بسم اللہ الرحمن الرحیم 

فَمَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَمَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ﴿ۚ۳۶
وَ الَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ وَ اِذَا مَا غَضِبُوۡا ہُمۡ یَغۡفِرُوۡنَ ﴿ۚ۳۷
وَ الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۪ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ۚ۳۸
وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَہُمُ الۡبَغۡیُ ہُمۡ یَنۡتَصِرُوۡنَ ﴿۳۹
وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۴۰
وَ لَمَنِ انۡتَصَرَ بَعۡدَ ظُلۡمِہٖ فَاُولٰٓئِکَ مَا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿ؕ۴۱
اِنَّمَا السَّبِیۡلُ عَلَی الَّذِیۡنَ یَظۡلِمُوۡنَ النَّاسَ وَ یَبۡغُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۴۲
وَ لَمَنۡ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿٪۴۳
وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ وَّلِیٍّ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ وَ تَرَی الظّٰلِمِیۡنَ لَمَّا رَاَوُا الۡعَذَابَ یَقُوۡلُوۡنَ ہَلۡ اِلٰی مَرَدٍّ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿ۚ۴۴
وَ تَرٰىہُمۡ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا خٰشِعِیۡنَ مِنَ الذُّلِّ یَنۡظُرُوۡنَ مِنۡ طَرۡفٍ خَفِیٍّ ؕ وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ الۡخٰسِرِیۡنَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَہۡلِیۡہِمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ فِیۡ عَذَابٍ مُّقِیۡمٍ ﴿۴۵
وَ مَا کَانَ لَہُمۡ مِّنۡ اَوۡلِیَآءَ یَنۡصُرُوۡنَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ سَبِیۡلٍ ﴿ؕ۴۶
اِسۡتَجِیۡبُوۡا لِرَبِّکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ 
لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ ؕ مَا لَکُمۡ مِّنۡ مَّلۡجَاٍ یَّوۡمَئِذٍ وَّ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نَّکِیۡرٍ ﴿۴۷
فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ؕ اِنۡ عَلَیۡکَ اِلَّا الۡبَلٰغُ ؕ وَ اِنَّاۤ اِذَاۤ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً فَرِحَ بِہَا ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ فَاِنَّ الۡاِنۡسَانَ کَفُوۡرٌ ﴿۴۸
لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕیَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ ﴿ۙ۴۹
اَوۡ یُزَوِّجُہُمۡ ذُکۡرَانًا وَّ اِنَاثًا ۚ وَ یَجۡعَلُ مَنۡ یَّشَآءُ عَقِیۡمًا ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌ قَدِیۡرٌ ﴿۵۰﴾ 
[الشوری: ۳۶۵۰]

’’جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سروسامان ہے‘ اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے او رپائیدار بھی. وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں. جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آ جائے تو درگزر کر جاتے ہیں. جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں‘ نمازقائم کرتے ہیں‘ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں اور ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں… برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے‘ پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے‘ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جا سکتی. ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں‘ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے. البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے تو یہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہیں. جس کو اللہ ہی گمراہی میں پھینک دے اس کا کوئی سنبھالنے والا اللہ کے بعد نہیں ہے. تم دیکھو گے کہ یہ ظالم جب عذاب دیکھیں گے تو کہیں گے اب پلٹنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟ او رتم دیکھو گے کہ یہ جہنم کے سامنے جب لائے جائیں گے تو ذلت کے مارے جھکے جا رہے ہوں گے اور اس کو نظر بچا بچا کر کن انکھیوں سے دیکھیں گے.

اس وقت وہ لوگ جو ایمان لائے تھے‘ کہیں گے کہ واقعی اصل زیاں کار وہی ہیں جنہوں نے آج قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو خسارے میں ڈال دیا. خبردار ہو‘ ظالم لوگ مستقل عذاب میں ہوں گے اور ان کے کوئی حامی و سرپرست نہ ہوں گے جو اللہ کے مقابلے میں ان کی مدد کو آئیں اور جسے اللہ گمراہی میں پھینک دے اس کے لیے بچاؤ کی کوئی سبیل نہیں. مان لو اپنے رب کی بات قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹلنے کی کوئی صورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے. اس دن تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہو گی اور نہ کوئی تمہارے حال کوبدلنے کی کوشش کرنے والا ہو گا. اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے نبیؐ ! ہم نے تم کو ان پر نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے‘ تم پر تو صرف بات پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے. انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو اس پر پھول جاتا ہے اور اگر اس کے اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا کسی مصیبت کی شکل میں اس پر الٹ پڑتا ہے تو سخت ناشکرا بن جاتا ہے. اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے‘ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے‘ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے‘ جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے‘ جسے چاہتا لے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے. وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے.‘‘

سورۃ الشوریٰ کی متذکرہ بالا آیات میں سب سے پہلے تو اقامت دین کی جدوجہد کرنے والوں کے اوصاف سامنے لائے جا رہے ہیں کہ ان کو کن اوصاف سے متصف ہونا چاہئے. کیا یہ ہر کہ ومہ کا کام ہے! کیا اپنی سیرت و کردار کے داغ لے کر بھی کوئی شخص اس میدان میں اتر سکتا ہے ! یا یہ کہ جس کی یہ فریضہ انجام دینے کی نیت ہے کیا وہ ان اوصاف کوبھی اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے تیار ہے!!

اقامت دین کی جدوجہد سے گریز کی وجوہات



(۱) جماعتوں کے تعدّد کا عذر:

ہم میں سے اکثر لوگ اس عذر کا سہارا لیتے ہیں کہ ملک میں بہت سی جماعتیں دین کا کام کرنے کی مدعی ہیں‘ اب کس کا ساتھ دیں!تو اس کی مثال پہلے ذکر ہو چکی کہ جس طرح ایک پرانے مریض کے علاج کے لیے چار حاذق طبیبوں اور ڈاکٹروں کو پورے خلوص و اخلاص کے ساتھ تشخیص اور تجویز میں اختلاف ہو سکتا ہے‘ اسی طرح احیائے دین اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے بھی تشخیص اور طریق کار میں فرق ہو سکتا ہے‘ جو فی الواقع موجود ہے. لیکن اس سے ہمارا فرض تو ساقط نہیں ہو جاتا. کھلے دل کے ساتھ ان جماعتوں کا جائزہ لیجئے‘ ان کی تشخیص اور طریق کار پر غور و خوض کیجئے‘ پھر جس جماعت پر دل مطمئن ہو جائے تو پورے خلوص کے ساتھ اس میں شامل ہوجایئے. آپ ان شاء اللہ ماجور ہوں گے. دیکھئے کسی شخص کو ایک جوتا خریدنا ہوتا ہے تو وہ کتنی دکانوں کا چکر لگاتا ہے‘ کتنے جوتے دیکھتا ہے‘ پھر ایک کو پسند کر لیتا ہے. اگر کوئی شخص اس نتیجہ پر پہنچ جائے کہ توحید عملی اختیار کرنا اور اقامت ِ دین کے لیے جدوجہد کرنا اس پر لازم ہے‘ واجب ہے‘ فرض ہے تو وہ دین کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کا بغور مطالعہ کرے گا اور جس پر اس کا دل ٹھک جائے گا اس کے ساتھ لگ جائے گا. جماعتوں کی کثرت کا عذر درحقیقت دین کے کام سے فراریت ہے‘ شیطان کا فریب ہے‘ بالکل بے وزن ہے اور عام معنوں میں عذرِ لنگ ہے. دین کا کام کیجئے اور یک سو ہو کر کیجئے. اپنی اصلاح کو مقدم رکھیے. جس جماعت پر دل ٹھک جائے اس میں پوری دل جمعی کے ساتھ شامل ہو جایئے. اللہ کے ہاں اپنے خلوص و اخلاص کے باعث ماجور ہوں گے.

