اب آگے والی آیت میں دوسری جماعت یعنی اہل کتاب کی مخالفت کے سبب کو اختصار لیکن انتہائی جامعیت و بلاغت سے بیان فرمایا جا رہا ہے. مشرکین عرب تو بے علم تھے، اَن پڑھ تھے، ان کے پاس شریعت نہیں تھی، وحی، نبوت و رسالت اور انزالِ کتب سماوی سے بالکل نا آشنا تھے. ان کے مقابلہ میں یہود اور ان کے علماء و فضلاء تھے. ان کے پاس کتاب بھی تھی اور شریعت بھی، وحی اور انزالِ کتب سماوی سے وہ واقف تھے، سلسلہ نبوت و رسالت سے وہ آشنا تھے، توحید سے وہ روشناس تھے‘ بعث بعد الموت کے وہ قائل تھے، حساب کتاب اور جنت و دوزخ کے وہ اقرار کرنے والے تھے. ان کے لیے تو جناب محمد رسول اللہ کی دعوت توحید میں کوئی اجنبیت نہیں تھی، کوئی نرالی اور انوکھی بات نہیں تھی. وہ تو خود نبی آخرالزمان کے ظہور کے منتظر تھے.

جن کتابوں کو وہ خود آسمانی کتابیں تسلیم کرتے تھے ان میں یہ پیشین گوئیاں موجود تھیں کہ خاتم النبیین والمرسلین کی بعثت فاران کی چوٹیوں اور کھجوروں کے جھنڈ کی سرزمین میں ہو گی. وہیں ان کا ظہور ہو گا جس سے مراد حجاز کے علاقہ کے سوا کوئی دوسرا مقام نہیں ہو سکتا. (۱حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک عیسائی راہب سے یہ اطلاع پا کر ہی حجاز کے لیے عازم سفر ہوئے تھے… پھر یہود اوس و خزرج کو دھمکیاں دیتے تھے کہ آخری نبی کے ظہور کا زمانہ قریب ہے، جب ہم ان کی زیرقیادت تم سے جنگ کریں تو لازماً تم پر غالب آئیں گے. لیکن قرآن شہادت دیتا ہے کہ یہ یہود آنحضور کی مخالفت میں مشرکین سے بھی زیادہ شدید (۱) ممکن ہے کہ اسی وجہ سے یہود کے تین بڑے قبیلے فلسطین اور شام کے علاقے چھوڑ کر مدینہ اور خیبر میں آکر آباد ہوئے ہوں اور اوس و خزرج کے قبیلوں کو نبی آخرالزمان کے ظہور کی خبریں دیتے ہوں. (مرتب)

تھے، اور آپؐ کی دعوتِ توحید کے خلاف قریش اور عرب کے دوسرے قبائل سے ریشہ دوانیوں اور سازشیں کرنے میں مصروف رہتے تھے. فتنہ و فساد کو اکسانے میں پیش پیش رہتے تھے. ان کی مخالفت کے سبب کو اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے.

اس آیت مبارکہ کے بھی 
’’شَرَعَ لَکُمْ‘‘ والی آیت کی طرح دو حصے ہیں، جن کی وضاحت علیحدہ علیحدہ کی جائے گی.
وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ 
’’اور ان لوگوں نے تفرقہ نہیں کیا مگر اس حال میں کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا (بلکہ تفرقہ کا سبب یہ تھا) کہ وہ ایک دوسرے سے زیادہ کریں.‘‘

