اگلی آیات میں نبی اکرم سے براہِ راست خطاب ہے. طویل آیت ہے اور اس میں نہایت اہم مضامین جامعیت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں. آیت کا آغاز ہونا ہے ان الفاظ مبارکہ سے: 

فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ 
’’پس (اے محمد ) آپ اسی کی دعوت دیتے رہئے.‘‘

آیت کے اس حصے کو سمجھنے کے لیے توحید کی دو شاخیں ذہن میں رکھیے. پہلی توحید علمی یا نظری یا توحید فی المعرفۃ یا توحید فی العقیدۃ… دوسری توحید عملی… پھر اس توحید عملی کی بھی دو شاخیں ہیں… ایک توحید انفرادی و ذاتی، دوسری توحید اجتماعی.
ذاتی و انفرادی توحید یہ ہے کہ اللہ ہی کی بندگی اور پرستش کی جائے، اپنی اطاعت کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے. جیسے فرمایا گیا: 

فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ؕ﴿۲﴾اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ 
’’پس اللہ کو پکارو اس کے لیے دین (اپنی بندگی) کو خالص کرتے ہوئے. آگاہ رہو! دین خالص اللہ کا حق ہے!‘‘

آپ نے انفرادی سطح پر یہ کر لیا تو آپ کی ذات کی حد تک عملی توحید نافذ ہو گئی. اب عملی توحید کی دوسری منزل یہ ہے کہ اجتماعی نظام پر بھی اس کو قائم اور نافذ کرو. پورا نظام زندگی اس کا مظہر بن جائے کہ 
وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ یہ ہو گی توحید اجتماعی، یہی اقامت دین ہے. اسی کا حکم سورۃ الشوریٰ کی آیت اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ میں آیا ہے.

توحید عملی کی انفرادیت سے اجتماعیت تک پیش رفت کے مابین نقطہ ماسکہ 
(Link) کیا ہے؟ وہ ہے دعوت… ایک فرد نے ذاتی طور پر توحید اختیار کی تو فطری تقاضا یہ ہو گا کہ وہ اس کی طرف دوسروں کو بلائے‘ دوسروں کو اس کی دعوت دے ان کو بھی توحید کی طرف راغب کرے، انہیں بھی اللہ کی بندگی کی طرف پکارے. پھر جو اس دعوت پر لبیک کہیں ان کو وہ مجتمع کرے، ان کو منظم کرے، ان کی تربیت کرے. یہاں دعوتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے تین مراحل کا ذکر آ گیا. (۱پھر اس کے لیے لازم ہو گا کہ وہ ان تین مراحل سے گزر کر ایک طاقت فراہم کرے اور نظامِ باطل کو تلپٹ کر کے رکھ دے، اسے بیخ و بن سے اکھیڑ کر دین اللہ کو قائم کر دے، تاکہ اجتماعی توحید کی تکمیل ہو جائے. اب انفرادی توحید اور اجتماعی توحید کے درمیان نقطہ ماسکہ دعوت ہے. سورۂ حم السجدۃ کی آیت ۳۳ کو ذہن میں رکھیے. فرمایا: وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾ اور یہاں فرمایا : فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ یہاں کلمہ ’’ف‘‘ اور ’’لامِ غایت‘‘ نے ذٰلِکَ سے مل کر اس آیت کو ما سابق آیات سے بھی مربوط کر دیا ہے اور اس پس منظر سے بھی جو اس پوری سورۂ شوریٰ کے نزول کے وقت موجود تھا، جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے. اس دعوت کا ہدف ہو گا اقامت دین. اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ اے نبیؐ ! اس کی دعوت دیجئے کہ اللہ کے دین کو قائم کرو، نافذ کرو، برپا کرو، مجتمع و منظم ہو جاؤ، باطل سے ٹکراؤ اور اس تصادم کے لیے خود کو قربانی اور ایثار کے لیے تیار کرو. یہ ہوئی فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ کی تشریح و توضیح.

استقامت کا حکم

آگے فرمایا: وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ’’اور ڈٹے رہئے (جمے رہئے)، جس کا آپ کو حکم ہوا ہے!‘‘ یعنی فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ اور قُلۡ اِنِّیۡۤ اُمِرۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾وَ اُمِرۡتُ لِاَنۡ اَکُوۡنَ اَوَّلَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۱۲﴾ (۱) دعوتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے انقلابی پہلو اور ان کے جملہ مراحل کی تفہیم کے لیے محترم ڈاکٹر اسرار احمدکے اس درسِ قرآن اور خطاب کامطالعہ ان شاء اللہ نہایت مفید رہے گا جو ’’مسلمانوں کے فرائض دینی اور اسوۂ رسول ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں موجود ہے. (مرتب)

پھر حکم ہوا: قُلِ اللّٰہَ اَعۡبُدُ مُخۡلِصًا لَّہٗ دِیۡنِیۡ ﴿ۙ۱۴﴾ کہہ دیجئے اے محمد( )! مجھے تو یہ حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے میں اس کے فرمان کے سامنے سر جھکاؤں. سب سے پہلے میں اس کا فرماں بردار بنوں اور کہہ دیجئے کہ میں تو اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرتا ہوں اور کروں گا… یہاں انشائیہ اسلوب میں آپؐ سے فرمایا جا رہا ہے: 
وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ 
’’پس آپؐ ڈٹے رہنے (مستقیم رہئے) اس پر جو آپؐ کو حکم ہوا ہے.‘‘

یعنی مخالفت تو ہے، دباؤ پڑ رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں، آپؐ کے لیے مصائب کے بڑے بڑے طوفان آتے نظر آتے ہیں، یہ سب صحیح ہے، لیکن آپؐ نے کھڑے رہنا ہے اور جمے رہنا ہے.

مکی دور کی سورتوں میں آپ کو نظر آئے گا کہ اس استقامت کے لیے آنحضور کو بار بار صبر کی تلقین و وصیت کی جا رہی ہے اور آنجنابؐ کے توسط سے یہ تلقین اہل ایمان کو بھی ہو رہی ہے. سورۃ المدثر میں فرمایا گیا: 

وَ لِرَبِّکَ فَاصۡبِرۡ 
’’(اے محمدؐ !) اپنے رب کے راستے کی دعوت میں پیش آنے والی مشکلات پر صبر کیجئے.‘‘

سورۃ الاحقاف میں فرمایا گیا: 

فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ 
’’صبر کیجئے (اے محمدؐ !) جیسے ہمارے اولوالعزم پیغمبر صبر کرتے آئے ہیں.‘‘

سورۃ النحل میں فرمایا گیا:
وَ اصۡبِرۡ وَ مَا صَبۡرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ 
’’(اے محمدؐ !) صبر کیجئے! اور آپ کا سہارا بس اللہ ہی ہے.‘‘

یعنی صبر کے لیے بھی کوئی سہارا درکار ہے تو آپؐ کا سہارا ہم خود ہیں، آپؐ کے صبر کی بنیاد ہم سے تعلق اور محبت ہے. سورۃ القلم میں فرمایا گیا: 

فَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ وَ لَا تَکُنۡ کَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ 
’’پس (اے محمدؐ !) صبر کیجئے، اپنے رب کے حکم کا انتظار کیجئے اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جایئے گا.‘‘

یہاں صاحب الحوت سے مراد حضرت یونس علیہ السلام ہیں. انہوں نے ذرا جلدی کی تھی، عجلت کا مظاہرہ کیا تھا، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں، معاذ اللہ کسی گناہ کو کوئی سوال نہیں. کسی نبی سے کسی گناہ کا صدور نہیں ہو سکتا. ہوا یہ تھا کہ دین کی حمیت وغیرت اتنی غالب آ گئی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کئے بغیر اپنی قوم سے ان 
کے کفر پر اڑے رہنے کے باعث متنفر اور مایوس ہو کر اس قوم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے. یہاں یہ فرمایا گیا کہ ایسا نہ کیجئے گا! سورۃ المزمل میں فرمایا گیا: 
وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا 

’’(اے نبیؐ !) صبر کیجیے اس پر جو کچھ یہ مشرکین کہہ رہے ہیں اور ان سے بہتر اور احسن طریق سے کنارہ کشی اختیار کیجئے.‘‘
نقل کفر ، کفر نہ باشد، دعوت ِتوحید پیش کرنے کے نتیجے میں مشرکین میں سے کوئی آپؐ کو پاگل کہہ رہا ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ دماغ خراب ہو گیا ہے، کوئی شاعر کہہ رہا ہے، کوئی ساحر کہہ رہا ہے اور کوئی کہہ رہا ہے کہ ساحر بھی نہیں بلکہ مسحور ہیں، ان پر کسی نے جادو کر رکھا ہے، یہ اس جادو کے زیر اثر ہیں. کوئی کہتاہے کہ یہ بھی نہیں ہے، آسیب زدہ ہیں، ان پر کوئی جن آگیا ہے، یہ مجنوں ہیں. یہ ساری باتیں سن رہے ہیں جناب محمد ، اور حکم ہو رہا ہے کہ صبر کیجئے اس پر کہ جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں! 
وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ پھر آنحضور کو تسلی اور تشفی بھی دی جا رہی ہے. سورۃ القلم میں فرمایا گیا: نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ مَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ بِمَجۡنُوۡنٍ ۚ﴿۲﴾ وَ اِنَّ لَکَ لَاَجۡرًا غَیۡرَ مَمۡنُوۡنٍ ۚ﴿۳﴾ وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ ﴿۴﴾ ’’ن. قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں، آپ ؐ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں. اور یقینا آپؐ کے لیے بھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے اور (اے نبیؐ !) تحقیق آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز ہیں.‘‘ لہذا ان مشرکین کی باتوں کا اثر نہ لیجئے.

یہ ہے سارا پس منظر جس میں حضور سے فرمایا جا رہا ہے: 
وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ دباؤ کتنا ہی سخت ہو، مخالفت کتنی ہی شدید ہو، استہزاء اور تمسخر کتنا ہی دل آزار اور اذیت ناک ہو، حالات کتنے ہی ناموافق ونامساعد ہوں، ماحول کتنا ہی ناساز گار ہو، اے نبیؐ ! آپؐ کو عبادتِ رب، دعوت الی اللہ اور اقامت دین کی جدوجہد اور سعی و جہاد کا جو حکم ہوا ہے، اس پر جمے رہئے، ڈٹے رہئے. سورۂ حم السجدۃ کی آیت ۳۰ میں استقامت کا ذکر آ چکا ہے. فرمایا: 

اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۳۰﴾ 
اس لفظ استقامت میں ایک قیامت مضمر ہے. کہو کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور اس پر چٹان کی مانند جم جاؤ. اب کوئی طوفان کتنا ہی سخت اور شدید آئے تمہارے قدموں میں جنبش اور لغزش پیدا نہ کر سکے. لہذا قولی اور عملی ہر نوع کی مخالفت کو اے محمدؐ ! آپؐ جھیلئے. وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ کا یہی مطلب ہے.

مصالحانہ رویہ کی ممانعت

اس آیت کے اگلے حصہ میں فرمایا: وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ 
’’اور (اے نبیؐ !) ان (مشرکوں اور کافروں) کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے.‘‘

قریش کے مشرک سرداروں نے جب یہ محسوس کیا کہ اس دعوتِ توحید کو روکنے میں ہر نوع کے استہزاء و تمسخر اور شدید جور و ستم کے باوجود ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں اور نہ وہ تو نبی اکرم کو دعوت ِ توحید سے روک سکے ہیں، نہ ان کے مظالم سعید لوگوں کو یہ دعوت قبول کرنے سے باز رکھ سکے ہیں اور نہ ہی دعوت قبول کرنے والے کسی شخص کو مصائب سے ہراساں کر کے دین چھوڑنے پر آمادہ کر سکے ہیں تو مشرکین کی طرف سے نبی اکرم کے پاس سفارتیں اور پیشکشیں آنی شروع ہو گئیں اور آپؐ کے سامنے مصالحت کا یہ فارمولا پیش کیا جانے لگا کہ کچھ ہم آپؐ کی بات مان لیتے ہیں کچھ آپؐ ہماری بات مان لیں. سورۃ القلم میں آغاز ہی میں یہ فرمایا دیا گیا تھا کہ: 
فَلَا تُطِعِ الۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۸﴾ وَدُّوۡا لَوۡ تُدۡہِنُ فَیُدۡہِنُوۡنَ ﴿۹﴾ 

’’پس (اے نبیؐ !) آپؐ ان جھٹلانے والوں کے دباؤ میں ہرگز نہ آئیں! یہ تو چاہتے ہیں کہ آپؐ کچھ ڈھیلے پڑیں، کچھ مداہنت کریں تو یہ بھی ڈھیلے پڑیں اور مداہنت کا رویہ اختیار کر لیں.‘‘ انہوں نے اچھی طرح دیکھ لیا کہ آپؐ کے قدموں میں ذرا سی بھی لغزش نہیں آئی اور یہ پورا زور لگا کر بھی آپؐ کو پیچھے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکے.اب یہ چاہتے ہیں کہ مصالحت ہو جائے، کچھ مان لیجئے کہ منوا لیجئےGive and Take کا معاملہ کر لیجئے، کچھ دیجئے کچھ لیجئے، ہماری بھی کچھ عزت رہ جائے. ساری کی ساری بات آپ کی مان لی جائے یہ ممکن نہیں ہے. آپؐ کو پیش کش کی گئی کہ اگر اس دعوتِ توحید کے ذریعے آپ کو دولت درکار ہے تو اشارہ کر دیجئے وہاں نکاح ہو جائے گا.