(۲) معاشی خوف:

دین کی راہ پر آنے کے لیے انسان کو یہ اندیشہ سب سے زیادہ روکتا ہے کہ کیا کھائیں گے پئیں گے؟ رزق کا معاملہ اس راہ کی بڑی رکاوٹ بنتا ہے. پیچھے ذکر ہو چکا کہ اَللّٰہُ لَطِیۡفٌۢ بِعِبَادِہٖ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ الۡقَوِیُّ الۡعَزِیۡزُ ﴿٪۱۹﴾ کیوں فکر کرتے ہو! اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے‘ وہ تو بہت باریک بین ہے‘ وہ تمہاری ضرورتوں کو تم سے بڑھ کر جاننے والا ہے. وہ القوی ہے‘ العزیز ہے. البتہ طے کرنے کی بات یہ ہے کہ ہر شخص اپنی جگہ شعوری طور پر فیصلہ کرے کہ اس کا مطلوب دنیا ہے یا آخرت! فیصلہ کن بات یہ ہے . ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے تو الا ماشاء اللہ ہمارا یہ حال ہے کہ رجحان کچھ اِدھر ہے کچھ اُدھر. آخر دین کا دل میں شغف ہے‘ اس کی طرف کشش ہے‘ اس کے لیے کام کرنے کی طرف طبیعت راغب اور مائل بھی ہے‘ لیکن جب دنیا کا معاملہ آتا ہے تو دل ڈولنے لگتا ہے‘ قدم ڈگمگانے لگتا ہیں‘ آدمی سوچتا ہے کہ اِدھر جاؤں یا اُدھر جاؤں ؎

ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے!
یہ وہ کیفیت ہے جس میں ہم میں سے اکثر مبتلا ہیں. 

(۳) فرصت کا انتظار:

کبھی ہم اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں کہ فلاں فلاں ذمہ داریاں ہیں‘ ذرا ان سے نمٹ لیں‘ پھر ہمہ وقت دین کے کام میں لگ جائیں گے. اس سے بڑی خود فریبی اور کوئی نہیں ہے. اگر آپ دنیا کے کاموں سے ریٹائر ہو کر دین کے کاموں میں لگیں گے تو اس وقت حال یہ ہوگا کہ توانائیاں اور صلاحیتیں ہی نہیں فہم میں بھی اضمحلال و اختلال آ چکا ہو گا یا آنے والا ہو گا. ایک ارذل العمر بھی ہوتی ہے جس کے متعلق قرآن مجید کہتا ہے: لِکَیۡلَا یَعۡلَمَ مِنۡۢ بَعۡدِ عِلۡمٍ شَیۡئًا اکثر بڑے بڑے عالم و فاضل بھی ایک عمر کو پہنچ کر علم و فہم سے خالی ہو جاتے ہیں. معلوم ہوا کہ دین کے لیے کام کرنے کا اصل وقت تو وہ ہے جب جسم میں توانائی و قوت اور فہم و علم میں صلاحیت موجود ہو.

محاسبۂ اخروی

نبی اکرم کا ارشاد ہے: لَنْ تَزُوْلاَ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدَ رَبِّہٖ حَتّٰی یُسْاَلَ عَنْ خَمْسٍ ’’ابن آدم کے قدم اس کٹہرے سے ہرگز ہل نہیں سکیں گے جہاں وہ اپنے رب کے سامنے قیامت کے دن کھڑا ہو گا جب تک اس سے پانچ چیزوں کا حساب نہ لے لیا جائے.‘‘ عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَا اَفْنَاہُ ’’پوری عمر کا حساب کہ اسے کہاں فنا کیا، کہاں کھپایا؟‘‘ ہم نے تمہیں ستر اسی برس دیئے تھے، یہ کہاں گنوائے! وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَا اَبْلاَہُ خاص طور پر شباب کا دور، جوانی کا دور، امنگوں کا دور، قوتوں، توانائیوں اور ولولوں کا دور، جب کہ جسم میں جان ہوتی ہے، جب کہ قوائے جسمانی چاق و چوبند ہوتے ہیں. پوچھا جائے گا کہ: ’’وہ جوانی کے دن کہاں کھپائے اور گنوائے؟‘‘ عمر کے بارے میں دو سوالوں کے بعد مال کے متعلق دو سوال: وَعَنْ مَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اکْتَسَبَہٗ وَفِیْمَا اَنْفَقَہٗ ’’مال کمایا کہاں سے تھا‘ (حلال سے یا حرام سے؟) اور خرچ کہاں کیا تھا؟‘‘ ادائے حقوق میں، دین کی خدمت میں یا عیاشیوں اور اللوں تللوں میں! او رآخری سوال: وَعَمَّا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ ’’اور جو علم حاصل ہوا تھا اس پر عمل کتنا کیا؟‘‘ گویا جب بھی دینی معلومات کا اضافہ ہوا اسی نسبت سے عمل بھی بڑھا یا نہیں؟ یہ ہیں پانچ سوالات جو ہر ابن آدم سے کئے جائیں گے.

آخرت اور دنیا کے طلب گاروں کے علیحدہ علیحدہ نتائج!


گزشتہ نشست میں ہم سورۃ الشوریٰ کی آیت ۲۰ کا مطالعہ کر چکے ہیں:

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَۃِ نَزِدۡ لَہٗ فِیۡ حَرۡثِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ نَّصِیۡبٍ ﴿۲۰﴾ 
’’جو کوئی آخرت کی کھیتی کا طالب ہو گا ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کرتے رہیں گے (اس کو پروان چڑھاتے رہیں گے) اور جو دنیا کی کھیتی کا خواہش مند ہے اسے ہم اسی میں سے کچھ دے دلا دیں گے، لیکن پھر اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے.‘‘

طے کرنے کی بات یہ ہے کہ آپ کا اصل مقصود و مطلوب کیا ہے؟ مقدم کیا ہے، مؤخر کیا ہے! آخرت یا دنیا؟ اسی کے مطابق آخرت میں نتائج مرتب ہوں گے. 
اس کے ساتھ ہی بتدریج ہمارے سامنے وہ اوصاف بھی آئیں گے جو توحید عملی اور اقامت ِ دین کے لیے مطلوب ہیں. فرمایا:

فَمَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَمَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا
’’جو کچھ بھی تمہیں دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی میں برتنے کا سامان ہے.‘‘

اس آیت کے پہلے حصے میں دنیا کے سروسامان کی اصل حقیقت بیان فرمائی گئی ہے. یہاں شَیۡءٍ نکرہ ہے. نکرہ تفخیم کے لیے بھی آتا ہے. خواہ بڑی سے بڑی چیز دے دی گئی ہو، چاہے قارون کا خزانہ دے دیا گیا ہو، اس دنیا میں کچھ بھی دے دیا گیا ہو، وہ اس فانی دنیا کے برتنے کا سامان ہے، اس کے سوا کچھ نہیں، تم سمجھتے ہو کہ یہ میری ملکیت اور میری جائیداد ہے، تم سمجھتے ہو کہ اموال و اسباب دنیا تم کو دوام بخش دیں گے؟ الَّذِیۡ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہٗ ۙ﴿۲﴾ یَحۡسَبُ اَنَّ مَالَہٗۤ اَخۡلَدَہٗ ۚ﴿۳﴾ حالانکہ یہ سب عارضی اور فانی ہے.