سیاقِ کلام سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ آیت کے اس حصے میں اہل کتاب کے تفرقہ کا ذکر ہے. اسی آیت کے آخری حصہ میں وراثت کتاب کا ذکر آ رہا ہے. وارث ِ کتاب تو یہودو نصاریٰ ہی تھے. آیت کے اس حصہ میں تفرقہ کا سبب نہایت جامعیت اور بلاغت سے بیان ہو رہا ہے کہ ان اہل کتاب نے جو تفرقہ کیا، وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور منقسم ہو گئے تو اس کا باعث لاعلمی نہیں بلکہ
بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ہے… دیکھئے کتنی عجیب بات ہے، دین و شریعت ایک ہی، یہود و نصاریٰ دونوں تورات کے ماننے والے ہیں، پھر بھی تفرقے میں مبتلا ہیں. پھر تفرقہ در تفرقہ ہے. یہود بھی مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور نصاریٰ بھی، اور ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں، (۱حالانکہ ان کی پوری تاریخ مشترک ہے. آج بھی عیسائی جس کتاب کو بائیبل کہتے ہیں اس کا بڑا حصہ تو ’’عہد نامہ عتیق‘‘(Old Testament) ہے.یہ دراصل تورات اور دوسرے انبیاء بنی اسرائیل کے صحیفوں پر مشتمل ہے. اس کے بعد ’’عہد نامہ جاوید‘‘ (New Testament) ہے، جس میں چار (۱) موجودہ دور میں صرف اسلام دشمنی میں عیسائی ان یہود کے حامی، پشت پناہ اور حلیف بن گئے ہیں، درآنحالیکہ ان کے عقیدے کے مطابق حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھوانے والے یہودی تھے.(مرتب)

کتابیں وہ ہیں جو ’’اناجیل اربعہ‘‘ کہلاتی ہیں. ان کے بعد پال اور دوسروں کے خطوط ہیں، جن کو وہ ’’رسولوں کے خطوط‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں. یہودی جن انبیاء کو مانتے ہیں عیسائی بھی ان سب کو مانتے ہیں، لیکن باہمی تفرقہ ہے… ایک دوسرے کے خلاف فتوے ہیں… یہ سب کیوں اور کس لیے ہے؟ اس لیے کہ جب بھی کوئی توحید کی خالص دعوت لے کر اٹھے گا حالات یہی ہوں گے. یہ صورت ِ حال کبھی نہیں بدلے گی. بقول علامہ اقبال ؎

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز 
چراغ مصطفی ؐ سے شرارِ بولہبی!

آج بھی اگر تجدید و احیاء دین کے لیے اور خالص دعوتِ توحید کے لیے کمر کس کر کوئی قافلہ چلے گا تو اسے انہی نوع کے دو گروہوں سے واسطہ پڑے گا اور سابقہ پیش آئے گا. جیسے دورِ حاضر میں ایک تو ہمارے عوام الناس ہیں کہ جن کو دین کی کوئی خبر نہیں. ان کے نزدیک دین نام ہے محض ایک عقیدے اور چند رسومات کا. ان کو حقیقی دین کا علم سرے سے ہے ہی نہیں. ان کا دین تو قبر پرستی ہے یا تعزیہ پرستی. ان کے دن کا سب سے بڑا مظہر عرس ہے یا تعزیوں کے جلوس ہیں، یا اب ایک اور جلوس کا اضافہ ہو گیا ہے جو عید میلاد النبی کا جلوس ہے. ان کا دین تو ان ہی چیزوں کا نام ہے. ان کے سوا ان کو دین کا اور کوئی علم اور خبر ہے ہی نہیں. نماز سے انہیں سروکار نہیں، روزے سے انہیں بحث نہیں… ان کا کل کا کل دین بس ان چیزوں کا نام ہے. یہ گروہ تو گویا ان لوگوں کے مشابہ ہو گیا جو حقیقت نفس الامری سے بہت دور نکل گیا ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ان کے لیے خالص توحید والے دین کی طرف آنا بڑا ہی مشکل ہے، آسان کام نہیں ہے، الا ماشاء اللہ. 

