نبوت و رسالت اور اس کا مقصد

نحمدہٗ ونصلّی علٰی رسولہِ الکریم … اما بعد!
اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم . بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۶۵﴾ (النساء)

ناظرین کرام! آپ کو معلوم ہے کہ پندرہویں صدی ہجری کا پہلا ربیع الاوّل شروع ہو چکا ہے. یہ نبی اکرم کی ولادتِ باسعادت کا مہینہ ہے. اسی مناسبت سے آپ کے ذکر جمیل پر مشتمل گفتگوؤں کا یہ سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے. اس ضمن میں اس سے پہلے کہ ہم نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ اور آپؐ کی سیرتِ مطہرہ کے مختلف گوشوں کے بارے میں کسی قدر تفصیل سے گفتگو کریں‘ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کی روشنی میں یہ سمجھیں کہ نبی اکرم کا مقصد بعثت کیا تھا! ہمارا ایمان ہے کہ سید ِولد ِآدم حضرت محمد صرف ایک نبی ہی نہیں بلکہ ’’خاتم النبیین‘‘ ہیں اور صرف ایک رسول ہی نہیں بلکہ ’’آخر المرسلین‘‘ ہیں‘ لہذا آپؐ کا مقصد بعثت یقینا وہ بھی ہے جو تمام انبیاء و رسل کا بنیادی اور اساسی مقصد بعثت ہے. لیکن چونکہ آپ پر نبوت و رسالت کا سلسلہ صرف ختم ہی نہیں ہوا بلکہ مکمل ہوا ہے ‘لہذا آپؐ کے مقصد ِبعثت میں ایک تکمیلی اور اتمامی رنگ ہونا ضروری ہے‘ جو آپؐ کے لیے مابہ الامتیاز ہو اور تمام انبیاء اور رسولوں کی مقدس جماعت میں آپؐ کا منفرد مقام و امتیازی مرتبہ واضح ہو جائے.

اسلام کا پورا قصر ایمان کی بنیاد پر قائم ہے. اور ایمان چند ایسے ماورائی حقائق کو ماننے کا نام ہے جن تک رسائی حواسِ ظاہری کے ذریعے ممکن نہیں‘ بلکہ ان تک رسائی کسی درجے میں صرف عقل اور وجدان کی قوتوں کو بروئے کار لا کر ہو سکتی ہے. اگر ان امور کو تین بڑے بڑے حصوں میں جمع کیا جائے تو وہ ایمانیاتِ ثلاثہ کی شکل اختیار کرتے ہیں. یعنی ایمان باللہ یا توحید‘ ایمان بالآخرت یا ایمان بالمعاد اور ایمان بالرسالت اور نبوت. اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ان تینوں کے مابین بڑا گہرا منطقی ربط پایا جاتا ہے. تفصیلات کو چھوڑ کر اور فلسفیانہ اور متکلمانہ موشگافیوں سے قطع نظر اگر سادہ الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ ایمان کیا ہے! تو سب سے پہلے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ پوری کائنات ‘یہ پورا سلسلہ کون و مکاں جو تاحد ِنگاہ ہماری نگاہوں کے سامنے پھیلا ہوا ہے‘ جس کی وسعتوں کا تاحال انسان کو کوئی اندازہ نہیں ‘ یہ نہ ہمیشہ سے ہے نہ ہمیشہ رہے گا. اصطلاحاً ہم یوں کہیں گے کہ یہ حادث ہے اور فانی ہے. البتہ ایک ہستی ہے‘ ایک ذات ہے‘ جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی. یہ ہستی بالکل تنہا ہے ‘اکیلی ہے‘ لا شریک اور یکتا ہے. اس کی ذات ‘اس کی صفات‘ اس کے حقوق و اختیارات سب حد درجہ لاثانی (unique) ہیں‘ جن میں کوئی کسی اعتبار سے نہ ساجھی ہے نہ شریک ہے. اس ہستی میں تمام محاسن و کمالات بتمام و کمال موجود ہیں. یہ ہستی ہے جسے ہم اللہ کے نام سے جانتے ہیں. یہ ہے اجمالاً ایمان باللہ یا توحید. 

اس ہستی نے اس کائنات کو پیدا فرمایا. اس کی یہ تخلیق بے مقصد نہیں ہے ‘ بے کار و عبث نہیں ہے ‘بلکہ بالحق (purposeful) ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: 

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۰﴾ۚۙالَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ (آل عمران:۱۹۰-۱۹۱
’’یقینا آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو اٹھتے‘ بیٹھتے اور لیٹتے‘ ہرحال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمینوں کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں. ( وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے…‘‘

یہ تخلیق بالحق ہے اور 
اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی ‘ یعنی ایک وقت معین تک کے لیے ہے. اسی خالق کائنات نے انسان کو تخلیق فرمایا اور انسان اس سلسلہ تخلیق کا نقطہ عروج ہے. یہی انسان اشرف المخلوقات اور مسجودِ ملائک بنا.
اس انسان کی ایک زندگی تو وہ ہے جو وہ اس دنیا میں بسر کرتا ہے‘ اس دنیا میں پیدائش سے لے کر موت تک کا وقفہ‘ لیکن یہی اُس کی کل زندگی نہیں ہے ‘بلکہ انسانی زندگی ایک نہایت طویل عمل ہے. بقول علامہ اقبال مرحوم ؎

تو اسے پیمانہ ٔامروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں‘ پیہم دواں‘ ہر دم جواں ہے زندگی! 

یہ دنیاکی زندگی تو درحقیقت اس کی کتابِ زندگی کے صرف دیباچے کی حیثیت رکھتی ہے. اُس کی اصل کتابِ زندگی موت کے بعد کھلے گی. اس کی اُخروی زندگی ہی اصل زندگی ہے جو ابدی ہے ‘جو ہمیشہ کی زندگی ہے ‘جس میں دوام ہے .جیسے کہ قرآن مجید ارشادفرماتا ہے: 

وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾ (العنکبوت:۶۴)
’’اوراصل زندگی کا گھر تو دارِ آخرت ہے. کاش یہ لوگ جانتے.‘‘

انسانی زندگی کے اس طویل سفر میں موت صرف ایک وقفہ ہے. بقولِ شاعر ؎
موت اِک زندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر!

اس طرح زندگی دوحصوں میں منقسم ہو گئی. چنانچہ اس سے جو دُنیوی زندگی کا حصہ جداگانہ متشکل ہوا اس کا مقصد ہے ابتلاء اور امتحان. بفحوائے الفاظِ قرآنی: الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ (الملک:۲

’’اس نے موت اور حیات کا یہ سلسلہ اس لیے بنایا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون ہے اچھے عمل کرنے والا.‘‘

اس حقیقت کو بھی علامہ اقبال نے نہایت سادہ الفاظ میں ادا فرمایا: ؎
قلزمِ ہستی سے ُتو اُبھرا ہے مانند ِحباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی! 

اس زندگی کے بعد ایک موت آنے والی ہے. اُس موت کے بعد حشرو نشر ہے. جزا و سزا کے فیصلوں کا ایک دن ہے ‘جسے قرآن مجید ’’یوم الدین‘‘ سے تعبیر فرماتا ہے. اُس دن طے ہو گا کہ انسان اپنی حیاتِ دنیوی میں اپنی سعی و ُجہد کے اعتبار سے ناکام رہا یا کامیاب قرار پایا اور اس کے بعد وہ اپنی ابدی زندگی جنت میں بسر کرے گایا جہنم کے شعلوں میں گزارے گا‘ جیسا کہ ایک خطبہ نبوی ؐ میں الفاظ وارد ہوئے : 

وَاِنَّھَا لَجَنَّۃٌ اَبَدًا اَوْ لَنَارٌ اَبَدًا 
’’اور وہ (ابدی زندگی) جنت ہے ہمیشہ کے لیے یا آگ ہے دائمی.‘‘