یہ ہوتا ہے دام ِہم رنگ ِ زمین. اللہ کی طرف بلانے والا اللہ کا بندہ شدید مشکلات اور مصائب میں گھرا ہوا ہے. حالات اتنے نامساعد اور ناموافق ہیں کہ بظاہر کہیں راستہ نکلتا نظر نہیں آ رہا. ان حالات کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے جس سے اس وقت آنحضور اور اہل ایمان دوچار ہیں. اس وقت ایسی ایسی پیشکشیں آتی ہیں تو نفس تو کہتا ہے کہ قبول کر لو، چلو اس وقت یہ سوفیصد نہیں مانتے، پچاس فی صد ماننے کے لیے تیار ہیں، اسی کو غنیمت سمجھ کر مصالحت کر لی جائے، رفتہ رفتہ ان کو رام کر لیا جائے گا او رپورے دین پر عمل پیرا ہونے کے لیے ان کو آمادہ کر لیا جائے گا. لیکن حکم یہ دیا جا رہا ہے کہ نہیں، ڈٹے رہیے، دین کل کا کل قبول کریں تو ٹھیک ہی. جزوی دین، دین ہی ہی نہیں. اس لیے یہاں فرمایا گیا: 
وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ ان ہی احکام الٰہی کے پیش نظر مشرکین کی دامِ رنگ ِ زمین پیش کشوں اور قتل کرنے کی دھمکیوں کے جواب میں نبی اکرم کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ نکلے جو تاریخ میں آبِ زر سے لکھے جائیں تو بھی اس جواب کی شان کا حق ادا نہیں ہو سکتا. آپ نے مشرکین کو جواب دیا:

’’اگر تم میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دو تب بھی میں اس دعوت سے باز نہیں آسکتا. یا تو میں اس دعوت کی تبلیغ میں اپنی جان دے دوں گا یا اللہ اس کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے گا.‘‘ 
یہ تھی اس حکم کی عملی اور قولی تعمیل کہ فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ

علامہ اقبال نے اس بات کو بڑی خوبصورتی سے اس شعر میں اد اکیا ہے ؎
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!

یہی صورت ِ حال مدینہ منورہ میں بھی پیش آ گئی ہے. وہاں بھی یہود کے علماء کا مطالبہ یہی تھا کہ کچھ لیجئے دیجئے، کچھ ہماری باتیں ماننے کچھ ہم آپؐ کی باتیں مان لیں گے. اس پس منظر میں سورۃ البقرۃ میں، جو مدنی سورت ہے، فرمایا گیا: وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ ؕ ’’(اے نبیؐ !) یہ یہود و نصاریٰ آپؐ سے ہرگزراضی نہیں ہوں گے جب تک آپؐ ان کی ملت (طور طریقوں) کا اتباع نہ کریں.‘‘

یہ تو اپنے تعصب اور اپنی عصبیت کی وجہ سے اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں. یہ آپؐ سے کبھی راضی نہ ہوں گے. اگر آپؐ انہیں کچھ رعایتیں دینے پر آمادہ ہو جائیں تب بھی یہ آپؐ سے کبھی راضی نہ ہوں گے. اصل مسئلہ تو ہے دینی قیادت کا. آپؐ ان کے پیچھے چلیں تب یہ خوش ہوں گے. یہ اہل کتاب اچھی طرح جانتے تھے کہ آپؐ بحیثیت رسول دین کے معاملہ میں کسی مصالحت کے لیے تیار ہو ہی نہیں سکتے تھے. اس لیے ان کی مصالحانہ پیش کش بھی اخلاص و خلوص پر مبنی نہیں ہوتی تھی، بلکہ اس لیے ہوتی تھی کہ اپنے عوام اور حلقہ اثر کو یہ مغالطہ دیں کہ ہم مصالحت کی برابر کوشش اور پیشکش کر رہے ہیں، لیکن محمد( ) ہی اپنے موقف پر بضد ہیں. قرآن حکیم نے ان اہل کتاب کے نفاق کو مختلف اسالیب سے فاش کیا ہے. سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۵ طویل آیتوں میں سے ایک ہے. اس میں پہلے تو ان اہل کتاب کے ان جرائم کا ذکر کیا گیا ہے جو وہ اپنی کتاب اور اپنی شریعت کی خلاف ورزیوں کے طور پر کرتے تھے. جو کام خود ان کی شریعت میں حرام تھے ان کا ارتکاب کرتے تھے، پھر اس بات کے دعوے دار تھے کہ ہم شریعت موسوی پر کاربند ہیں، اس پر کامل ایمان رکھتے ہیں. ان کے چند جرائم گنوا کر فرمایا گیا: 

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ 
’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان رکھتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیئے جائیں. اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو.‘‘

آیت کا یہ حصہ یہود کے اس طرز عمل کی مکمل عکاسی کرتا ہے جو انہوں نے اللہ کی شریعت کو حصوں میں تقسیم کر کے اختیار کیا ہو اتھا. وہ اس جرم کا ارتکاب کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے کچھ حصوں پر عمل کرتے تھے اور کچھ حصوں کو چھوڑ دیتے تھے، یا ان کے بالکل خلاف عمل کرتے تھے. گویا ان کی اطاعت اخلاص و خلوص سے خالی تھی. اس میں ملاوٹ شامل ہو گئی تھی. اس میں نفس کی چاہت اور خواہشات کی پیروی کی آمیزش ہو گئی تھی. اس طرزِ عمل میں آیت کے اس حصے میں جو سخت وعید آئی ہے وہ لرزا دینے والی ہے. اللہ تعالیٰ کے دین و شریعت کے ساتھ جو بھی یہ معاملہ کرے گا کہ ایک طرف اللہ کی توحید، اس کی کتاب اور اس کے رسول اللہ( ) پر ایمان لانے کا دعویٰ ہو، دوسری طرف اس کے دین اور ا س کی شریعت کے ساتھ یہ معاملہ ہو کہ کچھ حصے پر عمل ہو اور کچھ حصے کو چھوڑ دیا جائے یااس کے برخلاف عمل کیا جائے، تو اس امت کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ وہی معاملہ کرے گا جو سابقہ امت کے ساتھ کیا گیا ہے: 
فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا ﴿۴۳﴾ [فاطر: ۴۳آج ہم بحیثیت امت دنیا میں ذلیل و خوار ہیں، ہمارا کوئی وقار نہیں، ہماری کوئی وقعت نہیں. یہ نقد سزا ہے جو ہم کو دُنیا میں مل رہی ہے اس جرم کی کہ ہم نے بھی یہود کی طرح دین شریعت کو اجزاء میں تقسیم کر رکھا ہے. مسجدوں میں تو اللہ کا حکم چلے اور عدالتوں میں، اسمبلیوں میں، معاشرت میں، ملک کے مجموعی اور اجتماعی نظام میں اللہ کے احکام بے دخل رہیں.

ان چند جملہ ہائے معترضہ کے بعد اصل مضمون کی طرف آیئے. نبی اکرم کو حکم دیا جا رہا ہے کہ 
فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ اور منع فرمایا جا رہا ہے کہ ان منکرین حق کو خواہشات کی ہرگز پیروی نہ کیجئے گا. دراصل اس اسلوب میں ان کفار اور مشرکین کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ تم رسول اللہ سے یہ توقعات نہ رکھو کہ وہ تمہاری خواہشات کی پیروی کریں گے. یہ سب مفاہیم و معانی آیت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں سموئے ہوئے ہیں کہ: وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ

ایمان بالکتب

قرآن مجید کا یہ اعجاز دیکھئے کہ وہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں نہایت جامعیت کے ساتھ نہایت اہم مضامین و موضوعات کا احاطہ کر لیتا ہے. کوزے میں سمندر بند کرنے کا محاورہ اگر صد فی صد راست آتا ہے تو وہ قرآن مجید کی ہر آیت پر راست آتا ہے. اب اسی آیت کا اگلا حصہ پڑھئے اور دیکھئے کہ ایک بات ڈنکے کی چوٹ کہنے کا نبی اکرم کو حکم ہو رہا ہے. فرمایا: وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ ’’اور (اے نبیؐ !) کہہ دیجئے کہ میں تو ایمان رکھتا ہوں اس کتاب پر جو اللہ نے نازل کی ہے.‘‘

یہاں توقف کر کے پہلے 
’’مِنۡ کِتٰبٍ‘‘ کی کچھ شرح سمجھ لیجئے. یہاں ’’مِنۡ کِتٰبٍ‘‘ فرما کر یہ بات واضح کی گئی ہے کہ نبی اکرم صرف قرآن کریم ہی کو منزل من اللہ تسلیم نہیں فرماتے تھے، بلکہ ہر آسمانی کتاب کوماننے کا اقرار فرماتے تھے، ازروئے الفاظ قرآنی: 

وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ 

اسی بات کو سورۃ البقرۃ کے آخری رکوع میں اس طرح واضح فرمایا گیا ہے:
اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ ٖ وَ رُسُلِہٖ ۟ 
’’ہمارے یہ رسول (محمد ) اس ہدایت یعنی قرآن پر ایمان لائے ہیں جو ان کے رب کی جانب سے ان پر نازل کی گئی ہے اور وہ بھی ایمان رکھتے ہیں جنہوں نے ہمارے رسول کی تصدیق کی ہے. یہ سب اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور ا سکی طرف سے نازل کردہ تمام کتابوں پر اور اس کی طرف سے مبعوث کئے جانے والے تمام رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں.‘‘ 

اور ہمارے رسول اور ان کے اصحاب کا قول یہ ہے: لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖٖ 
’’ہم اللہ کے رسولوں کے مابین تفریق نہیں کرتے.‘‘ مطلب یہ ہوا کہ تورات، زبور، انجیل اور دوسرے صحیفے جو بھی اللہ کی طرف سے نازل ہوئے ان سب پر بھی اور قرآن پر بھی ہر مسلمان کا ایمان ہے. قرآن مجید درحقیقت تمام آسمانی کتابوں کا مھیمن و مصدق ہے. پہلی کتابیں محرف ہو گئیں، صحیفے گم ہو گئے. قرآن ان سب کا جامع ہے اور تاقیامِ قیامت محفوظ رہے گا. اسی طرح حضورخاتم النبیین والمرسلین ہیں اور اللہ کے تمام رسولوں کی تصدیق خاتم النبیین والمرسلین بھی اور آپؐ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی کرتے ہیں.

آیت ۱۴ میں لفظ کتاب آ چکا ہے:

وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴﴾ 
بظاہر یہ کتاب کے ماننے والے ہیں، بظاہر یہ اقرار کرتے ہیں کہ ہمارا ایمان تورات پر ہے، لیکن ان کا یقین متزلزل ہو چکا ہے. اپنے دینی سربراہوں کا کردار دیکھ کر، ان کے رویہ کو دیکھ کر، ان کی تفرقے کو دیکھ کر ان کتابوں پر سے ان کا اعتماد اٹھ چکا ہے، ان کا ایمان ہل چکا ہے. اس کے مقابلے میں یہاں نبی اکرم کی زبان سے کہلوایا جا رہا ہے: وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍمیرا ایمان تو اس کتاب پر ہے جو اللہ نے نازل فرمائی ہے، اور میرا سارا عمل اس کے مطابق ہے، میں تو اس پر جما ہوا ہوں.

