اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم . بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾ (الفتح) 

یہ آیۂ مبارکہ سورۃ الفتح میں وارد ہوئی ہے . اس کا جزو اعظم دو اور سورتوں یعنی سورۃ التوبۃ اور سورۃ الصف میں بھی بعینہٖ انہی الفاظ میں آیا ہے:

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ

قرآن حکیم میں تین مقامات پر ایک مضمون کا دہرایا جانا یقینا ان الفاظ کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے. چنانچہ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ نے اس آیۂ مبارکہ کو پورے قرآن مجید کا عمود قرار دیا ہے ‘یعنی یہ وہ مرکزی خیال ہے جس کے گرد قرآن حکیم کے تمام مضامین گھومتے ہیں. اور واقعہ یہ ہے کہ ذرا غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آجائے گی کہ سیرتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے ضمن میں تو یقینا یہ الفاظِ مبارکہ ’’کلید‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں ‘کیونکہ انہی کے فہم پر دارو مدار ہے اس کا کہ ہم اس بات کو سمجھ سکیں کہ انبیاء و رسل علیہم السلام کی مقدس جماعت میں محمد ٌرسول اللہ کا امتیازی مقام کیا ہے! اس لیے کہ یہ الفاظ آنحضور کے لیے تو قرآن کریم میں تین بار آئے ہیں‘ لیکن کسی دوسرے نبی یا رسول کے لیے نہ صرف یہ الفاظ بلکہ اس کے قریب المفہوم الفاظ بھی پورے قرآن حکیم میں کہیں وارد نہیں ہوئے. ذرا ان الفاظ پر توجہ کو مرتکز کیجیے‘ان کا ترجمہ یہ ہے: ’’وہی ہے اللہ جس نے بھیجا اپنے رسول ( ) کوالہدیٰ کے ساتھ اوردین حق دے کر‘ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے کے پورے دین پر‘ اور کافی ہے اللہ بطور گواہ.‘‘

ان الفاظِ مبارکہ میں نبی اکرم کی بعثت کی امتیازی شان سامنے آتی ہے. اس آیت کے ایک ایک لفظ پر غور کیجیے! اس آیت میں آنحضور کے لیے لفظ 
’’رَسُوۡلَہٗ‘‘ وارد ہوا ہے . اس سے اشارہ ہوتا ہے اس بات کی طرف کہ بقیہ انبیاء و رسل علیہم السلام کی نسبتیں اور اُن کی امتیازی حیثیتیں کچھ دوسری ہیں.مثلاً حضرت آدم علیہ السلام صفی اللہ ہیں‘ حضرت نوح علیہ السلام نجی اللہ ہیں‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں‘ حضرت اسماعیل علیہ السلام ذبیح اللہ ہیں‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ ہیں‘ لیکن حضرت محمد رسول اللہ ہیں. گویا منصب ِرسالت جس مقدس ہستی پر اپنے نقطہ عروج اور نقطہ کمال کو پہنچا ہے وہ ہے ذاتِ محمدیؐ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام. چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ سے پہلے تمام انبیاء و رسل علیہم السلا م کی بعثت صرف اپنی اپنی قوموں کی طرف ہوئی. سب کی دعوت قرآن مجید میں نقل ہوئی ہے ‘لیکن اُن کا خطاب ہمیشہ ایک ہی رہا:

یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ (ھود:۸۴
’’اے میری قوم کے لوگو! بندگی اور پرستش اختیار کرو اللہ کی جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے.‘‘

پس معلوم ہوا کہ نبی اکرم سے قبل تمام انبیاء و رسل ؑکی بعثت ان کی اپنی اپنی قوموں کی طرف ہوئی تھی. اس مقدس جماعت میں محمد رسول اللہ وہ پہلے اور آخری نبی اور رسول ہیں جن کا خطاب پوری نوع انسانی سے ہے ‘بحیثیت نوعِ انسانی. چنانچہ قرآن مجید میں آنحضور کی دعوت کے ضمن میں بار بار الفاظ آئیں گے :