ہمارے یہاں دوسرا گروہ وہ ہے جن کے فتوے چلتے ہیں، دین کے مسائل کے لیے جن کی طرف لوگوں کا رجوع ہے، جن کی دینی مسندیں ہیں، جن کے اونچے اونچے مناصب ہیں. ان میں سے خاص طور پر جن کا سرکاری دربار سے ربط و تعلق قائم ہو جائے وہ تو یوں سمجھئے کہ ’’کریلا اور نیم چڑھا‘‘ کے مصداق ہیں. ان میں جو جو 
خرابیاں پروان چرھتی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں. علمائے سوء کی اکثریت بھی اکثر و بیشتر ان ہی میں سے ہوتی ہے جو سرکاری درباری علماء ہوتے ہیں. ایسے ہی علمائے سوء کے فتوؤں سے حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ کی پیٹھ پر کوڑے برستے رہے ہیں. ایسے ہی علماء کی فتوؤں سے مجددِ الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ علیہ کو جیل میں ڈالا گیا. ان ہی کے فتوؤں سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ جیل میں ڈالے گئے اور ان کو کوڑے لگائے گئے. جب امام مالک رحمہ اللہ علیہ کی مُشکیں کس کے کوڑے لگے ہیں اور گدھے پر بٹھا کر ان کی مدینہ کی گلیوں مین جو تشہیر کی گئی ہے تو کیا اس کی پشت پر اس وقت کے درباری مفتیان کے فتوے موجود نہیں تھے؟یہ درباری سرکاری اقتدارِ وقت کے منہ چڑھے ہی تو عالم و فاضل لوگ تھے جنہوں نے جلال الدین اکبر کو ’’دین الٰہی‘‘ عطا کیا تھا. اکبر کا تو باپ بھی دین الٰہی خود تجویز نہیں کر سکتا تھا. اس کو مرتب کرنے والے تو ابوالفضل اور فیضی تھے جو بہت بڑے عالم تھے. اتنے بڑے عالم کہ ابوالفضل نے قرآن مجید کی پوری تفسیر اس طور پر لکھ دی کہ اس میں کوئی نقطہ والاحرف نہیں آیا. آپ کو معلوم ہے کہ حال ہی میں سیرت مطہرہ پر ایک ایسی کتاب بھی لکھی گئی ہے جس میں نقطہ والا کوئی حرف نہیں آیا‘ جس کی صدرِ مملکت کی جانب سے بڑی مدح کی گئی ہے. یہ تو سیرت کی کتاب ہے‘ ابوالفضل نے تو قرآن کی پوری تفسیر لکھی کہ جس میں کوئی نقطہ والا حرف نہیں آیا. میرے علم میں نہیں ہے کہ اس تفسیر پر علماء نے کوئی نکیر کی ہو. ممکن ہے کہ تفسیر میں اس نے کچھ گڑ بڑ نہ کی ہو لیکن یہ وہی شخص ہے جو اکبر کے لیے ’’دین الٰہی‘‘ تصنیف کر رہا ہے اور اکبر کی اس راہ کی طرف رہنمائی کر رہا ہے. (۱لہذا جب بھی منظم طور پر توحید کی دعوت اٹھے گی یہ دو طرفہ (۱) امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ نے قرآن مجید کا جب فارسی میں ترجمہ کیا تھا تو وقت کے علماء نے شاہ صاحب کے خلاف کفر کا فتویٰ دے دیا. چنانچہ عوام کے ایک گروہ نے اسی فتویٰ سے متاثر ہو کر شاہ صاحب پر دہلی کی جامع مسجد فتح پوری میں ان کو قتل کرنے کے لیے یلغار بھی کی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں بچا لیا تھا. (مرتب)

یلغار ہو گی، مخالفین ہوں گی، ابتلاء اور آزمائشیں اسی طور سے ائیں گی جیسے اس وقت آئی تھیں.
آیت کے اس حصہ کے عموم لفظ کے بین السطور اگر آپ دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ ہیں وہ مراحل و ادوار جو خالص دعوتِ توحید کے نتیجے میں ہمیشہ آ کر رہیں گے. ایک وہ عوام ، جہلاء جو دین سے دُور نکل گئے، ان کو دین سے کوئی سروکار ہی نہیں، کوئی تعلق ہی نہیں. سوائے بدعات، رسومات اور خرافات کے وہ دین سے کوئی واسطہ اور علاقہ رکھتے ہی نہیں. ایک وہ جن کا پڑھنا پڑھانا بھی ہے، دین سے تعلق بھی ہے، مسندیں بھی ہیں ، فتاویٰ بھی ہیں، ارشاد بھی ہے، سب کچھ ہے، لیکن الا ماشاء اللہ حال یہ ہے کہ: 
وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ

تفرقے کا ایک سبب یہ ہو سکتا ہے کہ حق جب آئے تو وہ واضح نہ ہو، گنجلک ہو. تو اس کی اس آیت کے آغاز میں نفی کر دی گئی ہے کہ:

وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ
پس معلوم ہوا کہ تفرقہ کا باعث لا علمی اور نا واقفیت نہیں ہے. ’’العلم‘‘ ان تک پہنچ چکا تھا. ہدایت ربانی اور حق جب بھی آیا ہے بہت مبرہن، واضح اور بینہ بن کر آیا ہے. آخری پارے کی سورۃ البینہ میں یہ مضمون آیا ہے. فرمایا: 

وَ مَا تَفَرَّقَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنَۃُ 

’’جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی انہوں نے تفرقہ نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس ’’البینہ‘‘ آ گئی تھی. یعنی حق روشن و مبرہن صورت میں ان کے سامنے پیش کر دیا گیا. ان اہل کتاب نے اندھیرے میں ٹھوکر نہیں کھائی، بلکہ روز روشن میں جان بوجھ کر وہ راہِ حق سے منحرف ہوئے ہیں. ٹھیک ہے اہل عرب نے ٹھوکر کھائی، مکہ والوں نے ٹھوکر کھائی تو اندھیرے میں جو کھائی. ان کے پاس تو روشنی تھی ہی نہیں. لیکن یہود تو اندھیرے میں نہیں تھے. وہ تو نبی اکرم اور قرآن کو ایسے پہچانتے تھے جیسے اپنے بیٹوں کو یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ … پھر بھی ایمان نہیں لا رہے ہیں. کیوں؟ اس کو آیت کے اس حصے آخر میں بیان کیا گیا: بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ اس تفرقے کا اصل محرک ہے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خواہش اور کوشش، ایک دوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کی تمنا اور سعی، ایک دوسرے پر وَر آنے کی فکر. پھر قومی گروہی مفادات، مناصب، تفاخر، وجاہت وحشمت، مذہبی قیادت و سیادت، ان پر مستزاد ہے. تکبر اور حسد کہ یہ فضیلت بنی اسمعیل کو کیوں مل گئی، یہ تو ہمارے خاندان کی میراث ہے. ڈھائی ہزار برس تک نبوت کا سلسلہ ہمارے یہاں جاری رہا ہے، کسی اور کو یہ فضیلت مل جائے، یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے. آج کل کی اصطلاح میں یہPersonality Clash یعنی شخصیتوں کا تصادم تھا، کون اوپر اور کون نیچے کا جھگڑا تھا. بالاتر کون ہے اور کم تر کون! یہ سارا فساد دراصل اس کا تھا. یہ لوگوں کی انانیت تھی جس کے باعث وہ تفرقے میں مبتلا تھے. انہوں نے اپنی دنیوی اغراض اور مصالح کی خاطر حق سے اعراض ہی نہیں بلکہ اس کی مخالفت اور دشمنی پر کمر کس رکھی تھی. اب ان تام تشریحات و تصریحات کے ساتھ آیت کے اس حصے کو پھر دیکھ لیجئے: وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ 
اب اس آیت کے دوسرے حصے پر توجہ مرکوز کیجئے:

وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ 
’’اور اگر (اے محمد !) آپ ؐ کے رب کی طرف سے ایک کلمہ طے نہ ہو چکا ہوتا، ایک وقت معین تک کے لیے بات طے نہ ہو چکی ہوتی تو ان کے مابین قصہ چکا دیا جاتا.‘‘

یعنی ابھی مہلت عمر ہے. افراد کوبھی اس وقت تک کے لیے مہلت ہوتی ہے جب تک موت نہیں آتی. 
مَالَمْ یُغَرْغَرْ جب تک موت کا گھونگرو نہیں بولتا توبہ کا دروازہ کھلا ہے. ہر نفس کے لیے یہ ضابطہ مقرر ہے کہ : وَ لَنۡ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفۡسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُہَا 
’’اللہ کسی کو قطعاً مہلت ِ عمل نہیں دیتا جب موت کا مقررہ وقت آ جاتا ہے.‘‘