پھر اُس ابدی زندگی میں یا 
فَرَوۡحٌ وَّ رَیۡحَانٌ ۬ۙ وَّ جَنَّتُ نَعِیۡمٍ کے مزے ہیں یا اللہ تعالیٰ کا شدید عذاب اور اس کی سخت سزا ہے. ان تمام امور کو ماننے کا نام ایمان بالآخرۃ ہے. اگر غور کیا جائے تو ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ یا ایمان بالمعاد ‘ان دونوں کے ربط سے اسلام کے تصورِ زندگی کا ایک خاکہ مکمل ہو تا ہے. یہ گویا کہ مبدأ و معاد کا آئین ہے. اس کے بغیر انسان کا حال بے لنگر کے جہاز جیسا ہے جس کی کوئی سمت ِسفر متعین نہ ہو اور وہ موجوں کے رحم و کرم پر ہو . گویا ؎ 

سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم! 

لیکن اللہ اور آخرت کا یہ علم انسان کی زندگی کی ابتدا اور انتہا کا تعین کرتا ہے. انہی دونوں (ابتدا اور انتہا)کو قرآن مجید کے ان حد درجہ جامع الفاظ میں سمو دیا گیا ہے:
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (البقرۃ) 

’’ہم اللہ ہی کے ہیں (اُسی کے پاس سے آئے ہیں )اور اُسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے.‘‘

اب یہاں ایک سوال فطری طور پر سامنے آتا ہے کہ امتحان لیا جاتا ہے کچھ سکھا کر‘ جانچا اور پرکھا جاتا ہے کچھ دے کر. تویہ جو امتحان ہے جس سے انسان اس حیاتِ دنیوی میں دوچار ہے‘ آخر اس کی بنیاد اور اس کی اساس کیا ہے؟ اس کی جانچ اور پرکھ کس اصول پر ہو گی؟ اس سوال کا ایک جواب جو بنیادی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اس ابتلاء و آزمائش کے لیے بھیجا ہے تو غیر مسلح نہیں بھیجا‘ بہت سی صلاحیتوں اور استعداد ات سے مسلح کر کے بھیجا ہے . بڑی پیاری آیت ہے سورۃ الدھر کی: 

اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿۲

’’ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا تاکہ اسے آزمائیں (اسے جانچیں‘ اسے پرکھیں)‘چنانچہ اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا ہے.‘‘
اسے سماعت اور بصارت کی استعداد ات دے کر دنیا میں بھیجا. مزید برآں اُس میں تعقل و تفکر کی صلاحیتیں رکھیں. اس میں نیکی اور بدی کی تمیز ودیعت کی. جیسے کہ فرمایا گیا:

وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ (الشمس)
’’اور قسم ہے نفس انسانی کی ‘اور جو اسے بنایا اور سنوارا (اور اس کی نوک پلک درست کی)‘ اور اس میں نیکی اور بدی (خیر اور شر) کا علم الہامی طو رپر ودیعت کر دیا.‘‘