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ’’اے لوگو!‘‘ قرآن مجید میں جب آپ کی دعوت کا آغاز ہوتا ہے تو آفاقی انداز سے ہوتا ہے. سورۃ البقرۃکے تیسرے رکوع کی پہلی آیت ہے: 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ …
’’اے بنی نوع انسان! اپنے ربّ کی بندگی اور پرستش کرو جس نے تم کو پیدا کیا ہے…‘‘

خود حضور اپنی زبانِ مبارک سے ارشاد فرماتے ہیں : 

اِنِّیْ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ خَاصَّۃً وَاِلَی النَّاسِ کَافَّۃً 
’’(اے قریش!) میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف بالخصوص اور پوری نوعِ انسانی کی طرف بالعموم.‘‘

یہ الفاظ آپ کے ایک خطبے میں وارد ہوئے ہیں جس کو نہج البلاغۃ کے مؤلف نے نقل کیا ہے.قرآن مجید میں بھی یہ مضمون آیا ہے. چنانچہ فرمایا گیا:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا… (سبا:۲۸)

’’(اے محمد ) ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر پوری نوعِ انسانی کے لیے بشیر و نذیر بنا کر…‘‘
اور یہی مفہوم ہے اس آیت مبارکہ کا: 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ (الانبیاء)
’’اور (اے محمد !) نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کے لیے رحمت بنا کر.‘‘

پس جان لیجیے کہ یہ خصوصیت صرف محمد ٌرسول اللہ کی ہے کہ آپ ؐ کی بعثت پوری نوعِ انسانی کی جانب ہے. اور یہ اصل میں اس لیے ہے کہ آپ  سے پہلے واقعتا دنیا میں ذرائع رسل و رسائل 
(means of communication) ایسے نہ تھے کہ کسی ایک نبی یا رسول کی دعوت پر پوری نوعِ انسانی کو جمع کیا جا سکتا. اس میدان میں مادی وسائل و ذرائع کے سلسلے میں جو ارتقاء ہوا ہے اس کا یہ نتیجہ ہے کہ اب اُس رسالت کاملہ کا ظہور ہو‘جس کی دعوت پوری نوعِ انسانی کے لیے بیک وقت ہو اور جو مبعوث ہو اِلَی الْاَسْوَدِ وَالْاَحْمَرِ‘ تمام انسانوں کی جانب ‘خواہ وہ افریقہ کے سیاہ فام لوگ ہوں ‘خواہ یورپ کے سرخ رو لوگ ہوں ‘یامشرق کے زرد رو لوگ ہوں. آیت زیر مطالعہ میں ارشاد ہوتا ہے: 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی… 
’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول کو الہدیٰ کے ساتھ…‘‘ 

’’اَلۡہُدٰی‘‘ سے یہاں مراد قرآن حکیم ہے .یہ پہلی چیز ہے جو حضور لے کر مبعوث ہوئے جو ہدایت ِکاملہ و تامہ ہے‘جو ہُدًی لِّلنَّاسِ ہے‘ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ہے‘ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ہے. 

اس ضمن میں بھی ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ تورات بھی اللہ کی کتاب تھی‘ انجیل بھی اللہ کی کتاب تھی ‘ حضرت داؤدؑ کو زبور بھی اللہ ہی نے عطا فرمائی تھی‘ بلکہ قرآن سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی صحیفے عطا فرمائے گئے تھے‘ دیگر انبیاء و رسل کو بھی صحیفے دیے گئے ہوں گے‘ لیکن ان میں سے کسی کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے نہیں لیا تھا. ان میں سے بعض کتابیں تودنیا سے ناپید ہو گئیں. صحف ِابراہیم ؑ کا کہیں کوئی وجود نہیں ‘اور بعض کتابیں جو موجود ہیں ان کے بارے میں اُن کے ماننے والے بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ اپنی اصل صورت میں موجود ہیں‘ نہ ہی وہ اس زبان میں ہیں جن میں وہ اصلاً نازل ہوئی تھیں. ان کتابوں کو ماننے والے خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی کتابیں محرف ہیں لیکن قرآن مجید کی حفاظت کا اللہ نے خود ذمہ لیا.چنانچہ قرآن مجید میں اس کو بصراحت بیان کردیا گیا:

اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ (الحجر)
’’ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.‘‘