اجل مسمّٰی کے اندر اندر عمل کا اختیار ہے. یہ مہلت و اختیار نہ ہو تو پھر آزمائش کیسی؟ بالجبر اگر اللہ ہدایت دے دے تو اس ہدایت پر انعام کیسا؟ بالکبر کسی کو غلط راستے پر ڈال دے تو اس کی سزاچہ معنی دارد؟ لہذا اللہ عزوجل یہ اختیار اور مہلت دیتا ہے، افراد کوبھی اور امتوں کو بھی. چنانچہ فرمایا کہ ہماری طرف سے مہلت کا ضابطہ پہلے ہی سے مقرر ہے. ابھی ان کو ڈھیل دینی ہے، ابھی ان کے لیے مہلت عمل ہے، ابھی ان کو اختیار حاصل ہے جدھر چاہیں جائیں. 
اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا اور یہ کہ وَ قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ اگر ہمارا ضابطہ اور قانون نہ ہوتا، ہماری یہ سنت نہ ہوتی تو ہم ان کا قصہ چکا دیتے، ابھی جھگڑا طے کر دیتے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی علیحدہ کر دیتے.
آیت کے اس حصے میں نبی اکرم اور آپؐ کے توسط سے اہل ایمان کے لیے بھی تسلی کا ایک پہلو موجود ہے کہ تشویش نہ کیجئے، ابھی وقت لگے گا، اللہ کا آخری فیصلہ آ کر رہے گا، احقاقِ حق اور ابطال باطل ہو کر رہے گا اور انجام کار کے طور پر سب کو ہمارے حضور حاضر ہونا ہی ہے. وہ فیصلہ کی آخری ساعت بھی آ کر رہے گی… اجل مسمی تک آپؐ بھی انتظار کیجئے اور مخالفین بھی. 

وارثینِ کتاب کا نقشہ

اب اس آیت کے آخری حصہ پر آیئے! فرمایا:
وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴﴾ 

’’اور وہ لوگ جو کتاب کے وارث بنائے گئے، ان کے بعد درحقیقت وہ اس (کتاب) کے بارے میں ایسے شک و شبہ میں مبتلا ہو چکے ہیں جس نے ان کے دلوں میں خلجان پیدا کر دیا ہے.‘‘ آیت کے اس ٹکڑے کو بھی اچھی طرح سمجھ لیجئے… یوں تو قرآن مجید کا ہر لفظ اور ہر آیت عظمت کی حامل ہے، لیکن میرا گہرا تاثر ہے کہ سورۂ شوریٰ کی یہ تین آیات قرآن کی عظیم ترین آیات میں سے ہیں. اقامت دین کی جدوجہد میں جو بھی مسائل (Problems) سامنے آتے ہیں ان سب کا حل اور جو اب تین آیات میں موجود ہے. جب کبھی یہ کوشش ہو گی تو اس وقت جو مسائل اٹھیں گے ان سب کے لیے یہاں رہنمائی موجود ہے. فرمایا: وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴﴾ رسولوں کے امتی عاملین کتاب تشکیک میں مبتلا ہو چکے ہیں، جس نے ان کے اذہان و قلوب میں خلجان اور انتشار پیدا کر دیا ہے. یہ کتاب کے ماننے اور جاننے والوں کا حال ہے. جو اُمِّیِّین ہیں ان کی کیفیت یہ نہیں ہے، اس لیے کہ ان کے پاس تو سرے سے کوئی کتاب ہے ہی نہیں. یہ گفتگو درحقیقت اہل کتاب کے بارے میں ہو رہی ہے کہ جن کے پاس علم، کتاب اور شریعت موجود ہے. وہ سب ایک رسول کے نام لیوا ہیں، لیکن آپس میں دست و گریبان ہیں. (۱نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آئندہ نسلوں کا اعتماد ہی اٹھتا چلا جاتا ہے… آج ہم جو دیکھ رہے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل کا دین سے اعتماد ہی اٹھتا چلا جا رہا ہے، وہ کیوں؟ اس لیے کہ ان کا روز کا مشاہدہ ہے کہ ملک کے علماء حضرات کی اکثریت جو دین کے نام لیوا ہیں ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں، الا ما شاء اللہ. سب کہتے یہی ہیں کہ ہمارا مقصد ہے کہ دین کو قائم کیا جائے، اسلامی نظام بالفعل نافذ ہو، لیکن ایک دوسرے کی ٹانگیں گھسیٹی جا رہی ہیں. آپ کو معلوم ہے کہ اس کا کیا منفی اثر ہمارے معاشرے پر پڑ رہا ہے. لوگ اندھے بہرے تو نہیں ہیں. نوجوان بڑے حساس ہوتے ہیں. تفرقہ کا یہ نقشہ دیکھ کر انہیں پھر دین ہی کے بارے میں شک پڑ جاتا ہے اور سمجھنے لگتے ہیں کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے. جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ قرآن مجید (۱) اشارہ ہے یہود ونصاریٰ کے متعدد فرقوں کی طرف. (مرتب) دعویٰ کرتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ لیکن اب نوجوان کسی کو دیکھتا ہو کہ نمازی تو بڑا پکا ہے، لیکن جتنا پکا نمازی ہے اتنا بڑا بلیک مارکیٹر بھی ہے تو اس کا اعتماد نماز پر قائم ہو گا یا ہٹے گا، ظاہر ہے نماز پر سے اعتماد ہٹے گا، قرآن پر سے اعتماد ہٹے گا کہ قرآن تو دعویٰ کررہا ہے کہ نماز برے کام سے روکنے والی شے ہے اور یہ شخص سب کچھ کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نمازی بڑا پکا ہے. ایسے ہی ہمارے معاشرے میں وہ لوگ بھی ہیں جو کثرت کے ساتھ حج و عمرہ کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی اسمگلر بھی ہیں. یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن کے باعث نوجوان کا دین پر سے اعتماد اٹھنا شروع ہو جاتا ہے.

اسی غلط طرزِ عمل کی عکاسی کی گئی ہے آیت کے اس حصہ میں:

وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ 
’’اور جو لوگ وارث بنائے گئے کتاب کے ان کے بعد.‘‘

یہاں ’’ان کے بعد‘‘ سے کیا مراد ہے! وہ لوگ جو تفرقے ڈال کر چلے گئے، اب ان کے بعد اگلی نسل کتابِ الٰہی کی وارث ہوئی… جیسے ہم قرآن حکیم کے وارث ہیں… یہاں جو ذکر ہو رہا ہے وہ تورات اور انجیل کا ہورہا ہے. لیکن جو لوگ تفرقے ڈال گئے تو ان کے بعد آنے والے ان تفرقوں کے سبب سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئے. 
لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴﴾ یہاں مریب شک کی صفت ہے. یعنی شک جب دل میں یہ خلجان پیدا کر دے کہ پتہ نہیں کچھ ہے بھی یا نہیں؟ واقعتا یہ کتابِ الٰہی ہے کہ نہیں؟ یہ گروہ بھی اسی کتاب کو ماننے کا مدعی اور وہ گروہ بھی اس کتاب کے ماننے کا مدعی، یہ بھی اسی کتاب کو پڑھ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ روشنی کا مینار اور ہدایت کا منبع و سرچشمہ ہے، وہ بھی اسی بات کے دعوے دار ہیں، لیکن حال یہ ہے کہ آپس میں دست و گریباں ہیں، یہ ان کو کافر کہہ رہے ہیں اور وہ ان کی تکفیر کر رہے ہیں. ہوتا یہ ہے کہ اس تفرقہ بازی سے عوام (بالخصوص تعلیم یافتہ طبقہ) کا اعتماد دین پر سے، کتاب الٰہی سے اور علماء پر سے اٹھتا چلا جاتا ہے.

