مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَۃِ نَزِدۡ لَہٗ فِیۡ حَرۡثِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ نَّصِیۡبٍ ﴿۲۰﴾ 
’’تم میں سے جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہین، اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے ہم دنیا ہی میں دے دیتے ہیں، مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے.‘‘

یہ بڑا پیارا اور اٹل قانون ہے جو یہاں پہ مختصر طور پر آیا ہے. سورۂ بنی اسرائیل کے دوسرے رکوع میں اس موضوع کا نقطہ ٔ عروج 
(Climax) بیان ہوا ہے. ہر مضمون قرآن مجید میں کہیں نہ کہیں اپنی آخری شان میں ظاہر ہوتا ہے. یہاں فرمایا: 

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَۃِ ’’جو کوئی طالب ہو آخرت کی کھیتی کا.‘‘ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ فیصلہ کیجئے کہ آپ آخرت کے طالب ہیں یا دنیا کے؟ آپ کا مقصود و مطلوب ہے آخرت ہے یا دنیا ؟عقبیٰ چاہئے یا دنیا چاہئے؟ فیصلہ کیجئے! شعوری طور پر فیصلہ ہو، پھر اس پر ڈٹ جایئے. یہ نہ ہو کہ دنیا ذرا ہاتھ سے جاتی دکھائی دی تو دل پژمردہ ہو گیا اور طبیعت مضمحل ہو گئی. اگر تم فیصلہ کر چکے ہو کہ تمہاری مراد آخرت ہے تو اگر دنیا میں کمی آ رہی ہے تو تمہیں کوئی پریشانی اور پشیمانی نہیں ہونی چاہیے. آدمی طے کرے کہ اوّلیت کس شے کو حاصل ہے، مقدم کیا ہے مؤخر کیا ہے. یہ فیصلہ کرے پھر اس پر جم جائے، مستقیم ہو جائے. اسی فیصلے کو ارادہ کہا گیا ہے. اسی لفظ ارادہ سے لفظ ’’مرید‘‘ بنتا ہے. اراد، یرید، ارادۃ اور اس سے اسم فاعل مرید ’’ارادہ کرنے والا.‘‘ اب یا تو کوئی مرید ہے آخرت کا یا کوئی مرید ہے دنیا کا. فرمایا: 

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَۃِ نَزِدۡ لَہٗ فِیۡ حَرۡثِہٖ
’’جو کوئی آخرت کی کھیتی کا طلب گار ہے تو ا س کی کھیتی میں ہم برکت دیتے رہتے ہیں.‘‘ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے. اس دنیا کی زندگی میں جو نیک اعمال انسان آگے بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ انہیں پروان چڑھاتا ہے‘ پالتا ہے‘ پوستا ہے‘ ترقی دیتا ہے.

وَ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡیَا 
’’اور جو کوئی طالب بن جاتا ہے دنیا کی کھیتی کا.‘‘

جس کا مقصود و مطلوب دنیا بن گئی 
نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ’’ہم اسے دے دیتے ہیں اس میں سے.‘‘ ہم یہ نہیں کرتے کہ جو بہرحال دنیا ہی کا طالب بن گیا ہے، جس کی مراد دنیا ہی ہو گئی ہے اسے ہم دنیا سے بھی محروم کر دیں. لہذا دنیا میں اسے ہم کچھ دے دلا رہے ہیں. وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ نَّصِیۡبٍ ’’پھر ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے.‘‘ تم یہ چاہو کہ یہ بھی ملے اور وہ بھی ملے، دو دو اور وہ بھی چپڑی‘ یہ مشکل ہے. طے کرو کہ کیا اصل مطلوب و مقصود اور مراد ہے! آخرت کے طلبگار ہو تو آخرت کی کھیتی میں برکتیں ہی برکتیں ہیں، بڑھوتری ہی بڑھوتری ہے، لیکن اگر تم طالب دنیا بن گئے ہو تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں سے تمہیں کچھ نہ کچھ ضرور دے گا لیکن آخرت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے.