قرآن مجید میں تبدیلی کا مطالعہ

سورۂ یونس میں مشرکین کے اس مطالبہ کا حوالہ آیا ہے جو وہ قرآن میں تغیر و تبدل کے لیے کرتے تھے. وہ کہتے تھے کہ اگر یہ ہو جائے تو ہماری اور آپ کی صلح ہو سکتی ہے. سورۂ یونس میں فرمایا:

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ ۙ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡہُ ؕ [آیت: ۱۵
’’اور جب انہیں ہماری روشن اور بین آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو آخرت میں ہم سے ملنے کا یقین نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی دوسرا قرآن لاؤ یا اسی میں ردّوبدل کردو.‘‘

ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ قرآن بہت 
Rigid ہے، یہ بالکل بے لچک ہے، اس کا موقف بہت سخت ہے، آخر دوسروں کو بھی accomodate کیا جانا چاہئے، مصالحانہ رویہ (compromising attitude) بھی توہونا چاہئے، لہذا کوئی دوسرا قرآن لاؤ یا پھر اسی میں تغیر و تبدل کرو، کچھ اس کی سختی کم کرو اور اسے نرم بناؤ. جواب کیا دلواگیا: 

قُلۡ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۵﴾ [آیت: ۱۵]
’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجئے کہ میرے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ میں اپنے جی سے اس میں کوئی تغیر و تبدل کروں. میں تو خود اسی کے اتباع پر مامور ہوں جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے. اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے ہولناک عذاب کا خوف ہے.‘‘

یعنی اگر یہ باتیں میں اپنے جی سے کہہ رہا ہوتا، یہ میرے اپنے نظریات ہوتے، میرا اپنا کوئی پروگرام ہوتا، کوئی پارٹی منشور ہوتا جس کو چند لوگوں کی مشاورت سے بنایا گیا ہوتا تو میں اس میں ترمیم و تنسیخ کر سکتا تھا، کوئی ردّ وبدل ہو سکتا تھا، لیکن یہ اللہ کا کلام ہے، اس کے فرامین ہیں جو میں تمہیں پڑھ کر سنا رہا ہوں… 
اُمِرۡتُ لِاَنۡ اَکُوۡنَ اَوَّلَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۱۲﴾ مجھے تو حکم ملا ہے کہ اللہ کا پہلا فرماں بردار میں خود بنوں. چنانچہ اللہ کے احکام کے سامنے سر جھکانے والا اور اس کی فرماں برداری کرنے والا سب سے پہلے میں خود ہوں.لہذا میرے لیے یہ کہاں ممکن ہے کہ قرآن مجید میں کوئی تبدیلی کر سکوں. معاذ اللہ، ثم معاذ اللہ… یہی تو بات تھی کہ سورۃ الزمر کے آخر میں کس قدر جلالی انداز ہے کہ: قُلۡ اَفَغَیۡرَ اللّٰہِ تَاۡمُرُوۡٓنِّیۡۤ اَعۡبُدُ اَیُّہَا الۡجٰہِلُوۡنَ ﴿۶۴﴾ ’’( اے نبیؐ !) کہہ دیجئے کہ جاہلو! کیا تم مجھے بھی یہ حکم اور مشورہ دے رہے ہو کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی اور پرستش شروع کر دوں.‘‘

اے حرص و ہوا کے بندو! مجھے اپنے اوپر قیاس نہ کرو، مجھے مصلحتوں کے راستے نہ دکھاؤ. میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ اللہ کی بندگی کے سوا کوئی اور راستہ اختیار کروں. مجھے تو حکم ملا ہے: 
بَلِ اللّٰہَ فَاعۡبُدۡ وَ کُنۡ مِّنَ الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۶۶﴾ کہ میں اللہ ہی کی بندگی اور پرستش کرتا رہوں اور اس کے شکر گزار بندوں میں شامل رہوں. وہی حکم یہاں ہے کہ: وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ

نظام عدل و قسط کا قیام

اب آگے اس آیت کریمہ کا نہایت اہم حصہ آ رہا ہے. سورۂ شوریٰ کی آیت ۱۵ طویل آیات میں سے ایک ہے اور اس آیت کے ہر حصہ میں معافی و مفاہیم کے سمندر پنہاں ہیں. اب اگلے حصہ پر توجہات کو مرتکز کیجئے. فرمایا: وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ’’اور مجھے حکم ملا ہے کہ تمہارے مابین عدل قائم کروں.‘‘

یہ حصہ نہایت اہمیت کا حامل ہے. اس کی صحیح تفسیر و تعبیر یہ ہے کہ ’’دین‘‘ درحقیقت اجتماعی نظام عدل و قسط ہے. دین اللہ قائم کرنے کا مقصد کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ انسانوں کے مابین عدل و قسط اور انصاف کا نظام قائم ہو. تمدن کی جو بھی پیچیدگیاں اور اونچ نیچ ہے، ان سب کو رفع کر کے ایک مبنی برانصاف نظام قائم ہو. 
معاشرے کے کسی فرد کے بھی حقوق تلف نہ ہوں. معاشرے کا کوئی طبقہ کسی دوسرے طبقہ کا استحصال نہ کر سکے. عورت اور مرد کے درمیان مبنی برانصاف توازن ہو. سرمایہ اور محنت کے درمیان مبنی برقسط و عدل توازن ہو. فرد اور معاشرے کے درمیان توازن ہو اور یہ توازن بھی عدل و قسط پر مبنی ہو. ان تمام اعتبارات سے عدل و قسط قائم کرنا ہی شریعت کا منشاء و مدعا ہے. اس بات کو مزید سمجھنے کے لیے سورۃ الحدید کی پچیسویں آیت دیکھئے ، جس کے آغاز میں فرمایا:

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ 
’’بلاشبہ ہم نے اپنے رسولوں کو بینات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان اتاری تاکہ لوگ عدل و قسط پر قائم ہو جائیں.‘‘

یہ قرآن حکیم کی بڑے مہتم بالشان آیتوں میں سے ایک ہے. اس میں رسولوں کی بعثت اور ان کو معجزات اور واضح و روشن دلائل دیئے جانے کا مقصد بھی بیان ہوا ہے او کتب نیز ساتھ ہی میزان یعنی شریعت کے نزول کی غایت بھی واضح طور پر بیان کر دی گئی ہے. ان تمام کی غرص و غایت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ بنی نوعِ انسان عدل و قسط پر قائم ہوں 
لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ایک ایسا اجتماعی نظامِ حیات نافذ اور جاری و ساری ہو جو مبنی برعدل و قسط اور انصاف ہو. جس پر کاربند ہو کر کوئی کسی کا خون نہ چوسے، کوئی کسی کا استحصال نہ کرے، کوئی کسی کو ناجائز طور پر دبائے نہیں، کوئی کسی پر ظلم نہ کرے، کوئی کسی کی حق تلفی نہ کرے. کوئی کسی پر جو روستم اور دست درازی نہ کرے. لہذا صرف دین اللہ اور المیزان یعنی شریعت ِ الٰہی کے ذریعے انسان کو وہ معیارِ حق و باطل مل سکتا ہے جو ٹھیک ٹھیک تول کر بتا دے کہ انسانی معاشرے میں حقوق و فرائض کا توازن کیا ہے! اخلاق و معاشرت میں طہارت و پاکیزگی کے معیارات کیا ہیں! یہی نظام متعین کرتا ہے کہ عبد و معبود کے درمیان صحیح تعلق کی اساسات کیا ہیں! اس حیاتِ دُنیوی کا آخرت کی ابدی زندگی سے ربط و تعلق کیا ہے؟

اظہارِ دین الحق

نبی اکرم نے جزیرہ نمائے عرب میں بنفس نفیس بالفعل دین اللہ قائم، غالب اور نافذ کر کے دکھاد یا. خلافت راشدہ میں اسی نظامِ عدل و قسط کے مزید خدوخال نمایاں ہوئے. اسی لیے اسے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کہا جاتا ہے. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر جب بیعت خلافت ہوئی تو آپؐ نے جو پہلا خطبہ دیا یعنی Policy statment کا اعلان کیا تو اس میں اسی عدل و قسط کے نظام کی وضاحت میں فرمایا کہ ’’اے لوگو! میرے نزدیک تم میں سے ہر قوی کمزور ہو گا جب تک کہ میں اس سے حق وصول نہ کر لوں اور ہر کمزور میرے نزدیک قوی ہو گا جب تک کہ اس کا حق اسے دلوا نہ دوں‘‘ … پھر یاد کیجئے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر کیا ارشاد فرمایا تھا جب اسلام کے نظام عدل و قسط کا جھنڈا عرب و عجم اور شمالی افریقہ کے وسیع علاقوں پر لہرانے لگا تھا اور اللہ کا کلمہ ہی سب سے بلند ہو گیا تھا کہ ’’ عمر کو یہ اندیشہ مضطرب اور بے چین کیے رکھتا ہے کہ اگر دجلہ یا فرات کے کنارے کوئی کتا بھوک سے ہلاک ہو گیا تو آخرت میں مجھ سے اس کی باز پرس ہو گی‘‘… جس نظام عدل و قسط میں اس کا سربراہ بھوک سے ایک کتے کے ہلاک ہو جانے پر خوفزدہ اور ہراساں رہتا ہو، اندازہ لگا لیجئے کہ انسان کے حقوق کی عدل و انصاف کے ساتھ پاسداری اور ادائیگی کا اس نظام میں کیا مقام ہو گا!!

یہاں ایک اوربات نوٹ کر لیجئے کہ قرآن حکیم کا یہ اسلوب ہے کہ اس مین اہم مضامین کم از کم دو مرتبہ ضرور بیان ہوتے ہیں. سورۂ حدید میں تو تمام رسولوں کے ساتھ کتابوں اور میزان کے نازل فرمانے کی غایت اور اس کا مقصد بیان فرمایا گیا کہ 
لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ . اسی سورۂ شوریٰ کی سترہویں آیت میں نبی اکرم پر کتاب یعنی قرآن اور میزان شریعت کے نزول کا ذکر موجود ہے: اَللّٰہُالَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ وَ الۡمِیۡزَانَ ؕ (۱)

پس یہ دین اللہ، یہ شریعت، یہ میزان درحقیقت نظامِ عدل و قسط ہے. یہ عادلانہ و منصفانہ اجتماعی نظام ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو عطا فرماتا رہا اور جس کا اِکمال و اِتمام ہوا نبی اکرم پر. ازروئے الفاظِ قرآنی:
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ [المائدہ: ۳]

’’ آج (یعنی نبی اکرم کے توسط سے آپؐ کے زمانہ بعثت میں) میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام بطورِ دین (نظامِ حیات) قبول کر لیا ہے.‘‘

کسی واعظ اور رسول کی دعوت کا فرق

یہاں پر وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ کے ضمن میں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ ایک ہوتا ہے واعظ. اس کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ وعظ کہا اور اگلی منزل کی طرف چل دیا. اگر کوئی پیشہ ور واعظ ہے تو اس کا اصل مقصود و مطلوب یہ ہوتا ہے کہ اس کے وعظ کی دھوم ہو، اس کے زورِ خطابت کی سامعین داد دیں، جہاں جائے لوگ نعروں سے استقبال کریں، وہاں گلے میں ہار پڑیں، عمدہ سے عمدہ کھانا ملے، بطور نذرانہ خدمت ہو جائے. پھر اگلی منزل ہے. وہاں بھی وعظ کہا، مطلوب حاصل کیا، پھر اگلی منزل ہے… لیکن ایک وہ شخص ہے جو کھڑا ہو جاتا ہے اور منادی کرتا ہے (۱) سورۂ شوریٰ کی آیت زیر درس میں تو حضور سے کہلوایا جا رہا ہے کہ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ سورۂ نساء کی آیت ۵۸ میں تمام اہل ایمان سے فرمایا گیا: وَ اِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ ’’(اے مسلمانو!) جب بھی تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو.‘‘ اسی طرح سورۂ نحل کی آیت ۹۰ کے آغاز میں نہایت تاکیدی اسلوب سے فرمایا گیا: اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ... ’’(اے مسلمانو!) اللہ تمہیں عدل اوربھلائی کرنے کا حکم دیتا ہے....‘‘ (مرتب)

کہ میں صرف وعظ کہنے نہیں آیا، نظام عدل و قسط قائم کرنے آیا ہوں وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ... اب تو زمین و آسمان کا فرق واقع ہو گیا. ناجائز طور سے کمائی کرنے والے اور حرام خوری کرنے والے لوگ اپنی حرام اور ناجائز طریقے سے کمائی ہوئی دولت میں سے کسی واعظ کو نذرانے کے طور پر کچھ دے دیں، خوب مرغن کھانا کھلادیں، ان کا کچھ نہیں بگڑتا. نظام تو وہی رہے گا، نظام پر کوئی آنچ تک نہیں آنے پائے گی اور یہی تو وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ظالمانہ نظام، ہمارے تشدد، ہمارے استحصال، ہمارے دباؤ، ہمارے مشرکانہ یا مبتدعانہ عقائد، ہمارے جاہلیت پر مبنی رسم و رواج اور ہماری حرام خوریوں پر آنچ نہیں آنی چاہئے… ان پر نکیر نہ ہو، ان کو چیلنج نہ کیا جائے. نذرانے لے لو، چڑھاوے چڑھوا لو، کوئی اور خدمت ہے تو بتاؤ، حاضرہیں. چندے لینے ہیں، حاضر ہیں. مگر ہمارے نظام کو مت چھیڑنا.

لیکن جہاں بات یہ آ جائے کہ 
وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ میں صرف وعظ کہنے نہیں آیا ہوں، میں نظامِ عدل و قسط قائم کرنے آیا ہوں، میں مامور من اللہ ہوں، مجھے تو اس کا حکم ملا ہے، تو ظاہر ہے کہ جو لوگوں کی طرح طرح سے کون چوس رہے ہیں وہ تو مخالفت کریں گے. جن کے مفادات پر زد پڑتی ہو، آنچ آتی ہو وہ کسی طور اس کو برداشت نہیں کر سکتے کہ ایک غلط اور ظالمانہ نظام کا جو ناجائز انتفاع ہے اور جو Vested Interest ہے وہ ختم ہو جائے. یہ بات ان کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں ہو گی اور وہ اس سے کبھی بھی دست بردار ہونے کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے. ایسا نہیں ہو گا کہ وہ آپ کو موقع دے دیں، Walk over دے دیں کہ چلئے آپ نظام عدل و قسط قائم کر دیں. وہ تو مزاحمت کریں گے، مخالفت کریں گے، اس دعوت کو کچلنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے. عدل قائم کرنے کا کیا مطلب ہے؟ یہی کہ جن لوگوں کو ناجائز مراعات حاصل ہیں وہ ان سے چھین لی جائیں. لہذا اب تصادم ہو گا، اب لڑائی ہو گئی، اب مقابلہ ہو گا، اب حزب اللہ اور حزب الشیطان آمنے سامنے آئیں گے. اب مقاتلہ طے کرے گا کہ کون اپنے موقف پر سچا اور ر مخلص تھا، کون اس کے لیے کتنی قربانیاں دینے کے لیے تیار تھا! اب تو فیصلہ اس طور پر ہو گا.

