عام طور پر عفو ودرگزر اور معاف کرنا تو قابل مدح و تعریف بات سمجھی جاتی ہے مگر یہاں اس کے برعکس معاملہ ہے. فرمایا: 

وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَہُمُ الۡبَغۡیُ ہُمۡ یَنۡتَصِرُوۡنَ ﴿۳۹
’’اور وہ لوگ کہ جن پر جب زیادتی کی جائے تو وہ بدلہ لیتے ہیں.‘‘

معلوم ہوا کہ یہاں بالکل ہی رنگ بدل گیا. یہاں بدھ مت کے بھکشوؤ ں والا رنگ نہیں ہے، یہاں تو رنگ کچھ اور ہے. یہاں تو بطورِ وصف بتایا جا رہا ہے کہ وہ لوگ جن پر زیادتی ہو، وہ ایسے بے غیرت و بے حمیت نہیں ہیں اور نہ ہی ایسے نرم چارہ ہیں کہ جو چاہے ان کے ساتھ زیادتی اور ظلم کا معاملہ کر جائے اور وہ بیٹھے رہ جائیں.

اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے. جان لیجئے کہ ہمارے دین کا مزاج یہ ہے کہ وہ پورے نظام اجتماعی کو درست کرنا چاہتاہے. لہذا دُنیا میں جب بھی نظام عدل و قسط قائم ہو گا تو وہ کامیابی سے چل ہی نہیں سکتا جب تک کہ مجرموں، ظالموں، زیادتی کرنے والوں کو سزا نہ دی جائے. عدل و قسط کا تقاضا یہی ہے. عفو اور معافی کی بنیاد پر کوئی اجتماعی نظام نہیں چل سکتا. عفو اورمعافی کی بنیاد پر انسان کی اپنی ذاتی روحانیت میں ترفع ہو سکتا ہے، بلندی ہو سکتی ہے. ایک شخص انتظام اور بدلہ لینے پر قادر ہے لیکن پھر بھی وہ معاف کر دے تو یقینا اس کی روحانی ترقی ہو گی 
لیکن اجتماعی نظام اس اصول پر نہیں چلے گا. یہ دو چیزیں بظاہر متضاد ہیں، ان پر غور کیجئے. قرآن مجید ایک طرف انتہائی زور دیتا ہے کہ معاف کرو، درگزر کرو.

اِنۡ تُبۡدُوۡا خَیۡرًا اَوۡ تُخۡفُوۡہُ اَوۡ تَعۡفُوۡا عَنۡ سُوۡٓءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیۡرًا ﴿۱۴۹﴾ [النساء: ۱۴۹
’’اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جاؤ یا (کم ازکم) برائی سے درگزر کرو تو (یہ تمہارے لیے بہتر ہے چونکہ) اللہ بھی توبڑا معاف کرنے والا ہے، حالانکہ وہ (سزا دینے پر) قدرت رکھتا ہے.‘‘

ایک مقام پر فرمایا: 
وَ اِنۡ تَعۡفُوۡا وَ تَصۡفَحُوۡا وَ تَغۡفِرُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ [التغابن: ۱۴’’اگر تم معاف کر دیا کرو، درگزر کر دیا کرو، اور بخش دیا کرو تو اللہ بھی غفور و رحیم ہے.‘‘

ا س سے زیادہ زور دار اپیل کوئی اور ہو سکتی ہے کہ تمہیں بھی احتیاج ہے کہ نہیں کہ تمہیں بھی اللہ معاف کرے؟ لہذا تم بھی اپنے بھائیوں کو معاف کرو، انسانوں سے درگزر کرو، اللہ تم سے درگزر کرے گا. عفو کی ترغیب کا اس سے زیادہ زور دار اور کوئی انداز نہیں ہو سکتا.