دنیا کی زندگی کی اصل حقیقت

میں عرض کر چکا ہوں کہ مدنی سورتوں میں سورۃ الشوریٰ کے ہم وزن اور مماثل مضامین سورۃ الحدید میں آئے ہیں. مکی سورتوں میں جو مقام سورۃ الشوریٰ کا ہے مدنی سورتوں میں وہی مقام سورۃ الحدید کا ہے. چنانچہ اس میں بھی اس حقیقت کو کھول کربیان کیا گیا ہے کہ اس دنیا کی زندگی کی اصل حقیقت کیا ہے جس پر تم ریجھے ہوئے ہو. فرمایا: 

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۲۰﴾ [الحدید: ۲۰]
یہ دنیا کی زندگی دھوکے کی ٹٹی کے سوا اور کچھ نہیں ہے. اس کا ایک حصہ تو تو کھیل کود اور بچپن میں گزر جاتا ہے. ذرا بڑے ہوئے تو کھیل کود میں تلذذ کی آمیزشامل اور کچھ سنسنی سی پیدا ہو جاتی ہے.

یہ ’’لہوولعب‘‘ ہے. ذرا اور بڑھے تو بناؤ سنگھار اور ٹیپ ٹاپ کی فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ اچھے سے اچھا لباس ہو، بالکل فیشن کے مطابق ہو، اس سے کہیں ذرا فرق ہوا تو آپ کا دل میلا ہو جائے گا. اسے یہاں ’’زینت‘‘ کہا گیا ہے. اس سے ذرا آگے بڑھے تو دوسروں کے مقابلے میں فخر پیدا ہو جاتا ہے اپنی دولت پر، اپنی نسل پر، اپنی وجاہت و شوکت پر. اسے یہاں ’’ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ ‘‘ فرمایا گیا. اس سے ذرا آگے بڑھے، جب ادھیڑ عمری کو پہنچے، بڑھاپے کی حد شروع ہوئی تو انسان بڑا واقعیت و حقیقت پسند (Realistic) ہو جاتا ہے. اب تو خوب دولت چاہئے، صاحب حیثیت اولاد کی بہتات چاہیے. اسے یہاں فرمایا گیا: تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ جوانی کا دور وہ ہوتا ہے کہ مونچھ نیچی نہ ہو چاہے سب کچھ چلا جائے. اس وقت انسان کو اپنی عزت کا اتنا پاس ہوتا ہے، جبکہ بڑھاپے میں آپ کو نظر آ جائے گا کہ اسی شخص کا یہ حال ہوتا ہے کہ مونچھ نیچی ہی نہیں مونڈنے کی نوبت آ جائے تو آ جائے، دولت ہاتھ سے نہ جائے. انسان کے یہ مختلف عواطف و میلانات ہوتے ہیں زندگی کے مختلف ادوار میں. آخر کار ہوتا کیا ہے کہ انسان کا جسم مٹی میں مل کرمٹی ہو جاتا ہے. اس کی روح عالم بالا کی طرف کوچ کر جاتی ہے اور یوم آخرت یعنی فیصلہ کے دن کا انتظار کرتی ہے. اس کی یہاں مثال دی جیسے بارش کے بعد اس سے اگنے والے نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو جاتے ہیں، کھیتی پک کر زرد ہو جاتی ہے، پھر بھس بن کر رہ جاتی ہے. یہ ہیں تمہاری دنیا کی زندگی کے مراحل و مدارج!

رہی آخرت کی زندگی تو اس میں دو قسم کے انجام ہیں: 
وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ یا تو درد ناک عذاب ہے، بہت شدید سزا ہے، وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ یا اللہ کی مغفرت اور رضا ہے.

تذبذب خسارے کا سودا ہے

اس آیت کو سامنے رکھو گے تویہ دنیا کی زندگی ایک دھوکہ اور فریب کی ٹٹی کے سوا اور کچھ نہیں. یہی بات فرمائی جا رہی ہے: فَمَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَمَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے، بڑی سے بڑی چیز جو تمہیں دی گئی ہے یہ اس دنیا کی برتنے کی چیز ہے، ملکیت نہیں ہے، یہ کسی اور کے لیے یہیں رہ جائے گی. ویسے اصل حقیقت تو یہ ہے کہ وَ لِلّٰہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ آخر کار پوری نوعِ انسانی رخت سفر باندھے گی اور وراثت صرف اللہ ہی کے لیے رہ جائے گی. جب تک سوچ کا یہ اندازہ نہیں ہو گا اقامت ِ دین کی جدوجہد کی وادی میں قدم رکھنا نا سمجھی کی بات ہو جائے گی. اس صورت میں انسان قدم قدم پر ٹھٹکے گا جس طرح گاڑی چلتے چلتے رک جاتی ہے، knocking کرتی ہے، اسی طرح کا معاملہ ایسے انسان کے ساتھ ہو گا جو یک سو نہیں ہے. وہ ایک قدم آگے بڑھائے گا تو دو قدم پیچھے ہٹے گا. ذرا آگے بڑھنے کو دل چاہے گا تو دنیا پیچھے کھینچے گی. وہ حال ہو گا جس کا نقشہ سورۂ نساء میں کھینچا ہے: مُّذَبۡذَبِیۡنَ بَیۡنَ ذٰلِکَ ٭ۖ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ یہ منافقین کفر و ایمان کے درمیان ڈانواڈول ہو کر رہ جاتے ہیں. تذبذب میں گرفتار ہو جاتے ہیں کہ ہدایت کے راستہ پر چلیں یا نہ چلیں. اسی کا نقشہ سورۂ حج میں اس طرح کھینچا گیا ہے: وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّعۡبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرۡفٍ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی بندگی اور پرستش کرنا تو چاہتے ہیں لیکن کنارے کنارے رہ کر منجدھار میں کودنا نہیں جاہتے. وہاں خطرہ ہے، اندیشہ ہے. اللہ کی راہ میں کنارے کنارے چلنا چاہتے ہیں. لیکن فَاِنۡ اَصَابَہٗ خَیۡرُۨ اطۡمَاَنَّ بِہٖ اگر خیر وخیریت ہو، مال غنیمت مل رہا ہو، دولت بھی آ رہی ہو تو مطمئن ہین. وَ اِنۡ اَصَابَتۡہُ فِتۡنَۃُۨ انۡقَلَبَ عَلٰی وَجۡہِہٖ ۟ۚ خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ اور اگر آزمائش آ گئی، کوئی کٹھن وقت آ گیا، قربانی کا مرحلہ آ گیا، مال دینا پڑے یا جان کے لیے خطرہ آ جائے تو وہ اوندھے منہ گر پڑتے ہیں. یہ ہے دنیا اور آخرت دونوں کا گھاٹا، نقصان، خسارہ ذٰلِکَ ہُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۱اور درحقیقت یہی ہے اصل خسران.

عزم ِمصمم درکار ہے

مذکورہ بالا کردار آپ کو اپنے معاشرے میں انتہائی کثرت سے ملے گا جو یک سو نہیں ہوا ہے. ایسے لوگ خال خال ہوں گے جو طے کر لیں کہ میں تو دراصل طالب آخرت ہوں. دنیا ملتی ہے ملے، نہیں ملتی تو نہ ملے، جتنی ملے میرے رب کی عطا ہے، لیکن دنیا کسی درجے میں بھی میرے لیے مطلوب و مقصود کا درجہ نہیں رکھتی. دنیا کے سارے عزائم توقعات (ambitions) ختم کر کے جو شخص اس وادی میں آئے گا وہ ٹھیک ٹھاک چلے گا. لہذا جو بھی توحید عملی کو انفرادی و اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کی جدوجہد کرنے کا ارادہ کرے اس کا پہلا قدم اور اس کا پہلا صف یہ ہونا چاہئے کہ اس کا ایک شعوری اور سوچا سمجھا فیصلہ ہو، عزم مصمم (determination) ہو کہ میرے نزدیک دنیا کی زندگی، اس کا مال و متاع، اس کا سازوسامان آخرت کے مقابلے میں قطعی ہیچ ہے. میری نظر میں ا سکی پرکاہ کے برابر بھی واقعت نہیں ہے. اقبال مرحوم کا بڑا پیارا شعر ہے ؎

یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں، لا الہ الا اللہ 

ترجیحات کا مسئلہ

یہ دو چیزیں ہی تو آدمی کو روکتی ہیں. سورۂ توبہ میں فرمایا:

قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾ [توبۃ: ۲۴’’(اے نبیؐ !) ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے رشتہ دار، اپنے وہ مال جو تم نے جمع کئے ہیں، اور اپنے وہ کاروبار جو بڑی محنت سے تم نے جمائے ہیں جن کے کساد کا تمہیں اندیشہ رہتا ہے اور اپنے وہ مکان جو تم نے بڑے ارمانوں اور چاؤ کے ساتھ بنائے ہیں، اگر یہ چیزیں تمہیں محبوب تر ہیں اللہ سے، اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے تو جاؤ انتظار کرو (گومگو کی کیفیت میں مبتلا رہو. عام فہم زبان میں کہا جائے گا کہ دفع ہو جاؤ) یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے. اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا.‘‘

جب تک آدمی یہ طے نہ کر لے کہ اس کی ترجیحات کیا ہیں، کام نہیں بنتا. اس آیت مبارکہ کی رو سے ہر شخص اپنے دل میں ایک ترازو نصب کرے، پھر اس کے ایک پکڑے میں آٹھ محبتیں ڈالے اور ایک پلڑے میں تین. آٹھ محبتوں میں سے پانچ کا تعلق ہے رشتہ و پیوند سے. باپ، بیٹے، بھائی، بیویاں اور عزیز و اقارب، یہ ہیں رشتہ وپیوند او روہ مال جو کمائے اور جمع کئے اور وہ کاروبار جو محنت سے جمائے اور چمکائے اور وہ بلڈنگیں جو بڑے شوق سے تعمیر کرائیں، یہ تین محبتیں ہیں مال و دولت دنیا ؎

یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الہ الا اللہ

جب تک آدمی ان بتوں کو نہیں توڑ دے گا اس وقت تک وہ یہ شعوری فیصلہ نہیں کر سکے گا کہ یہ سب کچھ اس فانی دنیا کا عارضی کھیل اور کھلونے ہیں اور میں دنیا کا طالب نہیں ہوں. ؏ بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں! میں دنیا میں اجنبی اور مسافر کی حیثیت سے رہ رہا ہوں. مجھے اس دنیا کی ambition نہیں ہے. جو شعوری طور پر یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں تو آخرت و عاقبت کو اپنی منزل سمجھ کر اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنی جدوجہد کا آغاز کر رہا ہوں تو ایسا شخص پھر اللہ کی راہ میں بڑھتا چلا جاتا ہے. آدمی رشتہ و پیوند اور مال و دولت دنیا کی آٹھ محبتوں کے مقابلے میں تین محبتیں، اللہ کی محبت، اس کے رسول کی محبت اور اللہ کی راہ میں جہاد کی محبت ڈالے. اگر یہ پلڑا جھک جائے تو فہوالمراد، لیکن اگر آٹھ محبتیں بھاری پڑ جائیں تو اللہ کی طرف سے جھڑکی ہے: فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ فاسق قرار دیتا ہے: وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴

بہتر اور باقی رہنے والی دولت

فَمَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَمَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ﴿ۚ۳۶
’’جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض چند روزہ زندگی کا برتنے کا سازو سامان ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والا بھی.‘‘

دنیا کا یہ سازو سامان یا تو آپ کی زندگی میں ہی چلا جائے گا یہاں رہ جائے گا اور آپ یہاں سے روانہ ہو جائیں گے .
بہرحال ایک نہ ایک دن تو اس سے جدائی ہو گی. جیسے سورۃ قیامہ میں فرمایا: وَّ ظَنَّ اَنَّہُ الۡفِرَاقُ ﴿ۙ۲۸
وَ الۡتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ﴿ۙ۲۹﴾ نزع کے وقت انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ اب تو جدائی ہے اور جب پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جاتی ہے تو اس وقت انسان یقینا سوچتا ہو گا کہ چاہے ساری دولت چلی جائے لیکن میں یہاں رہ جاؤں. لیکن بہرحال اس دنیا سے جدائی انسان کا مقدر ہے. یہاں کی دولت اسے یہیں چھوڑنی ہے. رہنے والی دولت وہ ہے جو اللہ کے پاس ہے: وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ﴿ۚ۳۶﴾ 
’’ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ پر توکل و اعتماد کیا، اللہ کے پاس بہت عمدہ اور باقی رہنے والا اجر ہے.‘‘

توکّل ایمان کا ثمرہ ہے

یہاں دو باتیں فرمائیں: ایمان اور اپنے رب پر توکل. جان لیجئے کہ ایمان کا سب سے بڑا ثمرہ توکل ہے، یہ یقین کہ میرے لیے کچھ نہیں ہو گا جب تک اللہ کی توفیق شامل نہ ہو. اقامت ِ دین کی جدوجہد کی راہ میں قدم بڑھانے والوں میں یہ دوسرا وصف ہونا ضروری ہے. اگر اپنی ذہانت، اپنی فطانت، اپنی صلاحیت، اپنی منصوبہ بندی، اپنے زورِ بازو پر تکیہ ہے تو سمجھ لیجئے کہ قدم رکھنے سے پہلے ہی ناکام ہو گئے. اپنی قوت کی نفی کرنا یہ ہو گا کہ میرے کئے کچھ نہیں ہو سکتا. میں تو اللہ کی توفیق، اللہ کی تائید، اللہ کی نصرت کے بھروسہ پر اس راہ میں قدم رکھ رہا ہوں. توکل اس کی ذات پر ہے، اپنی ذات پر نہیں، اپنے علم پر نہیں، اپنے فہم پر نہیں، اپنی محنت پر نہیں، اپنی مشقت پر نہیں، اپنی کوشش پر نہیں. کسی شے پر کوئی بھروسہ نہ ہو، صرف اللہ پر یقین ہو. توکل کا حق اس وقت تک ادا نہیں ہوتا جب تک کسی کام کے لیے دنیا میں جن مادی اسباب کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب آپ کے پاس ہوں اور پھر بھی آپ کو یہ یقین نہ ہو کہ ان سے کچھ ہو گا، بلکہ یقین یہ ہو کہ ہو گا وہی جو اللہ چاہے گا. دیا سلائی آپ کے پاس ہے اور سوکھا کاغذ بھی ہے، آپ جانتے ہیں کہ دنیا کاجو قانونِ طبعی ہے اور جو مادی اسباب ہیں وہ رکاو ٹ نہیں بن سکتے. آپ ماچس سے کاغذ جلا سکتے ہیں لیکن پھر بھی آپ کو یقین رہے کہ میں نہیں جلا سکتا اگر اللہ نہ چاہے. اور اگر اللہ چاہے تو دیا سلائی کے بغیر بھی کاغذ جل جائے گا. یہ یقین اگر نہیں ہے تو ایمان نہیں ہے. پھر تو ایمان ہے مادی اسباب و وسائل پر جن پر آپ کا اعتماد، تکیہ اور توکل ہے. اگر مادی اسباب و وسائل پر آپ کو بھروسہ اور توکل ہے تو درحقیقت آپ مؤمن بالمادہ ہیں. آپ کا ایمان ہے مادہ پر اور مادی، عادی اور طبعی قوانین پر. جب کہ توحید یہ ہے کہ: اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۳﴾ 

’’اللہ ہی وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، (کوئی کار ساز نہیں) لہذا اہل ایمان پر لازم ہے کہ وہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں.‘‘ عربی زبان میں حرف جار ’’علیٰ‘‘ عموماً لزوم کے لیے آتا ہے. سورۃ طلاق میں فرمایا: 

وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ ؕ 
یعنی جو اللہ ہی پر بھروسہ کرے تو اس کے لیے اللہ کافی ہے. وہ ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر سے انسان کا گمان بھی نہ جاتا ہو. 

اگر قلبی اطمینان کی یہ کیفیت نہ ہو تو پھر ایمان کہاں رہا اور توحید کہاں رہی!

آیت کے مفاہیم کا حاصل

اس پہلی آیت میں جو باتیں ہمارے سامنے لائی گئیں ان میں ایک تو یہ کہ بندۂ مومن کی نگاہوں میں دنیا کی کوئی وقعت نہ ہو. دوسرے یہ کہ ایمان بالآخرۃ اتنا مستحضر ہو کہ اصل منزل آخرت ہی ہو جائے اور دنیا کا سارا سازوسامان صرف برتنے کی ایک چیز نظر آئے کہ یہ محض استعمال کی چیز ہے، اس سے زائد اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے. تیسری یہ کہ اللہ ہی پر توکل قائم ہو چکا ہو، اللہ ہی کی رضا اور خوشنودی ہمارا مطلوب و مقصود اور نصب العین بن جائے. واضح رہے کہ جہاں تک ’’نصب العین‘‘ کے لفظ کا تعلق ہے اوّل تو یہ قرآن و حدیث کا لفظ نہیں. دوسرے یہ کہ دین کا کام کرنے کے لیے ہمیں ہر اس اصطلاح سے بچنا چاہئے جو کتاب و سنت سے ماخوذ نہ ہو. ہمیں امکانی حد تک اصطلاحات قرآن و حدیث کی اختیار کرنی چاہئیں. مثلاً ’’تصوف‘‘ کی اصطلاح کو لے لیجئے، اس کے لیے قرآن و حدیث میں ’’احسان‘‘ کی اصطلاح موجود ہے تو اس سے بچئے اور وہ لفظ استعمال کیجئے جو قرآن و حدیث کا ہے. تصوف کا لفظ مجہول النسب ہے. آج تک یہ طے ہی نہیں ہو سکا کہ یہ لفظ کس زبان کا ہے اور کس لفظ سے بنا ہے. ’’تصوف‘‘ سے جو مفہوم مراد لیا جاتا ہے اس سے کہیں بہتر طور پر یہ مفہوم لفظ ’’احسان‘‘ ادا کرتا ہے تو اسی کو کیوں نہ اختیار کیا جائے. اسی طرح ’’نصب العین‘‘ کتاب و سنت کی اصلطاح تو ہے نہیں لہذا اس کو ترک کر دینا مناسب ہو گا. تاہم اگر یہ اصطلاح استعمال بھی کی جائے تو یہ کہنا کہ ایک بندۂ مومن کا نصب العین آخرت میں اللہ کی رضا اور دنیا میں اقامت دین ہے، یہ بہت بڑی غلطی ہے. نصب العین کے درجہ میں سوائے اللہ کی رضا اور اخروی فلاح کے دنیا کی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے. تب نقطۂ نظر درست ہو گا. اقامت دین کے لیے جدوجہد فرض ہے. کسی کام کا فرض ہونا اور ہے، جیسے نماز بھی فرض ہے، روزہ بھی فرض ہے، صاحب نصاب پر زکوٰۃ اور صاحب استطاعت پر حج فرض ہے. احساسِ فرض آپ کو آمادہ کرے کہ آپ ان فرائض کو بجا لائیں اور اقامت دین کی جدوجہد میں تن من دھن لگائیں، لیکن ان میں سے کسی چیز کو نصب العین کے درجے میں نہ لے آیئے. ایک چیز کو نمایاں کر کے آگے لے آنا ترجیح بلا مرجح ہے. لہذا اصل بات یہ ہے کہ اللہ نے جو فرائض عائد کر دیئے ہیں ہمیں ان کو ادا کرنے کے لیے جو بھی ہمارے پاس استعداد و صلاحیت ہے اسے بروئے کار لانا ہے. یہ نہ ہو کہ دنیا میں کوئی شے آپ کی نگاہوں میں نصب العین کی حیثیت سے کھب جائے اور وہ آپ کو کھینچ رہی ہو. یہ سامنے کی کشش بسا اوقات بڑی غلطیوں کا ارتکاب کرا دیتی ہے. اسی طرح عجلت بھی سر پر سوار ہو جاتی ہے کہ سیدھے راستہ سے نہیں پہنچ پاتے تو شارٹ کٹ اختیار کیا جاتا ہے اور انسان ’’by hook or by crook‘‘ اپنے نصب العین پر پہنچنے کی کوشش کرتا ہے. لفظ نصب العین ہی استعمال کرنا ہو تو ہمارا نصب العین آخرت میں اللہ کی رضا کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہونا چاہئے. ہاں اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس کی طرف سے عائد شدہ فرائض اور ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونا اور مطالبات دین پورے کرنے کے لیے محنت و سعی کرنا بالکل دوسری بات ہے.

نہایت اہم ہدایات و تعلیمات!

وَ الَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ وَ اِذَا مَا غَضِبُوۡا ہُمۡ یَغۡفِرُوۡنَ ﴿ۚ۳۷﴾ ’’اور وہ لوگ جو بڑے بڑے گناہوں سے پہلوتہی کرتے ہیں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں، اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں.‘‘
پہلی آیت میں تین باتیں آئی تھیں، تین اوصاف آئے تھے: دنیا کی بے مائیگی اور بے ثباتی کا یقین ہونا، آخرت کی چیزوں کا خیر اور ابقیٰ ہونے پر یقین ہونا، اور اللہ پر ایمان اور توکل ہونا. یہاں بھی تین باتیں آئی ہیں، تین ہی اوصاف آئے ہیں: 
کبیرہ گناہوں سے اجتناب، فواحش سے پرہیز اور غصہ کی حالت میں عفو و مغفرت. لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اس ترتیب کا اصل حسن کیا ہے! ان میں باہمی ربط و تعلق کیا ہے!

کبائر سے اجتناب

قرآن مجید میں تین مقامات پر یہ مضمون آیا ہے کہ اگر تم کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے صغیرہ گناہوں سے درگزر فرمائے گا. یہاں لفظ اجتناب کوبھی سمجھ لیجئے. یہ لفظ ’’جنب‘‘ سے باب افتعال کا مصدر ہے. جنب پہلو کو کہتے ہیں. اجتناب کا ذکر قرآن مجید میں تین مقامات پر کیوں اور کس لیے ہے؟ غور کیجئے، ایک مزاج تو وہ ہوتا ہے کہ اصلاحِ ذات کے لیے آدمی بہت حساس ہو گیا ہو کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی باقی نہ رہے. ہلکے سے ہلکا داغ بھی سیرت و کردار پر نہ رہے. تو ایسے شخص کی ساری عمر اسی ادھیڑ بن میں لگ جائے گی. پھر تلاش کر کے اور خوردبین لگا لگا کے دامن کے داغ دیکھنے اور انہیں دھونے میں ساری زندگی بتا دے گا. پھر بھی کوئی نہ کوئی داغ رہ جائے گا. کوئی شخص یہ کبھی نہیں کہہ سکتا کہ میں آج ’’کامل‘‘ ہو گیا ہوں. جس دن اس نے یہ کہا وہ دن اس کی بربادی کا ہے. کیسے کامل ہو سکتا ہے؟ کوئی نہ کوئی بشری اور طبعی کمزوری اور کوئی نہ کوئی خطا تو لگی رہے گی اور وہ زندگی بھر اسی تلاش و جستجو میں اور اس کو رگڑنے میں لگا رہے گا. لہذا ایسا شخص کبھی بھی اقامت ِ دین کی جدوجہد کی وادی میں قدم نہیں رکھ سکے گا. بلکہ اس طرف اس کا دھیان ہی نہیں جائے گا کہ یہ فرائض میں شامل ہے. انسان کے ذہن پر جب مبالغہ کے درجہ میں محض اپنی اصلاح اور سیرت کی صحت کی دھن سوار ہو جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں رہبانیت وجود میں آجاتی ہے. خانقاہ ایک institution بن جاتی ہے. پھر یہی نسلاً بعد نسل ہوتا چلا جاتا ہے کہ دامن پر کوئی چھوٹا سا داغ بھی نہ رہ جائے. لاہور میں ایک بزرگ ہیں، میں ان کا ان کے خلوص و نیک نیتی کی وجہ سے احترام کرتا ہوں. ان کا اور ان کے مریدین کا یہ عالم ہے کہ نہ تو گوشت کھاتے ہیں کہ پتہ نہیں ذبح کرنے والے نے صحیح ذبح کیا یا نہیں؟ اس اندیشے کے باعث گوشت نہیں کھاتے. پھل نہیں کھاتے، اس لیے کہ باغ عام طور پر ٹھیکہ پر دیئے جاتے ہیں اور ٹھیکہ پر باغ دینا حرام ہے. نہ سبزیاں کھاتے ہیں چونکہ ان میں بھی ٹھیکہ شامل ہوتا ہے. لے دے کے چند دالوں اور روٹی پر گزارہ ہوتا ہے. پتہ نہیں کس دلیل سے انہوں نے دالوں اور گیہوں کو حلال کیا ہوا ہے! مجھے تو یہ ڈر ہے کہ اگر میں ان کو جا کر بتاؤں کہ حضرت! یہ جو گندم اور دالیں ہیں، ان کے ایک ایک دانے میں سود پیوست ہے، کھاد کی جتنی بھی فیکٹریاں ہیں کیا وہ سودی سرمایہ سے قائم نہیں ہیں؟ کیا کھاد کے بغیر گندم اور دالوں کا کوئی دانہ وجود میں آتا ہے؟

آپ خود سوچئے کہ انسان اس طرح کا تقویٰ اپنے اوپر مسلط کر لے تو زندگی اجیرن ہو جائے گی، وہ کام کیا کرے گا؟ یہ ہوتا ہے وہ انتہا پسندانہ اور متشددانہ انداز کہ انسان اپنے دامن کے داغ دھبے ہی دھوتا رہ جاتا ہے، دین کے لیے کوئی مثبت کام نہیں کر سکتا. باطل کو چھوٹ ملی رہتی ہے کہ اس کو کوئی للکارتا ہی نہیں.اس کے لیے میدان کھلا رہتا ہے. اسی لیے تین جگہ قرآن میں اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ موٹی موٹی چیزیں جو ہم نے بتائی ہیں انہیں چھوڑ دو تو چھوٹی چھوٹی خطائیں ہم معاف کر دیں گے. اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اسے کھلا لائسنس سمجھ لیں اور صغائر کرتے چلے جائیں، معاذ اللہ. یہ جو اندازِ فکر ہے کہ مجاہدہ مع النفس ہی ہوتا چلا جائے، اسی مین ساری عمر بیت جائے اور طاغوت کو میدان میں للکارنے کی کبھی نوبت ہی نہ آئے، دین پامال ہو رہا ہو، اس کا استہزاء و تمسخر ہو رہا ہو، شعائر دینی کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، لیکن حمیت دینی اور غیرت ایمانی جوش میں نہ آئے، غم و غصہ کی حرارت پیدا نہ ہو، باطل اور طاغوتی نظام کوبدلنے کا کوئی داعیہ نہ ابھرے، 
پر معصیت ماحول میں انفرادی زہد و تقویٰ ہی کو کافی سمجھا جائے، تو درحقیقت منطقی نتیجہ بن جاتا ہے اس متشددانہ اور انتہا پسندانہ نقطہ نظر کا کہ آدمی اپنی ذاتی صلاحیت اور تقویٰ میں اتنا مستغرق ہو جاتا ہے کہ اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ اللہ کا دین کس غربت اور کسمپرسی میں ہے. (۱

سورۂ نساء کی آیت ۳۱ میں فرمایا: اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ نُدۡخِلۡکُمۡ مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا ﴿۳۱﴾ (اے اہل ایمان!) اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے باز رہو گے، ان سے اپنا پہلو بچائے رکھو گے، ان سے اپنا دامن پاک رکھو گے جن سے تمہیں منع کیا جا رہا ہے تو تمہاری جو اور خطائیں، فروگذاشتیں، برائیاں اور غلطیاں ہوں گی، ہم انہیں صاف کر دیں گے. ہم انہیں تمہارے نامۂ اعمال مین سے ساقط کر دیں گے اور ہم تمہیں داخل کریں گے بڑی عزت اور اکرام والی جگہ میں… یہاں بھی کبائر سے مجتنب رہنے کا ذکر آیا ہے.

اسی طرح سورۂ نجم میں بھی فرمایا گیا: 
اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ (۱) اس موقع پر یہ حدیث بھی پیش نظر رہے جو مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی تالیف ’’خطبات الاحکام‘‘ میں امام بیہقی رحمہ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کی ہے:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اَوْحَی اللہُ عَزَّوَجَلَّ اِلٰی جِبْرَئِیْلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ اَنِ اقْلِبْ مَدِیْنَۃَ کَذَا وَ کَذَا بِاَھْلِھَا. قَالَ: فَقَالَ: یَا رَبِّ اِنَّ فِیْھَا عَبْدَکَ فُلاَنًا لَمْ یَعْصِکَ طَرْفَۃَ عَیْنٍ، قَالَ: فَقَالَ: اَقْلِبْھَا عَلَیْہِ وَعَلْیِھْم، فَاِنَّ وَجْھَہٗ لَمْ یَتَمَعَّرْ فِیَّ سَاعَۃً قَطُّ 

رسول اللہ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ فلاں فلاںبستیوں کو ان کے رہنے والوں سمیت الٹ دو.‘‘ حضور نے فرمایا: ’’اس پر جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ پروردگار! ان میں تیرا فلاں بندۂ بھی ہے جس نے چشم زدن کی مدت بھی تیری معصیت میں بسر نہیں کی.‘‘ آنحضور نے فرمایا: ’’اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’الٹ ڈالو نہیں پہلے اس پر، پھر دوسروں پر، اس لیے کہ اس کے چہرے کی رنگت بھی کبھی (میری غیرت و حمیت کی) وجہ سے متغیر نہیں ہوئی.‘‘ (مرتب)

وَ الۡفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ’’جو لوگ بڑے گناہوں اور بے حیائی، کھلے کھلے قبیح افعال سے مجتنب رہتے ہیں سوائے چھوٹے چھوٹے قصوروں کے.‘‘

غیر ارادی طور پر کوئی خطا اور لغزش ہو گئی، کہیں پیر پھسل گیا، کبھی دل میں وسوسہ آ گیا، کسی وقت کوئی غلطی صادر ہو گئی تو جان لو کہ: 
اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الۡمَغۡفِرَۃِ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِکُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ٪﴿۳۲﴾ [آیت: ۳۲

’’بلاشبہ (اے نبیؐ !) آپ کا رب واسع المغفرت ہے (وہ بہت معاف فرمانے والا ہے، اس کی مغفرت نہایت وسیع ہے. اور اے لوگو!) وہ تمہیں اس وقت سے خوب جانتا ہے جب اس نے تمہیں زمین میں سے اٹھایااور وہ تمہیں خوب جانتا ہے جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جنین کی شکل میں تھے. لہذا اپنے نفس کے تزکیہ اور پاکی کا دعویٰ نہ کرو. (اللہء پر اپنے تقویٰ اور اپنی پاکدامنی اک رعب نہ گانٹھو). وہ خوب جانتا ہے کہ کس کے دل میں واقعی و حقیقی تقویٰ ہے.‘‘
یہ بڑا تیکھا انداز ہے. خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو باریک سے باریک چھلنیوں سے چھاننے پر آ جاتے ہیں. حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اس فضا میں سانس لینا بھی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ آپ سود
inhale کریں. سود اس فضا میں اس طرح پیوست ہے کہ وہ سانس کے ذریعے جسم میں لازماً پہنچتاہے. نبی اکرم کی حدیث ہے کہ ایک زمانہ آئے گا کہ کوئی سود کھائے یا نہ کھائے اس کے غبا سے نہیں بچ سکے گا. جیسے کبھی dust suspension ہو جائے، فضا غبار آلود ہو جائے تو خواہی نخواہی سانس کے ذریعے خاک اندر جائے گیا نہیں؟ اس طرح سے ہمارے موجودہ اقتصادی و معاشیاتی نظام میں سود پیوست اور رچا بسا ہوا ہے. 

اصل ضرورت کیا ہے؟

پرمعصیت اور طاغوتی ماحول میں اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ کبائر سے بچو، ان سے بالکلیہ اجتناب کرو. ساتھ ہی صغائر سے بھی بچنے کی فکر ہو اور اس نام کو بدلنے کی کوشش کرو. باطل سے پنجہ آزمائی کے لیے میدانِ عمل میں نکلو، منظم و متحد ہو کر اسے للکارو. خود بھی موجد بنو اور نظام کو موجد بنانے کے لیے تن من دھن لگا دو اور اگر ضرورت متقاضی ہو تو اللہ کی راہ میں اپنی گردن کٹا کر سرخرو ہو جاؤ. دین کا اصل مطالبہ اور اصل ضرورت یہ ہے. اس کا برعکس پہلو یہ ہے کہ توحید عملی کے ذروۂ سنام یعنی اقامت دین کی جدوجہد سے توکنی کتراؤ اور اپنے دامن کے داغ دھبے ہی دھوتے رہو، ایک دفعہ کافی نہ سمجھو تو پھر دھوؤ، پھر دھوؤ. اس طرح تو اس نظام کو بدلنے کی طرف کبھی توجہ نہیں ہوگی. تم داغ دھبوں کو دھونے سے فارغ ہی نہیں ہو سکو گے کہ اس میدان میں آؤ اور باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارو… یہ ہے اس جگہ پر اس اندازِ بیان کا اصل مطلب: . اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ

فواحش سے بچنے کی خصوصی تاکید

یہاں غور کیجئے کہ فواحش کا کبائر سے علیحدہ خصوصی طور پر ذکر کیوں کیا گیا ہے، اور فواحش یعنی بے حیائی کی تمام باتوں سے بچنے کی تاکید علیحدہ سے کیوں کی گئی ہے! اس لیے کہ انسانی سیرت و کردار بلکہ پورے تمدن کے بگاڑ کے لیے سب سے بڑا اندیشہ Sex یعنی انسان کا جنسی جذبہ ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید مرد و زن کی شرم گاہ کو ’’فرج‘‘ کہتا ہے. فرج کے معنی ہیں اندیشہ کی جگہ ، خطرہ کا مقام. پچھلے زمانے میں شہر کے گرد اگرد بڑی مضبوط فصیل بنائی جاتی تھی. دشمنوں کے حملوں سے شہر کے لیے یہ فصیل پناہ گا کا کام دیتی تھی. اگر کہیں فصیل میں دراڑ پڑ گئی تو یہ اندیشہ کی جگہ ہے، دشمن اس کے ذریعے شہر میں گھس سکتا ہے. اس دراڑ کو عربی میں فرج کہتے ہیں… اسی طرح سے انسان کی سیرت و کردار کے لیے سب سے زیادہ اندیشے والی چیز درحقیقت فرج ہے. اسی لیے عصمت و عفت کی حفاظت کی قرآن مجید میں بہت زیادہ تاکید ہے. (۱چنانچہ سورۂ مومنون کی آیت ۵ تا ۱۷ اور سورۂ معارج کی آیات ۲۹ تا ۳۱ میں ایک شوشے کے فرق کے بغیر بالکل یکساں الفاظ آئے ہیں. فرمایا:

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۵﴾ اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿۶﴾ فَمَنِ ابۡتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡعٰدُوۡنَ ۚ﴿۷

’’وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جوان کی ملک یمین ہوں، ان پر ہرگز ملامت نہیں. البتہ جو اس کے علاوہ اور کچھ چاہے تو وہی لوگ زیادتی کرنے والے حد سے گزرنے والے ہیں.‘‘

لہذا جہاں کبائر سے بچنا لازم اور ضروری ہے وہاں فواحش سے بچنا بھی لازم اور ضروری ہے… چونکہ شیطان کا یہ بڑا کاری وار ہوتا ہے. یاد رہے کہ اس نے یہی حربہ پہلے انسانی جوڑے حضرات آدم و حضرت حوا علیہما السلام پر جنت میں آزمایا تھا:

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ لَا یَفۡتِنَنَّکُمُ الشَّیۡطٰنُ کَمَاۤ اَخۡرَجَ اَبَوَیۡکُمۡ مِّنَ الۡجَنَّۃِ یَنۡزِعُ عَنۡہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوۡاٰتِہِمَا ؕ’’ اے بنی آدم! ہوشیار رہنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں اسی طرح فتنہ میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس ان پر سے اتروا دیئے تھے تاکہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھول دے.‘‘

ابھی اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو رشتہ ٔ ازواج میں منسلک نہیں کیا تھا، لیکن 
(۱) اسی لیے ایک حدیث میں حیاء کو ایمان کا ایک شعبہ اور ایک دوسری حدیث میں حیاء کو نصف ایمان کہا گیا ہے: اَلْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِ اور اَلْحَیَاءُ نِصْفُ الْاِیْمَانِ. ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور نے فرمایا کہ تم مجھے دو جبڑوں کے درمیان والی چیز یعنی زبان اور دو ٹانگوں کے درمیان والی چیز یعنی شرم گاہ کی ضمانت دو، یعنی اس کو اللہ کی مرضی کے خلاف استعمال نہیں کرو گے تو میں تم کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں.‘‘ (مرتب)

شیطان نے قسمیں کھا کر ان دونوں کو یقین دلایا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور ان دونوں کو پھسلا کر اس درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کر لیا جس سے منع کیا گیا تھا. جس کے نتیجے میں ان سے جنت کا لباس اتر گیا اور ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے. آج پوری دنیا اسی فحاشی، بے حیائی اور عریانی کی زد میں ہے. مادہ پرستی کے شرک کے ساتھ ساتھ عریانی و بے حیائی دجالی فتنوں میں بڑے مؤثر فتنے ہیں. یہی وجہ ہے کہ سورۂ اعراف میں حرام چیزوں میں فواحش کو مقدم کیا گیا. فرمایا: قُلۡ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ ... ’’(اے نبی!) کہہ دیجئے میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ بے شرمی وبے حیائی کے کام ہیں، خواہ کھلے ہوں یا چھپے…‘‘ 

ترکِ فرائض بھی کبائر میں شامل ہے

کبیرہ گناہوں میں شرک تو وہ گناہ ہے جس کی کسی طور پر معافی نہیں ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ باقی کبیرہ گناہوں میں سے چند یہ ہیں. فرائض کو ترک کر دینا کبائر میں شمار ہو جائے گا. نماز چھوڑی تو یہ کبیرہ گناہ ہے. بغیر شرعی عذر کے روزہ نہیں رکھا، یہ کبیرہ گناہ ہے. اگر آپ صاحب ِ نصاب ہیں اور زکو ٰۃ نہیں دے رہے اور صاحب ِ استطاعت ہوتے ہوئے بھی حج کرنے کی کوشش نہیں کر رہے، یہ دونوں کبیرہ گناہ ہیں… اقامت ِ دین کی جدوجہد فرض ہے. بالخصوص جن پر اس کی جدوجہد کا قرض ہونا واضح ہو جائے ان کا اس کو ترک کرنا کبیرہ گناہ ہے.