پس یہ چیزیں بڑی مختلف ہیں. ایک وعظ کی بات ہے، عقیدے کی دعوت ہے، اس کی تبلیغ ہورہی ہے. جیسے عیسائی مشنریز ہیں کہ نظام سے ان کو کوئی غرض نہیں، کوئی تعرض نہیں، اس پر کوئی تنقید و نکیر نہیں، تمہارا جو نظام ہے رکھو، ملوکیت ہے تو رہے، ہمیں اس سے کیا لینا ہے، کوئی قوم دوسری قوم پر مستبدانہ طور پرمسلط ہے تو ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں، ہمیں تو اپنے عقیدے کو پھیلانا ہے. وہ بھی اکثر وبیشتر خیراتی اور رفاہی کاموں کے ذریعے سے پھیلایا جاتا ہے کہ معاشرے کے گرے پڑے طبقات میں کہیں دودھ اور گھی کے ڈبے بانٹ دیے، کہیں بسکٹ اور اسی نوع کی دوسری چیزیں تقسیم کر دیں. کہیں ان کے علاج ومعالجہ کے لیے ہسپتال قائم کر دیئے. کہیں ان کی تعلیم کے لیے مشنریز اسکول اور کالج کا انتظام کر دیا اور ان طور طریقوں سے ان کے ذہنوں میں اپنا عقیدہ داخل کر دیا. باقی اللہ اللہ خیر صلاّ. ان کے پاس نہ کوئی نظام ہے نہ شریعت، محض عقیدہ ہے یا چند رسوم 
(Rituals) . ا ن کا کام اس پر ختم ہو جاتا ہے کہ پہلے کسی کا نام عنایت اللہ یا کرشن چندر تھا تو ان کے نام عنایت مسیح اور کرشن مسیح میں تبدیل کرا دیئے اور مردم شماری میں ان کا نام و مذہب بدلوا کر ان لوگوں کو مطمئن کر دیا جو اوپر بیٹھے اس کام کے لیے اربوں ڈالر سے بھی زیادہ رقوم کے سالانہ بجٹ فراہم کرتے ہیں. تو یہ تبلیغ انقلابی تبلیغ نہیں ہے. انقلابی تبلیغ تو وہ ہے جو محمد رسول اللہ نے فرمائی. 

آنحضور نے ڈنکے کی چوٹ اعلان فرمایا وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مابین عدل قائم کروں.‘‘ میں تمہارے مابین عدل قائم کرنے آیا ہوں. میں مامور من اللہ ہوں. میری بعثت کا تکمیلی مقصد یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ دین اور میزان (شریعت) قائم کروں، اللہ کا نازل کردہ وہ نظام عدل و قسط بالفعل قائم کر دوں کہ جس سے حق دار کو اس کا مکمل حق مل جائے، حق بحق دار رسید!! کوئی شخص او رکوئی طبقہ کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کر سکے، کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے. وہ نظام جو ظالم کا ہاتھ پکڑ لے اور مظلوم کی داد رسی کرے، وہ نظام جو عدوان، جورو ظلم اور استحصال سے پاک و صاف نظام ہو… میں محض واعظ بن کر نہیں آیا ہوں.

آیت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں دعوتِ محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا انقلابی پہلو کو زے میں سمندر کی مانند سمویا ہوا ہے. سیرت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا یہ انقلابی پہلو عموماً لوگوں کی نگاہوں کے سامنے نہیں ہے، حالانکہ آنحضور کی بعثت کی امتیازی شان ہی اللہ کی کبریائی اور اس کی حاکمیت پر مبنی نظام عدل و قسط کا قیام اور اس کا غلبہ ہے. بالکل آغاز ہی میں آنحضور اس منصب پر فائز فرمائے گئے تھے. سورۃ المدثر کی ابتدائی تین آیات ذہن میں لایئے جو اکثر مفسرین کے نزدیک تیسری وحی ہے: 
یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳یہی بات سورۃ الفتح، سورۃ التوبہ اور سورۃ الصف میں بایں الفاظ فرمائی گئی: ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ دنیا میں جو بھی نظام ہائے اطاعت رائج ہیں ان سب پر اللہ کے دین کو غالب کرنا آنحضور کا فرض منصبی ہے. اپنی حیات ِ طیبہ میں آپؐ نے بنفس نفیس جزیرہ نمائے عرب میں بالفعل یہ نظام قائم کر کے اور چلا کے دکھایا. اسی انقلابی نظریہ اور دین کو خلافت راشدہ میں اس وقت کی معلوم و مہذب دُنیا کے بڑے حصے پر غالب کر دیا گیا… اسی بات کو نبی اکرم سے آیت زیر مطالعہ کے اس حصہ میں کہلوایا گیا ہے: وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ.

حجت بازی سے کنارہ کشی کا اصل الاصول

حضور سے فرمایا گیا کہ فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ یعنی مشرکین کی شدید ترین مزاحمت اور اہل کتاب کی بدترین مخالفت کے باوجود آپؐ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت پر مبنی اقامت ِ دین کی دعوت دیتے رہئے. ان معاندین کی طرف سے جو تشدد اور تعدی ہو رہی ہے اس پر صبر کیجئے اور اپنے موقف پر مستقیم رہئے، جمے رہئے. ان کی خواہشات کی قطعاً پروانہ کیجئے اور ان سے کہہ دیجئے کہ میں تو اس کتاب پر ایمان رکھتا ہوں جو اللہ نے نازل فرمائی ہے اور کہہ دیجئے کہ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل قائم کروں.

اسی سلسلۂ کلام میں آگے فرمایا: 
اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ؕ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿ؕ۱۵﴾ ’’(اے نبی کہہ دیجئے!) اللہ ہی ہمارا رب ہے اور تمہارا رب بھی. ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے. ہمارے درمیان کوئی حجت بازی اور کوئی جھگڑا نہیں. اللہ ہم سب کو ایک روز جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو لوٹناہے.‘‘
یہ بات کس سے کہی جا رہی ہے! مشرکین سے بھی اور خاص طور پر اہل کتاب سے جن کا ذکر ما قبل آیت میں آ چکا ہے… لہذا قریب تر وہی ہیں. ویسے بھی توحید کا وہ اقرار کرنے والے، نبوت و رسالت سے وہ واقف، نبی آخر الزماں کے ظہور وبعثت کے وہ منتظر. پھر بھی وہ مخالفت میں پیش پیش. اسی لیے ان سے خطاب کر کے سورۃ البقرۃ میں فرمایا گیا:

وَ اٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ وَ لَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ 
’’اور ایمان لے آؤ اس کتاب پر جو ہم نے (محمد پر) نازل کی ہے اور جو اس کتاب کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود ہے. لہذا تمہارے لیے یہ بات ہرگز مناسب نہیں (بلکہ جائز نہیں) کہ تم ہی سب سے پہلے اس کا انکار کرنے والے بنو.‘‘

تمہارے پاس توڑتا ہے، جو 
ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ہے. اس کے باوجود تم ہمارے رسول  کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہو، مشرکین مکہ کی پیٹھ ٹھونک رہے ہو، ان کو حجت کے لیے مواد فراہم کر رہے ہو، ان کو ہمارے نبی سے طرح طرح کے سوالات کرنے اور الجھنے کی ترکیبیں سکھا رہے ہو… سن رکھو کہ اللہ ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی. معقول دلائل سے حق تم پر واضح ہو چکا ہے. اب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہمیں ملے گا اور اپنے اعمال کا نتیجہ تم بھگتو گے… ہمارے مابین کسی حجت بازی اور کج بحثی کی ضرورت نہیں ہے. تمہارا دعویٰ ہے کہ تم توحید پر کاربند ہواور دین ہی کے لیے کام کر رہے ہو تو اللہ عالم الغیب ہے، وہ فیصلہ فرما دے گا. اگر خلوص سے ہم توحید پر عمل پیرا ہیں اور اس کے دین توحید کو ایک نظام حیات کی حیثیت سے قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں تو ہم اللہ سے اجر پا لیں گے… ہم تمہارے اعمال کا اجر نہیں لے سکتے اور تم ہمارے اعمال کا اجر نہیں پا سکتے. ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ہاں مسئول و ماجور ہو گا. ازروئے الفاظِ قرآنی: 

کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا کَسَبَتۡ رَہِیۡنَۃٌ ﴿ۙ۳۸﴾ (المُدثّر:۳۸)
’’ہر ذی نفس اپنی کمائی کے عوض اللہ کے ہاں رہن ہے.‘‘ جو نیکی یا بدی وہ کمائے گا اسی کے مطابق اسے بدلہ مل کر رہے گا… اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو بالحق تخلیق فرمایا ہی تاکہ آخرت میں ہر متنفس کو اس کی اس دُنیا میں کمائی کا پورا بدلہ دیا جائے. وہاں لوگوں پر ہرگز ظلم نہ کیا جائے گا. کسی کی حق تلفی نہیں ہو گی.

ہمارے لیے عظیم رہنمائی

امت کی تاریخ پر چودہ صدیوں کا زمانہ بیت گیا ہے. یہ ایک حقیقت ہے کہ امت میں مختلف فرقے موجود ہیں. لوگ اس بات کوبڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں. ایک حدیث میں بہتر (۷۲) فرقوں کا ذکر آیا ہے. میرا خیال ہے کہ وہاں بہتر کی تعداد کثرت کے لیے آئی ہے، ورنہ اتنے فرقے موجود نہیں رہے. مشہور فرقے تو سنی، شیعہ، خارجی اور معتزلہ رہے ہیں. ان میں بھی سنی اور شیعہ اصل فرقے ہیں جن کے مابین قریباً ساڑھے چودہ سو برس سے مسلسل کشمکش چلی آ رہی ہے، کیونکہ ان کے مابین نہایت بنیادی، اصولی اور اساسی (fundamental) اختلافات ہیں. مثلاً خلافت کا تصور اور امامت کا تصور ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں. سنی مکتب فکر کے نزدیک معصومیت خاصہ نبو ت ہے، نبی کے علاوہ کوئی معصوم نہیں، نبوت ختم ہوئی تو معصومیت بھی ختم ہوئی، جبکہ شیعہ مکتب فکر میں امام کی معصومیت جزوِ ایمان ہے. پھر ان کے ہاں امامت صرف آل فاطمہ رضی اللہ عنہا میں منحصر ہے اور ان کے لیے مختص ہے… ان کے ہاں البتہ کئی فرقے ہیں جن میں وہ بھی ہیں جو امام غائب کے قائل اور ان کے ظہور کے منتظر ہیں اور وہ بھی ہیں جن کا امام مسلسل چلا آ رہا ہے اور ہر دور میں حاضر و موجود رہتا ہے. ان میں حلول کے قائل بھی موجود ہیں. بہرحال اہل تشیع میں بے شمار فرقے ماضی میں بھی رہے ہیں اور اب بھی موجود ہیں… باقی رہا اہل سنت والجماعت کا معاملہ تو یہ غلط فہمی دور کر لیجئے کہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور اہل حدیث حضرات کے مابین کوئی بنیادی فرق نہیں ہے. یہ حقیقت میں ایک ہی ہیں. چند فقہی امور و مسائل کی تفصیلات کے تعبیر، توضیح، تشریح، تفسیر، ترجمانی (Interpretation) اور انطبقاق و استنباط (Implication) میں تھوڑا تھوڑا اختلاف واقع ہو جاتا ہے. یہ تو ہماری بدقسمتی ہے کہ چند پیشہ ور واعظوں اور چند علمائے سوء نے اپنی مسندیں، اپنی قیادتیں، اپنی چودھراہٹیں اور اپنی سیادتیں قائم رکھنے اور چمکانے کے لیے چند فروعی مسائل کو، جن کی دین میں گنجائش موجود ہے، نزاعی مسائل بنا کر مورچہ بندی کر رکھی ہے اور اپنی انانیت کے تحت امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر رکھا ہے.