دعوت ِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے موقع پر دو جماعتیں موجود تھیں. 
ایک تو مشرکین کا گروہ… ان کے متعلق فرمایا گیا: ؕ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ ﴿۱۳﴾ اے نبیؐ ! آپؐ کی دعوت توحید ان مشرکین پر بہت بھاری ہے. یہ اتنے دُور نکل گئے ہیں کہ ان کے لیے لوٹنا آسان نہیں ہے. ان میں سے اللہ ہی جس کو چاہے گا اس دعوت ِ توحید کے لیے چن لے گا اور اپنے دین کی طرف کھینچ لے گا، اور جن کے دلوں میں تھوڑی سی بھی انابت ہے وہ جلد یا بدیر آپؐ کے جان نثاروں میں شامل ہو جائیں گے… رہا دوسرا گروہ جو اہل کتاب کا گروہ ہے، ان کے متعلق حضور کو جو فکر لاحق ہو رہی تھی کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لا رہے تو اس کا ازالہ اس آیت میں فرما دیا گیا: وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ... یعنی اے نبیؐ ! آپؐ تو پھر بھی ایک نئی کتاب لے کر آئے ہیں، آپ ؐ کی دعوت ِ نبوت ان کے لیے نئی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تو یہ بھی مانتے ہیں او روہ بھی، پھر بھی ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں… اور تو اور خود بھی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کی کاٹ میں لگے رہتے ہیں. تو جو اتنے انانیت پرست ہیں کہ ایک کتاب کے ماننے کے باوجود متفرق ہیں وہ آپؐ کی بات کیسے تسلیم کر لیں گے؟ یہی بات علامہ اقبال نے ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں ہمارے لیے کہی ہے. ؏ 

منفعت ایک ہے قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں!
کیا زمانے ہیں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

ہماری فرقہ بندی کس سے پوشیدہ ہے. نہ معلوم کتنے فرقوں میں ہم بٹے ہوئے ہیں! اس کے نزدیک وہ کافر، اس کے نزدیک یہ کافر. اس کے سوا کوئی اور بحث سننے میں نہیں آتی. الا ماشاء اللہ!

لہذا حضور کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اللہ آپؐ کے لیے راستہ نکالے گا، لیکن آپؐ ان یہود سے توقع نہ رکھیے کہ یہ کتابوں کو جاننے والے ہیں، توحید کو ماننے والے ہیں، ان کے یہاں بڑے بڑے علماء ہیں، لہذا یہ تو فوراً مان لیں گے. نہیں، ان کی انانیت ان کی راہ کا وہ پتھر ہے جو کسی طرح بھی انہیں آگے نہیں بڑھنے دے گا، بلکہ یہی آپؐ کی دشمنی میں سب سے آگے ہوں گے.

اب ان حالات اور اس پس منظر میں آنحضور کو کیا کرنا ہے؟ اس کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے. قرآن مجید کی یہ بڑی عجیب آیت ہے. عجیب کے لفظ سے کہیں آپ کوئی اور مفہوم نہ لے لیں. عربی میں عجیب کے معنی ہیں بہت دلکش، بڑی پیاری، دل کو لبھانے والی بات. ہمارے ہاں عجیب و غریب کے مفہوم میں حیرت کا جو مفہوم پایا جاتا ہے اسے اپنے ذہن سے نکال دیجئے.

سب سے دلکش ایمان

اس لفظ عجیب پر ایک حدیث ملاحظہ ہو. تصور کیجئے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم مسجد نبویؐ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جلوہ افروز ہیں… آپؐ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سوال فرماتے ہیں کہ ’’تمہارے نزدیک اعجب (سب سے زیادہ عجیب) ایمان کس کا ہے؟‘‘… یہ بھی حضور کی تعلیم و تربیت کا ایک انداز ہے…! اعجب ، عجیب کا اسم تفصیل ہے. حضور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دریافت فرما رہے ہیں کہ یہ بتاؤ کہ تمہارے خیال میں سب سے زیادہ پیارا، سب سے زیادہ دلکش ایمان کس کا ہے؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا: ’’فرشتوں کا.‘‘ حضور نے فرمایا: 