تمام ائمہ اُمت اور تمام جمہور مسلمین کا اس پر اجماع ہے کہ اس آیت مبارکہ میں ’’ذکر‘‘ سے مراد ’قرآن حکیم‘ ہے. خود قرآن ہی میں اس کا ایک نام ’’ذکریٰ‘‘ بھی بیان ہوا ہے.اس کی وجہ بھی سمجھ لیجیے. سابقہ کتابیں درحقیقت اسی کتاب ہدایت کے ابتدائی ایڈیشن تھے جس کتاب ہدایت کا آخری اور مکمل ایڈیشن قرآن حکیم ہے. جس طرح انسان کے مادی ذرائع و وسائل نے ارتقائی مراحل طے کیے اسی طرح انسان کے ذہن اور شعور کا معاملہ بھی ارتقاء پذیر رہا.انسان جب اپنے عقلی بلوغ کو پہنچا‘ اپنی عقلی‘ ذہنی اور فکری صلاحیتوں کے اعتبار سے پختہ 
(mature) ہوا تو یہ وہ وقت تھا کہ اب اسے ہدایت کاملہ و تامہ یعنی ابدی ہدایت مکمل طور پر دے دی جائے. لہذا اس کی حفاظت کی بھی ضرورت تھی. اس لیے کہ اس سے پہلے کی کتابیں ابدی نہ تھیں‘ وہ ہمیشہ کے لیے نازل ہی نہیں ہوئی تھیں‘ ا س لیے ان کی حفاظت مشیت ِالٰہی میں تھی ہی نہیں. اگر ہوتی تو نہ یہ گم ہوتیں اور نہ ہی ان میں تحریف ہو سکتی. ہمیشہ کے لیے ہدایت ‘آخری ہدایت ِکاملہ و تامہ وہ ہے جو محمد ٌرسول اللہ لے کر آئے .اس ہدایت نامے کو تاقیامِ قیامت نافذ العمل رہنا تھا ‘لہذا اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا. 

دوسری چیز جو حضور لے کر آئے یا دے کر بھیجے گئے وہ دین حق ہے‘ وہ ایک نظامِ اجتماعی ہے. ایک ایسا نظام عدلِ اجتماعی ‘ جس میں سب کے حقوق و فرائض کا ایک نہایت معتدل اور متوازن نظام موجود ہے‘ جس میں کوئی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرسکتا. یہ وہ میزان ہے جس میں سب کے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا گیا ہے . اس میزان سے تول کر ملے گا جس کو جو کچھ ملے گا. قسط‘ عدل اور انصاف سے 
ہر فرد کو ‘ ہر شخص کو اس کی ناگزیر ضروریاتِ زندگی ملیں گی.

غور کیجیے کہ ایک نظامِ اجتماعی اس دور کے انسان کی اصل ضرورت ہے. ایک نظامِ عدل کی پوری نوع انسانی احتیاج رکھتی ہے. جہاں تک انفرادی اخلاقیات کا تعلق ہے سابقہ انبیاء و رسل علیہم السلام بھی اس لحاظ سے بہت بلندیوں تک پہنچ چکے تھے. ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ ذاتی اور نجی اخلاق کے اعتبار سے حضرت مسیح علیہ السلام بھی بہت بلند مقام پر پہنچ چکے تھے‘ لیکن جس دور کے فاتح ہیں حضرت محمد  اس دور میں انسانی اجتماعیت بھی ارتقائی مراحل طے کر کے اس مقام تک آچکی ہے کہ اجتماعیت کا پلہ انفرادیت پر کافی بھاری ہو چکا ہے. انفرادیت اجتماعیت کے شکنجے میں کسی جا چکی ہے اور اب اجتماعیت کی گرفت انتہائی مضبوط ہے.