اس وقت اس بحث کا موقع نہیں، بلکہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ خلوص و اخلاص اور نیک نیتی سے دین کا کام کرنے والوں میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے، رائے کا بھی اور طریقہ ٔ کار کا بھی. یہ اختلاف بھی مبنی بر اخلاص ہو سکتا ہے. اس کو ایک سادہ سی 
مثال سے سمجھئے کہ یہ ایک عملی مسئلہ ہے. ایک ایسے پرانے مریض کا تصور کیجئے جو کسی ایک مرض میں مبتلا نہیں بلکہ بہت سی بیماریوں میں مبتلا ہے. اس کی حالت متعدد امراض کی وجہ سے ناگفتہ بہ ہے… اس کے دل میں بھی ضعف ہے، اس کا جگر بھی خراب ہے. اس کے گردے بھی ماؤف ہو رہے ہیں. نزلے اور زکام میں بھی وہ مبتلا ہے. اب اگر آپ اس مریض کے علاج و معالجہ کے لیے چار حکیم یا ڈاکٹر لا کر کھڑے کر دیں گے تو ان کے مابین اختلاف رائے ممکن ہے. ظاہر بات یہ ہے کہ حکیم اور ڈاکٹر کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا مریض اس کے علاج سے شفاپائے اور صحت یاب ہو جائے. وہ مریض کے لیے چاہتا ہے یا اپنی نیک نامی، شہرت اور منفعت کے لیے چاہتا ہے، اس کو چھوڑیے، بہرحال وہ مریض کی شفا ضرور چاہے گا. لیکن ہو سکتا ہے کہ پورے خلوص و اخلاص اور نیک نیتی کے باوجود ان چاروں کی تشخیص اور تجویز میں بھی فرق ہے. ایک کی تشخیص یہ ہو کہ اس کے جگر کی فکر کرو، اصل ہمت جگر کی ہے. دوسرے کا خیال ہو کہ اہمیت گردوں کی ہی، ان کی فکر کرو. کہیں گردوں نے کام چھوڑ دیا تو مریض ہاتھ سے گیا. تیسرے کی رائے ہو کہ اس وقت اصل توجہ پھیپھڑوں پر دی جانی چاہئے اور پہلے زلزلہ و زکام کی فکر کرنی چاہئے. چوتھے کا اصرار ہو کہ دل کا معاملہ اوّلین اہمیت رکھتاہے، اس کی پہلے فکر لازم ہے. چاروں معالج مخلص ہیں اور دل سے مریض کی شفا کے متمنی ہیں، لیکن تشخیص و تجویز میں اقدمیت و اوّلیت اور اہمیت کے معاملہ میں اختلاف کر رہے ہیں.

اس مثال میں اب مریض کی جگہ امت مسلمہ کو رکھ لیجئے. کوئی مخلص و دیانتدار اور درمند اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ شیطان کے ہتھکنڈوں، اغیار کی ریشہ دوانیوں اور دوست نما دشمنوں کی سازشوں کے باعث امت صدیوں سے بیمار ہوتے ہوتے فی الوقت اعتقادی، فکری ونظری اور عملی وا خلاقی اعتبارات سے بے شمار بیماریوں اور خرابیوں میں مبتلا ہے. اللہ کے دین کا جھنڈا بتمام و کمال کہیں بھی سربلند نہیں ہے. جو دین فاران کی چوٹیوں سے آفتاب عالم تاب کی طرح طلوع ہوا 
تھا، جس نے نورِ توحید سے کرۂ ارضی کے ایک بڑے حصے کو منور کر دیا تھا، آج اس دین پر غربت و مسکنت طاری ہے. کفر و الحاد، شرک و زندقہ اور بدعات و خرافات کے اندھیاروں میں یہ آفتاب ِ ہدایت گہنا دیا گیا ہے. ان حالات میں اللہ تعالیٰ چند لوگوں کے دلوں میں اپنے دین اور اپنے رسول کی امت کا درد پیدا فرماتاہے. وہ لوگ غور و فکر کرتے ہیں کہ تجدید واحیاء دین اور اصلاحِ امت کے کام کا آغاز کس طور سے کیا جائے، کس کام کو اقدمیت و اوّلیت دی جائے. جس رائے پر ان کا دل ٹھک جاتا ہے، انہیں انشراح ِصدر حاصل ہو جاتا ہے اس کے مطابق کام کے لیے وہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں. یہ تمام معاملہ اجتہادی ہوتا ہے. اس لیے کہ وحی کا سلسلہ تو منقطع ہو چکا. نبوت تو جناب محمد پر ختم ہو چکی. لہذا جو درد مند شخص احیاءِ دین اور اصلاح امت کے لیے اٹھتا ہے وہ اجتہادی طور پر کوشش کرتا ہے کہ بہتر سے بہتر طریق پر دین کی تجدید کا، اسلام کی سربلندی کا، اقامت ِ دین کا اور امت کی اعتقادی و عملی خرابیوں کی اصلاح کا کام کروں. اس کی تشخیص و تجویز سے پورے اخلاص و خلوص اور نیک نیتی کے باوجود بھی اختلاف ممکن ہے.

اس بات کو سامنے رکھئے اور آیت کے آخری حصے کو پڑھیے اور یہ نتیجہ اخذ کیجیے کہ ایسے اشخاص اور ایسی جماعتوں کو باہم دست و گریباں نہیں ہونا چاہئے. اپنے اپنے طریقوں پر دین کی خدمت اور احیائے اسلام کے لیے خلوص و اخلاص کے ساتھ عمل پیرا رہیں لیکن ایک دوسرے پر الزام تراشی نہ کریں، ایک دوسرے کی ٹانگیں نہ گھسیٹیں، اپنے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جذبات پروان نہ چڑھائیں، بلکہ جہاں تک ہو سکے تعاون و اشتراک کا معاملہ رکھیں. ایک دوسرے کے خیر خواہ رہیں اور انداز وہ اختیار کریں جس کی طرف ہمیں آیت مبارکہ کے ان الفاظ میں رہنمائی مل رہی ہے کہ:
اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ’’اللہ ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے.‘‘ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ’’ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال.‘‘ لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ’’ہمارے اورتمہارے مابین حجت (بحث و تمحیص اور مناظرہ) کی کوئی ضرورت نہیں.‘‘ اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا اگر ہم مخلص ہیں اور اخلاص کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور تم بھی مخلص ہو اور خلوص سے کام کر رہے ہو تو ’’اللہ ایک دن ہمیں جمع کر دے.‘‘ منزل اگر ایک ہے تو لازماً سب ایک دن ایک جگہ جمع ہو جائیں گے. 

۹ ذی الحجہ کو منیٰ سے لاکھوں انسان چلتے ہیں، سب کو عرفات جانا ہے، وقوفِ عرفہ کرنا ہے، وہی اصل حج ہے. عرفات جانے کے لیے ہزاروں قافلے بنے ہوتے ہیں. ہر ایک کا جھنڈا علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے اور اونچا رکھا جاتا ہے تاکہ اس قافلے کا کوئی آدمی کہیں اِدھر اُھر ہو جائے تو اپنے جھنڈے کو دیکھ کر قریب آ جائے ورنہ بچھڑ جائے گا اور دوبارہ ملنامشکل ہو جائے گا. لہذا لوگ قافلوں کی شکل میں چلتے ہیں، لیکن منزل سب کی ایک ہے. جن لوگوں کو حال ہی میں حج کی سعادت نصیب ہوئی ہو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اب تو منیٰ سے عرفات کے لیے چھ بڑی کشادہ سڑکیں ہیں، لیکن یہ سب سڑکیں قافلوں کو آخر کار عرفات پہنچائیں گی. سب قافلے وہاں جمع ہو جائیں گے. پس دین کی خدمت یا اقامت ِ دین کی جدوجہد میں جو لوگ اور جو جماعتیں بھی خلوص و اخلاص کے ساتھ مصروف رہی ہیں اور ان کے طریقہ کار میں اختلاف ہے ان کے لیے فکر مندی کی کوئی بات نہیں. اگر منزل ایک ہے تو قریب سے قریب تر ہوتے چلے جائیں گے اور آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں منزل پر پہنچ کر سب ایک جگہ جمع ہو جائیں گے. چلئے اگر دُنیا میں ہم قریب نہ بھی ہوئے تو ایک دن آنا ہے جب اپنے رب کے حضور میں حاضری ہو گی: اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿ؕ۱۵﴾ آخر لوٹنا تو وہیں ہے. وہاں جاکر پتہ چل جائے گا کہ کون کتنے پانی میں تھا. وہاں پر حقیقت کھل جائے گی کہ کس کی آنکھوں پر تعصب کی پٹیاں بندھ گئی تھیں، کون جماعتی عصبیتِ جاہلیہ میں گرفتار ہو گیا تھا اور کون خلوص کے ساتھ چل رہا تھا! کون کس شخصیت کی عقیدت کا غلام ہو گیا تھا! ہر ایک کی حقیقت کھل جائے گی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی جدا ہو جائے گا. کون مخلص تھا اور کون غیر مخلص، وہاں سب عیاں ہو جائے گا. جو مخلصین ہوں گے وہ باہم شیر وشکر ہو جائیں گے.اہل ایمان کے تذکرے میں سورۃ الحجر میں الفاظ آئے ہیں: وَ نَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ مِّنۡ غِلٍّ اِخۡوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیۡنَ ﴿۴۷﴾ ’’اور ان کے دلوں میں اگر ایک دوسرے کی طرف سے میل ہوا تو ہم اسے نکال دیں گے اور وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے.‘‘

جب ان سے کہا جائے گا کہ جنت میں سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر داخل ہو جاؤ. 
اُدْخُلُوْھَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیْنَ تو اہل ایمان کے دلوں میں بربنائے طبع بشری اپنے کسی بھائی کے بارے میں اگر کوئی رنجش اور میل موجود ہو گا تو جنت میں اللہ اس کے دلوں سے نکال دے گا. ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت میرے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے. ایک دوسرے کی طرف دلوں میں میل تو آیا تھا. جب تلواریں نیاموں سے باہر آ گئی تھیں تو یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ دونوں کے دل ایک دوسرے سے آئینہ کی طرح صاف تھے. شکوہ، شکایت اور گلہ ایک دوسرے سے پیدا ہوا. اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں کہ جنتی ہم دونوں ہیں. رنجش کی وجہ سے اس دنیا میں ہمارے دلوں میں جو میل آ گیا ہے، جو کدورت پیدا ہو گئی ہے، تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس رنجش کو صاف کر دے گا.
دُنیا میں خلوص و اخلاص کے ساتھ دین کے لیے کام کرتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے گلے اور شکوے پیدا ہو جاتے ہیں. اگر حضرت علی اور حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہما) کے مابین رنجش پیدا ہوئی، جو رسول اللہ کے جلیل القدر صحابی ہیں، تو ہم کیسے یہ دعویٰ کریں گے کہ ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کی طرف سے کبھی کوئی میل آتا ہی نہیں، کوئی رنجش کبھی پیدا ہوئی ہی نہیں. لیکن صحیح طریقہ یہ ہے کہ یہ تصور ذہن میں رکھا جائے کہ: 

اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ؕ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿ؕ۱۵﴾ 
پس اگر ہم جمع نہ بھی ہوئے تو کوئی حرج نہیں، ہمارا کام تو جمع ہو جائے گا. آپ بھی دین کے لیے محنت کر رہے ہیں اور میں بھی دین کے لیے محنت کررہا ہوں تو ان محنتوں کے ثمرات کہاں جمع(Credit) ہوں گے؟ ظاہر بات ہے کہ دین کے کھاتے میں. فرض کیجئے کوئی ایک شخص کسی ایک جماعت کے ذریعے دین کے قریب آ جاتا ہے اور کوئی دوسرا شخص کسی دوسری جماعت کے ذریعے سے دین کے قریب آیا ہے تو کام تو جمع ہو ہی گئے، چاہے وہ قافلے جمع نہ ہوئے ہوں.

حاصلِ گفتگو

شروع میں ذکر ہو چکا ہے کہ اقامتِ دین کے موضوع پر یہ تین آیات اہم ترین ہیں. اس کے مخاطبین، اس کے مخالفین، مخالفت کی وجوہ، تفرقہ کا سبب، ان سب کا علاج، پھر جو داعی ہو اس کا کردار، اس کو کن باتوں کو ملحوظ رکھنا ہے، ان تین آیات میں یہ تمام مضامین آ گئے ہیں، بس غور وفکر اور تدبر سے انہیں ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے.

مخالفین و معاندین کے لیے انتباہ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ الَّذِیۡنَ یُحَآجُّوۡنَ فِی اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا اسۡتُجِیۡبَ لَہٗ ....
’’کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں ابھی بحث و مباحثہ اور حجت بازی میں پڑے ہوئے ہیں، حالانکہ اللہ کی پکار پر لبیک کہی جا چکی ہے.‘‘

یہاں 
’’ فِی اللّٰہِ‘‘ سے مراد ’’فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ ‘‘ ہے. یعنی ابھی تک جو لوگ اللہ کے دین کے بارے میں جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں.

آگے بڑھنے سے قبل آیت کے اس حصہ کو وضاحت سے سمجھ لیجئے. دیکھئے جب کوئی نئی دعوت اٹھتی ہے تو کچھ لوگ اتنے ذہین ہوتے ہیں کہ وہ اس کو اس کی 
Face Value پر قبول کر لیتے ہیں اور ان میں اتنی جرأت بھی ہوتی ہے کہ ؏ ہرچہ باداباد‘ ماکشتی درآب اندا ختیم. اب جو ہو سو ہو ہم نے اس دعوت کو قبول کر لیا. اب تیریں گے تو اس کے ساتھ اور ڈوبیں گے تو اس کے ساتھ. لیکن سب لوگوں میں اتنی ہمت نہیں ہوتی. کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں کہ جن کو حقیقت تو معلوم ہو جاتی ہے کہ بات صحیح ہے، لیکن منجدھار میں چھلانگ لگانے کے لیے جو ہمت درکار ہوتی ہے اس کا ان میں فقدان ہوتا ہے. اس کی مثال یوں سمجھئے کہ جیسے ایک جنگل ہے، اس میں جانے کا کوئی راستہ ہونا تو درکنار پگڈنڈی بھی بنی ہوئی نہیں ہے. ایسی صورت میں کوئی بڑی ہمت والا ہی ہو گا جو اس میں داخل ہو گا. لیکن اگر کچھ لوگوں نے چل کر پگڈنڈی بنا دی ہو تو نسبتاً کم ہمت لوگ بھی اس پر چل پڑنے کا اپنے اندر حوصلہ پیدا کر لیں گے، کیونکہ ان کو نظر آرہا ہے کہ راستہ بنا ہوا ہے اور کچھ لوگ اس پر چل کر جنگ میں داخل ہو گئے ہیں اور ہو رہے ہیں. یہی بات یہاں کہی جا رہی ہے کہ وَ الَّذِیۡنَ یُحَآجُّوۡنَ فِی اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا اسۡتُجِیۡبَ لَہٗ اللہ کے دین کی دعوت پر لبیک کہے جانے کے بعد بھی بعض لوگ دعوت قبول کرنے والوں سے حجت بازی کر رہے ہیں.

سورۃ الشوریٰ کے نزول کا زمانہ مکی دور کا آخری تیسرا حصہ یعنی سن آٹھ نبوی ہے. ظاہری بات ہے کہ اس وقت تک بہت سے ایسے لوگ بھی ایمان لا چکے تھے جو قریش میں ایک باحیثیت مقام رکھتے تھے اور ایسے بھی جو دبے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتے تھے. گویا کہ بہت سے لوگوں نے بیچ منجدھار کود کر دکھا دیا تھا. بہت سے لوگوں نے تشدد جھیل کر، مصائب برداشت کر کے اور قربانیاں دے کر اعلیٰ مثالیں قائم کر دی تھیں. اس طرح ان لوگوں کے لیے جو کم ہمت تھے، راستہ بن گیا اور اب ان کے لیے اس پر چلنا آسان ہوگیا. جو اب بھی تاخیر وتعویق میں ہوں، لیت و لعل میں ہوں، جو اب بھی حجت بازی میں پڑے ہوں، معلوم ہوا کہ اب ان کا کوئی عذر اللہ تعالیٰ کی جناب میں لائق پذیرائی نہیں رہا. 
حُجَّتُہُمۡ دَاحِضَۃٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ان کی حجت، ان کی دلیل ان کے رب کے پاس بالکل باطل اور پادر ہوا ہے. وَ عَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ﴿۱۶﴾ ’’اور ان پر اللہ کا شدید غضب نازل ہو کر رہے گا اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے.‘‘

قرآن حکیم کا یہ اعجاز ہے کہ اس آیت میں ان کم ہمت لوگوں کے لیے بھی انتباہ ہے جو دعوت کو حق سمجھ لینے کے باوجود مشرکین و مخالفین کے تشدد اور تعدی کے خوف سے دعوت قبول کرنے میں ہچکچا رہے ہیں اور ان کے لیے بھی شدید وعید ہے کہ جن کے دل دعوت کی حقانیت تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ اپنے مفادات، اپنے تعصبات اور اپنی عصبیت کے باعث دعوت کو قبول کرنے کے بجائے اس کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور اس دعوت کو کچلنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور ان کا ساتھ دے رہے ہیں جو صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں. گویا وہ سرے سے دعوت کی حقانیت کو تسلیم ہی نہیں کرتے. اس آیت میں تینوں قسم کے لوگ مخاطبین ہیں.

الکتاب والمیزن= قرآن و سنت

اگلی آیت میں وہ مضمون آ رہا ہے جو وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ کی توضیح و تشریح کے ضمن میں سورۃ الحدید کی ایک آیت کے حوالے سے بیان ہو چکا ہے. سورۃ الشوریٰ مکی سورتوں میں اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جتنی مدنی سورتوں میں سورۃ الحدید. سورۃ الحدید میں رسولوں کی بعثت، ان کوبیّنات عطا کرنے، ان کے ساتھ کتابیں اور میزان یعنی شریعت نازل فرمانے کی غرض و غایت ان الفاظِ مبارکہ میں بیان فرمائی گئی تھی کہ: 

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ جبکہ یہاں فرمایا:

اَللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ وَ الۡمِیۡزَانَ ؕ 
’’اللہ ہی ہے وہ ذات جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری اور میزان بھی اتاری.‘‘

جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کتاب تورات نازل ہوئی تو اس کے ساتھ شریعت موسوی اتری، ویسے ہی جناب محمد رسول اللہ پر قرآن نازل ہوا تو اس کے ساتھ ہی 
المیزان یعنی شریعت ِ محمدی یا دین الحق نازل ہوا. یہی بات اس آیت مبارکہ کی ابتداء میں ایک دوسرے اسلوب سے فرمائی جو سورۃ التوبہ، سورۃ الفتح اور سورۃ الصف میں بایں الفاظ وارد ہوئی: 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ 
’’وہ (اللہ) ہی ہے جس نے اپنے رسول( ) کو بھیجا الہدیٰ اور دین الحق کے ساتھ.‘‘

یہاں ’‘و‘‘ واوِ عطف ہے. دین الحق الہدیٰ سے مختلف اور علیحدہ چیز ہے، اس معنی میں کہ الہدیٰ یعنی قرآن مجید میں علمی اور اصولی ہدایت ہے جبکہ سنت رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اس کی عملی تفسیر اور ا س کا عملی مظاہرہ 
(demonstration) ہے. جب قرآن حکیم کے ساتھ سنت رسول جمع ہو جائے گی تو دین الحق بنے گا اور وہ میزان یعنی شریعت سامنے آئے گی کہ کس کا کیا حق ہے اور کس کے کیا فرائض ہیں، کیا واجبات ہیں. اور طے ہو گا کہ (What is due to him and what is due from him) اس پر لازم کیا ہے اور اس کا حق کیا ہے… یہ ہے کتاب او رمیزان جو اللہ نے نازل فرمائی. 

غور طلب بات

اب غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے میزان کس لیے نازل فرمائی! ایسے ہی رکھی ہے یا اس میں ماپا اور تولا جائے! میزان تو اس لیے اتاری گئی کہ نصب ہو. دین اس لیے دیا گیا کہ قائم ہو. دین اگر قائم نہ ہو تو وہ دین ہے ہی نہیں، پھر تو وہ مذہب بن گیا. وہ صرف ایک عقیدہ اور ایک Cult بن کر رہا گیا. وہ محض چند رسوم (Rituals) کا مجموعہ بن گیا. دین تو وہ ہے جو ایک نظام کی حیثیت سے بالفعل قائم و نافذ ہو. اس کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھ لیجئے، انگریز کے دورِ غلامی میں جس نظام کی حکومت تھی وہ ’’دین انگریز‘‘ تھا. تاجِ برطانیہ کے نمائندے کی حیثیت سے مطاعِ مطلق برطانوی پارلیمنٹ تھی. تمام فوجداری اور دیوانی قوانین اس کے بنائے ہوئے تھے اور ان کے مطابق ہی ملک کا نظام چل رہا تھا. البتہ دوسرے مذاہب کے ساتھ مسلمانوں کو بھی یہ آزادی حاصل تھی کہ نجی زندگی میں نماز پڑھ لو، روزے رکھ لو، حج کو چلے جاؤ، اپنے طور پر زکوٰۃ ادا کر دو، شادی بیاہ کی رسوم اپنے طور پر بجا لاؤ. پرائیوٹ اور شخصی معاملات میں انگریز سرکار کا کوئی سروکار نہیں، البتہ ملک کا نظام اور قانون (Law of the land) انگریز کا بنایا ہوا رائج و نافذ رہے گا. اس صورت حال کے پیش نطر ہی علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا ؎ 

مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اب پھر اس آیت پر توجہ مرتکز کیجئے. فرمایا: 
اَللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ وَ الۡمِیۡزَانَ ؕ 

’’وہ اللہ ہی ہے جس نے حق کے سااتھ اتاری ہے کتاب بھی اور میزان بھی.‘‘ سورۃ الحدید میں بعثت ِ رسل، انزال کتب و میزان کی جو غرض و غایت بیان فرمائی گئی تھی کہ: 
لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ 
’’تاکہ لوگ عدل و قسط پر قائم ہو جائیں.‘‘

اس کو آیت کے اس حصے کے ساتھ ذہن و قلب پر ثبت کر لیجئے تو اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ اور وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ کے جملہ مقتضیات و متضمنات واضح ہو کر سامنے آجائیں گے.

انجام سے متعلق تنبیہہ

اسی آیت کے دوسرے حصہ میں فرمایا: وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیۡبٌ ﴿۱۷﴾ ’’اور (اے نبی !) آپ کو کیا معلوم کہ قیامت قریب ہو اور سر پر آئی کھڑی ہو.‘‘

یہاں انداز مختلف ہے. اس میں انسانوں کو ایک فطری اور نفسیاتی کمزوری پر متنبہ کیا گیا ہے. وہ یہ کہ حقیقت کو انہوں نے پہچان بھی لیا لیکن دل کے اندر جو چور ہے اور مفادات و لذات دُنیوی نے جو اُنس ہے اس کی وجہ سے تاخیر وتعویق کا معاملہ ہوتا ہے. سوچ کا انداز یہ ہوجاتا ہے کہ بات تو حق ہے، قبول کرنی چاہئے اور 
ر ہم ضرور قبول کریں گے، ذرا فلاں فلاں کاموں سے فارغ ہو جائیں تو پھر ہم بھی میدان میں کود پڑیں گے. بس یہ ذمہ داریاں ہیں ان سے نمٹ لیں، ذرا بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں ان سے عہدہ بر آہوجائیں تو پھر اقامت ِ دین کی جدوجہد میں ہمہ وقت اور ہمہ تن لگ جائیں گے اور اپنی ساری توانائیاں اور اپنے تمام اوقات اللہ کی راہ میں لگا دیں گے. اس سے بڑا فریب اور دھوکہ کوئی نہیں اور دھوکہ کس کو دے رہے ہیں؟ حقیقی بات یہ ہے کہ اس سے بڑی خود فریبی اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی. اس لیے کہ واقعہ یہ ہے کہ ؏ کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد. اپنی بچیوں سے فارغ ہوں گے تو آگے نواسیاں اور پوتیاں ہوں گی. اپنی ذمہ داریوں سے فراغت کیسے ہو گی. نسل تو آگے پھیلے گی، بڑھے گی اور نہ معلوم کیا کیا معاشرتی پیچیدگیوں (Problems) سے سابقہ پیش آئے گا. اوّل تو فراغت ملتی نہیں. لیکن فرض کیجئے کہ کسی نے سوچ رکھا ہو کہ ریٹائر ہو جاؤں پھر دین کے لیے کام کروں گا تو حکومت بھی اس وقت ریٹائر کرتی ہے جب صلاحیت و اہلیت برائے نام رہ جاتی ہے. ایسی حالت و کیفیت میں آپ دین کے لیے کریں گے کیا؟ اس لیے کہ حکومت نے رٹائرمنٹ کی مدت خوب سوچ سمجھ کر رکھی ہے. توانائیاں تو خدمت ِ سرکار میں ختم ہوئیں، اب تو آپ کی حیثیت Spent up force کی ہے. یہ ہیں وہ دھوکے اور فریب جو انسان کا نفس خود اسے دیتا ہے. سورۃ الحدید میں یہ مضمون اہل ایمان کے لیے مختص ہو کر آیا ہے. وہاں فرمایا:

اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقّ 
’’کیا وقت آ نہیں گیا ہے اہل ایمان کے لیے کہ چمک جائیں ان کے دل اللہ کی یاد میں اور اس حق کے سامنے جو نازل ہو گیا ہے.‘‘

یہ تاخیر اور تعویق، اور یہ بات کہ یہ کرلوں وہ کرلوں پھر دین کے کام میں لگ جاؤں گا… خود فریبی کے اس چکر سے کب نکلو گے؟ وہی بات نبی اکرم سے مخاطب ہو کر بطورِ واقعہ اور حقیقت فرمائی جا رہی ہے:

وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیۡبٌ ﴿۱۷﴾ 
’’اور (اے نبی !) آپ کو کیا خبر کہ قیامت (فیصلہ کی گھڑی) قریب ہی آ لگی ہو.‘‘ اچھی طرح ذہن میں رکھیے کہ ایک قیامت تو آخری قیامت ہے، اور ایک میری اور آپ کی انفرادی (Individual) قیامت ہے. یعنی ’’میری اور آپ کی موت.‘‘ وہ تو ہم سب کے سروں پر منڈلا رہی ہے. ہم میں سے کون جانتا ہے کہ وہ کب آئے گی! جگر مراد آبادی مرحوم کا بڑا پیارا شعر ہے ؎ 

اربابِ ستم کی خدمت میں اتنی ہی گزارش ہے میری
دنیا سے قیامت دور سہی دنیا کی قیامت دُور نہیں!

موت کی موت صورت میں ایک قیامت انسان پر اس دنیا میں بھی آتی ہے جسے ہم قیامت ِ صغریٰ کہتے ہیں. نبی اکرم نے فرمایا: مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ ’’جو مر گیا اس کی قیامت تو قائم ہو گئی.‘‘ مہلت عمر اور مہلت ِ عمل ختم ہوئی… کسے یقین ہے او رکون کہہ سکتا ہے کہ کل صبح طلوع ہونے والا سورج میں لازماً دیکھوں گا. اگر دل میں یہ یقین ہو تو بہت بڑا دھوکہ ہے… کس برتے پر، کس امید میں تم یہ چیزیں موخر کر رہے ہو؟ اللہ کی طرف سے عائد کردہ فرض ادا کرنے کی فکر کرو. اس کے لیے جدوجہدکرو. اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ اس کے لیے کمر بستہ ہو جاؤ، سربکف ہو کر میدان میں نکلو، باطل سے پنجہ آزمائی کے لیے تیار ہو کر آؤ. وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ کا تقاضا خاتم النبیین والمرسلین کے امتی کی حیثیت سے پورا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہو. اس کے لیے نظم پید اکرو. اللہ تعالیٰ نے جو کتاب یعنی قرآن مجید اور میزان یعنی شریعت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام حق کے ساتھ نازل کی ہے اس پر مبنی نظام عدل و قسط قائم کرنے کی جدوجہد کرو، ورنہ تم کیا پتہ کہ موت تمہارے سرہانے کھڑی ہو، تم اسی تعویق و تاخیر میں رہو او رمہلت ِ عمر تمام ہو جائے… یہ جملہ مفاہیم اس آیت مبارکہ میں بیان ہوئے: اَللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ وَ الۡمِیۡزَانَ ؕ وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیۡبٌ ﴿۱۷﴾ 

آگے فرمایا: یَسۡتَعۡجِلُ بِہَا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِہَا ۚ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مُشۡفِقُوۡنَ مِنۡہَا ۙ وَ یَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہَا الۡحَقُّ ؕ اَلَاۤ اِنَّ الَّذِیۡنَ یُمَارُوۡنَ فِی السَّاعَۃِ لَفِیۡ ضَلٰلٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿۱۸﴾ 

’’اس قیامت کے دن کے لیے جلدی وہ لوگ مچاتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے، مگر جو لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس سے ڈرتے رہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ یقینا اس کا واقع ہونا حق ہے. خوب اچھی طرح سن رکھو! جو لوگ اس گھڑی کے آنے کے بارے میں شک میں ڈالنے والی بحثیں کرتے ہیں وہ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں.‘‘
اس آیت میں نہایت جامعیت، بلاغت او رپیارے انداز میں قیامت کے بارے میں منکرین اور مؤمنین کے طرزِ فکر و عمل پر تبصرہ فرمایا گیا ہے.

منکرین کی عجلت عذاب

کفار اور مشرکین کج حجتی اور ضد برائے ضد کے طورپر اس طرح کی باتیں کیاکرتے تھے کہ اے محمد( )! لے آؤ وہ قیامت یا وہ عذاب جس کا تم ہمیں ڈراوا دیتے چلے آئے ہو. نقلِ کفر کفر نہ باشد. وہ کہا کرتے تھے کہ تمہیں یہ رٹ لگاتے ہوئے دس سال ہو گئے، آخر وہ گھڑی کب آئے گی؟ یہ سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ہیں. لے آؤ وہ عذاب جس کی دھمکیاں تم ہمیں دیتے چلے آ رہے ہو. یہاں تک کہ نضربن حارث نامی ایک مشرک نے کھڑے ہو کر کہا تھا جس کا قرآن مجیدمیں سورۃ الانفال میں ذکر ہے: 

وَ اِذۡ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنۡ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الۡحَقَّ مِنۡ عِنۡدِکَ فَاَمۡطِرۡ عَلَیۡنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائۡتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۳۲﴾ [آیت: ۳۲
’’اور یاد کرو وہ بات جو ان کفار نے کہی تھی کہ پروردگار! (محمد ) جو پیش کر رہے ہیں) یہ اگر تیری طرف سے واقعی حق ہے اور سچی خبر ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ.‘‘

یہ حال تھا ان کی ہٹ دھرمیوں اور ڈھٹائیوں کا. ایسی باتوں سے وہ اپنے عوام کو 
متاثر کرنا چاہتے تھے جن میں دعوتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام نفوذ کر رہی تھی. گویا ؏ نظام کہنہ کے پاسبانو! یہ معرضِ انقلاب میں ہے!… مشرکین خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ ہمارے مفادات جو اس مشرکانہ نظام سے وابستہ ہیں، سخت خطرے میں آئے ہوئے ہیں. لہذا وہ اس قسم کی باتوں کے ذریعے اپنے عوام پر اپنے خلوص کا اثر قائم کرتے تھے کہ ہمیں اس دعوت ِ توحید کے غلط ہونے پر اتنا اعتماد ہے کہ ہم تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ دعوت جو محمد( ) پیش کر رہے ہیں سچ ہے، حق ہے تو ہم پر عذاب آ جائے… یہ تھا ان کا انداز اپنے عوام کو دعوت سے روکنے کے لیے. قرآن اس پر تبصرہ کرتا ہے کہ وہ تو قیامت اور یومِ حساب پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے اسی لیے عذاب اور قیامت کی جلدی مچا رہے تھے… جس کے دل میں یقین ہو گا وہ ہرگز یہ بات زبان پر نہیں لا سکتا. یہی بات فرمائی ان الفاظِ مبارکہ میں: یَسْتَعْجِلُ بِھَا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِھَا ’’اس کے لیے وہی لوگ جلدی مچاتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے.‘‘

اہل ایمان اور خوفِ قیامت

اس کے برعکس اہل ایمان کا یہ حال ہے کہ وہ قیامت کے تصور سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں: وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مُشۡفِقُوۡنَ مِنۡہَا 
اہل ایمان کی اسی صفت کو سورۃ الانبیاء میں بایں الفاظ بیان فرمایا: الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَیۡبِ وَ ہُمۡ مِّنَ السَّاعَۃِ مُشۡفِقُوۡنَ ﴿۴۹﴾ [آیت: ۴۹’’وہ لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور وہ قیامت سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں.‘‘ اور ان کے قیامت کے خوف اور خشیت ِ الٰہی کا نقشہ سورۃ النور کی آیت ۳۷ کے آخر میں یوں کھینچا گیا: 

یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ﴿٭ۙ۳۷﴾ 
’’اہل ایمان اس دن کے خوف سے کانپتے رہتے ہیں کہ جس دن دل الٹ جائیں گے اور نگاہیں پتھرا جائیں گی.‘‘

قیامت کی ہولناکیوں اور محاسبۂ اخروی سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس طرح ڈرتے 
رہتے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کہا کرتے تھے: ’’ کاش میں ایک سوکھا تنکا ہوتا جو جلا دیا جاتا ہے، ختم ہو جاتا ہے، اس سے محاسبہ نہیں ہے. کاش میں درختوں پر چہچہاتی ہوئی ایک چڑیا ہوتا جو آج ہے کل نہیں ہو گی، لیکن اس سے محاسبہ کوئی نہیں ہے.‘‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے انتقال کے وقت کہہ رہے ہیں: ’’کاش میں برابر سرا بر پر چھوٹ جاؤں.‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے وقت آخر اپنے والد کا سر اپنی ران پر رکھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا سر نیچے ڈال دو. انہوں نے پوچھا: آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟ یہ بے چینی کیوں ہے؟ آپ تو عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں، آپ کو تو نبی اکرم نے جنت کی بشارت دی ہے… تو جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’خدا کی قسم! اگر میں برابر سرابر بھی چھوٹ گیا تو بہت بڑی کامیابی تصور کروں گا.‘‘ حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ داڑھی اشکوں سے تر ہو جاتی. لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ دوزخ کے ذکر پر اتنے اشکبار نہیں ہوتے جتنے قبر پر ہوتے ہیں. آپ نے جواب میں کہا کہ: ’’میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ قبر آخرت کی منزلوں میں پہلی منزل ہے، اگر کوئی اس سے نجات پا گیا تو اس کے بعد آسانی ہے اور اگر اس سے ہی نجات نہ پائی تو ا سکے بعد اس سے بھی زیادہ سختی ہے.‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اکثر اشکبار کہا کرتے تھے کہ:’’اگر میں دوزخ اور جنت کے درمیان ہوں اور مجھے معلوم نہ ہو کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہو گا، میرے لیے ان میں سے کس کا حکم دیا جائے گا تو میں اس کا حال معلوم کرنے سے قبل راکھ ہو جانے کو پسند کروں گا کہ مبادا میرے لیے دوزخ کا فیصلہ ہوجائے.‘‘

یہ ہے ان لوگوں کا حال جو اصل عارف ہیں، جو پہچاننے والے ہیں، جو حقیقت کا علم رکھنے والے ہیں. نبی اکرم نے فرمایا کہ: ’’جو کچھ میں جانتا ہوں اے مسلمانو! اگر تم وہ جانتے تو تمہارے ہونٹوں پر کبھی مسکراہٹ تک نہ آتی.‘‘ 
او کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم. حقائق بڑے تلخ ہیں. جو ان سے غافل ہیں وہی ہیں جو اس نیا میں قہقہے بھی لگا رہے ہیں اور محاسبۂ اخروی سے بے نیاز ہو کر بے فکری سے زندگی بسر کرر ہے ہیں، دندناتے پھر رہے ہیں. انہیں پتہ نہیں ہے کہ موت کے بعد کیا بیتنے والی ہے. موت کے اس پردے کے پیچھے کون سے ابدی ولازوال خسارے سے واسطہ پڑنے والا ہے. اس کے برعکس اہل ایمان کے متعلق فرمایا:

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مُشۡفِقُوۡنَ مِنۡہَا ۙ وَ یَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہَا الۡحَقُّ ؕ اَلَاۤ اِنَّ الَّذِیۡنَ یُمَارُوۡنَ فِی السَّاعَۃِ لَفِیۡ ضَلٰلٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿۱۸﴾ 
’’اہل ایمان تو قیامت کی گھڑی کے یقین سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں اور انہیں خوب معلوم ہے کہ وہ گھڑی آ کر رہے گی (یہ یقینی، حتمی اور قطعی بات ہے)… آگاہ ہو جاؤ، (خبردار رہو، اچھی طرح سن رکھو) جو لوگ اس قیامت اور ساعت کے بارے میں جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں وہ بہت زور کی گمراہی میں متبلا ہو چکے ہیں.‘‘

قبول حق میں ایک اور اہم رکاوٹ اور اس کا حل

توحید عملی کی معراج فریضہ اقامت دین کی ادائیگی کے لیے جدوجہد، محنت و کوشش اور جہاد وکشمکش ہے. اسی کے لیے تمام رسولوں کی بعثت ہوئی، کتابیں اور شریعتیں نازل ہوئیں اور اس موضوع پر سورۂ شوریٰ کو ذروۂ سنام (چوٹی) کا مقام حاصل ہے. اس راہ کے چند موانعات کا ذکر بھی ہم پڑھ چکے ہیں اور ان کی وجوہ بھی ہمارے سامنے آ چکی ہیں. مشرکوں کو یہ دعوت کیوں ناگوار ہے؟ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ کے ضمن میں اس بات کو ہم نے سمجھ لیا ہے. اہل کتاب کی مخالفت و مخاصمت بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ کی تشریح و توضیح کے ضمن میں بیان ہو چکی ہے. حق کو اچھی طرح جان اور پہچان لینے کے باوجود تاخیر و تعویق اور لیت و لعل کے رویے کے چند اسباب بھی ہمارے سامنے آ چکے ہیں.

اب اگلی آیت میں ایک رکاوٹ کا براہِ راست تو ذکر نہیں ہے لیکن اس کے 
بین السطور وہ رکاوٹ منہ سے بول رہی ہے اور اس کا حل مثبت اسلوب میں سامنے لایا جا رہا ہے. فرمایا: 

اَللّٰہُ لَطِیۡفٌۢ بِعِبَادِہٖ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ الۡقَوِیُّ الۡعَزِیۡزُ ﴿۱۹
’’اللہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے‘ جسے وہ چاہتا ہے سب کچھ دیتا ہے‘ اور وہ بڑے قوت والا اور زبردست و غالب ہے.‘‘

دعوتِ توحید کو قبول کرنے اور اس کے لیے مجاہدہ کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ معاش کا مسئلہ ہوتا ہے. تاویل خاص کے طور پر نبی اکرم کی دعوت ِ توحید پر جن سعید روحوں نے لبیک کہا تھا ان پر جہاں مصائب و مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے وہاں ان کا معاشی مقاطعہ بھی کیا جا رہا تھا. لہذا اکثر لوگ آپ کی دعو تکو حق سمجھتے ہوئے بھی اس کو قبول کرنے سے گریزاں تھے. ا سلیے کہ اگر معاشی مقاطعہ ہو گیا تو کہاں سے کھائیں گے اور اپنے بال بچوں کو کیا کھلائیں گے. اس ماحول میں روکھی سوکھی روٹی کے بھی لالے پڑنے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے.

تاویل عام کے لحاظ سے دیکھئے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ہمیں خوب اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد فرض ہے: 
اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ لیکن یہ قدم کیسے بڑھائیں! اندیشہ یہ لاحق ہے کہ کھائیں گے کیا؟ پہنیں گے کیا؟ معاش کا بندوبست کیسے ہو گا؟ اس طرف بڑھتا ہوں تو میرا کاروبار بیٹھتاہے. سودی لین دین چھوڑ دوں گا تو اس کا مطلب ہے کہ کاروبار کی بساط لپیٹ دوں. اگر رشوت لینا چھوڑتا ہوں تو اپنا معیارِ زندگی کیسے قائم رکھ سکوں گا، جس کا خوگر ہوچکا ہوں. میرے بیوی بچے تو پراٹھوں کے عادی ہو چکے ہیں،اب ان کو سوکھی روٹی کیسے کھلاں گا! ان کو جو اعلیٰ تعلیم دلانے کے منصوبے ہیں ان پر عمل کیسے ہو گا. یہ بڑا مشکل کام ہے. یہ ہے وہ سب سے بڑی رکاوٹ اور سب سے بڑا مخمصہ جس سے ایسا شخص دوچار ہوتا ہے اور وہ حق واضح ہونے کے باوجود اس کی طرف پیش قدمی سے ہچکچاتا ہے. اس طرف حضرت مسیح علیہ السلام کے مواعظ میں مختلف اسالیب سے توجہ دلائی گئی ہے. ایک وعظ میں آنحضرت علیہ السلام کے الفاظ آئے ہیں:

’’کیوں فکر کرتے ہو کہ کیا کھاؤ گے او رکیا پیو گے؟ تم جنگل کی چڑیوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ نہ ہل چلاتی ہیں، نہ بوتی ہیں، نہ کاٹتی ہیں، نہ کھیتوں میں بھر کر رکھتی ہیں، لیکن پھر بھی وہ صبح کو خالی پیٹ اپنے گھونسلوں سے نکلتی ہیں اور شام کو آسودہ ہو کر لوٹ آتی ہیں. اے بے یقینو! جو آسمانی باپ ان کو کھلاتا پلاتا ہے کیا وہ تمہیں نہیں کھلائے پلائے گا؟ تم کیوں اس فکر میں مبتلا ہو کہ کیا پہنو گے؟ جنگل کی سوسن کو نہیں دیکھتے! وہ نہ بوتی ہے، نہ کاتتی ہے، نہ بنتی ہے، پھر بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ جتنا شاندار لباس وہ پہنتی ہے سلیمان بھی اپنی ساری شان و شوکت کے باوجود ایسا ملبس نہ تھا… جو آسمانی باپ جنگل کی گھانس کو اتنا خوشنما پہناتا ہے کیا وہ تمہیں نہ پہنائے گا.‘‘

یہ ہے توکل علی اللہ کا ایک انداز جو اب بھی محرف اناجیل میں موجود ہے. اس لیے کہ نور تو ایک ہی ہے، مشکوٰۃ تو ایک ہی ہے، طاق تو ایک ہی ہے جہاں یہ دیئے اور چراغ روشن ہیں. بعد میں تحریفات ہو گئیں یہ بات دوسری ہے. ورنہ تورات کا سرچشمہ کون سا ہے! تورات بھی اللہ ہی کی کتاب ہے. انجیل کا منبع کیا ہے! وہی اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے. اللہ تبارک وسبحانہ ہی کے طاق کا انتہائی روشن چراغ یہ قرآن مجید فرقان حمید ہے جس کو یہ خصوصی تحفظ حاصل ہے کہ اس میں لفظی تحریف نہیں ہو سکتی: 
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ رزاقِ حقیقی اللہ ہی ہے. یہی بات یہاں فرمائی: اَللّٰہُ لَطِیۡفٌۢ بِعِبَادِہٖ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ الۡقَوِیُّ الۡعَزِیۡزُ ﴿٪۱۹﴾ اللہ تعالیٰ نے رزق اپنے ذمہ لیا ہوا ہے. جیسے سورۂ ہود میں فرمایا: وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزۡقُہَا وَ یَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّہَا وَ مُسۡتَوۡدَعَہَا ؕ ’’ زمین میں چلنے والا کوئی اجاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ جانتا نہ ہو کہ وہ کہاں رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے.‘‘ تمام مخلوق کا رزق اللہ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے، لیکن نہیں اعتماد نہیں ہے، تمہیں یقین نہیں ہے، تم اللہ پر توکل نہیں کرتے، تمہیں اس پر بھروسہ نہیں ہے، تمہیں اپنے زورِ بازو پر بھروسہ ہے، تمہیں اپنے حساب کتاب پر زیادہ اعتماد ہے. اگر تمہاری تھیلیاں بھری ہوئی ہیں تو تمہارے دل کو سکون ہے، تمہاری تجوریوں میں اگر مال ہے تو تمہیں اطمینان ہے، لیکن یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس پر تمہارا یقین نہیں ہے… نبی اکرم نے زہد کی تعریف میں فرمایا ہے کہ:

اَلزَّھَادَۃُ فِی الدُّنْیَا لَیْسَتْ بِتَحْرِیْمِ الْحَلَالِ وَلاَ اِضَاعَۃِ الْمَالِ وَلٰـکِنَّ الزَّھَادَۃَ فِی الدُّنْیَا اَنْ لاَ تَــکُوْنَ بِمَا فِیْ یَدَیْکَ اَوْثَقَ مِمَّا فِی یَدِاللہِ [رواہ الترمذی، عن ابی ذرؓ ]
’’دنیا میں حقیقی زہد یہ نہیں ہے کہ حلال کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لو اور مال ضائع کرو، بلکہ حقیقی زہد تو یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس پر تمہارا یقین و ایمان اور اعتماد زیادہ قائم ہو جائے بنسبت اس کے جو تمہارے ہاتھ میں ہے.‘‘
لیکن اس کے برعکس ہمارا اعتماد اور بھروسہ تو اس پر ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے.

یہاں فرمایا: 

اَللّٰہُ لَطِیْفٌ بِعِبَادِہٖ 
’’اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے.‘‘

ہم لطف و کرم کے الفاظ بولتے ہیں جس کے معنی مہربانی اور نرمی کے ہیں. تو اس لطف سے ہی لطیف ہے، یعنی مہربان. لطیف کے ایک معنی باریک بین کے بھی ہیں. اس معنی میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا جوڑا آتا ہے: 
اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ، نہایت باریک بین اور باخبر، بڑی باریک شے کو بھی جاننے والا. یہاں دونوں معانی ہیں. ایک یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے. دوسرے یہ کہ بندوں کی جو ضروریات ہیں اللہ تعالیٰ ان کی باریک ترین تفاصیل (Minute details) کو بھی جانتا ہے. تمہیں پتا نہیں کہ تمہیں کس چیز کی ضرورت پڑے گی، اللہ کو معلوم ہے. کون بچہ جانتا ہے کہ مجھے ماں کے پیٹ سے برآمد ہوتے ہی غذا کہاں سے ملے گی؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی غذا کا اہتمام اس کی پیدائش سے پہلے کیا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے تمہاری تمام ضروریات کا انتظام پہلے سے کیا ہوا ہے، لیکن تمہیں اللہ پر توکل نہیں ہے. جیسے حضرت مسیح علیہ السلام کے وعظ میں الفاظ آئے ہیں: 

’’لیکن تم یقین نہیں کرتے، تم کو توکل نہیں ہے، تم انہی اندیشوں میں رہتے ہو کہ کیا کھائیں گے او رکیا پہنیں گے!‘‘
ان ہی اندیشوں کو دُور کیا جا رہا ہے: 

اَللّٰہُ لَطِیۡفٌۢ بِعِبَادِہٖ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ 
سورۃ الطلاق میں یہی بات بڑے پیارے اور اطمینان بخش الفاظ میں فرمائی گئی ہے: 

وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا ۙ﴿۲﴾وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمۡرِہٖ ؕ 
’’اور جو کوئی اللہ کا تقویٰ اختیار کر لے گا تو اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا اور اس کی ضروریات وہاں سے پوری کرے گا جہاں سے اسے گمان تک نہ ہو اور جو اللہ پر توکل کرے تو اس کے لیے اللہ کافی ہے. بلاشبہ اللہ اپناکام پورا کر کے رہتا ہے.‘‘

لہذا اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر توکل تو کرو، اس کے راستہ پر آؤ تو سہی … وہ تھوڑا سا امتحان بھی لے گا کہ واقعی توکل ہے یا جھوٹ موٹ کا توکل کر کے آیا ہے. واقعی ہم پر اعتماد ہے یا صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے. وہ تھوڑا سا امتحان لے کر اور ٹھونک بجا کر ضرور دیکھتا ہے. پھر جو اپنے آپ کو بالکلیہ اس کے حوالے کر دے تو وہ اس کی دستگیری فرماتا ہے… غور کیجئے کسی شریف النفس اور بامروت انسان کے حوالے اگر آپ اپنے آپ کو کر دیں تو وہ کبھی آپ کو بے سہارا نہیں چھوڑے گا، تو کیا اللہ آپ کو بے یارومددگار چھوڑ دے گا؟ جس کی شان اسی سورۃ الشوریٰ کی آیت ۲۳ کے آخر میں یہ بیان ہوئی ہے: 

اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ ﴿۲۳﴾ 
’’بلاشبہ اللہ بڑا درگزر کرنے والا، قدر دان ہے.‘‘

سورۃ التغابن کی آیت ۱۷ کے آخر میں فرمایا: 
وَ اللّٰہُ شَکُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿ۙ۱۷﴾ ’’اور اللہ بڑا قدر دان، بڑا بردبار ہے.‘‘ اور سورۃ الحدید میں فرمایا: وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ ’’تم جہاں کہیں بھی ہو گے وہ تمہارے ساتھ ہے.‘‘

وہ تم سے زیادہ تمہاری ضروریات کو جاننے والا ہے. وہ تم سے زیادہ تمہاری مصلحتوں کو جاننے والا ہے. تمہارا حال تو یہ ہے کہ تم کبھی کبھی اپنے لیے خیر مانگتے مانگتے شر مانگ بیٹھتے ہو:

وَ یَدۡعُ الۡاِنۡسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَہٗ بِالۡخَیۡرِ ؕ 
انسان بعض اوقات اپنے خیال میں خیر مانگ رہا ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ اپنے لیے شر مانگ رہا ہوتا ہے، اس لیے کہ اسے معلوم نہیں کہ جو چیز مانگ رہا ہے وہ میرے حق میں خیر نہیں ہے، شر ہے. تم سمجھتے ہو کہ وہ مچھلی ہے جو تم مانگ رہے ہو حالانکہ وہ سانپ ہے. وہ تمہیں مچھلی نظر آتی ہے حقیقت میں وہ سانپ ہے. وہ تمہارے ہاتھ نہ لگی تو تم دل گرفتہ ہو گئے کہ اتنی دیربعد ایک مچھلی نظر آئی تھی وہ بھی نکل گئی، مجھ پر کتنا ظلم ہو گیا. تمہیں کیا معلوم کہ اس کو پکڑ لیتے تو ہلاکت سے دوچار ہوتے.

یہی بات تو سورۂ کہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ میں بیان ہوئی ہے. حضرت خضر علیہ السلام نے جب مسکینوں کی کشتی میں عیب پیدا کر دیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جلال آیا تھا اور انہوں نے اعتراض کیا تھا: 

اَخَرَقۡتَہَا لِتُغۡرِقَ اَہۡلَہَا 
’’کیا آپ اس میں شگاف ڈال کر سب کشتی والوں کو ڈبونا چاہتے ہیں؟‘‘

اس کا ذکر قرآن میں ہے. لیکن سوچئے کہ اس کشتی کے مالکوں نے یہی سوچا ہو گا کہ ہم غریبوں کے پاس روزی کمانے کا یہی ایک ذریعہ تھا، اس میں بھی خرابی پیدا ہو گئی. جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تشویش ہوئی تو کشتی کے مالکوں کو کیوں نہ ہوئی ہو گی. لیکن حضرت خضر علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اس کا تختہ اس لیے اکھیڑا تھا کہ اگر یہ عیب پیدا نہ ہوتا تو بادشاہ نے کشتی ضبط کر لینی تھی. وہاں پوری کشتی جاری تھی، یہاں تو صرف ایک تختہ اکھڑا ہے جس کی واپس جا کر مرمت ہو جائے گی. اگر ایسا نہ ہوتا تو پوری کشتی گئی تھی، لیکن یہ حقائق کسی کو معلوم نہیں تھے. اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے 
حضرت خضر علیہ السلام کو اس پر مطلع کیا تھا. یہی ہے اصل میں ظاہر و باطن کا فرق. فرمایا: 

اَللّٰہُ لَطِیۡفٌۢ بِعِبَادِہٖ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ الۡقَوِیُّ الۡعَزِیۡزُ ﴿۱۹﴾ 
وہ قوی ہے، قدرت والا ہے، توانا ہے. وہ زبردست اور غالب ہے. وہ جو چاہے کر گزرے، اس کو روکنے والا کوئی نہیں. اس کے خزانوں میں کمی نہیں ہے، وہ جس کو جتنا چاہے دے دے. یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ اس کے فیصلے اور اس کے ارادے کے آگے کوئی رکاوٹ بننے والا نہیں ہے.