طلب کے مطابق دوجُداگانہ انجام

سورۂ بنی اسرائیل کی آیات نمبر ۱۸ اور ۱۹ اس موضوع پر قرآن مجید کا ذروۂ سنام یعنی چوٹی ہیں. فرمایا: 

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعَاجِلَۃَ عَجَّلۡنَا لَہٗ فِیۡہَا مَا نَشَآءُ لِمَنۡ نُّرِیۡدُ ثُمَّ جَعَلۡنَا لَہٗ جَہَنَّمَ ۚ یَصۡلٰىہَا مَذۡمُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا ﴿۱۸﴾ وَ مَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَۃَ وَ سَعٰی لَہَا سَعۡیَہَا وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعۡیُہُمۡ مَّشۡکُوۡرًا ﴿۱۹﴾ 
عجلت کہتے ہیں جلدی کو. دنیا کے فوائد اور اسکی لذات چونکہ نقد ہیں، موجود ہیں، سامنے ہے، لہذا قرآن اس کو عاجلہ سے منسوب کرتا ہے. دنیا عاجلہ ہے. فرمایا: 

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعَاجِلَۃَ 
’’جسے یہ جلدی والی نعمتیں مطلوب ہیں.‘‘

یہاں کا عیش، یہاں کا آرام‘ یہاں کی عزت‘ یہاں کی دولت‘ یہاں کی شہرت‘ یہاں کی 
ثروت، یہاں کی وجاہت، یہاں کا اقتدار جسے چاہئے عَجَّلۡنَا لَہٗ فِیۡہَا مَا نَشَآءُ لِمَنۡ نُّرِیۡدُ ’’ہم جلدی سے دے دیتے ہیں اس میں سے (یعنی دنیا میں سے) جو ہم چاہیں اور جس کے لیے چاہیں.‘‘ یہاں ایک بات مکمل ہوئی. اس سے معلوم ہوا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو دنیا کے طالب بنیں تو جو وہ چاہیں ان کو مل جائے.پھر تویہاں ہر شخص کروڑ پتی ہوتا. یہاں تو بہت سے ایسے ہیں جو ساری عمر جوتیاں پٹخارتے دنیا کے پیچھے پھرتے رہتے ہیں پھربھی اس دنیا سے بہت تھوڑا ہی ان کے ہاتھ لگتا ہے. اصل فیصلہ و اختیار تو اللہ تعالیٰ کے اپنے ہاتھ میں ہے لہذا فرمایا کہ جو کوئی اس عاجلہ کا طلب گار بن جائے گا تو عَجَّلۡنَا لَہٗ فِیۡہَا مَا نَشَآءُ لِمَنۡ نُّرِیۡدُ ہم اسے یہیں جلدی دے دیتے ہیں اس دنیا میں جو کچھ چاہیں اور جس کے لیے چاہیںثُمَّ جَعَلۡنَا لَہٗ جَہَنَّمَ ۚ یَصۡلٰىہَا مَذۡمُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا ﴿۱۸﴾ ’’پھر ہم اس کے لیے جہنم کا ٹھکانا مقرر کر دیتے ہیں جس میں وہ جھونکا جائے گا ملامت و مذمت زدہ ہو کر اور دھکے دیئے جا کر.‘‘

اب اگلی آیت میں ان لوگوں کے انجام کو بیان کیا جا رہا ہے جو اس دنیا میں عاجلہ کے بجائے آخرت کے طلب گار ہوں گے. یہاں آپ دیکھیں گے کہ دو شرطیں بیان ہو رہی ہیں. فرمایا: 

وَ مَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَۃَ وَ سَعٰی لَہَا سَعۡیَہَا 
’’اور جو آخرت کا طلب گار بن جائے (اس کا خواہش مند ہو) اور وہ اس کے لیے محنت کرے (دوڑ دھوپ کرے) جیسی کہ اس کے لیے محنت و تگ و دو کرنی چاہئے.‘‘

یعنی اگر زبانی کلامی آخرت کے طلب گار بن کر بیٹھ جاؤ گے تو وہ تمہاری سچی طلب نہیں ہو گی. آخرت کے سچے اور حقیقی طلاب ہو تو اس کے حصول کے لیے محنت کرو، ایسی محنت جیسی کہ اس کے لیے ضروری ہے. دنیا کا جو طالب ہوتا ہے کیا اسے بغیر محنت کے دنیا مل جاتی؟ صبح سے شام تک آدمی کمر توڑ دینے والی مشقت کرتا ہے تب جا کر کہیں دنیا ملتی ہے. اگر آخرت کی حقیقی طلب ہے تو اسی کی مطابقت سے محنت و مشقت اور سعی وجدوجہد بھی کرنی پڑے گی. آگے فرمایا: 
وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ ’’اور وہ ہو صاحب ایمان.‘‘

