اللہ کی پکار پر لبیک کہنے کی ترغیب اور اعراض پر انداز

اِسۡتَجِیۡبُوۡا لِرَبِّکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ ؕ مَا لَکُمۡ مِّنۡ مَّلۡجَاٍ یَّوۡمَئِذٍ وَّ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نَّکِیۡرٍ ﴿۴۷﴾ 
’’مان لو اپنے رب کی بات قبل اس کے کہ وہ دن آئے اللہ کی طرف سے جس کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہے. اس دن تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہو گی اورن ہ کوئی تمہارے حال کو بدلنے کی کوشش کرنے والا ہو گا.‘‘

اِسۡتَجِیۡبُوۡا لِرَبِّکُمۡ اے سننے والو! اے قرآن کے پڑھنے والو! اے محمد( ) کے نام لیواؤ! لبیک کہو اپنے رب کی پکار پر! آیت ۳۸ کے الفاظ یہ تھے: وَ الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡ وہاں تو اہل ایمان کی تعریف کے طور پر آیا تھا، یہاں ایک عمومی پکار ہے، ان کوبھی پکارا جا رہا ہے جو محمد کے ساتھی ہیں. رضی اللہ 
تعالیٰ عنہم اجمعین. لیکن ان کے متعلق پہلے ہی بتایا گیا کہ وَ الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡانہوں نے اپنے رب کی پکار پر لبیک کہا. انہوں نے اپنی گردنیں کٹوا دیں. انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ؎ 

بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

لیکن اس آیت کا مخاطب میں اور آپ ہیں اِسۡتَجِیۡبُوۡا لِرَبِّکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ ؕ مَا لَکُمۡ مِّنۡ مَّلۡجَاٍ یَّوۡمَئِذٍ وَّ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نَّکِیۡرٍ ﴿۴۷﴾ لبیک کہو اپنے رب کی پکار پر، مانو اپنے رب کے مطالبے کو، کمر کس لو اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے جو بایں الفاظ بیان ہو چکی: 

اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ ... 

اس سے پہلے پہلے کہ اللہ کی طرف سے وہ آن دھمکے کہ پھر کوئی اس دن کو لوٹانے والا نہ ہو گا. اللہ کی طرف سے جب قیامت کی گھڑی آ جائے گی تو اس کو لوٹانے اور ٹالنے والا کوئی نہ ہو گا. یہاں جو’’مِنَ اللّٰہِ‘‘ آیا ہے تو اس کا تعلق یوم سے ہے. اللہ کی طرف سے جب وہ آدھمکے تو اس کو لوٹانے والا کوئی نہیں. قیامت کی گھڑی جب آئے گی وہ ٹالی نہ جائے گی. ایک چھوٹی قیامت بھی تو ہے جو ہرشخص کے سامنے ہے، یعنی موت اور وہ تو بالکل قریب ہے. 

؏ دنیا سے قیامت دُور سہی، دنیا کی قیامت دُور نہیں!
ایک تو بڑی قیامت آئے گی جس میں کائنات کا یہ سلسلہ تمام کا تمام درہم برہم ہو جائے گا اور ایک قیامت انفرادی ہے. حضور نے فرمایا: 
مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ ’’جو مر گیا اس کی قیامت تو قائم ہو گئی.‘‘ تو اپنے رب کی پکار پر لبیک کہو اس سے پہلے پہلے کہ یہ دُنیا کی قیامت آ جائے، جس کے متعلق سورۂ منافقون کے آخر میں فرمایا:

وَ اَنۡفِقُوۡا مِنۡ مَّا رَزَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ فَیَقُوۡلَ رَبِّ لَوۡ لَاۤ اَخَّرۡتَنِیۡۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَ اَکُنۡ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰﴾وَ لَنۡ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفۡسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُہَا ؕ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿٪۱۱﴾ 

’’اور جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور اس وقت وہ کہے کہ اے میرے رب! کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا… حالانکہ جب کسی کے لیے موت کا معین وقت آ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ہرگز مؤخر نہیں کرے گا.‘‘

یہاں فرمایا: 
مَا لَکُمۡ مِّنۡ مَّلۡجَاٍ یَّوۡمَئِذٍ وَّ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نَّکِیۡرٍ ﴿۴۷﴾ ’’اس دن تمہارے لیے نہ کوئی پناہ گاہ ہو گی اور نہ اس دن تمہاری طرف سے کوئی انکار کر سکے گا.‘‘ 

یا ’’نہ ہی تمہاری طرف سے کوئی پوچھ گچھ کرنے والا ہو گا.‘‘ نکیر کے یہ دونوں ترجمے کئے گئے ہیں. ایسا ہوتا ہے کہ اگر کبھی آپ کے کسی عزیا یا واقف کار کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہو تو آپ جا کر پوچھ گچھ کرتے ہیں کہ اس کو کیوں پکڑا ہے! اس کا کیا جرم ہے؟ اس نے کیا خطا کی ہے؟ لیکن وہاں روزِ قیامت کوئی نہیں ہو گا جو جا کر پوچھ گچھ کر سکے. اس دُنیا میں بعض ممالک کے بارے میں یہ بھی سننے کی جرأت نہیں کرتا کہ اس کو کیوں پکڑا ہے. اس لیے کہ جو پوچھنے جائے گا اسے بھی دھر لیا جائے گا. ایسا نظام بھی بالفعل دُنیا میں بعض مسلمان ممالک میں موجود ہے. تو یہاں ’’نکیر‘‘ یہ مفہوم بھی دے رہا ہے کہ کوئی پوچھ نہ سکے گا کہ اس کو پکڑا ہے تو کیوں پکڑا ہے. تو یہاں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اس سے پہلے پہلے کہ وہ دن آ جائے کہ جس کا نہ لوٹانا ممکن ہو، نہ اس روز کسی کو کوئی جائے پناہ میسر آئے، نہ کوئی انکار کر سکے، نہ ان کی طرف سے کوئی پوچھ گچھ کرنے والا ہو، اپنے رب کی پکار پر لبیک کہو. 
اِسۡتَجِیۡبُوۡا لِرَبِّکُمۡ . 

اگلی آیت میں خطاب کا رخ ہو گیا حضور کی طرف. بڑا پیارا انداز ہے.فرمایا: فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ؕ اے نبی ( !) اگر یہ سب کچھ سن لینے کے بعد یہ لوگ اعراض کریں، سب کچھ پی جائیں، ٹس سے مس نہ ہوں تو آپؐ ملول نہ ہوں، غمگین نہ ہوں. ہم نے آپؐ کو ان پر داروغہ بنا کر نہ بھیجا. یہ تو انسان کا اپنا فیصلہ ہے کہ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا آپؐ کا کام ہے ہدایت کی راہ کھول دینا اور دکھا دینا. آپؐ کا کام ہے ذمہ داریوں کو بیان اور واضح کر دینا. آپؐ کا فرض منصبی ہے حق کو مبرہن کر دینا، واشگاف کر دینا.آپؐ کے ذمہ ہے ابلاغ اور تبلیغ کا حق ادا کرنا.یعنی: اِنۡ عَلَیۡکَ اِلَّا الۡبَلٰغُ آپؐ نے یہ سب کچھ جب بیان کر دیا پھر بھی وہ اعراض کر رہے ہیں.آپؐ نے ہماری پکار لوگوں تک پہنچا دی.پکار تو اللہ کی ہے،اسے حضور اپنی زبانِ مبارک سے ادافرما رہے ہیں،جیسا کہ اذان بظاہر تو مؤذن کی زبان سے نکل رہی ہےلیکن ہے تو وہ اللہ کی پکار ؎

نکلی تولب ِ اقبال سے ہےکیا جانئے کس کی ہے یہ صدا
پیغام ِسکوں پہنچا بھی گئی ،دل محفل کا تڑپا بھی گئی !! 

آواز کسی اور کی ہے لیکن پکارکسی اور کی ہے.تو اے محمد یہ پکار ہماری ہے: اِسۡتَجِیۡبُوۡا لِرَبِّکُمۡ ادا آپؐ کی زبان سے ہو رہی ہے. فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ؕ اِنۡ عَلَیۡکَ اِلَّا الۡبَلٰغُ ؕ یہ لوگ پھر بھی نہ مانیں، پیٹھ دکھائیں تو آپؐ قطعاً ملول نہ ہوں. آپؐ نے اپنا فرض ادا کر دیا. سورۂ غاشیہ میں اسی بات کو اس اسلوب سے بیان کیا گیا: 
فَذَکِّرۡ ۟ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ ﴿ؕ۲۱﴾لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿ۙ۲۲﴾ ’’پس (اے نبی!) آپؐ یاد دہانی کراتے رہئے. آپؐ تو بس نصیحت ہی کرنے والے ہیں، ان پر داروغہ نہیں ہیں (کہ ان کو لازماً راہ راست پر لے آئیں گے)‘‘

اللہ کی پکار لبیک کہنے کے موانعات

اگلے الفاظ میں پھر ایک دوسرے دل نشین اسلوب سے ان موانعات کا ذکر ہے جو انسان کو اللہ کی پکار پر لبیک کہنے سے روکتے ہیں. شاید کسی کے پاؤں میں پڑی ہوئی یہ بیڑیاں کھل جائیں، کسی کو شعور حاصل ہو جائے، کوئی خواب ِ غفلت سے بیدار ہو جائے. فرمایا:

وَ اِنَّاۤ اِذَاۤ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً فَرِحَ بِہَا ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ فَاِنَّ الۡاِنۡسَانَ کَفُوۡرٌ ﴿۴۸﴾ 
’’انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اسے اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو اس پر پھول جاتا ہے اور اگر اس کا اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا کسی مصیبت کی شکل میں اس پر الٹ پڑتا ہے تو سخت ناشکرا بن جاتا ہے.‘‘

انسان بڑا تھڑدلا ہے، بہت کم ہمت ہے. جب ہم اسے اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں، مثلاً آسائش ہے، دولت ہے، آرام ہے، ثروت ہے، دنیا کی نعمتیں جمع ہو گئی ہیں تو اترانے لگتا ہے، اکڑنے لگتا ہے، پھولے نہیں سماتا. لیکن اگر کہیں کوئی تکلیف آ گئی، کوئی مصیبت آ گئی، او روہ آتی ہے ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے، تو انسان بالکل ناشکرا ہو جاتا ہے. ہمت بھی ٹوٹ گئی، حوصلہ بھی ہار بیٹھتا. اعتدال کی روش اختیار نہیں کرتا. جو انسان طالب دُنیا ہوتے ہیں وہ نارمل نہیں رہتے. دُنیا مل گئی تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے، پاؤں زمین پر ٹک نہیں رہے، گردن اکڑی ہوئی ہے، اور جب ذرا دُنیا چھن گئی، تنگی آ گئی تو بجھ کر رہ جاتے ہیں، کوئی ہمت نہیں، کوئی ولولہ نہیں. خود کشیاں ہو جاتی ہیں. تو یہ انتہائیں دُنیا میں عموماً نظر آتی ہیں.

پہلے فرمایا گیا تھا: 
فَمَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَمَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ 
’’جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دُنیا کی چند روزہ زندگی کابرتنے کا سامان ہے.‘‘

یہاں اس سروسامان میں سے ایک خاص بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ دیکھو انسان کو اولاد بہت پیاری ہے. دولت پیاری اور اولاد پیاری. لیکن کیا اولاد کے ضمن میں کسی کے ہاتھ میں اختیار ہے؟ اللہ ہی کے ہاتھ میں اس کا فیصلہ ہے. فرمایا: 
لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ ’’ آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے.‘‘ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ ’’وہ جو چاہتا ہے تخلیق فرماتا ہے.‘‘ آپ کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں. رحم مادر میں کیا چیز پروان چڑھ رہی ہے، آپ کو کچھ پتہ نہیں. یہاں بالکل اللہ ہی کا اختیار کار فرما ہوتاہے: یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ ﴿ۙ۴۹﴾ 

’’وہ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں ہی بیٹیاں دیتے چلا جاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹوں سے نوازتا ہے.‘‘ وہ مطلقاً بااختیار ہے. اس سے پوچھنے والا کوئی نہیں. اگلی آیت میں فرمایا: اَوۡ یُزَوِّجُہُمۡ ذُکۡرَانًا وَّ اِنَاثًا ۚ ’’یا کسی کے لیے جوڑے جوڑے کر دیتاہے، بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی.‘‘ وَ یَجۡعَلُ مَنۡ یَّشَآءُ عَقِیۡمًا ؕ ’’اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا کر رکھ دیتا ہے.‘‘ کوئی اولاد نہیں، تڑپ رہے ہیں. معلوم ہوا کہ مال اور اولاد یہ ہیں دُنیا کے سب سے بڑے فتنے: اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ؕ ’’یہ مال اور اولاد ہی تو تمہارے لیے سب سے بڑی آزمائش ہے.‘‘ کوئی ہے جو یہ کہہ سکے کہ اولاد میرے اختیار میں ہے، میری محنت سے اولاد ہو سکتی ہے؟ اللہ چاہے تو بانجھ بنا دے. لاکھ جتن کر لے کہ اولاد ہو جائے لیکن نہیں ہو سکتی اگر اللہ نہ چاہے. اللہ چاہے تو بیٹیاں یا بیٹے دیتا چلا جائے.

اللہ چاہے تو بیٹے بھی دے اور بیٹیاں بھی، اور ایک متوازن خاندان وجود میں آجائے. اسی بات میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ مال و دولت دُنیوی بھی بالکلیہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے. اس میں تمہیں دھوکہ لاحق ہے. تم سمجھتے ہو کہ جتنی محنت زیادہ کرو گے اتنا ہی زیادہ کما لو گے، جتنی بے ایمانی کرو گے اتنا ہی شاید تمہیں زیادہ مل جائے گا. یہ مغالطے اور دھوکے ہیں جو تم کو لگ گئے ہیں. یہ بھی اللہ کی طرف سے معین ہے. کوئی شخص اپنی مقررہ روزی میں اضافہ نہیں کر سکتا. لہذا جب دُنیا کے تمام معاملات کا یہی مسئلہ ہے تو انسان کو یک سو ہو کر ان چیزوں کو اللہ کے حوالے کر کے اور ناہیں صرف متاعِ دُنیا سمجھ کر اپنی توانائیوں، اپنی قوتوں، اپنی صلاحیتوں کا اکثر وبیشتر حصہ اقامت ِ دین کی جدوجہد کے لیے کھپا دینا چاہئے. آیت کا اختتام ہوتا ہے اس پُر جلال اسلوب ہے: اِنَّہٗ عَلِیۡمٌ قَدِیۡرٌ ﴿۵۰﴾ ’’یقینا وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے.‘‘ سب کچھ جاننے والا، تمام قدرت رکھنے والا تو صرف وہی ذاتِ اقدس و سبحانہ ہے. اسی پر تمہارا توکل، اعتماد اور تکیہ ہونا چاہئے.

پیغام عمل

قرآنی آیات اور اسوۂ حسنہ کی روشنی میں توحید عملی اور توحید عملی کا اقامت ِ دین سے ربط و تعلق واضح طور پر ہمارے سامنے آ گیا. اب ہر شخص کا اپنا معاملہ ہے. قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور فرائض اس کے عائد کردہ. پہنچانے کے اوّلین ذمہ داری رسول اللہ کی تھی، اب اللہ تعالیٰ جسے توفیق دے دے وہ اس پیغام کو پہنچاتا چلا جائے. حضور نے ہم کو حکم دیا بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰیَۃً ’’پہنچاؤ میری جانب سے چاہے ایک ہی آیت.‘‘ اب عمل کرنا یا نہ کرنا اس کی ذمہ داری آپ پر ہے، کمرہمت کسنانہ کسنا اس کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے. پھر یہ کہ عمل کا ارادہ ہو تو اقامت دین کی جدوجہد اور اپنی دیگر دینی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے کس قافلے کے ساتھ جڑیں؟کوئی قافلہ موجود ہے یا نہیں؟ کوئی نیابنائیں تو کس طرح بنائیں؟ یہ عملی مسائل ہیں. یہ ہر شخص کے اپنے سوچنے کی بات ہے. میں نے قرآن مجید اور سیرت ِ مطہرہ کے معروضی مطالعہ سے اپنی امکانی حد تک اور اپنی استعداد کے مطابق جو کچھ سجھا ہے، میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بھی عطا فرمائی اور ہمت بھی. اس کام کو اجتماعی طور پر انجام دینے کے لیے میں نے ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے ایک جماعت قائم کی ہوئی ہے. باقی یہ کہ ہر شخص کو اپنی قبر میں جانا ہے اور اللہ کی عدالت میں اپنے معاملہ کا خود ہی مواجہہ (Face) کرنا ہے. وَ کُلُّہُمۡ اٰتِیۡہِ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فَرۡدًا ﴿۹۵﴾ [مریم: ۹۵ہر شخص کو فرد کی حیثیت سے اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہو گا اور جواب دہی کرنی ہو گی. میں آپ کی طرف سے جواب دہی نہیں کروں گااور نہ آپ میری طرف سے جواب دہی کریں گے. میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں، ا س پر چل رہا ہوں. جو چیزیں ہماری مشترک ہیں انہیں پیش کر رہا ہوں. یہ قرآن میرا نہیں ہے، یہ ہم سب کا مشترکہ سرمایہ ہے. یہ ہدایت صرف میرے لیے نہیں ہے، ہم سب کے لیے ہے. قرآن کاپیغام، توحید کے تقاضے میں نے آپ کے سامنے رکھ دیئے ہیں. اب سوچنا، عمل کی راہ تلاش کرنا اور اپنے دینی فرائض کی ادائیگی کی فکر کرنا ہر شخص کی اپنی ذمہ داری ہے. 

بارک اللہ لی ولکم فی القرآن العظیم
ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم 

٭-٭-٭