اب سورۂ بقرہ کی یہ آیت ذہن میں لاہیے: 
وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ [آیت: ۱۷۹
’’ہوشمندو! تمہارے لیے زندگی قصاص میں ہے.‘‘ بدلے میں ہے… دُنیا کا نظام بگڑ جائے گا اگر عفو ہی عفو ہو. مجرموں کے حوصلے بڑھتے چلے جائیں گے. ایک مجرم کو معاف کر دیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ اگلے پر ہاتھ اٹھائے. لہذا اسے بدلہ ملنا چاہیے جو تورات کا قانون ہے، جسے قرآن مجید نے کھول دیا ہے: 

وَ کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡہَاۤ اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِ ۙ وَ الۡعَیۡنَ بِالۡعَیۡنِ وَ الۡاَنۡفَ بِالۡاَنۡفِ وَ الۡاُذُنَ بِالۡاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَ الۡجُرُوۡحَ قِصَاصٌ ؕ [المائدہ: ۴۵
’’اور ہم نے تورات میں یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ.‘‘

اس قانون پر عمل ہو تو مفسدوں اور شر پسندوں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے. ایک کو سزا مل جائے گی تو ہزاروں کی آنکھیں کھل جائیں گی، ان کو عبرت حاصل ہوجائے گی. یہ ہے نظام کو درست کرنے کی ضرورت.

چونکہ یہ سورۃ اقامت ِ دین کی سورۃ ہے، لہذا یہاں نظام کو صحیح و درست رکھنے کے اصول بتائے گئے ہیں. جہاں صرف دعوت و تبلیغ کی بات ہو گی وہاں بتایا جائے گا کہ معاف کرو، لوگ تمہیں گالیاں دیں تم انہیں دعائیں دو، لوگ تم پر پتھراؤ کریں تم ان کی خدمت میں پھول پیش کرو. ایک مرحلہ یہ بھی ہوتا ہے اور ایک مرحلہ وہ ہے کہ نظام عدل وقسط قائم کرنے کے لیے باضابطہ میدان میں آ کر مقابلہ کرو. وہ نظام قائم ہو گا تو اس میں تعزیرات بھی ہیں، حدود بھی ہیں، سزائیں بھی ہیں، بدلے بھی ہیں. جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیعت خلافت کے بعد جو پہلا خطبہ دیا اس میں یہ الفاظ آتے ہیں: ’’لوگو! تم میں سے ہر قوی میرے نزدیک ضعیف ہو گا جب تک کہ اس سے حق وصول نہ کر لوں اور ہر ضعیف میرے نزدیک قوی رہے گا جب تک کہ اس کا حق نہ دلوا دوں.‘‘ اسلام کے نظام عدل وقسط میں قصاص اور بدلے کے قوانین کی اس قدر اہمیت ہے. 

غور کیجئے کہ یہ سورۂ مبارکہ مکی ہے اور مکی دور میں تو بدلے اور انتقام کی اجازت ہی نہیں تھی. پھر یہ مضمون یہاں کیوں آ رہا ہے؟ یہ مضمون یہاں اس لیے آ رہا ہے کہ پیش نظر یہ رہے کہ نظام یہی قائم کرنا ہے کہ بدلہ لینا ہے. اس وقت ہاتھ بندھے ہوئے ہیں بندھے رہیں، لیکن اندر ہی اندر لاوا کھولتا رہے کہ جب بھی ہاتھ کھول دیئے جائیں گے تو یہ جماعت میدان میں آ کر باطل کو للکارنے کے لیے تیار و مستعد ہو… اور اگر ان کو بنا ہی دیا جائے بدھ مت کے بھکشو، تو وہ میدان میں آنے کا حوصلہ کیسے کریں گے؟ پھر ان کا مزاج ان خطوط پر پرورش ہی کہاں پائے گا؟ یہاں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ سینوں میں آگ سلگتی رہے… رکے ہوئے 
اس لیے ہیں کہ ابھی اس کی اجازت نہیں ہے. یہ ڈسپلن کی انتہا ہے کہ ماریں کھاؤ لیکن مدافعت میں بھی ہاتھ نہ اٹھاؤ… لیکن یہ نہ سمجھو کہ بدلہ ہے ہی نہیں، بدلہ ہے مگر ابھی اس کا وقت نہیں آیا ؎

ابھی نہ چھیڑ محبت کے راگ اے مطرب
ابھی حیات کا ماحول سازگار نہیں!
اور علامہ اقبال نے کہا ہے ؎
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی!