توحید کے التزام اور شرک سے بالکلیہ اجتناب کے ساتھ اللہ پر ایمان رکھتا 
ہو‘ ان تمام احوالِ آخرت پر یقین قلبی رکھتا ہو جن کی خبریں قرآن مجید اور صحیح احادیث میں آئی ہیں، جو رسول اللہ کی خاتم النبیین والمرسلین کی حیثیت سے دل سے تصدیق کرتا ہو، تو ایسے شخص کے لیے خوشخبری ہے اس انجام کی کہ: 

فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعۡیُہُمۡ مَّشۡکُوۡرًا ﴿۱۹﴾ ’’تو ایسے ہر شخص کی محنت مشکور ہو کر رہے گی.‘‘ اللہ تعالیٰ ان کی قدر فرمائے گا‘ ان کا مقصود و مطلوب ان کو مل جائے گا. اللہ کی رضا ان کو حاصل ہو گی اور آخرت میں ان کے لیے عمدہ راحت، رزق اور نعمتوں سے مالا مال جنت ہو گی: فَرَوۡحٌ وَّ رَیۡحَانٌ ۬ۙ وَّ جَنَّتُ نَعِیۡمٍ ﴿۸۹﴾ 

پس سورۂ بنی اسرائیل کی یہ دو آیتیں بہت اہم ہیں اس موضوع پر جو سورۃ الشوریٰ کی زیر نظر آیت میں بیان ہوا. البتہ ترتیب بدلی ہوئی ہے. یہاں پہلے دنیا پھر آخرت کا بیان ہوا جبکہ سورۃ الشوریٰ میں پہلے آخرت کا پھر دنیا کااور آخرت میں بے نصیبی کا ذکر ہوا.

مشرکین کے پاس کوئی شریعت اور دین نہیں ہوتا

آگے فرمایا: اَمۡ لَہُمۡ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوۡا لَہُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا لَمۡ یَاۡذَنۡۢ بِہِ اللّٰہُ ؕ ’’کیا ان لوگوں کے لیے (اللہ کے) کچھ ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے ازقسم دین (از قسم نظامِ حیات اور دستورِ زندگی) کوئی ایسا طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے حکم یا اذن نہیں دیا؟‘‘

رسول اللہ توحید کی اور اسی توحید پر مبنی دین قائم کرنے کی دعوت دے رہے ہیں. آپؐ کے مخاطبین جو اب مخالفین بن گئے ہیں‘ وہ کون ہیں؟ ایک طرف مشرکین ایک طرف اہل کتاب. اہل کتاب کے بارے میں تو ذکر ہو چکا. البتہ مشرکین کے بارے میں بات اب مکمل کی جا رہی ہے. دنیا میں شرک کے نظام میں یہ بات ملے گی کہ ہر نظامِ شرک میں کچھ دیویاں‘ کچھ دیوتا‘ کچھ چھوٹے خدا تو بنا دیئے جاتے ہیں لیکن آج تک کسی دیوی یا دیوتا کا بھیجا ہوا کوئی صحیفہ‘ کوئی شریعت کوئی کتاب کہیں نہیں ہے. وہ بہت سی دیویوں اور دیوتاؤ ں کو پوج رہے ہیں لیکن کیا وہ 
اس کے مدعی ہیں کہ ہمارے پاس فلاں دیوی یا دیوتا کا دیا ہوا یہ صحیفہ ہے. ہندوؤں سے پوچھ کر دیکھئے ! وہ کسی دیوی یا دیوتا سے کوئی صحیفہ منسوب کر ہی نہیں سکتے، اس لیے کہ اس کا سرے سے وجود ہے ہی نہیں. عرب کے مشرکین لات، منات، عزیٰ، ہبل اور نہ معلوم کن کن ناموں کے بتوں کو پوجتے تھے لیکن ان بتوں نے انہیں کوئی شریعت دی تھی؟ کوئی قانون دیا تھا؟ کوئی نظام دیا تھا؟ کچھ بھی نہیں. نہ وہ اس کے مدعی تھے. ثابت ہوا کہ یہ تمام اصنام مشرکین کے اپنے ذہنوں کے تراشے ہوئے تھے. اگر ان کی کوئی حیثیت ہوتی تو وہ کوئی نہ کوئی شریعت دیتے، کوئی قانون دیتے، کوئی ضابطہ دیتے، کچھ اصول دیتے. کسی شے کو حلال ٹھہراتے اور کسی شے کو حرام. اگر واقعی کسی میں الوہیت ہو تو دین دے گا. حقیقت ان کی کوئی نہیں. اسی لیے یہاں استفہامیہ انداز میں فرمایا:

اَمۡ لَہُمۡ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوۡا لَہُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا لَمۡ یَاۡذَنۡۢ بِہِ اللّٰہُ ؕ 
’’کیا ان کے کوئی ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے وہ شریعت دی ہو (وہ نظام تجویز کیا ہو) جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا؟‘‘

موجودہ مشرکانہ مبتدعانہ افعال پر انطباق

غور کیجئے ہمارے یہاں بھی جن جن کو پوجا جا رہا ہے کیا ان کی طرف سے کوئی ہدایت ہے‘ کوئی صحیفہ ہے‘ کوئی شریعت ہے؟ کیا انہوں نے وصیت کی تھی کہ ہماری قبروں کو عبادت گاہیں بنا لینا؟ کچھ بھی تو نہیں. یہ سب صرف اس لیے ایجاد کر لیا گیا کہ: ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰہِ یا یہ کہ لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللّٰہِ زُلۡفٰی اسی کے پیش نظر ان کے مزاروں پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ہمارے لیے وسیلہ بن جائیں گے‘ یہ ہمارے لیے سفارشی بن جائیں گے‘ یہ وہاں ہمارا بیڑاہ پار لگوا دیں گے. یہ سب کچھ کیا ہے! ان کو قرآن ’’امانی‘‘ کہتا ہے تِلۡکَ اَمَانِیُّہُمۡ یہ ان کی تمنائیں (Wishful thinkings) ہیں، اس کے سوا کچھ بھی نہیں. خود کو مسلمان کہنے کے باوجود خود دین پر عمل تو کریں نہیں اور دل میں ان تمناؤں اور آرزوؤں کی پرورش کرتے رہیں کہ فلاں فلاں اولیاء اللہ ہماری شفاعت کریں گے‘ کیونکہ ہم نے ان کے مزاروں کی‘ ان کے مقبروں کی‘ ان کی درگاہوں کی‘ ان کے سجادہ نشینوں کی بڑی بڑی خدمات انجام دی ہیں‘ نذرانے پیش کیے ہیں‘ چڑھاوے چڑھائے ہیں‘ ان کی نیاز دی ہے. یہ سب کچھ اس دین اور شریعت کے منافی ہے جو جناب محمد رسول اللہ نے ہمیں دیا ہے. ایں خیال است و محال است و جنوں!

مشرکین دین سے تہی دست ہوتے ہیں

یہ ہے موضوع اور مضمون آیت کے اس حصے کا کہ شرک کے قائل لوگوں کے پاس کوئی شریعت نہیں، کوئی کتاب نہیں، کوئی صحیفہ نہیں، ان کے پاس کوئی نظام نہیں. اس لیے کہ مشرک جن ہستیوں کو الوہیت میں شریک ٹھہراتا ہے ان کی کوئی حقیقت ہے ہی نہیں. اَمۡ لَہُمۡ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوۡا لَہُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ کیا ان کے ایسے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں کوئی ضابطہ، کوئی قانون، کوئی دستور، کوئی شریعت انہیں دی ہو؟ موجودہ عیسائیت کیا ہے؟ یہ دین نہیں ہے، محض عقیدہ (Dogma) بن کر رہ گئی ہے. کسی مشرکانہ نظام میں پوجا پاٹ کے کچھ ضابطے اگر ہیں تو وہ پجاریوں اور پنڈتوں کے بنائے ہوئے ہیں. کم ا زکم ان کو اتنا کریڈت ضرورت ملتا ہے کہ انہوں نے جھوٹ موٹ بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ ہمارے فلاں دیوی یا دیوتا کا نازل کردہ ہے، یا پوجا پاٹ کے فلاں طور طریقے فلاں فلاں دیوی یا دیوتا کے مقرر کردہ ہیں. ہندوستان یا قبل ظہورِ اسلام عرب میں کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ فلاں صحیفہ فلاں دیوی دیوتا یا فلاں بت کا نازل کردہ ہے.

اجل مسمّٰی کے ضابطہ کا اعادہ

وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃُ الۡفَصۡلِ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۲۱
’’اگر آخری فیصلہ کے لیے طے نہ ہو چکا ہوتا تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا‘ اور یقینا ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے.‘‘
اب ان مشرکوں کے متعلق اسی سنت اللہ کے بیان کا اعادہ ہو رہا ہے جو اہل کتاب کے بارے میں بایں الفاظ فرما دیا گیا تھا: 
وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لیے جہاں ایک مہلت عمر اور مہلت عمل مقرر کر رکھی ہے‘ وہاں اس دنیا کے آخری انجام یعنی الساعۃ (قیامت) کے لیے بھی اپنے علم ازلی میں ایک وقت طے کیا ہوا ہے. اس کا علم اس نے کسی کو نہیں دیا: 

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرۡسٰہَا ﴿ؕ۴۲﴾ فِیۡمَ اَنۡتَ مِنۡ ذِکۡرٰىہَا ﴿ؕ۴۳﴾ اِلٰی رَبِّکَ مُنۡتَہٰىہَا ﴿ؕ۴۴﴾ 
’’(اے نبیؐ !) یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کی گھڑی کب آ کر ٹھہرے گی؟ آپ کا کیا کام کہ اس کا وقت بتائیں. اس کا علم تو اللہ پر ہی ختم ہے.‘‘

اور جیسے فرمایا: 
اِنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ۚ ’’قیامت کی گھڑی کا علم تو بس اللہ ہی کے پاس ہے.‘‘
لہذا یہاں مشرکوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر آخری گھڑی کا پہلے سے وقت اللہ کے علم میں طے نہ ہو چکا ہوتا تو تمہارا قضیہ چکا دیا جاتا. یہ بات پیش نظر رہے کہ قرآن مجید
 کی اصطلاح میں اکثر و بیشتر ظلم کا لفظ شرک اور ظالمین کا لفظ مشرکین کے لیے آتا ہے. جیسے: اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ .

خلاصہ

اقامت دین کا حکم سورۃ الشوریٰ کی عظیم ترین آیت نمبر ۱۳ کے ذریعے: اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ اس امر کی تاکید بھی آئی کہ اقامت دین کے بارے میں تفرقہ میں نہ پڑنا: وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ مزید برآں ہمارے سامنے یہ امور آئے کہ اس وقت نبی اکرم کے مقابلے میں دو گروہ تھے‘ مشرکین اور اہل کتاب. ان دونوں کا طرزِ عمل‘ پھر ان دونوں کے بارے میں حضور کے لیے رہنمائی بھی ہمارے سامنے آئی. پھر حضور کو اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے لیے کمر بستہ ہونے کا حکم اور اپنے موقف پر جم جانے‘ ڈٹ جانے اور مستقیم ہو جانے کی تاکید آئی. حضور سے اس امر کا اعلان بھی سامنے آیا کہ مجھے حکم ملا ہے کہ میں تمہارے مابین نظام عدل و قسط قائم کروں: وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ان تمام امور کے پردے میں قیام قیامت اہل ایمان کے لیے رہنمائی اور ہدایت آئی ہے کہ ہمارے آخری رسول کے امتی ہونے کی حیثیت سے اقامت دین‘ عدل و قسط پر مبنی نظام اجتماعی اور اجتماعی توحید کا قیام و نفاذ ہر مدعی ایمان پر لازم ہے‘ واجب ہے‘ فرض ہے. جو لوگ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس کام کے لیے جدوجہد کا بیڑا اٹھا لیں ان کو ان آیات سے مکمل رہنمائی حاصل ہو سکتی ہے. جس عظیم کام کے لیے اللہ کے رسول علیہما السلام مبعوث ہوتے رہے‘ ان کو بینات عطا ہوتی رہیں‘ ان کو کتب سماویہ اور شریعت الٰہیہ عطا ہوتی رہی کہ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ نبوت و رسالت کے آنحضور پر تمام و اکمال اور اختتام کے بعد اب یہ کام امت مسلمہ کے ذمہ ہے. جو لوگ منہاج نبوت کے مطابق فریضہ اقامت ِ دین کے لیے کمر کس لیں ان کے لیے ان آیات میں تمام اصول عطا کر دیئے گئے ہیں.