھر کی طرف پھیرنے کے اسباب پیدا فرما دیئے، جو خود اور ان کے شوہر حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہما ایمان لا چکے تھے. بہن کی عزیمت دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دل موم ہوا. کلام الٰہی سننے کی خواہش کی اور سن کر دل کی کایا پلٹ گئی، حجابات دور ہو گئے. وہی ننگی تلوار جو قتل کے ارادے سے لے کر گھر سے نکلے تھے، غلاموں کی طرح گلے میں ڈال کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشرف بااسلام ہو کر جان نثارانِ محمد میں شامل ہو گئے اور دربارِ نبوی سے فاروق کے لقب سے سرفراز ہوئے. رضی اللہ تعالیٰ عنہ واررضاہ. حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا بھی اجتباء ہوا. آنحضور کو مکہ میں دعوت توحید دیتے ہوئے چھ سال بیت گئے تھے. آپؐ کی شدید مخالفت ہو رہی تھی، لیکن حمزہ ان سب سے بے نیاز اپنے مشاغل میں لگے رہتے تھے، جن میں نمایاں شوق تیر کمان لے کر علی الصبح شکار کو نکل جانا اور شام کو واپس آنا تھا. ایک شام جب واپس آئے تو لونڈی نے اس زیادتی کا ماجرا سنایا جو اس روز ابوجہل نے آنحضور کے ساتھ کی تھی. قرابت داری کے جذبے نے جوش کھایا. پہلے تو جا کر کمان سے ابوجہل کا سر پھاڑا اور کہا لو میں بھی محمد( ) پر ایمان لاتا ہوں، پھر حضور کی خدمت میں آ کر فی الواقع مشرف بااسلام ہوئے. رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وَاَرْضَاہُ. اَسَدُ اللّٰہ وَاَسَدُ رَسُوْلِہٖ اور سید الشہداء کے القاب سے ملقب ہوئے.

انابت

دوسری قسم کے لوگ خود ہدایت کے طالب ہوتے ہیں. ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ جو ہدایت کا طالب ہے اسے ہم ہدایت دیں گے. اس نے گویا ہم پر اپنا حق قائم کر دیا. اس لیے کہ وہ خود طالب ہدایت ہے. وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ [العنکبوت: ۶۹جو لوگ ہمارے لیے محنتیں کریں، کوششیں کریں، ہدایت کے طالب بنیں، اس کے لیے قربانیاں دیں ان کے لیے ہمارا پختہ وعدہ ہے کہ ہم انہیں لازماً راستہ کی ہدایت دیں گے… یہی بات یہاں فرمائی کہ:

وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ 
’’اللہ ہدایت دیتا ہے اپنی جانب اس کو جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے.‘‘

جو بھی حق کا طالب اور 
متلاشی ہے، جس کے دل میں بھی انابت ہے، جس میں حق کی طلب صادق ہے، جو کسی تعصب اور عصبیت میں مبتلا نہیں ہے اسے اللہ تعالیٰ راہِ ہدایت دکھاتا ہے اور اس پر اس کو لے آتا ہے. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کی درخشاں مثال ہیں. وہ اپنی فطرت سلیمہ اور طلب ِ حق کی بنیاد پر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مقام ارفع پر فائز ہوئے. عشرہ مبشرہ میں اکثر وہی حضرات ِ گرامی شامل ہیں جو راہِ حق کے ازخود جویا تھے. حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں جو طلب حق میں کہاں سے روانہ ہوئے، کن کن منازل پر ٹھہرے اور پھر کس طرح دامن محمدی سے وابستہ ہوئے! یہ انابت الی اللہ کی درخشاں مثالیں ہیں.

صوفیاء کی دو اصطلاحات: سالک مجذوب اور مجذوب سالک

ہمارے یہاں صوفیاء میں دو اصطلاحیں رائج ہیں. ان کے نزدیک کچھ ہوتے ہیں سالک مجذوب اور کچھ ہوتے ہیں مجذوب سالک. سَلَکَ عربی کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں چلنا… لہذا سلوک کے معنی راستہ کے ہوتے ہیں. اسی طرح طریق اور طریقت بھی چلنے اور راستہ کو کہتے ہیں. ان کے نزدیک سالک مجذوب وہ ہیں جو خود چل کر اللہ کی طرف آتے ہیں اور اللہ ان کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ بھی لیتا ہے، انہیں ہدایت دیتا ہے، اس لیے کہ انہوں نے رجوع کیا ہے… جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، وہ تو پہلے سے حق کے متلاشی ہیں، اسی راستے پر چلے آ رہے ہیں، حقیقت کے دروازے پر وہ بھی دستک دے رہے تھے. یہ الگ حقیقت ہے کہ دروازہ کھلا جناب محمد کے لیے. اسی لیے انہوں نے فوراً تصدیق کی اور حضور کے ہاتھ پر ایمان لے آئے. انہیں تصدیق کرنے میں ایک لمحہ نہیں لگا. حضور فرماتے ہیں کہ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کو میں نے دعو ت پیش کی ہو اور اسے کچھ نہ کجھ تردد نہ ہوا ہو اور اس نے کچھ نہ کچھ توقف نہ کیا ہو، سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وجہ یہ تھی کہ ؎

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا!

دوسرے درجے پر ہیں مجذوب سالک. یہ وہ ہیں جن کو پہلے اللہ تعالیٰ خود ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور انہیں ہدایت دیتا ہے، پھر ان کو تربیت کے مراحل سے گزار جاتا ہے، جیسے عمر اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہما .
یہ مفہوم ہے سالک مجذوب اور مجذوب سالک کا… صوفیاء نے یہ اصطلاحات شاید آیت کے اسی حصہ سے اخذ کی ہیں کہ: 
اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ ’’اللہ جسے چاہے چن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جو خود اس کی طرف رجوع کرے تو اللہ اسے لازماً ہدایت دیتا ہے.‘‘

اہل ایمان کو تسلی

آیت کے اس حصے میں نبی اکرم اور آپؐ کے توسط سے اہل ایمان کے لیے تسلی و تشفی کا پہلو بھی موجود ہے کہ مکہ کے مشرکین کی شدید مزاحمت و مخالفت اور جور و تعدی نیز انتہائی مایوس کن حالات سے دل برداشتہ نہ ہوں… اللہ تعالیٰ راستہ کھولے گا اور وہ تبارک و تعالیٰ کچھ لوگوں کو اپنے دین کی طرف کھینچ لے گا اور ان مشرکین میں جو نیک سرشت ہوں گے‘ جن کی فطرت سلیم ہو گی‘ جن کی عقل سلیم ہو گی‘ جن میں ذرا بھی انابت ہو گی وہ خود چل کر آ جائیں گے. اللہ ان کوبھی راہِ ہدایت سے بہرہ مند فرمائے گا.