قتل ناحق، سود کا لین دین، زنا اور جن کاموں کو کتاب و سنت نے واضح نصوص کے ذریعے حرام قرار دیا ہے ان میں سے ان میں سے کوئی کام کرنا تمام فقہی مکاتیب فکر میں ان کو کبائر میں شمار کیا گیا ہے… ان سب سے ایک مسلمان کو بالکلیہ اجتناب کرنا لازم ہے. ان سے وہ اپنا دامن بچائے اورباقی کی ا صلاح کی بھی کوشش کرتا رہے. اس بات کا منتظر نہ رہے کہ میں جب اپنی کامل اصلاح کر لوں گا تب میں دعوت و تبلیغ اور اقامت ِ دین کی جدوجہد کے لیے میدان میں آئوں گا. ایسی صورت میں کبھی بھی اس کی نوبت نہیں آئے گی اور مہلت ِ عمر یونہی تمام ہو جائے گی. قرآن مجید کی دعوت تو یہ ہے کہ کبیرہ گناہوں سے اپنا دامن پاک کر کے میدان میں آؤ، باطل کو للکارو، اقامت ِ دین کی جدوجہد میں شامل ہو جاؤ. البتہ فحاشی کی ہر شکل اور ہر نوع سے بچو، یہ سب سے زیادہ اندیشہ کی بات ہے.

حالت ِ غصہ میں اَنسب و اَحسن رویہ

وَ اِذَا مَا غَضِبُوۡا ہُمۡ یَغۡفِرُوۡنَ ﴿ۚ۳۷﴾ تیسری ہدایت اور تعلیم اس بات کی دی جا رہی ہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد کرنے والوں میں یہ وصف ہونا چاہئے کہ وہ کوئی کام غصہ کی حالت میں نہ کریں. یہ بات نہیں ہے کہ انسان میں غصہ نہ ہو، غصہ ہونا بھی ضروری ہے. اس لیے کہ ایک تصور ہے خانقاہی تصور، بدھ مت کے بھکشوؤں کا تصور، گوتم بدھ کا دیا ہوا’’اہنسا‘‘ کا تصور. اسلام میں مستقل بالذات یہ تصورات نہیں ہیں. اسلام میں تو اللہ کے لیے اور اللہ کے دین کا بول بالا کرنے کے لیے تلوار ہاتھ میں لینا چوٹی کی نیکی ہے: وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ اور جیسے سورۂ صف میں فرمایا:اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ 

قرآن بالکل مختلف قسم کے انسان بنانا چاہتا ہے. یہ بدھ مت کے بھکشو نہیں ہیں، یہ خانقاہی مزاج کی شخصیتیں نہیں ہیں، بلکہ ان کا مزاج کچھ اور ہے، جو اقامت ِ دین کی جدوجہد کے لیے درکار ہے. وہ کیا ہے؟ غصہ آئے، لیکن حالت غصہ میں کوئی اقدام نہ ہو! ہوا تو معاملہ غلط ہو جائے گا. غصہ آئے تو معاف کرو. ہاں سوچ سمجھ کر‘ Cool mindedness کے تحت اگر کوئی سخت قوم بھی اٹھانا پڑے تو اٹھانا ہو گا. یاد کیجئے محمد رسول اللہ نے بنی قریظہ کے معاملے میں کتنا بڑا اقدام اٹھایا، حالانکہ آپؐ سے بڑھ کر رحیم، شفیق، رؤف اور دو دو انسانوں میں کون ہو گا! رحمۃ للعالمین  بن کر آئے، جن کے متعلق قرآن گواہی دیتا ہے: فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ’’اے نبی یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ آپؐ ان کے حق میں بہت ہی نرم خو ہیں.‘‘

لیکن وہی محمد رسول اللہ ہیں جنہوں نے دین کے لیے یہ بھی کیا ہے کہ یہودیوں کے ایک قبیلہ کے جتنے بھی جوان مرد تھے ان کو اپنے سامنے ذبح کرایا… بنوقریظہ کا یہ معاملہ ہوا. یہ اور بات ہے کہ اس قبیلہ کی اللہ نے مت ماری تھی کہ ہتھیار ڈالنے کے بعد اپنا معاملہ نبی اکرم جیسے رؤف، و دود اور رحیم و شفیق ذات کے سپرد کرنے کے بجائے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم بنانے پر اصرار کیا. چونکہ نبی اکرم کے مدینہ میں ورودِ مسعود سے قبل اس قبیلے کے ان حلیفانہ تعلقات تھے لہذا امید تھی کہ وہ ان کا لحاظ رکھیں گے. حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عین یہودیوں کی اپنی شریعت کے مطابق یہ فیصلہ دیا کہ بنوقریظہ کے تمام جوان مرد قتل کر دیئے جائیں اور بقیہ لوگوں کو غلام بنا لیا جائے… فیصلہ تو ان کا تھا لیکن اس کا نفاذ تو آنحضور کے حکم پر ہوا… رحمۃ للعالمین نے یہ فیصلہ نافذ فرمایا لیکن اپنے لیے نہیں، دین کے غلبہ کے لیے.

اقامت ِ دین کی جدوجہد میں وہ موقع بھی آیا کہ بدر کے اسیروں کے متعلق حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رائے پیش کی تھی کہ ہر مؤمن ان میں سے اپنے قریب ترین عزیز کو اپنے ہاتھ سے قتل کرے. نبی اکرم نے دوسرے اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی رائے کے مطابق ان اسیروں کو فدیہ لے کر رہا کر دیا، لیکن بعد میں سورۂ انفال میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی تصویب فرمائی… بہرحال انقلابی عمل میں ایسے مواقع آتے ہیں کہ سختی بھی کرنی پڑتی ہے. لیکن ایک ہے جذبات میں آ کر سختی کرجانا، یہ درست نہیں ہے. غصہ آیا ہو اور اس حالت میں آپ کوئی اقدام کر بیٹھیں تو اکثر غلط قدم اٹھا بیٹھیں گے… لہذا غصہ میں تو معاف کر دینا ہی افضل و احسن ہے. جیسے مؤمنین صادقین کے اوصاف میں فرمایا: 

وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ 
’’یہ لوگ وہ ہیں جو غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہوتے ہیں.‘‘

اس آیت میں اقامت ِ دین کی جدوجہد اور توحید عملی کے عاملین کا تیسرا وصف بیان فرمایا کہ: 
وَ اِذَا مَا غَضِبُوۡا ہُمۡ یَغۡفِرُوۡنَ ﴿ۚ۳۷﴾ ’’اور جب انہیں غصہ آ جائے تو معاف کر دیتے ہیں، درگزر سے کام لیتے ہیں.‘‘