وَمَالَھُمْ لاَ یُوْمِنُوْنَ وَھُمْ عِنْدَرَبِّھِمْ 
’’وہ کیسے ایمان نہ لائیں گے، وہ تو اپنے رب کے پاس ہیں!‘‘

یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ان کے لیے غیب میں ہوتے ہوئے بھی مشہود ہے. وہ ہر لمحہ اور ہر آن تجلیات ربانی کا مشاہدہ کرتے ہیں. احکامِ الٰہی ان 
کے پاس براہِ راست آتے ہیں، جن کی وہ تنفیذ کرتے ہیں. ان کی نگاہوں کے سامنے حقائق منکشف ہیں. وہ ایمان رکھتے ہیں تو کون سا کمال کرتے ہیں. اگرابوجہل کے سامنے بھی جہنم لے آئی جائے تو وہ فوراً ایمان لے آئے گا. لہذا ان کے ایمان کے اَعجب ہونے کا کوئی سوال نہیں. صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: فَالْاَنْبِیَاءُ ’’پھر نبیوں کا ایمان.‘‘ تو حضور نے فرمایا: 

وَمَالَھُمْ لاَ یُوْمِنُوْنَ وَالْوَحْیُ یَنْزِلُ عَلَیْھِمْ 
’’وہ کیسے ایمان نہیں لائین گے جبکہ وحی ان پر نازل ہوتی ہے.‘‘

یعنی انبیاء پر اللہ کا فرشتہ وحی لے کر آتا ہے، انہیں غیب کی خبریں دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنی نشانیوں میں سے کچھ نشانیوں کا ان کو مشاہدہ کرتا ہے، لہذا ان کا ایمان اَعجب کیسے ہوگا! تیسری بار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا: 
فَنَحْنُ ’’پھر ہم ہیں‘‘ ہمارے ایمان ہے. حضور نے فرمایا: 

وَمَالَـــکُمْ لاَ تُوْمِنُوْنَ وَاَنَا بَیْنَ اَظْھُرِکُمْ 
’’تم کیسے ایمان لاتے جب کہ میں تمہارے مابین موجود ہوں.‘‘

نبی اکرم نے خود جواب دیا… اصل بات جو سمجھانا مقصود تھی وہ یہ کہ: 

اِنَّ اَعْجَبَ الْخَلْقِ اِلَیَّ اِیْمَانًا یَاْتُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ یَجِدُوْنَ صُحُفًا فِیْہِ کِتَابُ اللہِ فَیُؤْمِنُوْنَ بِمَا فِیْھَا 
’’میرے نزدیک سب سے زیادہ دلکش ایمان والے وہ ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے، ان کو تو اوراق ملیں گے جن میں اللہ کی کتاب درج ہو گی اور وہ اس پر ایمان لائیں گے.‘‘

یہ لوگ ہوں گے جن کا ایمان اَعجب یعنی سب سے دلکش ہو گا.
اس مقام پر ایک اہم بات سمجھ لیجئے کہ یہاں افضلیت کی بات نہیں ہو رہی، دلکش ہونے کی بات ہے. افضل ایمان پوری امت میں سے یقینا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کا ہے. ادنیٰ سے ادنی ٰ صحابیؓ کا ایمان بھی بڑے سے بڑے ولی اللہ سے افضل ہے. یہاں میں نے سمجھانے کے لیے ’’ادنی ٰ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، ورنہ کسی صحابی کے لیے ادنی ٰ کا لفظ بھی مناسب نہیں ہے. لہذا یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ افضلیت بالکل جدا بات ہے اور یہ شرف صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حاصل ہے. ایمان کا پیارا ہونا، دلکش ہونا یہ بالکل دوسری بات ہے، اس کوConfuse نہ کر لیجئے گا. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان نبی اکرم بنفس نفیس موجود تھے. آپؐ خود اپنی ذات میں ایک معجزہ ہیں، عظیم ترین معجزہ، لہذا ان کے لیے ایمان لانا آسان تھا ان کی بنسبت جو بعد میں آئے، جو نہ تو رسول اللہ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے اور نہ انہوں نے آنجناب کے چہرۂ انور کا دیدار کیا.