اب ایک ایسے نظام اجتماعی کی ضرورت ہے جس میں انفرادی سیرت و اخلاق کے ساتھ ساتھ ایک صالح معاشرہ بھی موجود ہو‘ یعنی پوری اجتماعیت بھی صالح ہو. یہ ذہن میں رکھیے کہ ابتداء ً قبائلی نظام کے تحت قبیلہ ہی ایک مکمل اجتماعی یونٹ بن گیا تھا. سیاسی اعتبار سے بھی ‘سماجی اعتبار سے بھی‘ اور معاشی اعتبار سے بھی. پھر ذرا انسان نے ترقی کی‘ تمدن نے ارتقاء کا مرحلہ طے کیا تو شہری ریاستیں قائم ہوئیں. اس کے بعد انسان نے اور قدم آگے بڑھایا تو بڑی بڑی بادشاہتیں (Empires)‘ بڑی بڑی مملکتیں قائم ہوئیں اور بڑی بڑی سلطنتوں کا دور آیا یہ وہ دور ہے جب محمد ٌرسول اللہ کی بعثت ہو رہی ہے .چنانچہ آپ وہ نظام لے کر آئے جو انسانوں کے مابین عدل اور قسط کی ضمانت دے‘ جس میں کوئی طبقہ دوسرے کے حقوق پر دست درازی نہ کر رہا ہو ‘جس میں نہ فرد جماعت کے بوجھ تلے سسک رہا ہو‘ نہ جماعت اور اُس کے تقاضے انفرادیت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے ہوں. ایسا نظام عدل و قسط صرف دین حق ہے‘ جو خالق کائنات کی جانب سے بواسطہ اپنے آخری رسولؐ نوعِ انسانی کو دیا گیا. اسی کو قرآن ’’دین الحق‘‘ کہتا ہے. 

اب ظاہر بات ہے کہ ایک بہتر نظام‘ نہایت عادلانہ نظام ‘نہایت منصفانہ نظام 
اگر صرف کسی کتاب کی زینت ہو‘ کسی کتاب کے اوراق میں لکھا ہوا موجود ہو تو وہ نوعِ انسانی کے لیے حجت اور دلیل نہیں بن سکتا. کوئی بھی نظام لوگوں کے لیے حجت‘ دلیل اور قاطع عذر حقیقی معنوں میں اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک کہ اس کو قائم کر کے اور چلا کر دکھا نہ دیا جائے ‘اور اس کی برکات و حسنات کا انسان عملی طور پر تجربہ نہ کر لے.

آپ کے علم میں ہے کہ افلاطون نے بھی ایک بہت اعلیٰ کتاب 
Republic لکھی جس میں اُس نے نظری اعتبار سے بہت عمدہ نظام تجویز کیا ‘لیکن یہ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ وہ نظام کبھی ایک دن کے لیے بھی‘ دنیا میں کسی ایک مقام پر بھی قائم نہیں ہوا. چنانچہ اس کی حیثیت ایک خیالی جنت (Utopia) کی ہے .وہ ایک ایسی چیز ہے کہ جو ناممکن العمل ہے .اس کے برعکس محمد ٌرسول اللہجو نظام لے کر آئے وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہے‘ وہ ایک طرف اخلاقی تعلیم کا حسین ترین مرقع ہے تو دوسری طرف اجتماعی زندگی سے متعلق نہایت اعلیٰ و ارفع‘ معتدل و متوازن اور منصفانہ نظام کا حامل ہے.

سورۃ الشوریٰ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم کی زبان مبارک سے اعلان کرایا:
وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ (آیت ۱۵)

’’(اے نبی !) کہہ دیجیے کہ میں اس کتاب پر ایمان لایاہوں جو اللہ نے نازل کی ہے ‘اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے مابین نظامِ عدل قائم کروں.‘‘

اس آیت کی رو سے نبی اکرم کا مقصد بعثت یہ قرار پایا کہ آپ اس نظامِ عدل و قسط کو پورے کے پورے نظامِ زندگی پر غالب کریں‘ قائم کریں‘ نافذ کریں جو اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا .چنانچہ دین حق کے غلبے کے لیے ہمیں سیرتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں ایک عظیم انقلابی جدوجہد نظر آتی ہے. ایک 
مکمل انقلاب بلکہ تاریخ ِ انسانی کا عظیم ترین انقلاب وہ ہے جو محمد عربی نے برپا کیا‘ اور ایک مکمل انقلابی جدوجہد کا خاکہ ہمیں آپ کی حیاتِ طیبہ کے تیئیس (۲۳) برس میں نظر آتا ہے بلکہ شمسی ماہ و سال کے لحاظ سے یہ عرصہ ساڑھے اکیس برس بنتا ہے . چنانچہ آپ نے اس مختصر عرصے میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا‘ اور اُس دین حق کو عملاً دنیا میں نافذ کرکے اُس کا ایک نمونہ نوعِ انسانی کے لیے پیش کر دیا.

چوتھی چیز جو بہت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے ‘وہ یہ کہ آپ کی انقلابی جدوجہد میں قدم قدم پر مشکلات و مصائب اور موانع ہیں. یہ جدوجہد نبی اکرم نے خالص انسانی سطح پر کر کے دکھائی ہے. آپ نے وہ ساری تکلیفیں جھیلی ہیں جو کسی بھی انقلابی جدوجہد میں کسی بھی داعی ٔانقلاب کو اور انقلابی کارکنوں کو جھیلنی پڑتی ہیں. وہ تمام شدائد‘ وہ تمام موانع ‘وہ تمام مشکلات‘ وہ تمام آزمائشیں ‘وہ تمام مصائب اور تکالیف جو کسی بھی انقلاب کے علم برداروں اور کسی بھی انقلاب کے کارکنوں کو جھیلنی پڑتی ہیں وہ محمد ٌ رسول اللہ نے بنفس نفیس جھیلی ہیں. اس کا بھی ایک سبب ہے جو پیش نظر رہنا چاہیے. یہ انقلاب صرف عرب کے لیے نہیں تھابلکہ پوری نوعِ انسانی اور پورے عالم ِارضی کے لیے تھا. محمدرسول اللہ نے جزیرہ نمائے عرب کی حد تک اُس کی تکمیل فرما دی اور اُس کے بعد عالمی سطح پر اس کی تکمیل کا فریضہ اُمت کے حوالے کر کے آپ نے 
اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی کہتے ہوئے رفیق اعلیٰ جل شانہ کی طرف مراجعت اختیار فرمائی.

ظاہر ہے کہ بعدمیں اس انقلاب کی تکمیل جن لوگوں کو کرنی تھی انہیں خالص انسانی اور بشری سطح پر اس فرضِ منصبی کو ادا کرنا تھا . محمد ُرسول اللہ کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ آپمحبوبِ ربّ العالمین ہیں ‘اور اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ 
عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ہے‘ وہ چاہتا تو اپنے محبوب کے پاؤں میں کانٹا تک نہ چبھنے دیتا اور آپؐ کا فرضِ منصبی بھی مکمل ہوجاتا لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہوا. آنحضور  نے ساری مصیبتیں جھیل کر ‘ساری تکلیفیں برداشت کر کے دین کو بالفعل قائم و نافذ فرما کر اُمت پر ہمیشہ کے لیے ایک حجت قائم کر دی ہے کہ اللہ کے اس دین حق کو اب اُمت نے غالب اور نافذ کرنا ہے ‘اور اس راہ کی تمام مصیبتیں جھیل کر‘ تمام قربانیاں دے کر ‘تمام مشکلات سے عہدہ برآ ہو کر اب یہی کام اُمت نے کرنا ہے. اب یہ فرض مسلمانوں نے انجام دینا ہے. جب محبوب ربّ العالمین‘ سرورِ دو عالم نے مصیبتیں اٹھا کر خالص انسانی سطح پر یہ کام انجام دیا ہے تو مسلمانوں کو بھی اس کے لیے تیار رہنا ضروری ہے. 

یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے جو اپنی جگہ صد فیصد درست ہے کہ نبی اکرم کی سیرتِ مطہرہ میں تمام انبیاء و رسل کے اوصاف اور محاسن جمع ہیں. بقول شاعر ؎

حسن ِیوسف دمِ عیسیٰ ید بیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری!

لیکن ساتھ ہی وہ بات بھی پیش نظر رہے جو آنحضور نے فرمائی کہ تمام نبیوں اور رسولوں نے جتنی تکلیفیں برداشت کیں میں نے تنہا وہ سب کی سب برداشت کی ہیں. 

فَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَسَلَّمَ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًاo
وَآٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَoo