اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم . بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

اَلَمۡ یَجِدۡکَ یَتِیۡمًا فَاٰوٰی ۪﴿۶﴾وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغۡنٰی ؕ﴿۸﴾ (الضحٰی)

انبیاء و رسل کے عمومی مقصد ِبعثت ‘تاریخ نبوت و رسالت اور نبی اکرم کی بعثت کی امتیازی شان کے بارے میں اجمالی گفتگو کے بعد اب آیئے کہ نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ کے مختلف ادوار پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں. اس ضمن میں سب سے پہلے آپ کی حیاتِ طیبہ کا وہ دور جو پیدائش سے لے کر آغازِ وحی تک ہے اُس کے بارے میں واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پاس مستند اور مصدقہ معلومات بہت کم ہیں. البتہ اس ضمن میں اگر قرآن مجید کی طرف رجوع کیا جائے اور سورۃ الضحیٰ کی متذکرہ بالا تین آیات کو اپنے ذہن میں عنوانات کے طو رپر تجویز کر لیا جائے تو حیاتِ طیبہ قبل از آغاز وحی کے بارے میں جو بھی باتیں مصدقہ معلومات کی بنیاد پر ہمارے پاس ہیں وہ تمام باتیں اور معلومات ان تین آیات کے ذیل میں بڑی خوبی کے ساتھ انہی کی شرح و تفسیر کی حیثیت سے تین عنوانات کے طور پر شامل ہو جائیں گی.

جہاں تک نبی اکرم کی ولادت باسعادت کی تاریخ کا تعلق ہے محتاط ترین اندازوں کے مطابق آپؐ ۹؍ربیع الاول عام الفیل کو پیدا ہوئے جو انگریزی تقویم کے مطابق اغلباً ۲۰؍اپریل۵۷۱ء بنتی ہے .یہاں سے آپ کی حیاتِ طیبہ کا ابتدائی دور شروع ہوتا ہے جو دراصل 
اَلَمۡ یَجِدۡکَ یَتِیۡمًا فَاٰوٰی ۪﴿۶﴾وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغۡنٰی ؕ﴿۸﴾ کی مکمل تفسیر ہے. آپاس دنیا میں تشریف لائے تو اس حال میں کہ والد ماجد عبداللہ کا انتقال آپؐ کی ولادتِ باسعادت سے قبل ہی ہو چکا تھا. چھ سال تک والدہ ماجدہ کے سایۂ عاطفت میں پرورش پانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُن کا سایہ بھی آپؐ سے اٹھا لیا. نتیجتاً آپ اپنے دادا عبدالمطلب کے زیرکفالت اور زیر تربیت آئے‘ لیکن دو ہی سال بعد یتیمی کا ایک اور داغ آپؐ کو دیکھنا پڑا اور انتہائی محبت اور شفقت کرنے والے دادا کی شفقت و محبت کا سایہ بھی آپؐ سے اٹھا لیا گیا. اس کے بعد کچھ عرصہ تک آپؐ اپنے بڑے تایا زبیر بن عبدالمطلب کے زیرکفالت رہے. اور پھر اپنے دوسرے چچا ابوطالب کے زیرسرپرستی آپؐ نے اس حیاتِ دنیوی کی ابتدائی منزلیں طے کیں. آپؐ نے ابتدائی دور میں شبانی (گلہ بانی) کا وہ فریضہ بھی سرانجام دیا ہے جو غالباً تمام انبیاء و رسل کا ایک مشترک وصف رہا ہے‘ جس کے بارے میں علامہ اقبال نے نہایت خوبصورتی سے کہا ہے ؎

اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے!

آپ نے گلہ بانی کی. اور یہ بات جان لینی چاہیے کہ عرب کے لق و دق صحرا میں‘ ایک ایسی فضا میں جہاں دور دور تک کوئی متنفس نظر نہ آتا ہو‘ اوپر آسمان کا سایہ‘ نیچے پھیلی ہوئی زمین‘ اِدھر اُدھر پہاڑ.یہ درحقیقت فطرت سے قریب ترین ہونے کی ایک کیفیت ہے. نبی اکرم نے اپنا ابتدائی دور اس کیفیت میں بسر کیا ہے‘ گویا کتابِ فطرت کا مطالعہ دل کھول کر کیا. جس کی طرف ایک اشارہ ہے قرآن مجید کے آخری پارے کی سورۂ مبارکہ میں:
اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ ﴿ٝ۱۷﴾وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتۡ ﴿ٝ۱۸﴾وَ اِلَی الۡجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتۡ ﴿ٝ۱۹﴾وَ اِلَی الۡاَرۡضِ کَیۡفَ سُطِحَتۡ ﴿ٝ۲۰﴾ (الغاشیۃ)

’’کیا یہ دیکھتے نہیں اُونٹ کی تخلیق کوکہ اس میں کیسی کیسی نشانیاں مضمر ہیں اللہ کی حکمت اور قدرت کی! انہیں اندازہ نہیں کہ آسمان کی رفعت کیا اشارے کر رہی ہے! کیا پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جما دیے گئے ہیں! کیا یہ غور نہیں کرتے کہ زمین کی وسعت کس بات کی گواہی دے رہی ہے!‘‘ (مفہوم)

یہ ہے وہ کتابِ فطرت جس کے مطالعے سے انسان اپنے فاطر کے قریب ترین آتا ہے. اور اُس کے بھرپور مواقع محمد ٌرسول اللہ کو بالکل ابتدائی زندگی میں میسر آئے.

اس کے بعد آپ نے کاروبار شروع فرمایا. یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ نبی اکرم نے کسی خانقاہ میں تربیت حاصل نہیں کی‘ کسی گوشے میں بیٹھ کر کوئی نفسیاتی ریاضتیں کر کے تزکیۂ نفس نہیں کیا. آپؐ زندگی کے عین منجدھار میں رہے‘ آپؐ نے بھرپور زندگی بسر کی. آپؐ نے اپنے وقت کی اعلیٰ ترین سطح پر کاروبار کیا اور اس کاروبار میں لوگوں نے آپؐ کے اخلاق اور آپؐ کی سیرت و کردار کا لوہا تسلیم کیا. آپؐ کے حسن ِ معاملہ اور دیانت و امانت کی وجہ سے آپؐ کو ’’الصادق‘‘ اور ’’الامین‘‘ کا خطاب آپؐ کے معاشرے نے دیا. تو یہ خطابات ایسے ہی نہیں مل گئے ‘بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آپؐ کے کردار کا لوہا لوگوں نے اگر واقعتا مانا ہے تو اپنے تجربات کی بنیاد پر مانا ہے. سنن ابی داؤد میں ایک صحابی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ آغازِ وحی سے قبل کسی کاروباری معاملہ میں میری اور محمد کی کچھ گفتگو ہو رہی تھی ‘اچانک مجھے کوئی کام یاد آیا اور میں حضور سے اجازت لے کر چلا گیا کہ ذرا آپ انتظار فرمائیں‘میں ابھی آیا. حضور نے وعدہ فرما لیا کہ اچھا میں یہیں تمہارا انتظار کروں گا. میں کہیں گیا اور جا کر کچھ ایسا مصروفیات میں گم ہوا کہ مجھے اپنا وعدہ یاد ہی نہ رہا. تین دن بعد اچانک یہ خیال آیا کہ میں نے تو محمد سے وعدہ کیا تھا. چنانچہ میں گھبرایا ہوا اُس جگہ پر پہنچا تو میں نے یہ دیکھا کہ محمدؐ وہیں مقیم تھے. آپؐ نے مجھے کوئی ملامت نہ کی‘ فرمایا تو صرف اس قدر کہ بہرحال میں اپنے وعدے کی بنیاد پر پابند ہو گیا تھا کہ یہیں تمہارا انتظار کرتا یہ ایک ایسا 
واقعہ ہے کہ اس سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ اہل مکہ کو محمد رسول اللہ کی سیرتِ مطہرہ کاکس قسم کا تجربہ ہوا تھا.یہ آپؐ کا اخلاق و کردار تھا ‘ جس کی وجہ سے آپؐ ان کی آنکھوں کا تارا بنے اورآپؐ کو انہو ں نے ’’الصادق‘‘ اور ’’الامین‘‘ کا خطاب دیا. 

آپؐ کی جوانی کے دور کے چند اور واقعات میں سے ایک جنگ فجار میں آپؐ کی شمولیت ہے .آپؐ کے تایا زبیر بن عبدالمطلب بنی ہاشم کے عَلم بردار تھے اور آپؐ بھی اُن کے پہلو بہ پہلو اس جنگ میں شریک ہوئے ‘اس لیے کہ قریش اس جنگ میں حق پر تھے. اگرچہ اس کی صراحت ملتی ہے کہ آنحضور نے کسی کا خون نہیں بہایا.اس لیے کہ صرف قومی یا خاندانی معاملات کے لیے کسی انسانی جان کا لینا‘ یہ محمد ٌرسول اللہ کے شایانِ شان نہ تھا. اس جنگ کے بعد قریش کے کچھ نوجوانوں نے ایک عہد کیا جسے ’’حلف الفضول‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. انہوں نے باہمی معاہدہ کیا کہ وہ ظالم کی مخالفت کریں گے ‘مظلوم کی حمایت کریں گے‘ حق اور صداقت کے راستے کی تلقین کریں گے. آنحضور بھی اس حلف میں شریک ہوئے اور آپؐ بعد میں فرمایا کرتے تھے کہ آج بھی اگر اُس قسم کے کسی معاہدے کی طرف مجھے دعوت دی جائے تو مَیں اس پر لبیک کہوں گا.
خانہ کعبہ کی تعمیر کے موقع پر بھی آپ کے تدبر اور فراست کا ایک بہت ہی نادر نمونہ سامنے آیا. الغرض آپؐ کی زندگی کا یہ جو دور ہے اس میں ہمیں وہ مظہر نظر آتے ہیں جن کی طرف اشارہ ملتا ہے قرآن مجید کی سورۂ ’نون‘ میں جس کا دوسرا نام سورۃ القلم بھی ہے:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ
’’اور (اے محمد !) بلاشبہ آپؐ اخلاق حسنہ کی بلندیوں پر فائز ہیں.‘‘

کاروبار ہی کے ضمن میں آنحضور کا تعلق یا آپؐ کا معاملہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوا. ان کا معاملہ بھی یہ ہے کہ ایک طرف یہ عرب کی متمول ترین خاتون 
تھیں. چنانچہ روایات میں اس کی صراحت ملتی ہے کہ جب قریش کے قافلے سامانِ تجارت لے کر جاتے تھے تو تنہا انؓ کا سامانِ تجارت باقی تمام لوگوں کے مجموعی سامان سے زیادہ ہوتا تھا. پھر دوسری طرف اُنؓ کی عفت و عصمت اور پاکدامنی کا عالم یہ تھا کہ عرب کے اس معاشرے میں اُنؓ کو ’’الطاھرہ‘‘ کا خطاب دیا گیا. یہ گویا بالکل ایک فطری اور قرین عقل اور قرین قیاس بات ہے کہ یہ قِرَانُ السَّعْدَین ہوتا اور ’’الصادق‘‘ اور’’الامین‘‘ کا نکاح ’’الطاہرہ‘‘ سے ہوتا. مشیت ِالٰہی میں یہی طے تھا. بہرحال حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی صورت میں وہ بات سامنے آتی ہے جو سورۃ الضحیٰ میں بایں الفاظ وارد ہوئی :

وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغۡنٰی ؕ﴿۸﴾ 
’’(اے محمد ) اور پایا آپ کو تنگ دست ‘پس (آپ کو)غنی کر دیا.‘‘

جہاں تک قلب ِمحمدی کا تعلق ہے وہ تو ہمیشہ غنی تھا‘ لیکن ظاہری اور دنیوی اعتبار سے جسے ہم تنگ دستی کہتے ہیں اُس کی اگر کوئی کیفیت نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ میں اب تک رہی بھی تھی تو اب جبکہ مکہ کی متمول ترین خاتونؓ آپ ؐ کے حبالہ ٔ عقد میں تھیں‘ جو انتہائی جاں نثار اور اپنا سب کچھ نچھاور کر دینے والی بیوی تھیں‘ اس کے بعد اس دنیوی احتیاج یا کمزوری کا بھی کوئی معاملہ باقی نہ رہا.

حضور کی زندگی کا یہ دور ایک بھرپور انسانی زندگی کا نقشہ پیش کرتا ہے. ایک محبت کرنے والی جاں نثار اور وفادار بیوی رفیقہ ٔحیات ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ان زوجہ محترمہ سے اولاد بھی عطا فرمائی. ایک انتہائی باعزت اور بافراغت زندگی آپؐ بسر فرما رہے تھے. لیکن اب آپؐ کے اندر ایک داعیہ ابھرا اور توجہ کائنات ‘ خالق ِکائنات اور عالم بالا کی طرف مبذول و منعطف ہوئی. اب غور و فکر کا مادہ کسی اور رخ پر پروان چڑھنا شروع ہوا. چنانچہ ہمیں وہ روایت ملتی ہے جس کی راویہ اُم المو ٔمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں اور بخاری شریف میں یہ روایت پہلے ہی باب میں موجود ہے کہ جب آپؐ کی عمر شریف چالیس برس کے لگ بھگ 
ہوئی تو آپؐ کو خلوت گزینی محبوب ہو گئی اور آپؐ غارِ حرا میں خلوت گزینی اختیار فرماتے تھے: حُبِّبَ اِلَیْہِ الْخَلَائُ فَـکَانَ یَخْلُوْا بِغَارِ حِرَاء

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ غار حرا میں آپ عبادت کرتے تھے. اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ عبادت کس قسم کی تھی! آپؐ کسی سابقہ اُمت میں نہ تھے‘ کسی نبی کے پیرو نہ تھے‘ کوئی عبادت کا طریقہ ایسا نہیں تھا کہ جو آپؐ کو کسی اور نبی کی پیروی یا کسی اور اُمت میں ہونے کی وجہ سے معلوم ہوتا ‘اور حضرت جبرئیل سے ابھی ملاقات نہ ہوئی تھی. تو یہ عبادت کیسی تھی! اس کا جواب شارحین حدیث نے یہ دیا ہے کہ: کَانَ صِفَۃُ تَعَبُّدِہٖ فِیْ غَارِ حِرَائِ التَّـفَـکُّرُ وَالْاِعْتَبارُ یعنی غارِ حرا میں آپؐ کی عبادت غور و فکر اور عبرت پذیری پر مشتمل تھی. سوچ بچار‘ کتابِ فطرت کا مطالعہ ‘خود اپنی فطر ت کی گہرائیوں میں غواصی اور نگاہِ عبرت سے ماحول کا جائزہ و تجزیہ ‘ یہ تھی آپؐ کی غارِ حرا میں عبادت .بقول علامہ اقبال مرحوم ؏ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی!

یہ غور و فکر کہ نوعِ انسانی کس حالت میں مبتلا ہے‘ خاص طور پر خود آپؐ کی قوم اخلاق کے اعتبار سے کتنی پستی میں مبتلا ہو چکی ہے‘کس طرح کے شرک کا دور دورہ ہے‘ معبودِ حقیقی سے لوگ کس طرح اپنا رخ موڑ چکے ہیں. یہ سارا غور و فکر نوعِ انسانی کی ضلالت اور گمراہی پر وہ بھاری رنج و غم تھاجس کے بارے میں قرآن مجید میں بار بار گواہی ملتی ہے: 

لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۳﴾ (الشعراء) 
’’ آپ ؐ تو شاید اپنے آپ کو اس رنج اور صدمے کی وجہ سے ہلاک کر لیں گے کہ یہ لو گ ایمان نہیں لا رہے!‘‘

یہ وہ کیفیات تھیں جن کے ساتھ محمد ٌرسول اللہ غارِ حرا میں اعتکاف فرمارہے تھے. اسی عالم میں پردے اٹھتے ہیں ‘اور صرف پردے ہی نہیں اٹھتے بلکہ آپؐ پوری نوعِ انسانی کی ہدایت پر مامور کیے جاتے ہیں اور آپؐ کا دورِ دعوت تاقیام قیامت مقرر کیا جاتا ہے ؎

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
اٹھتے ہیں حجاب آخر ‘کرتے ہیں خطاب آخر! 

یہ ہے تفسیر سورۃ الضحیٰ کے ان الفاظ کی: 

وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾ 
’’اور (اللہ نے) پایا آپؐ کو (حقیقت کی تلاش میں) سرگرداں تو آپؐ پر راہِ ہدایت منکشف کر دی.‘‘

گویا غارِ حرا کی خلوتوں میں آپؐ حقیقت کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے. پس دروازے کھول دیے گئے ‘ پردے اٹھا دیے گئے‘ حضرت جبرائیل امین ؑسے ملاقات ہوئی‘ وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے .بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلی ملاقات جس میں نزولِ وحی کا آغاز ہوا‘بیداری اور نیند کے بین بین کی سی کیفیت ‘ یعنی نیم بیداری کے عالم میں ہوئی . بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جبرائیل ؑکے پاس کوئی لکھی ہوئی تختی تھی جس پر یہ آیات مرقوم تھیں: 

اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۳﴾الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾ (العلق)

تین مرتبہ حضور نے فرمایا: مَا اَنَا بِقَارِئٍ ’’میں پڑھ نہیں سکتا.‘‘

حضرت جبرائیل ؑ نے آپؐ کو اپنے سینے سے لگا کر بھینچا اور اس کے بعد اس وحی کا آپؐ کے قلبِ مبارک میں نقش قائم ہو گیا. یہاں سے گویا محمد ٌرسول اللہ کا آفتابِ رسالت طلوع ہو گیا.اس کے بعد نزولِ وحی میں کچھ وقفہ رہا ہے‘ 
پھر جو آیات نازل ہوئیں وہ سورۃ المدثر کی یہ ابتدائی آیات تھیں:

یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ (المدثر:۳)

یعنی اے لحاف اوڑھ کر لیٹنے والے! کھڑے ہو جایئے‘ کمر کس لیجیے! فریضہ ٔرسالت کی ادائیگی میں ہمہ تن اور ہمہ وقت مصروف ہو جایئے اور اپنے ربّ کی کبریائی کا اعلان کیجیے اور اس کی کبریائی کو فی الواقع دنیا میں قائم کیجیے. یہ ترجمانی ہے سورۃ المدثر کی ابتدائی تین آیات کی.بہت سے محققین کی یہ رائے بڑی وزنی معلوم ہوتی ہے کہ سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات سے محمد ٌرسول اللہ کی نبوت کا آغاز ہوا اور سورۃ المدثر کی ان ابتدائی آیات سے آپؐ کی رسالت کا آغاز ہوا. واللہ اعلم! 

فَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَسَلَّمَ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًاo
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَoo