آگے اقامت دین کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے چار مزید اوصاف کا بیان آ رہا ہے. فرمایا:
وَ الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۪ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ۚ۳۸﴾ 
’’اور جو لوگ اپنے رب کے حکم پر لبیک کہتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں اور اپنے معاملات باہم مشورے کے چلاتے ہیں، اور جو کچھ بھی رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں.‘‘

پہلا وصف: استجابت

اجابت اور استجابت ہم معنی الفاظ ہیں. اجابت قبولیت کو کہتے ہیں. یہ لفظ سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۶ اور سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۸۶ میں استعمال ہوا ہے. فارسی کا بڑا پیارا شعر ہے ؎
بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از درِ حق بہر استقبال می آید!

اس کا ترجمہ بھی شعر ہی میں ہے ؎
ڈرو مظلوم کی آہوں سے جب اٹھتی ہیں سینوں میں
قبولیت ہے کرتی خیر مقدم چرخ سے آکر!

سورۃ البقرۃ کی آیت سے صاف واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ دو طرفہ معاملہ ہے، فرماتا ہے: اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ’’میں تو ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں اور قبول کرتا ہوں جب بھی اور جہاں بھی وہ مجھے پکارے.‘‘ میں نے کوئی خاص وقت مقرر نہیں کیا ہوا ہے کہ بس صرف اس میں انٹرویو ہو سکتا ہے یا درخواست سنی جا سکتی ہے یا پیش کی جا سکتی ہے. لیکن ایک شرط ہے: فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ ’’پس میرے بندوں کو بھی چاہیے کہ میری پکار پر لبیک کہیں (میری ہدایات کو قبول کریں) اور مجھ پر ایمان رکھیں.‘‘ یہ نہیں کہ اپنی باتیں تو مجھ سے منوائیں اور میری نہ سنیں.یہاں فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡ ’’جن لوگوں نے اپنے رب کی پکار پر لبیک کہا (اسے قبول کیا).‘‘ کون سی پکار؟ یہ کہ دین کو قائم رکھو یا دین کو قائم کرو اور اس دین کے بارے میں متفرق نہ ہو جاؤ، دین کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر دو.

دوسرا وصف: اقامت ِ صلوٰۃ

وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ’’اور انہوں نے نماز قائم کی.‘‘
دین اللہ کا ہے اور اس کو قائم کرنے کے لیے آپ کے دل میں اتنا ہی شدید جذبہ ہو گا جتنی اللہ کی محبت آپ کے دل میں ہو گی. فرض کیجئے کہ کوئی دولت کا پجاری ہے اور وہ دن رات اس کے لیے محنت کر رہا ہے تو جتنی اسے دولت سے محبت ہو گی، اتنی ہی وہ محنت کرے گا. محبت کم ہو گی تو مشقت بھی کم ہو جائے گی. اگر اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنی ہے تو اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط رکھنا ہو گا اور تعلق مع اللہ کی مضبوطی کے لیے جو ستون ہے، جو عمادالدین ہے، وہ ہے نماز. لہذا فرمایا گیا: 

وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ’’اور انہوں نے نماز کو قائم رکھا.‘‘ یہ نماز درحقیقت اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اللہ کی یاد کا مؤثرتین ذریعہ ہے. فرمایا: اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ ’’نماز قائم کرو میری یاد کے لیے.‘‘ اللہ کے ساتھ تعلق میں اگر کہیں ذرا کمی آنے لگے تو اسے تازہ کرنے کے لیے نماز ہی سب سے بڑا ذریعہ ہے. حفیظ جالندھری کا بڑا پیارا شعر ہے ؎

سرکشی نے کر دیئے دھندلے نقوش بندگی
آؤ سجدے میں گریں لوح ِجبیں تازہ کریں!

ایک بندۂ مومن نے اللہ تعالیٰ سے جو عہد بندگی استوار کیا ہوا ہے سجدے میں جا کر گویا وہ اس عہد کو ازسر نو تازہ کرتا ہے. علامہ اقبال کا یہ شعر بھی خوب ہے ؎
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق!

مؤمن اس دُنیا میں رہتے ہوئے دُنیا سے بلند تر ہو کر زندگی بسر کرتا ہے. اس کا اصل تعلق صرف اللہ کے ساتھ ہوتا ہے. پس نماز اللہ سے تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ ہے. 

تیسری وصف: شورائیت

وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ 
ا ب جو اقامت ِ دین کی جدوجہد کرنی ہے، کفر سے ٹکرانا ہے، باطل کا استیصال کرنا ہے، حق کا بول بالا کرنا ہے، غلبہ دین کے فریضہ کو انجام دینا ہے، اس کے لیے ایک شرطِ لازم یہ بھی ہے کہ جو لوگ اس کام کے لیے جمع ہوئے ہوں، منظم ہوئے ہوں، وہ باہمی مشورے کا نظام قائم کریں. کسی میں انانیت نہ آنے پائے. اس میں کوئی Totalitarianism نہ ہو کہ بس یں مختارِ کل ہوں. یہ بات اگر ہو سکتی تھی تو انبیاء و رسل کے لیے ہو سکتی تھی جن کا تعلق تارِ وحی کے ذریعے اللہ کے ساتھ بندھا ہوا تھا. جب رسولوں نے یہ نہیں کیا تو ہماشماکس قطار و شمار میں ہو سکتے ہیں.
سورۂ آل عمران میں فرمایا: 

وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ 
’’(اے محمد !) اپنے ان ساتھیوں سے مشورہ لے لیا کیجٖے.‘‘

ان کو بھی مشورہ میں شریک کر لیا کیجئے. 
فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ مشورے کے بعدآپؐ جو فیصلہ کر لیں توا س پر اللہ پر توکل کرتے ہوئے عمل کریں. پھر یہ نہیں ہونا چاہئے کہ فیصلہ بدل دیا جائے کہ کبھی اِدھر اُدھر. دعوتِ توحید عملی کے داعی اور تحریک اسلامی کے قائد کے لیے عزیمت لازمی ہے. مشورہ ضرور کرے، پھر فیصلہ کرے، لیکن جب فیصلہ کرلیا جائے تو معاملہ اللہ کے حوالہ کر دیا جائے. فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ اسی مثال کی ہمیں غزوۂ احد کے واقعہ میں ملتی ہے کہ نبی اکرم نے مشورہ کیا کہ دشمن مدینہ پر چڑھائی کے لیے آ رہا ہے، کیا کرنا چاہیے؟ حضور کی اپنی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں محصور ہو کر مدافعت کی جائے جیسے قریباً دو سال بعد غزوۂ احزاب کے موقع پر ہوا تھا. عجیب بات یہ ہے کہ عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین کی رائے بھی یہی تھی. رائے میں تو اتفاق ہو سکتا ہے، چاہے کوئی شخص نیک نیتی سے رائے دے رہا ہو یا بدنیتی سے. لیکن کچھ مسلمانوں نے، خاص طور پر انہوں نے جو غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے یا بعد میں اسلام لائے تھے جن میں جوش جہاد بہت تھا، اصرار کیا کہ ہم قلعہ بند ہو کر مدافعت کیوں کیں؟ ہمیں تو شہادت مطلوب ہے ؎

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی!

تو کیوں نہ میدان میں جا کر کفر سے مقابلہ کریں؟ نبی اکرم نے اپنے چند ساتھیوں کا جب یہ جوش و خروش دیکھا تو فیصلہ فرما دیا کہ میدان ہی میں مقابلہ ہو گا. اس کے بعد آپؐ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے حجرہ میں تشریف لے گئے اور باہر وارد ہوئے تو زرہ بکتر پہنی ہوئی اور ہتھیار لگائے ہوئے تھے. یہ بڑی غیر معمولی بات تھی، آپؐ نے کبھی یہ صورت اختیار نہ کی تھی. اب ان ساتھیوں کو احساس ہوا کہ جن کا میدان میں مقابلہ کرنے پر اصرار تھا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے. کوئی خاص بات ہے جو حضور زرہ پہن کر تشریف لائے ہیں. انہوں نے کہا حضور ہم اپنی بات واپس لیتے ہیں، اب جو بھی آپؐ کا فیصلہ ہو… حضور نے فرمایا: کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ ہتھیار لگا کر اتار دے. حضور نے میدان ہی میں چلنے کا فیصلہ برقرار رکھا. توکل تو اللہ ہی پر ہے، ہو گا وہی وج وہ چاہے گا، وہ چاہے تو ہماری غلطیوں کو Condone کر دے، ان کی تلافی فرما دے. بلکہ بسااوقات یہ ہوتا ہے کہ غلطی آپ کے حق میں مفید ہو جاتی ہے. فیصلہ تو اس کا ہوتا ہے. یہ بات ہے جو یہاں فرما دی گئی کہ فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ اے نبی یہ تو اللہ کا بڑا فضل ہے اور اس کی رحمت ہے کہ آپؐ اپنے ساتھیوں کے حق میں بہت نرم خو ہیں. اگر آپؐ تند خو ہوتے تو یہ آپؐ کے اردگرد سے منتشر ہو جاتے. اقبال نے کہا ہے ؎

کوئی کارواں سے چھوٹا کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی!

کسی قافلہ کو لے کر چلنے کے لیے قائد میں خوئے دلنوازی بھی ضروری ہے اور جناب محمد رسول اللہ میں یہ وصف اپنے عروج پر تھا کہ ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ حضور کی سب سے زیادہ عنایت میری طرف ہے، سب سے زیادہ توجہ میری جانب ہے. تو فرمایا اگر خدانخواستہ آپؐ کا طرز عمل یہ ہوتا کہ آپؐ تند مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ سب ساتھی اِدھر اُدھر بکھر چکے ہوتے، منتشر ہو چکے ہوتے. فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ پس آپؐ ان کی خطاؤں سے درگزر کیا کیجئے. وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ اور اللہ سے بھی ان کے لیے استغفار کیا کیجئے. فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ اور جب آپؐ فیصلہ کر لیں تو پھر اللہ پر توکل لیجئے.
یہاں فرمایا: 
وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ یہ اس لیے کہ ایک قافلہ، ایک جماعت، ایک تنظیم کے ہم مقصد ساتھیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی اور یک جہتی ہونی لازم ہے. وہ پیدا نہیں ہو گی اگر مشورہ نہ ہو. حتیٰ کہ رسول اللہ سے فرمایا گیا کہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ لیا کیجئے، تابہ دیگراں چہ رسد! دوسرا کون کہہ سکتا ہے کہ میں مشورہ سے مستغنی ہوں. لہذا ہمیشہ ہمیش کے لیے طے فرما دیاگیا: وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ

چوتھا وصف: انفاق

اس آیت میں اقامت ِ دین کا فریضہ انجام دینے والوں کا چوتھا وصف بیان ہو رہا ہے: وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ۚ۳۸﴾ ’’ہم نے انہیں جو بھی رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.‘‘

آیت کے اس حصہ کی توضیح و تشریح سے قبل اب تک جو کچھ ذکر ہوا اس پر نگاہ بازگشت ڈال لیجئے. پہلی آیت میں تین اوصاف بیان ہوئے تھے. (۱) دُنیا کو صرف برتنے کی چیز سمجھنا. (۲) آخرت کی زندگی ہی کو اصل خیر اور باقی رہنے والی شے جاننا. (۳)اللہ تعالیٰ ہی پر توکل کرنا. دوسری آیت میں بھی تین اوصاف آئے ہیں. (۱) کبیرہ گناہوں سے اجتناب. (۲) فواحش سے پرہیز. (۳) غصہ کی حالت میں عفو ودرگذر سے کام لینا.

زیر نظر آیت میں اب تک تین اوصاف ہمارے سامنے آئے ہیں: (۱) دعوت ِ اقامت ِ دین پر لبیک کہنا، (۲) نماز قائم کرنا، (۳) اپنے معاملات میں مشاورت کرنا. گویا اب تک نو اوصاف سامنے آچکے ہیں. اب دسوان وصف سامنے آرہا ہے اور وہ ہے: 
وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ۚ۳۸﴾ ہم نے انہیں جو بھی رزق دیا ہے، وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں. یہاں تک دس اوصاف پورے ہوتے ہیں.

چونکہ اکثر لوگ بنیادی باتوں سے واقف نہیں ہیں اس لیے ان کے ذہن کی رسائی یہاں پر 
یُنۡفِقُوۡن (خرچ کرنے) کے اصل اور حقیقی مفہوم تک نہیں ہو پاتی. دیکھئے خرچ تو سب ہی لوگ کرتے ہیں. دولت ہے، کمائی ہے، وہ آخر خرچ کرنے کے لیے ہوتی ہے. بخیل سے بخیل آدمی بھی آخر کچھ نہ کچھ خرچ کرتے ہیں، بنیوں کو بھی خرچ کرنا پڑتا ہے. خاص طور پر اپنی بیٹیوں کی مواقع پر تو وہ دل کھول کر خرچ کرتے ہیں. مکان بناتے ہیں تو بھی دل کھول کر خرچ کرتے ہیں. ایک ہے اپنی ذات پر، اپنی ضروریات پر خرچ کرنا. وہ یہاں مراد نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ اس مقصد کے لیے تو سب ہی خرچ کرتے ہیں. یہاں اصل مراد ہو گی اللہ کے لیے خرچ کرنا.

پھر اللہ کے لیے خرچ کرنے کی بھی تین مدّیں ہیں. اس کو اچھی طرح سمجھ لیجئے. اللہ کو راضی کرنے کے لیے آپ اپنا مال خرچ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی مد ایک ہے ذوی القربیٰ یتامیٰ، مساکین، فقراء، بیوگان، مسافروں کی مددکرنا، سائلوں کو دینا جو مقروض ہوں ان کو قرض سے نجات دلانا، جو غلامی کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہوں ان کی گردنیں چھڑادینا. جیسا کہ آیت بر (سورۂ بقرہ کی ۱۷۷ ویں آیت) میں فرمایا: 
وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ اس مد کو قرآن مجید کی اصطلاح میں صدقات و خیرات نافلہ کہا جاتا ہے. زکو ٰۃ کو بھی اس میں شامل کر لیجئے، وہ فرض ہے اور یہ دوسری مد ہے. اس کی مدات اکثر تویہی ہیں جو آیت بِرّمیں بیان ہوئیں.کچھ کا ان میں اضافہ ہے.
انفاق کی ایک تیسری مد ہے اور وہ ہے اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا. یعنی دین کی دعوت و تبلیغ اور نشرواشاعت میں پیسہ لگانا، اقامت ِ دین کی جدوجہد کے لیے اپنا مال خرچ کرنا. اگر قتال فی سبیل اللہ کا مرحلہ آ جائے تو اس کے لیے سروسامان، اسلحہ وغیرہ کی فراہمی میں دل کھول کر پیسہ خرچ کرنا. یہاں درحقیقت یہ تیسری مد مراد ہے، کیونکہ سیاق میں 
اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ کا حکم آ چکا ہے. اقامت ِ دین کا فریضہ کیسے انجام پائے گا اگر مال خرچ نہیں کریں گے؟ یہی وجہ ہے قرآن مجید میں جہاں کہیں جہاد کا ذکر آیا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں مال کا ذکر مقدم ہو گا. جیسے سورۂ حجرات میں سچے مؤمنین کے اوصاف بیان ہوئے: 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ [آیت: ۱۵

سورۂ صف میں فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ [آیات: ۱۰،۱۱]

سورۂ توبہ میں فرمایا:

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ۙ اَعۡظَمُ دَرَجَۃً عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ (آیت ۲۰

جہاد میں مال خرچ ہوتا ہے، بلکہ دعوت و تبلیغ کے مرحلے پر تو مال ہی خرچ ہو گا. آگے چل کر اقامت ِ دین کی جدوجہد میں وہ مرحلہ بھی آسکتا ہے کہ نقد جان ہتھیلی پر رکھو اور میدان میں آجاؤ. کفن سر سے باندھو اور باطل کے مقابلہ میں نکلو. اس مرحلہ کے متعلق نبی اکرم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جنگ اور اس کے نتیجے میں شہادت کی تمنا ہر دل میں لازماً ہونی چاہئے. ہو سکتا ہے کہ یہ مرحلہ آپ کی زندگی میں درپیش نہ ہو. اقامت دین کی جدوجہد آپ نے شروع کی ہے لیکن قتال بالسیف کا مرحلہ آپ کی زندگی میں نہیں آیا تو کوئی بات نہیں، مگر نیت و ارادہ اور تمنا و آرزو دل میں رہے. اللہ کی راہ میں جنگ اور شہادت کی تمنا سے جو سینہ خالی ہے اس کے بارے میں حضور نے فرمایا: فَقَدْ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنَ النِّفَاقِ ایسے شخص کی موت ایک قسم کے نفاق پر آئی، وہ ایک نوع کے نفاق پر مرا. اللہ کے دین کے لیے مال خرچ کرنے کے لیے اصطلاح آتی ہے انفاق فی سبیل اللہ. یہاں بھی یہی اصطلاح استعمال ہوئی. وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ 
ایک اور بات بھی اس مقام پر سمجھ لیجئے. رزق کا اطلاق بھی صرف مال یا ضروریاتِ زندگی پر نہیں ہوتا، بلکہ توانائیوں، صلاحیتوں اور قوتوں پر بھی ہوتا ہے. اسی طرح ’’انفاق‘‘ بھی جامع اصطلاح ہے. اس کا اطلاق اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کے ساتھ اپنی توانائیاں، صلاحیتین اور قوتیں صرف کرنے پر بھی ہو گا. اس آیت میں چار اوصاف بیان ہوئے: وَ الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡ وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب کی پکار پر لبیک کہا. وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ اور اللہ سے اپنے تعلق کو قائم رکھنے کے لیے نماز کو قائم رکھا. وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ جماعتی زندگی کے اندر ہم خیال اور باہمی اعتماد کی فضا برقرار رکھنے کے لیے باہمی مشورے کے نظام اور ا س کی روح کو قائم کیا. وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ اور جو کچھ بھی رزق اللہ نے انہیں دیا اس کو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.