چنانچہ لاوا اندر ہی اندر پکتا رہا حتیٰ کہ وہ وقت آیا جب ہاتھ کھول دیئے گئے: ؎
اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹

’’ آج سے انہیں اجازت دی جا رہی ہے جن پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، کہ وہ جنگ کریں (اور بدلہ لیں) اوربالیقین اللہ کی مدد پر قادر ہے.‘‘

آگے چلئے، فرمایا: 
وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ 
’’اوربرائی کا بدلہ تو برائی ہی ہے، ویسی ہی برائی.‘‘

وہی بات جو سورۂ مائدہ کی آیت ۴۵ میں ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور جیسا زخم لگایا گیا ویسا ہی زخم. یہ ہے قصاص کا قانون 
وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ یہاں جو دوسرا سَیِّئَۃٌ ہے وہ بیان کے لیے ہے، وہ برائی ہے ہی نہیں. بدلے میں اگر کسی کا دانت توڑا جائے تو یہ برائی نہیں ہے، لیکن چونکہ ظاہری مشابہت ہے، دونوں کاموں کی شکل ایک ہی ہے، کسی نے کسی کا دانت توڑا اس نے قصاص میں اس کا بھی دانت توڑ دیا، تو درحقیقت یہ سَیِّئَۃٌ نہیں ہے.اس فعل کی ظاہری مشارکت کی وجہ سے لفظ سَیِّئَۃٌ استعمال ہوا. 

فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ ’’ہاں جو (برائی کا بدلہ برائی سے لینے پر قادر ہونے کے باو جود) معاف کر دے اور اصلاح کی کوشش کرتا رہے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے.‘‘

انفرادی سطح پر واقعی یہ عمل روحانی ترفع کا ذریعہ بنتا ہے.
آیت کے آخر میں فرمایا: 

اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۴۰﴾ 
’’یقینا اللہ تعالیٰ کو ظالم لوگ پسند نہیں ہیں.‘‘
برائی کا بدلہ لینے اوربرائی کی سزا دینے کا ضابطہ اس کی شانِ عدل کا مظہر ہے.

بدلہ لینے پر کوئی ملامت نہیں

اگلی آیت میں فرمایا:

وَ لَمَنِ انۡتَصَرَ بَعۡدَ ظُلۡمِہٖ فَاُولٰٓئِکَ مَا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿ؕ۴۱
’’اور جو کوئی اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیتا ہے اس پر ملامت کا کوئی راستہ نہیں ہے.‘‘

غور کیجئے یہاں رہبانیت اور بدھ کے بھکشوؤں کے تصور کو جڑ سے کاٹا جا رہا ہے. اگر کوئی بدلہ لے رہا ہے تو کوئی برائی نہیں ہے. اسے کسی قسم کی ملامت نہیں کی جا سکتی. کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ضرور معاف کر دے اوربدلہ نہ لے. نہیں! بدلہ اس کا حق ہے جس کے ساتھ برائی کی جائے. وہی بات جو 
Sex کے بارے میں سورۂ مؤمنون اور سورۂ معارج میں کہی گئی تھی کہ جو لوگ اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر اندر رہتے ہوئے اپنی جنسی خواہش اور اس کے داعیہ کو جائز طریقہ سے پورا کریں تو ان کے لیے کوئی ملامت نہیں: 

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۵﴾اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿۶﴾ 
یہ جنس فی نفسہ کوئی شر نہیں ہے، یہ جذبہ اور داعیہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں ودیعت کیا ہے، بقائے نسل اس کی غایت ہے. فی نفسہٖ یہ شر نہیں ہے. اگر جائز راستے سے انسان اس جذبہ کی تسکین کرتا ہے تو اس پر کوئی ملامت نہیں ہے. یہ انداز اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ بعض مذاہب بالخصوص عیسائیت میں نکاح اور گھر گرہستی کو گھٹیا درجہ کا کام سمجھتا جاتا ہے. وہی بات یہاں فرمائی گئی ہے کہ جس پر ظلم ہوا ہے وہ اگر بدلہ لے رہا ہے تو کسی ملامت کا کوئی مقام نہیں ہے: وَ لَمَنِ انۡتَصَرَ بَعۡدَ ظُلۡمِہٖ فَاُولٰٓئِکَ مَا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿ؕ۴۱﴾ 
آگے فرمایا:

اِنَّمَا السَّبِیۡلُ عَلَی الَّذِیۡنَ یَظۡلِمُوۡنَ النَّاسَ وَ یَبۡغُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۴۲﴾ 

’’ہاں، ملامت کے مستوجب اور مستحق تو وہ لوگ ہیں جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور جو زمین پر ناحق سرکشی کا رویہ اختیار کرتے ہیں. یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے.‘‘

صبر اور عفو کی تلقین

وَ لَمَنۡ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿٪۴۳
’’البتہ جو شخص صبر کرے (جھیلے، برداشت کرے، تحمل اختیار کرے) اور معاف کر دے تو یہ نہایت باہمت کاموں میں سے ہے.‘‘

یہ پانچ آیات ۳۹ تا ۴۳ کس موضوع پر ہیں! بدلہ اور بدلہ کی اہمیت، اس کا مقام مدح میں ذکر کیا جانا اور اس کے خلاف جو تصورات و تخیلات ہیں ان کی مذمت یہ نہ سمجھو کہ بدلہ لینے والا کوئی گھٹیا کام کرتا ہے، یہ اس کا حق ہے، اس پر کوئی ملامت نہیں ہو گی. ہاں یہ دوسرابات ہے کہ کوئی شخص بدلے کی قدرت رکھتے ہوئے معاف کر دے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے. اللہ اس کو بہتر بدلہ دے گا.

ہوا کا رخ

یہ تمام باتیں اس سورۂ مبارکہ میں اس لیے بیان ہوئیں کہ ہوا کا رخ پہچان لیا جائے اور اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ توحید عملی کی یہ دعوت کس رخ پر آگے پڑھے گی. جو نظام قائم کرنا اس کا ہدف ہے، وہ کوئی راہبانہ نظام نہیں ہے، بلکہ وہ پورا نظام مبنی برعدل وقسط نظام ہے. نبی اکرم سے کہلوایا گیا: وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ ’’مجھے حکم ہوا ہے کہ تمہارے مابین عدل کروں.‘‘ پھر وہ آیت: اَللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ وَ الۡمِیۡزَانَ ؕ ’’اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب بھی نازل کی اور میزان بھی نازل کی.‘‘ اس میزانِ عدل کو نصب کرو اور اس کی رو سے جو مستوجب سزا ہے اس کو سزا دو.

ہدایت وضلالت کا ضابطہ

وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ وَّلِیٍّ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ 
’’اور جسے اللہ ہی گمراہ کر دے پھر اس کے بعد اس کا کوئی دوست (ساتھی اور مددگار ) نہیں بن سکتا.‘‘

یہاں ’’اللہ ہی گمراہ کر دے‘‘ کا کیا مطلب ہے! جس کی گمراہی پر اللہ کی طرف سے مہر ثبت ہو جائے. اللہ گمراہ نہیں کیا کرتا، انسان خود گمراہ ہوتا ہے. ہدایت بھی اللہ تعالیٰ زبردستی نہیں دیتا. ہدایت کے طالب کو اللہ ہدایت دیتا ہے، جو گمراہ ہے اور وہ اپنی ضلالت اور کجی کی وجہ سے ایک انتہا تک پہنچ گیا ہے تو وہاں جا کر اس کے دل پر اللہ بھی آخری مہر تصدیق ثبت فرما دیتا ہے کہ اب یہ جدھر جاتا ہے جائے. ...نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصۡلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا ﴿۱۱۵﴾٪ [النساء: ۱۱۵اب اس نے جو راستہ اختیار کیا ہم نے بھی اس کو اسی کے حوالے کیا، اب یہ Point of no return پہنچ چکا ہے کہ اس کی واپسی کا کوئی امکان ہی نہیں. خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ٪﴿۷﴾ [البقرہ:۷یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کوئی سیدھے راستے پر نہیں لا سکتا. اس میں حضور کے لیے دلجوئی ہے کہ آپؐ پریشان نہ ہوں، غمگین نہ ہوں، آپؐ تشویش نہ رکھیں کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لا رہے . ان میں سے بہت سے وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہر لگ چکی ہے، لہذا اب وہ کسی صورت میں بھی پلٹنے والے نہیں.

حسرت بھرا انجام

اسی آیت میں آگے فرمایا:

وَ تَرَی الظّٰلِمِیۡنَ لَمَّا رَاَوُا الۡعَذَابَ یَقُوۡلُوۡنَ ہَلۡ اِلٰی مَرَدٍّ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿ۚ۴۴
’’اور تم ان ظالموں کو دیکھو گے جب یہ عذاب دیکھیں گے (جہنم جب ان کے سامنے آ جائے گی) تو یہ کہیں گے کہ کوئی راستہ لوٹ جانے کا؟‘‘

ہے کوئی شکل کہ ہم دُنیا میں پھر واپس پہنچ جائیں؟ کوئی اور چانس ملنے کی صورت ہے کہ نہیں! پھر ایسے لوگوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے:

وَ تَرٰىہُمۡ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا خٰشِعِیۡنَ مِنَ الذُّلِّ یَنۡظُرُوۡنَ مِنۡ طَرۡفٍ خَفِیٍّ ؕ 
’’اور تم دیکھو گے ان کو کہ جب وہ جہنم کے سامنے لائے جائیں گے تو ذلت کے مارے جھکے جا رہے ہوں گے اور اس کو نظر بچا کر کن انکھیوں سے دیکھیں گے.‘‘

ان پر ذلت مسلط ہو چکی ہے.ان کی نگاہیں زمین میں گڑی ہوں گی. ان کو اپنا انجام نظر آ رہا ہو گا کہ یہ ہے وہ جہنم جس میں ہم جھونکے جانے والے ہیں. جو ذلت و پشیمانی اور رسوائی ان پر تھی ہوئی ہو گی اس کی وجہ سے ان کی نگاہین جھکی ہوئی ہوں گی. مجرم ضمیر انسان آنکھ اٹھا کر اور آنکھ ملا کر کبھی نہیں دیکھتا، وہ کن اکھیوں سے دیکھتا ہے. لہذا یہ ظالم جہنم کو نگاہ کے گوشے سے دیکھ رہے ہوں گے. ان میں اتنی جرأت نہیں ہو گی کہ نگاہ بھر کر دیکھ سکیں کہ اب یہ جہنم ہی ہمیشہ کے لیے ہمارا ملجا وماویٰ ہے.

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ الۡخٰسِرِیۡنَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَہۡلِیۡہِمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ 
’’اور اہل ایمان کہیں گے (ان کے اس کہنے میں تأسف کا انداز ہو گا) کہ یہ لوگ ہیں اصل خسارے میں، جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو قیامت کے دن خسارے میں مبتلا کیا.‘‘

یعنی دُنیا میں تو ہمیں طعنے ملتے تھے کہ تمہاری مت ماری گئی ہے، تم دیوانے ہو، تم 
Fanatic ہو گئے ہو، تمہیں اپنے مستقبل کا کوئی خیال نہیں ہے، تمہیں اپنے نفع نقصان کی کوئی فکر نہیں ہے. یہ طعنے آج بھی ان لوگوں کو ملتے ہیں جو دین پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی یہ طعنے ملتے تھے: غَرَّہٰۤؤُ لَآءِ دِیۡنُہُمۡ ؕ منافقین مدینہ مخلصین مؤمنین کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ان کے دین نے ان کی مت مار دی ہے، ان کو دھوکے میں مبتلا کر دیا ہے، انہیں اپنے نفع نقصان کی فکر ہی نہیں، ان کا دماغ خراب ہوا ہے. یہ چلے ہیں قیصر روم کے ساتھ جنگ کرنے! ؏ بازی بازی با ریشِ بابا ہم بازی!!.... اب تک تو چلو عرب کے اندر ہی جنگ تھی. ایک کے مقابلے میں تین تھے. بدر میں یہی تناسب تھا. اُحد میں بھی ابتداء میں ایک اور تین کی نسبت تھی. بعد میں جب رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی اپنے آدمی لے کر واپس چلا گیا تو ایک اور چار کی نسبت رہ گئی. ابھی تو زیادہ سے زیادہ ایک اور دس کا تناسب رہا ہو گا، اس سے زیادہ تو نہیں. لیکن کہاں سلطنت ِ روماً وقت کی عظیم ترین مملکت! اسے حال ہی میں سلطنت ِ کسریٰ کے خلاف بہت بڑی فتح حاصل ہوئی ہے اور ان کا Morale بہت اونچا ہے. منافقین کہا کرتے تھے کہ ان کی تو عقلیں ماری گئی ہیں، انہیں کچھ نظر نہیں آ رہا ہے، یہ اپنے دینی جوش میں اندھے ہو گئے ہیں. غَرَّہٰۤؤُ لَآءِ دِیۡنُہُمۡ ؕ قیامت کے دن یہی مؤمنین کہیں گے کہ اصل میں اندھے ہم نہیں، یہ ہو گئے تھے. جیسے سورۂ ن ٓ میں فرمایا: 

فَسَتُبۡصِرُ وَ یُبۡصِرُوۡنَ ۙ﴿۵﴾بِاَىیِّکُمُ الۡمَفۡتُوۡنُ ﴿۶﴾ ’’(اے نبی!) عنقریب آپؐ بھی دیکھ لیں گے اور یہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون دیوانہ ہو گیا تھا.‘‘
اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ۪ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۷﴾ 
’’اور تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون ہیں وہ لوگ جو اس کے راستے سے بھٹک گئے اور کون ہیں وہ جو ہدایت یافتہ ہیں.‘‘

آیت کے آخر میں فرمایا: 
اَلَاۤ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ فِیۡ عَذَابٍ مُّقِیۡمٍ ﴿۴۵﴾ 
’’آ گاہ ہو جاؤ! یہ ظالم قائم و دائم اور باقی رہنے والے عذاب میں رہیں گے.‘‘

اللہ کی پکڑ سے چھڑانے والا کوئی نہیں ہو گا

وَ مَا کَانَ لَہُمۡ مِّنۡ اَوۡلِیَآءَ یَنۡصُرُوۡنَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ 
’’ اور ان کے کوئی حامی و مددگار نہ ہوں گے جو اللہ کے مقابلے میں ان کی مدد کرسکیں.‘‘

شفاعت باطلہ کے تمام خیالات و تصورات اس روز ہوا ہو جائیں گے. اس روزہ اللہ کی پکڑ سے کون چھڑانے والا ہے؟ کون بچانے والا ہے؟ کون اللہ کے فیصلے کے آڑے آنے والا ہے؟ آیت کے آخر میں فرمایا: 

وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ سَبِیۡلٍ ﴿ؕ۴۶﴾ 
’’جس کی گمراہی پر اللہ کی طرف سے مہر تصدیق ثبت ہو چکی ہو، اب اس کے لیے کوئی راستہ نہیں.‘‘