اس سے بھی آگے بڑھ کر مزید غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قلب ِانسانی میں اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی ایک دھیمی سی آنچ رکھ دی ہے. ان تمام چیزوں سے مسلح ہو کر انسان اس دنیا میں آیا ہے. لہذا اُس کی اُخروی باز پرس اور آخرت میں اس کے حساب کتاب کی بنیادی اساس تو یہی ہے .چنانچہ ہر انسان اللہ کے سامنے مسئول ‘ ذمہ دار 
(responsible) اور جواب دہ (accountable) ہے‘ خواہ کوئی نبی آئے ہوتے یا نہ آئے ہوتے‘ خواہ کوئی کتاب نازل ہوئی ہوتی یا نازل نہ ہوئی ہوتی. ان فطری استعدادات کی بنیاد پر جو انسان کے اندر ودیعت شدہ ہیں‘ ہر انسان مکلف ہے‘ مسئول ہے‘ ذمہ دار ہے‘ جواب دہ ہے. لیکن اس پر رحمت خداوندی کا ایک تقاضا اور ہوا. انسان کے اس امتحان میں مزید آسانی پیدا کرنے کے لیے اللہ نے انزالِ وحی ‘ انزالِ کتب‘ بعثت انبیاء اور ارسالِ رُسل کا سلسلہ جاری فرمایا جو انسان کی اپنی بنیادی استعدادات کے لیے وہ سامان لے کر آئے جن سے ان کو جلا ہو‘ ذہول و غفلت کے پردے اٹھ جائیں‘ اگر آئینہ ٔقلب پر کوئی زنگ آ گیا ہے تو دور ہو جائے. یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کی مزید رحمت ہے‘ مزید فضل ہے. چنانچہ نبوت اس پہلو سے رحمت ہے. اور یہی وہ نکتہ ہے جو سمجھ لینا چاہیے کہ نبی اکرم کی ذاتِ مبارکہ میں یہ رحمت بے پناہ وسعت پذیر ہو گئی ہے اور اس نے تمام جہانوں کا احاطہ کر لیا ہے. نبوت اصلاً رحمت ہے‘لیکن محمد ٌرسول اللہ رحمۃٌ للعالمین بنا کر بھیجے گئے . آپؐ کی رحمت تمام جہانوں پرمحیط ہو گئی. 

لیکن اسی کاایک دوسرا پہلوبھی سامنے رہے ‘وہ یہ کہ نبیوں کی آمد‘ رسولوں کی بعثت اور کتابوں کے نزول کے بعد اب محاسبہ ٔ اُخروی کے لیے انسان پر اتمامِ حجت ہو گیا. انسان کے پاس اب کوئی عذر نہ رہا‘ وہ کوئی بہانہ پیش نہ کر سکے گا کہ پروردگار! ہمیں معلوم نہ تھاکہ تو کیا چاہتا ہے‘ ہم نہیں جانتے تھے کہ تیری رضا کس میں ہے‘ ہمیں علم نہیں تھا کہ تو کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے! یہ عذر اگر کسی درجے میں 
قابل پذیرائی ہو سکتا تھا تو نبوت و رسالت کے بعد اب اس کا امکان قطعاًختم ہو گیا. اس کو آپ قطع عذر سے تعبیر کریں یا اتمامِ حجت کا نام دیں. بعثت انبیاء اور ارسالِ رُسل سے ایمان بالآخرت کے ضمن میں انسان کی ذمہ داری اور اُس کی مسئولیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی . یہی ہے وہ بات جو اس آیۂ مبارکہ میں ارشاد ہوئی ہے جسے آغازِ کلام میں تلاوت کیا گیاتھا:

رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۶۵﴾ (النساء)

یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بھیجا بشارت دینے والے بنا کر اور خبردار کرنے والے بنا کر. اہل حق کے لیے ‘ طالبین ہدایت کے لیے‘صحیح راہ پر چلنے والوں کے لیے وہ مبشر ّ ہیں‘ بشارت دینے والے ہیں کہ ان کے لیے جنت نعیم میں نہایت روشن مستقبل منتظر ہے. اور اہل زیغ کے لیے‘ کجروی اختیار کرنے والوں کے لیے‘ گمراہی کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے وہ خبردار (warn) کر دینے والے ہیں‘تاکہ لوگوں کے پاس اللہ کے مقابل‘ اللہ کے ہاں کوئی حجت باقی نہ رہ جائے‘ رسولوں کے بعد وہ کوئی عذر پیش نہ کر سکیں‘محاسبہ اُخروی کے وقت کوئی بہانے نہ بنا سکیں. وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۶۵﴾. اللہ زبردست ہے .وہ جس طرح چاہے حساب لے ‘اس کا اختیار مطلق ہے ‘کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں .لیکن وہ حکیم بھی ہے ‘اس نے اپنی اس باز پرس ُکے لیے ایک نہایت حکمت بھرا نظام تجویز فرمایا ہے. اور یہی ہے وہ نظام جس کی اہم ترین کڑی ہے سلسلۂ نبوت ورسالت.

فَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ 
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن